غم اور خوشی انسان کی اپنی کیفیات کے نام ہیں۔ یہ انسان کی اپنی وابستگی اور خواہش کے روپ ہیں۔ ایک انسان کا غم ضروری نہیں کہ دوسرے کا بھی غم ہو، بلکہ اس کے بالکل برعکس ایک کا غم دوسرے کی خوشی بن سکتا ہے۔ غم کے گیت میٹھے اور سریلے ہونے کی وجہ سے سننے و الوں کو خوشی عطا کرتے ہیں۔ اندازِ نظر بدل جائے تو نظارہ بدل جاتا ہے۔ کل کا غم آج کی مسرت ہے، اور آج کی خوشی نہ جانے کب آنسو بن کر بہہ جائے۔
انسان کا اپنا احساس واقعات کو غم اور خوشی سے تعبیر کرتا ہے۔ شبنم کے قطرے رات کے آنسو بھی ہیں اور صبح کی مسکراہٹ بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ غم اور خوشی ایک ہی شے کے نام ہیں۔ ہر خوشی، غم بنتی ہے۔ جتنی بڑی خوشی اتنا بڑا غم۔ غم آخر خوشی کے چھن جانے کا ہی تو نام ہے۔ جو شے زندگی میں خوشی بن کے داخل ہوتی ہے، وہ غم بن کے رخصت ہوتی ہے۔ وصال و فراق کی اصل داستانیں اصل میں غم اور خوشی کے قصے ہیں۔ وصال نہ ہو تو فراق بے معنی ہے۔ چونکہ خوشی سے مفر نہیں، اس لیے غم سے مفر نہیں۔ جس طرح ہستی سے مفر نہ ہو، تو موت سے مفر نہیں۔ پیدا ہونے والا مرتا ضرور ہے۔ خوشی پیدا ہوتی ہے اور اس کی موت غم کا جنم ہے۔ ہمارے لیے ہماری وابستگیاں غم اور خوشی پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اگر باپ نے بیٹے کا ماتم نہیں کیا تو بیٹا اپنے کاندھے پر باپ کا جنازہ اٹھاتا ہے۔
کون سی ہے آنکھ جو غم سے یہاں روتی نہیں
جانے والوں کی مگر رفتار کم ہوتی نہیں
انسان فانی اشیاء سے محبت کرتا ہے، ان کی تمنا کرتا ہے، انہیں جمع کرتا ہے… اور فانی شے ختم ہوجاتی ہے تو وہ غم زدہ ہوجاتا ہے۔ انسان خرمن جمع کرتا ہے دانہ دانہ چن کے، اور پھر ایک دن برق خرمن سے آشنا ہوجاتا ہے۔ خوشی بیٹی کی طرح گھر میں پلتی ہے اور جب جوان ہوجائے تو رخصت کردی جاتی ہے۔ تمام مذاہب ایسے مقامات کی نشاندہی کراتے رہے ہیں جہاں انسان کو خوف و حزن نہیں ہوتا۔ دراصل یہ روح کا مقام ہے۔ ایسا مقام جہاں تعلق نصیب ہوتا ہے بڑی روح سے، کائناتی روح سے۔ اور یہ تعلق فراق و وصال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ قطرے کو سمندر سے تعلق ہوجائے تو وہ فنا اور بقا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اگر خواہش اور آرزو ہی نہ رہے تو غم اور خوشی کیا! حقیقی خوشی اور حقیقی غم ایک ہی سے ہیں۔ ہم جس کو یاد کررہے ہیں، وہ تو ہمارے پاس ہے۔ جو دل میں پنہاں ہے، نظر سے اوجھل ہے، جس کی یاد بے قرار کررہی ہے، وہی تو آنکھ سے آنسو بن کر ٹپک رہا ہے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے، بڑی دور کی منزل ہے، بڑا بلند مقام ہے کہ دن اور رات ایک ہی سورج کے روپ نظر آئیں۔ فراق اور وصال محبوب کی ادا ٹھیریں، اپنا اور غیر یکساں نظر آئے۔ کوّا اور مور ایک ہی جلوے کے پہلو نظر آئیں۔ غم اور خوشی ایک ہی شے کے نام ہوکر رہ جائیں۔ انسان روتے روتے ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے رونا شروع کردے۔ حاصل و محرومی سے بے نیاز ہوکر انسان معراجِ تعلق تک پہنچتا ہے، اور تعلق کے حصول کے بعد ستم اور کرم دونوں ہی محبوب کی دلبری کے انداز ہیں۔
دنیا میں خوشی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ہم دوسروں کو خوش نہ کریں۔ خوش کرنے والا ہی خوشی سے آشنا کرایا جاتا ہے، اور ہر خوش رہنے والا تنہائیوں میں آنسوئوں سے دل بہلاتا ہے۔
لذتِ ستم مل جائے تو اور کرم کیا ہے۔ آہِ سحرگاہی انعام ہے، اُن کے لیے جو بارگاہِ صمدیت میں مقرب ہوں۔ بے قرار روحیں سرشار ہوتی ہیں بلکہ زمانوں کو سرشار کرتی ہیں۔ روہی میں رونے والا فریدؒ آخر پکار اٹھتا ہے ’’دنیا والو! جس کو تلاش کررہے ہو وہ ہمہ وقت میرے پاس ہے‘‘۔
خلقت کوں جیندی گول اے
ہر دم فریدؔ دے کول اے
(’’دل دریا سمندر‘‘… واصف علی واصفؔ)
بیادِ مجلسِ اقبال
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
سیاست و مذہب کے شعبوں میں اصل حقیقت علم و فضل، قابلیت اور میرٹ کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں محض خاندان اور وراثت کی بنا پر اہم مقامات مل جانا معاشرے کے حق میں کبھی اچھا نہیں ہوتا، کہ نااہل افراد اہم مسندوں پر براجمان ہوجاتے ہیں، اور معاشرہ نااہل لوگوںکے شر سے فساد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ آج خانقاہی اور سیاسی میدانوں میں اسی وراثتی تباہی کا ہم نظارہ کررہے ہیں۔ بھٹو کی وراثت بیٹی، بیٹی کا شوہر، ان کی آگے اولاد… کیا ان میں بھٹو کی کوئی علامت ہے؟ اسی طرح مسلم لیگ کی سیاست کے نظاروں نے ایک اودھم برپا کررکھا ہے۔ علامہ نے یہ حقیقت واضح فرمائی کہ بس یہ کہیے کہ عقابوں کی سیٹ پر گویا کوّے بٹھا دیے جائیں۔ بڑے بڑے صوفیہ کی گدیوں پر فضول و دنیا پرست صرف نسلی افتخار کی بنا پر بیٹھ جائیں تو رشد و ہدایت کے فرائض کیسے ادا کریں گے! اسی طرح حکمرانی کی مسندوں پر ’’امیونٹی سرکار‘‘ پر اس مصرعے سے بڑھ کر کوئی تبصرہ نہیں ہوسکتا کہ ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘۔