کرپشن سے بنا پاکستان کا سیاسی نِظام

ہمارا حکمران طبقہ قوم پر ہتھیار اُٹھاتا ہے اور امریکہ اور بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے۔یہ روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی کرپشن کی ایک صورت ہے

کہنے والے کہتے ہیں پاکستان کا سیاسی نظام کرپشن پر کھڑا ہوا ہے۔ مگر یہ ’’سرسری خیال‘‘ ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں ’’گہری بات‘‘ یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام کرپشن پر کھڑا ہوا نہیں ہے، کرپشن سے ’’بنا ہوا‘‘ ہے۔ اس کا ڈیزائن کرپشن سے بنا ہے، اس کی اینٹیں کرپشن سے تخلیق ہوئی ہیں، اس کا گارا کرپشن سے وضع ہوا ہے، اس کا فرش کرپشن سے نمودار ہوا ہے۔
پاکستان کے سیاسی نظام کی کرپشن کی تازہ ترین مثال ’’چینی اسکینڈل‘‘ ہے۔ چینی اسکینڈل کی کڑواہٹ کا یہ عالم ہے کہ پورا قومی وجود بلبلا اٹھا ہے۔ چینی بحران کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چینی کے اسکینڈل میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی اہم شخصیات ملوث ہیں۔ ان میں شہبازشریف کا خاندان بھی ملوث ہے، عمران خان کا دایاں بازو کہلانے والے جہانگیر ترین بھی ملوث ہیں۔ اسکینڈل کے سلسلے میں مونس الٰہی اور خسرو بختیار کے بھائی کا نام بھی آیا ہے، اور آصف علی زرداری سے قربت کے لیے بدنام اومنی گروپ بھی چینی اسکینڈل میں ملوث پایا گیا ہے۔ چینی بحران کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں گنا سستا خرید کر مہنگا ظاہر کیا گیا ہے۔ کسانوں کی بلاجواز کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ سٹہ کھیلا گیا ہے۔ 100 ارب روپے سے زیادہ منافع کمایا گیا ہے۔ سرکاری اداروں اور سیٹھوں کے لیے الگ الگ کھاتے بنائے گئے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر گھپلا کیا جاسکے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان برآمد کی جانے والی چینی میں اربوں روپے کی گڑبڑ کی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے اُسے زرِتلافی ادا کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں چینی کے 6 بڑے گروپ چینی کی 51 فیصد پیداوار اور تجارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام شوگر ملیں کسانوں کے گنے کے وزن میں 15 سے 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس سے کسانوں کو بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔ ملوں کے مالکان کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ دو کھاتے رکھتے ہیں، ایک کھاتا سرکاری اداروں کو اور دوسر اکھاتا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع درج ہوتا ہے۔ افغانستان برآمد ہونے والی چینی کے بارے میں پتا چلا ہے کہ ٹرک 15 سے 20 ٹن چینی لے جاتے ہیں مگر حکومت کو بتایا جاتا ہے کہ فی ٹرک 70 سے 80 ٹن چینی لے جائی گئی۔ کرپشن کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن صرف مالی یا معاشی نہیں ہوتی، بلکہ کرپشن نظریاتی بھی ہوتی ہے، سیاسی بھی، جمہوری بھی، اخلاقی بھی، نفسیاتی بھی، سماجی بھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ملک و قوم کو جو سیاسی نظام دیا ہے اس میں کرپشن کی ہر صورت موجود ہے۔ غالب نے کہا تھا:۔

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

مگر پاکستان کا سیاسی نظام زبانِ حال سے کہہ رہا ہے

’’مری تعمیر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی‘‘

پاکستان کی فوجی اور سیاسی ’’اجلافیہ‘‘ کی نظریاتی کرپشن یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، مگر یہاں اسلام سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں۔ ملک کا آئین اسلامی ہے مگر ’’جرنیل‘‘، ’’بھٹوز‘‘ اور ’’شریفین‘‘ اسلام کو آئین سے نکلنے ہی نہیں دیتے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی ’’اجلافیہ‘‘ نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے، مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ملک کے پورے معاشی اور مالیاتی نظام کو سود پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے: اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو، مگر ہمارا معاشی نظام غیر اسلامی ہے، ہمارا عدالتی نظام غیر اسلامی ہے، ہمارا تعلیمی نظام غیر اسلامی ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی نظریاتی کرپشن کی ایک صورت یہ ہے کہ جنرل ایوب کو سیکولرازم اور جنرل پرویز کو لبرل ازم عزیز تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ جیسی لایعنی اصطلاح کے عاشق تھے۔ شریفوں اور زرداریوں کا بس چلتا تو وہ ملک کو ایک دن میں سیکولر اور لبرل بنادیتے۔ عمران خان بات ریاست مدینہ کی کرتے ہیں مگر نظریاتی اعتبار سے وہ اب تک نہ ’’He‘‘ ثابت ہوئے ہیں، نہ ’’She‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی کابینہ میں فواد چودھری جیسے رکیک النفس لوگ پائے جاتے ہیں جو اسلام اور اہلِ اسلام کی تضحیک کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں۔ فواد چودھری سائنس سائنس کرتے رہتے ہیں، مگر اُن کی سائنس ڈیڑھ دو سال میں رویت ہلال کے مسئلے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فواد چودھری کی ساری سائنس رویت ہلال مرکز ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فواد چودھری کو سائنسی شعور اور سائنسی فہم چھو کر بھی نہیں گزرا۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو ہمارا حکمران طبقہ دراصل کسی بھی نظریے کے ساتھ کمٹڈ نہیں ہے۔ وہ نہ اسلام پسند ہے، نہ سیکولر۔ لبرل ہے نہ سوشلسٹ۔ ذوالفقار علی بھٹو خود کو سوشلسٹ کہتے تھے، مگر جب اُن کے خلاف عوامی ردعمل پیدا ہوا تو انہوں نے مذہبی طبقات کو خوش کرنے کے لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا، شراب پر پابندی لگادی، جمعہ کی تعطیل کی راہ ہموار کردی۔ جنرل پرویز اقتدار میں آئے تھے تو کہتے تھے کہ جہاد اور دہشت گردی میں بڑا فرق ہے، مگر جب امریکہ کا دبائو آیا تو انہوں نے جہاد کو دہشت گردی اور مجاہدوں کو دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ بے نظیر بھٹو خود کو سیکولر اور لبرل کہتی تھیں، مگر دعائوں کے لیے بابوں کے پاس بھی حاضر ہوتی رہتی تھیں۔ میاں نوازشریف کے خاندان کو بڑا مذہبی قرار دیا جاتا ہے، مگر چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ شریفوں نے قرآن کو ضامن بناکر کہا کہ ہم نے آپ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس پر حرف بہ حرف عمل کریں گے، مگر چودھری شجاعت کے بقول بعد ازاں ’’شریفوں‘‘ نے معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔ الطاف حسین خود کو سیکولر کہتے تھے، مگر پھر کروٹن کے پتّوں پر ان کی شبیہیں ظاہر ہونے لگیں، اور الطاف حسین کو اس ’’روحانی تجربے‘‘ پر کوئی اعتراض لاحق نہ ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران نہ اسلام پرست ہیں، نہ سیکولرازم اور لبرل ازم پرست ہیں، نہ سوشلزم پرست ہیں… وہ صرف ’’مفاد پرست‘‘ ہیں۔ ان کا مفاد ہو تو وہ خدا کا بھی انکار کردیں، اور ان کا مفاد ہو تو وہ ذرے کو خدا بنالیں۔
ہماری فوجی اور سول ’’اجلافیہ‘‘ نے پاکستان کے سیاسی نظام کو تہ در تہ کرپشن کا شکار کیا ہوا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمہارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہی بہترین نمونہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی ریاست میں قیادت کا اہل وہی ہے جس کی زندگی زیادہ سے زیادہ سیرت مرکز ہو۔ امام غزالیؒ نے صاف لکھا ہے کہ مسلمانوں کی سیاست کو اسلام مرکز ہونا چاہیے۔ ابن خلدونؒ نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں کہا ہے کہ اسلام میں سیاست مذہب کے تابع ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی پوری زندگی اس خیال کو عام کرنے میں بسر ہوگئی کہ سیاست اسلام کی پابند ہے۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی اجلافیہ نے سیاست کو دین کے تابع کرنے کے بجائے دین کو سیاست کے تابع کیا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر بھی آج تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کی رضیہ غنڈوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اسلام کہتا ہے: فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے، تقویٰ کو یا علم کو۔ مگر پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور منتخب نمائندوں کے پاس نہ تقویٰ ہے نہ علم۔ وہ نہ ہماری تہذیب کے نمائندے ہیں نہ تاریخ کے۔ نہ وہ ہماری اقدار کی علامت ہیں نہ ہمارے Ideals کی۔ نہ وہ ہمارے خوابوں کے امین ہیں نہ ہماری قومی امانتوں کے امانت دار ہیں۔
پاکستان کے جرنیلوں نے ہماری قومی سیاسی زندگی کو کیسے کیسے تحفوں سے نوازا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جنرل ایوب نے خود کو ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو قوم کو دیے۔ جنرل ضیا الحق نے میاں نوازشریف اور الطاف حسین جیسے ’’فرشتے‘‘ قومی سیاست کو دیے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کھیت کی مولی بنالیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ہر جنرل نے سیاسی جماعتوں سے نفرت کی، اور ہر جنرل نے قوم کو ایک سیاسی جماعت عطا کی۔ جنرل ایوب نے قوم کو کنونشن لیگ کا ’’تحفہ‘‘ دیا۔ جنرل ضیا الحق نے قوم کو جونیجو لیگ ’’عطا‘‘ کی۔ جنرل پرویزمشرف نے قوم کے گلے میں ق لیگ کا ’’ہار‘‘ ڈالا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وڈیرے صرف پنجاب اور سندھ میں پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جرنیل ’’فوجی وڈیرے‘‘ کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جس طرح سیاسی وڈیرے اپنے علاقے کی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں، اسی طرح جرنیل پورے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ملک میں قومی اسمبلی کے ایسے 70 سے 75 حلقے ہیں جہاں صرف نام نہاد Electables ہی منتخب ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی ہر قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے 75 لوگ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کبھی یہ Electables نوازشریف کے حوالے کردیتی ہے، کبھی عمران خان کے۔ یہ سیاسی کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ اس حقیقت سے کوئی معقول شخص انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے تمام انتخابات دھاندلی زدہ ہیں۔ انتخابات بعد میں ہوتے ہیں اور ان کے نتائج پہلے سے ’’فوجی وڈیروں‘‘ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ وہ جس کو جب چاہتے ہیں جتا دیتے ہیں، جس کو جب چاہتے ہیں ہرا دیتے ہیں۔ انتخابات کے پورے عمل میں سیاسی کرپشن عروج پر ہوتی ہے۔ اقبال نے مغربی جمہوریت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا: ۔

جمہوریت اک طرزِِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

مگر پاکستان کے فوجی وڈیروں نے جمہوریت کو ’’گنتی کا عمل‘‘ بھی نہیں رہنے دیا۔ مغربی جمہوریت ’’کانی‘‘ تھی، ہمارے فوجی وڈیروں نے اسے ’’اندھا‘‘ بنادیا۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں انتخابی عمل ہر سطح پر دھاندلی کا شکار ہوتا ہے۔ پہلی دھاندلی ووٹر لسٹوں میں گڑبڑ سے شروع ہوتی ہے۔ دوسری دھاندلی انتخابی مہم کے عدم توازن سے سامنے آتی ہے۔ تیسری دھاندلی ووٹوں کی گنتی میں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی کوئی نہ ہار رہا ہو تو نتیجہ بدل دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ’’شفاف ایمان داری‘‘ ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں ’’شفاف دھاندلی‘‘۔ یہ سیاسی کرپشن کی انتہا ہے۔
جرنیل کہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بدعنوان ہیں۔ اور وہ غلط نہیں کہتے۔ پاکستان کی چار بڑی جماعتوں یعنی نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے خود پر بدعنوانی کو ’’حلال‘‘ کیا ہوا ہے۔ ان جماعتوں کے نزدیک سیاست کرپشن ہے اور کرپشن سیاست ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی وڈیروں کو کرپٹ سیاسی رہنما اور کرپٹ سیاسی جماعتیں ہی ’’سُوٹ‘‘ کرتی ہیں۔ فوجی وڈیرے انہیں جب چاہیں بدنام کرسکتے ہیں، جب چاہیں لات مار کر اقتدار سے باہر کرسکتے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی یا اس جیسی کوئی جماعت اقتدار میں آجائے تو نہ اس پر ملک دشمنی کا الزام لگایا جاسکے گا نہ کرپشن کا، اس طرح ایمان دار قیادت اور ایمان دار جماعت فوجی وڈیروں کی بالادستی کو چیلنج کردے گی، اور فوجی وڈیروں کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت ہوگی۔ چناں چہ فوجی وڈیروں کی پسندیدہ قیادت اور پسندیدہ جماعتیں وہی ہیں جو کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ فوجی وڈیروں کو اعلیٰ کردار کی ایمان دار قیادت درکار ہوتی تو وہ ملک کے سیاسی نظام کی کبھی کی اصلاح کرچکے ہوتے، اور بدعنوان سیاسی عناصر کا راستہ بند کیا جاچکا ہوتا۔ پاکستان کی سیاست میں کرپٹ عناصر کے لیے تمام راستے کھلے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ فوجی وڈیروں کو کرپٹ سیاست دان اور کرپٹ سیاست ہی پسند ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں سیاست دانوں کے 200 ارب روپے سے زیادہ کے قرضے معاف کیے گئے۔ اتنے ہی بڑے قرضے جنرل پرویز کے عہد میں معاف ہوئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے جرنیلوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ہزاروں سیاسی شخصیات کو شعوری طور پر کرپٹ بنایا۔ ہمارے فوجی وڈیروں نے ملک کے سیاسی نظام کو اس حد تک کرپٹ کردیا ہے کہ اس نظام میں ایمان داری ’’نااہلیت‘‘ ہے، اور کرپشن ’’اہلیت‘‘۔
ہمارے سیاسی نظام کی نفسیاتی کرپشن یہ ہے کہ ہماری سیاست کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ یہ سیاست شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ ہماری سیاست 20 سال تک پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو، یا پرو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کے جذبات کا شکار رہی ہے۔ جس طرح کولہو کا بیل ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے اور وہ سیکڑوں کلو میٹر چلنے کے باوجود کہیں نہیں جاتا، اسی طرح ہماری سیاست شخصیات اور خاندانوں کا طواف کرتی رہی ہے اور وہ کہیں بھی نہیں جاسکی ہے۔ نہ مکہ، نہ مدینہ، نہ واشنگٹن، نہ لندن۔
غور کیا جائے تو مارشل لا بھی سیاسی کرپشن کی ایک صورت ہے۔ اس لیے کہ مارشل لا کی کوئی اخلاقی، آئینی اور سیاسی بنیاد نہیں ہوتی، اس کے باوجود ملک پر چار بار فوجی آمر حکمرانی کرچکے ہیں۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں آمریتوں نے سیاسی اور معاشی کمالات دکھائے ہیں۔ چین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر فوجی آمریت بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ وہ نہ ملک و قوم کو مضبوط بنا سکی، نہ پائیدار معاشی ترقی کی راہ ہموار کرسکی۔ دنیا کے کئی ممالک ہیں جہاں جمہوریت نے درکار نتائج پیدا کیے ہیں، مگر پاکستان میں جمہوریت بھی ناکام ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نہ آمریت کا کوئی میرٹ ہے، نہ جمہوریت کا کوئی میرٹ ہے۔
قومیں اپنی آزادی اور خودمختاری سے پہچانی جاتی ہیں، اور جو قوم جتنی آزاد اور جتنی خودمختار ہوتی ہے وہ اتنی ہی کرپشن سے لڑنے کے قابل ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی فوجی اور سول اجلافیہ نے ہمیشہ ملک و قوم کی آزادی اور خودمختاری کا سودا کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا دفاع پچاس سال سے امریکہ مرکز ہے، ہماری معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مٹھی میں ہے، ہم نجکاری کرتے ہیں تو مغرب کے کہنے پر، ہم بجٹ بناتے ہیں تو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق۔ ہمارے حکمرانوں کا قصہ یہ ہے کہ وہ قوم کے لیے شیر ہیں اور امریکہ اور یورپ کے لیے بھیگی بلی۔ ہمارا حکمران طبقہ قوم پر ہتھیار اُٹھاتا ہے اور امریکہ اور بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی کرپشن کی ایک صورت ہے۔
ہر بڑا رہنما سر اٹھا کر جینے والی قوم پیدا کرتا ہے، مگر ہمارے حکمران اتنے چھوٹے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ سر جھکا کر جینے والی قوم کو ’’مثالی قوم‘‘ باور کرایا ہے۔ بلاشبہ ہمارے حکمرانوں کا یہ طرزِ فکر و عمل بھی ان کی روحانی، اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی کرپشن کا شاخسانہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر کرپشن پر نوبیل انعام ملا کرتا تو پاکستان کا حکمران طبقہ اب تک کئی بار کرپشن کا نوبیل انعام حاصل کرچکا ہوتا۔