پی آئی اے، پی کے 8303 کا حادثہ، چند سوالات

ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے سب کچھ اب قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک پر ہی منحصر ہے کہ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے کس قدر سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں

کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے طیارہ حادثے سے متعلق بہت ساری چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ اس سے پہلے ایئر بلیو، بھوجا ایئر لائن اور چترال سے اسلام آباد آنے والا طیارہ بھی حادثے کا شکار ہوچکا ہے۔ ان تینوں کی تحقیقاتی رپورٹیں منظرعام پر نہیں لائی جاسکیں۔ پی آئی اے کے طیارے8303 کے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے سب کچھ اب قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک پر ہی منحصر ہے کہ طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے لیے کس قدر سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں، کیونکہ بے شمار دستاویزات ایسی بھی ہوسکتی ہیں جوتحقیقاتی کمیٹی طلب کرے گی، اور یہ دستاویزات صرف انہی کے حکم پر کمیٹی کے روبرو پیش کی جاسکیں گی۔ تحقیقاتی کمیشن میں شامل ممبرز پی آئی اے کے سربراہ کے جونیئر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ کمیشن کی رپورٹ متنازع رہے گی، کیونکہ سندھ حکومت نے اس حادثے پر اب سیاست شروع کردی ہے اور بدقسمت طیارے کی پہلی اور دوسری لینڈنگ کی معلومات گڈمڈ کی جارہی ہیں۔ یہ بالکل غلط رویہ ہے۔ ماضی میں بھی طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹوں میں انتظامیہ کو بچایا گیا۔ طیارے کے حادثے پر بات کرنے سے قبل چند بنیادی اصول ذہن میں رہنے چاہئیں۔ جہاز ایک مشین ہے، دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ مشین کسی بھی وقت خراب ہوسکتی ہے۔ دوسرا اصول ہواباز کی قابلیت اور صلاحیت، اس کے اختیارات اور اس کی فنی رائے کا احترام ہے۔ مسافر بردار طیارے کے ہواباز کے پاس اس قدر اختیار ہوتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر جہاز پر زائد وزن نہیں لادا جاسکتا، اور اسے زائدالوقت ڈیوٹی کرنے پر، یا اگر وہ کہہ دے کہ اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے، اسے جہاز اڑانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہواباز ہر لحاظ سے ذہنی دبائو سے آزاد رہ کر ہی بہتر فرائض انجام دے سکتا ہے۔
مسافر بردار طیاروں اور جنگی جہازوں کے ہوابازوں کے لیے دو مختلف اصول ہیں۔ جنگی جہاز دورانِ پرواز خراب ہوجائے تو ہوا باز کے لیے بنیادی ہدایت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے جہاز سے کود جائے۔ مسافر بردار جہازوں کے ہوا بازوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے بجائے مسافروں کی زندگیوں کا خیال رکھیں گے۔ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں کوئی کام بھی ائیر ٹریفک کنٹرول کی ہدایت کے برعکس نہیں کریں گے۔ کسی بھی فضائی حادثے کی تحقیقات کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہواباز اور ائیرٹریفک کنٹرول میں کیا گفتگو ہوئی۔ پائلٹ کو دیے جانے والے مشورے کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں ہواباز نے ائیر ٹریفک کنٹرول کی ہدایت نظرانداز تو نہیں کی؟ جہاز کے حادثے میں دوسرا اہم ترین پہلو اس کی دیکھ بھال یا مینٹی نینس ہے۔
اگر کوئی جہاز کسی تخریب کاری کا شکار ہوکر تباہ ہوجائے تو پھر اس کی تحقیقات کے اصول بدل جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو جہاز تخریب کاری کا شکار ہوئے، اور جو مشین کی خرابی کے باعث تباہ ہوئے ان میں سے کسی کی بھی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی، لہٰذا ریلوے کا حادثہ ہو تو ملبہ ڈرائیور پر، اور جہاز کا حادثہ ہوجائے تو ملبہ پائلٹ پر ڈال کر اپنی جان بچائی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور نے بھی پی آئی اے کے مسافر طیارے کے حادثے کی شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا ہے، لیکن وہ بھی لاعلم ہیں کہ کراچی، گلگت، چترال سے آنے والی پروازوں کے حادثوں کی رپورٹیں اب تک کیوں منظرعام پر نہیں لائی جاسکیں؟ اسی لیے یہ سوال موجود ہے کہ کیا اب حقائق سامنے لائے جائیں گے؟
اس حادثے کی تحقیقات کے لیے فی الحال تو تین ماہ کا وقت درکار ہے۔ حادثے کی تحقیقات کے لیے ایئربس بنانے والی کمپنی کے ٹیکنیکل ایڈوائزر کی 11 رکنی ٹیم فرانس سے کراچی پہنچ کر ابتدائی تحقیق کرچکی ہے، ٹیم نے رن وے کا بھی معائنہ کیا، اور اہم افراد کے انٹرویو بھی لیے گئے ہیں۔ یہ ٹیم پرواز پی کے 8303 کی تباہی کی وجوہات کا کھوج لگا نے کے لیے بلیک باکس سے ملنے والی معلومات کا بھی جائزہ لے گی۔ طیارہ ساز کمپنی الگ تحقیقات کرکے حتمی رپورٹ میں اپنا مؤقف دے گی۔ طیارہ حادثے کے تحقیقی عمل پر پہلا عدم اعتماد ہواباز سجاد گل کے خاندان کی طرف سے سامنے آچکا ہے۔ انہوں نے پی آئی اے کے تحقیقاتی عمل کو مسترد کردیا ہے، کہ تحقیقات کا عمل مکمل ہوئے بغیر ہی جان بوجھ کر یک طرفہ بات کی جارہی ہے، جب تک بلیک باکس کی رپورٹ نہیں آجاتی،کسی رپورٹ پر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے بھی طیارہ حادثے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ لہٰذا اس وقت پی آئی اے انتظامیہ، پالپا اور سول ایوی ایشن ایک دوسرے کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی باہمی لڑائی میں طیارے کے حادثے کی اصل وجوہات کبھی بھی سامنے نہیں آسکیں گی۔ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی روایت مستقبل میں کسی حادثے کی روک تھام کے بجائے اس کے لیے راستہ ہموار کرتی جارہی ہے۔ اس تصادم میں اضافہ یہ ہوا ہے کہ سندھ حکومت بھی پالپا کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہے اور نئی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ مطالبہ دراصل انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہی ہے۔ پالپا چاہتی ہے کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق حادثے کی مناسب تحقیقات یقینی بنائی جائے اور حساس اداروں اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئرلائن ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی تحقیقات میں شامل کیے جائیں۔ یہ مطالبہ تسلیم کرلیا گیا تو پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ سامنے آجائے گا۔ تحقیقاتی عمل میں اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ سول ایوی ایشن اور پی آئی اے دو الگ الگ ادارے ہیں، دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ پی آئی اے ہواباز کمپنی ہے اور سول ایوی ایشن ریگولیٹر ہے، دونوں کی آراء کبھی بھی یکساں نہیں ہوسکتیں، دونوں ایک دوسرے پر بھی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں۔
طیارہ حادثے کی تحقیقات کے تین بڑے پہلو ہیں، ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ طیارے کی مکمل فٹنس آخری بار کب ہوئی؟ اور کیا طیارے نے واقعی کریش لینڈنگ کی ہے؟ جہاز کا گرنا اور کریش لینڈنگ دو مختلف پہلو ہیں، اگر یہ ثابت ہوگیا کہ کریش لینڈنگ ہوئی تو پھر تحقیقات کا دائرہ بڑھ جائے گا۔
تحقیقاتی رپورٹ ابھی آنی ہے، جو بھی شواہد مل رہے ہیں وہ سب غیر مصدقہ ہیں، تاہم ان میں کچھ درست بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے کے طیارے نے آبادی پر گرنے سے قبل لینڈنگ کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ بدقسمت طیارے پی کے 8303 نے دوپہر ایک بج کر پانچ منٹ پر لاہور سے اڑان بھری تھی اور ڈھائی بجے کراچی ایئرپورٹ سے چند کلومیٹر ہی دور تھا، 2 بج کر 34 منٹ پر طیارے نے لینڈنگ کی پہلی کوشش کی۔ فلائٹ ریڈار کے ڈیٹا کے مطابق طیارہ 275 فٹ تک نیچے آیا مگر پھر لینڈنگ کی کوشش ترک کرکے 3175 فٹ کی بلندی پرچلا گیا۔ 2 بج کر40 منٹ پر جب طیارہ 525 فٹ کی بلندی پر تھا تو اس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا۔ پائلٹ نے آخری پیغام میں بتایا تھا کہ انجن کام نہیں کررہا۔ پائلٹ کو کہا گیاکہ لینڈنگ کے لیے دونوں رن وے تیار ہیں، مگر پائلٹ نے کہا کہ وہ گھوم کر آنا چاہتا ہے۔ ایوی ایشن ایکسپرٹ کے مطابق انجن کی خرابی، لینڈنگ گیئرکا نہ کھلنا، پرندے کا ٹکرانا، یا کوئی تکنیکی خرابی اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ طیارہ چونکہ سول آبادی میں گرا ہے لہٰذا اس میں کراچی بلدیہ بھی تحقیقاتی دائرے میں آجائے گی کہ آبادی میں کہاں کہاں تجاوزات ہوئی ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم بھی یہ دیکھے گی کہ آبادی میں تجاوزات کہاں کہاں تعمیر ہوئی ہیں؟ یہ معاملہ باقاعدہ تحقیقات کا حصہ ہوگا، کیونکہ سول ایوی ایشن کے رولز ہوائی اڈوں کے قریب آبادیوں کے لیے بہت واضح ہیں، لیکن بلدیہ اور سول ایوی ایشن کی ملی بھگت سے ہوائی اڈوں کے قریب آبادیاں تعمیر ہوتی رہتی ہیں۔ طیارے کے حادثے کے بعد پہلا بڑا مرحلہ ریسکیو آپریشن، اس کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے مسافروں کی نشان دہی اور جاں بحق ہونے والے مسافروں کی لاشیں اُن کے لواحقین کے حوالے کرنا ہے۔ اس کے بعد بڑا سوال انشورنس کا اٹھے گا۔ باقی سارے کام انتظامی نوعیت کے ہیں۔ لواحقین کو ایئرپورٹ ہوٹل اور قصر ناز میں رہائش دینا کوئی احسان نہیں ہے، یہ پی آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ حادثے کے پہلے روز ہی 21 مسافروں کی میتیں ورثا کے حوالے کردینا اچھی کاوش تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد دیگر مسافروں کی میتیں بھی ان کے ورثا کے حوالے کی جارہی ہیں۔ یہ سارا عمل کم از کم اکیس روز میں مکمل ہوگا۔
حکومت نے تحقیقات کے لیے ٹیم بنادی ہے۔ ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ طیارے کا بلیک باکس بھی مل چکا ہے، یہ انویسٹی گیشن ٹیم کے سپرد کردیا گیا ہے۔ اس طیارہ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 2 مسافر زندہ بچ گئے۔ یہ بھی اس حادثے کے اہم گواہ ہوں گے، لیکن ان کی گواہی کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکے گی۔ حادثے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی جب بیٹھے گی تو طیارے کی تحقیقات کا آغاز لاہور سے ہوگا، یہاں سب سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ طیارہ لاہور کس منزل سے آیا تھا؟ اور جہاں سے لاہور کے لیے طیارے نے اڑان بھری تھی وہاں طیارے کی فٹنس سے متعلق تمام رپورٹیں بھی تحقیقات کا حصہ ہوں گی۔ یہ رپورٹیں تحقیقاتی ٹیم کو سول ایوی ایشن ہی حوالے کرے گا، اس کے بعد پہلے مرحلے میں یہ بات دیکھی جائے گی کہ جب طیارہ لاہور سے کراچی پرواز کے لیے روانہ ہوا تو اُس وقت اُس کے دونوں انجن ٹھیک حالت میں تھے یا ایک انجن ہی کام کررہا تھا؟ لینڈنگ گیئر کی کیا پوزیشن تھی؟ کیا وہ تکنیکی طور پر بالکل ٹھیک تھا؟ عموماً یہ ممکن نہیں ہوتا کہ دورانِ پرواز کسی طیارے کے دونوں انجن بیک وقت یا تھوڑے وقفے کے بعد فیل ہوجائیں۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ بھی دو انجن والا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ کبھی طیارے کے دونوں انجن فیل نہ ہوئے ہوں۔ بہرحال اُس کی وجہ بہت خاص ہوتی ہے، پرندوں کے ٹکرانے سے دونوں انجن فیل ہوسکتے ہیں، ایسی صورت میں ایمرجنسی میں طیارے کو گلائیڈ کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ بھی دیکھا جائے گا کہ بغیر انجن اور پاور کے بھی گلائیڈنگ اور لینڈنگ ممکن ہے؟ بدقسمت طیارے سے متعلق ابھی یہ معلوم نہیں کہ طیارے کے لینڈنگ گیئر پوری طرح کھل پا رہے تھے یا اُدھورے کھل رہے تھے۔ لینڈنگ کے لیے جہاز کے لینڈنگ گیئر پوری طرح کھلے ہونے چاہئیں۔ ہواباز تو اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں، یہیں سے سوال اٹھتا ہے کہ اگر طیارے کے دونوں انجن فیل ہیں، لینڈنگ گیئر پوری طرح کھل نہیں رہا تو اب پائلٹ کو کیا کرنا چاہیے؟ ہوابازی کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ پائلٹ کو مناسب حالات میں اگر ممکن ہو تو طیارے کو ایک دو ٹرن اراؤنڈ چکر لگوانا بہتر رہتا ہے تاکہ اگر سسٹم کی کمانڈ میں کوئی مسئلہ آرہا ہے، یا اس کے علاوہ کوئی خامی یا غلطی ہورہی ہو تو وہ دور ہوجائے اور لینڈنگ گیئر کھل سکیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب جہاز کے دونوں یا ایک انجن کام کررہا ہو، آپ کے جہاز کے پاس قوت بھی ہو، یا اس کی رن وے اپروچ پر پرواز کی بلندی تین سے چار ہزار فٹ ہو۔ اگر طیارے کے دونوں انجن فیل ہوگئے، لینڈنگ گیئر مکمل نہیں کھل رہا تھا اسی لیے پائلٹ نے طیارے کو چکر لگوانے کا فیصلہ کیا۔ اصل حقائق تو تحقیقات پر ہی سامنے آئیں گے، تاہم تجربہ اسے جلدبازی کا فیصلہ سمجھے گا۔ پائلٹ کی کوشش رہی ہوگی کہ لینڈنگ گیئر مکمل کھل جائے تاکہ سیف لینڈنگ ممکن ہوسکے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ گلائیڈنگ کے لیے بنیادی اصول کیا ہوتا ہے؟ جہاز کی تھرسٹ کے ختم ہونے کے بعد طیارے کی پرواز کی بلندی، آگے کا سفر اور نیچے گرنے کا تناسب کیا ہے؟ یہ تناسب 10:1 ہے، یعنی بالفرض اگر طیارہ چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اُس کے دونوں انجن فیل ہوجائیں تو کیا ہوگا؟ طیارہ کسی وزنی پتھر کی طرح زمین پر نہیں آن گرے گا بلکہ ہر ایک میل نیچے آنے یعنی پرواز کی بلندی کم ہونے پر وہ سترہ میل آگے فاصلہ طے کرسکے گا۔ اب چھتیس ہزار فٹ تقریباً 7 کلومیٹر بنتے ہیں تو اِس صورت میں طیارہ 70 میل تک آگے فاصلہ طے کرسکتا ہے اور کسی قریبی ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرسکتا ہے۔ بدقسمت طیارہ ایئرپورٹ کے قریب پہنچ چکا تھا جس کی بلندی ہزار فٹ سے لے کر دو ہزار فٹ تک عموماً ہوتی ہے، یعنی یہاں سے دوہزار فٹ کی بلندی ہونے کی صورت میں طیارہ زمین سے0.3787 میل اُونچائی پر تھا، اور اس کے آگے گلائیڈنگ 3.787 میل یعنی چار میل کے قریب کم از کم بنتی ہے، جبکہ ہزار فٹ کی بلندی کی صورت میں طیارہ 1.8935 میل یعنی دو میل کے لگ بھگ آگے فاصلہ طے کرسکتا تھا۔ زمین کو چھونے سے قبل، ہوابازی سے وابستہ افراد اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ رائے دیتے ہیں کہ یہ ایک عمومی فارمولا ہے جو بعض حالات میں ایک آدھ فیصد کم یا چند فیصد زیادہ بھی ممکن ہے۔ یہ بھی اہم پہلو ہوتا ہے کہ دونوں انجن فیل ہیں، وقت کم ہے، مزید اونچائی پر طیارہ لے جانا تو ممکن نہیں تاہم طیارے کو چکر لگوانا ہی ایک حل ہوتا ہے، لیکن یہ بعض اوقات ایک مہلک اور غلط فیصلہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ایئرپورٹ کے رن وے پر بیلی لینڈنگ کروانے کا مشکل مگر ناگزیر فیصلہ لینا چاہیے۔ یہ مشکل ہوتا ہے تاہم آخری حل بھی یہی ہے، اس میں رگڑ کی وجہ سے طیارے میں آگ لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کے لیے ہواباز کی ہدایت اور اسے درپیش مشکل کا سامنا کرنے کے لیے فائر بریگیڈ سمیت تمام ضروری انتظامات کیے جاتے ہیں جس سے مسافر اور عملہ بچ جاتا ہے یا جانی نقصان بہت کم ہوتا ہے۔ تاہم اس حادثے سے متعلق سوالات کچھ اور بھی ہیں۔ ایئر بھوجا طیارہ، ایئر بلیو طیارہ اور جنید جمشید والا طیارہ کیوں گرا؟ چترال سے آنے والا طیارہ ایک انجن پر اُڑایا گیا کہ چھوٹی فلائٹ ہے، ایک ہی انجن پراسلام آباد پہنچ جائے گا۔ لیکن جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ کاک پُل پنڈی میں گرنے والا بھوجا ایئرلائن کا طیارہ اُڑنے کے قابل ہی نہیں تھا، یہ طیارہ سفارش کے ذریعے فٹنس سرٹیفکیٹ اور اجازت نامہ لے کر ہوا باز کے حوالے کیا گیا۔ ان تمام حادثات کی رپورٹیں نہیں آئیں، تو کیا اس کیس میں بھی یہی ہوگا؟ کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ انصاف ملنا چاہیے؟ یا اُن کو شہید کہہ کر فائل بند کردیں؟ تحقیقات کی رپورٹ ضرور سامنے آنی چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ قومی ائیرلائن میں چل کیا رہا ہے؟ پی آئی اے میں کیا ہورہا ہے، اس کی ایک مثال ہی پوری دیگ کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ماضیِ قریب کی بات ہے پی آئی اے کا ایک طیارہ تھا، پاکستان سے فلائی کرکے ایک یورپی ملک پہنچا تو وہاں چیکنگ پر معلوم ہوا کہ انجن کو فیول دینے والے پائپ پر کلپ کی جگہ تانبے کے تار کو بَل دے کر اُس کو انجیکٹر سے جوڑا گیا تھا۔ سوچیے کہ اتنی لمبی فلائٹ کو ٹیکنیکل گراؤنڈ اسٹاف نے ’’جگاڑ‘‘ لگا کر بھیج دیا۔ وہ طیارہ وہاں روک لیا گیا اور پی آئی اے کو بھاری جرمانہ بھی ہوا۔ حکومت سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ پی آئی اے میں غفلت کا باب کب بند ہوگا؟

ڈی این اے ٹیسٹ، قابل اعتبار کیسے؟

ہر حادثے کے بعد جاں بحق ہوجانے والوں کی لاشیں ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ان کے لواحقین کے حوالے کی جاتی ہیں۔ لیکن ڈی این اے ٹیسٹ بھی اسی صورت میں بہتر اور قابلِ اعتبار ہوگا جب اس کے بنیادی اصولوں کی مکمل پاس داری کی جائے گی۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جاں بحق ہونے والے شخص کا بنیادی پروفائل فراہم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ ٹیسٹ کے بعد شناخت میں مددگار ثابت ہو۔ اس کی بنیادی تفصیلات میں عمر، جنس، وزن، جسم پر پہنے ہوئے کپڑے، ساخت، بالوں اور آنکھوں کا رنگ، قد، دانتوں سے متعلق معلومات، تصویر، جسم پر تل کے نشان وغیرہ، مصنوعی دانت ہوں تو ان کی تفصیلات، بازو، ٹانگ میں کوئی جوڑ ہو تو اس کی تفصیلات، اور اگر کوئی آپریشن ہوا ہو تو اس کی مکمل تفصیلات دینا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتا۔