افغانستان: امریکی کٹھ پُتلیوں کے درمیان “مصالحت”۔

امن مذاکرات سمیت تمام اہم معاملات میں حامد کرزئی اب اہم کردار ادا کریں گے

۔17 مئی کو ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے شرکتِ اقتدار کے ایک معاہدے پر دستخط کردیے۔ گزشتہ سال 28 ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ہرا دیا تھا، لیکن انتخابی نتائج کو اشرف غنی کے سوا افغانستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے تسلیم نہیں کیا۔ انتخابات کے مشکوک اور غیر شفاف ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج کے اعلان میں 5 ماہ کی تاخیر ہوئی، جس کے ساتھ ہی جنگجو رہنما عبدالرشید دوستم نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ملک کا نیا صدر قرار دے دیا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ وہ شمالی صوبوں میں اپنے گورنروں کو تعینات کررہے ہیں۔
اقتدار کی اس کشکمش کے دوران ہی 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوگئے اور اس کے دسویں روز یعنی9 مارچ کو کابل میں حلف برداری کی دو متوازی تقریبات منعقد ہوئیں۔ قصرِ صدارت میں جناب اشرف غنی نے نئی مدت کے لیے افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا، تو اس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر قصرِ سپیدار میں حلف اٹھاکر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی صدارت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی تقریبِ حلف برداری میں امریکہ کے نمائندے زلمے خلیل زاد اور یورپی یونین کے سفرا نے شرکت کرکے ان کی صدارت کی توثیق کردی، لیکن ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اپنی صدارت پر اَڑے رہے۔
افغانستان کے 2014ء میں ہونے والے انتخابات بھی متنازع اور مشکوک تھے، اور تب بھی مقابلہ انھی دو ڈاکٹروں کے درمیان تھا، لیکن ان انتخابات میں جنرل عبدالرشید دوستم کو ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنا نائب صدر نامزد کیا تھا جن کی دہشت کی بنا پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ متوازی حکومت قائم کرنے کا حوصلہ نہ کرسکے۔ اُس وقت امریکی فوج پر طالبان کا شدید دبائو تھا جس کی بنا پر کابل انتظامیہ میں پھوٹ واشنگٹن کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ چنانچہ چچا سام نے سفارت کاری کے ساتھ دھن اور دھونس کے جوہر دکھائے۔ طالبان کا خوف، امداد کی بندش اور فوجی انخلا کی دھمکی نے دونوں ڈاکٹروں کو مذاکرات کی میز پر ڈھیر کردیا۔ جلد ہی دھمکیوں سے شرمندہ کھسیائے ہوئے چہرے شرکتِ اقتدار کے لولی پاپ سے شاداب ہوگئے۔ معاہدے کے مطابق ڈاکٹر اشرف غنی ملک کے صدر اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو قرار پائے۔ یہ ایک ماورائے آئین بندوبست تھا کہ افغانستان کے صدارتی نظام میں چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ قومی امنگوں کو کچلنے اور عوامی مینڈیٹ اغوا کرنے کے لیے الجزائر، مصر اور فلسطین سمیت اسلامی دنیا میں گزشتہ ساٹھ ستّر برسوں سے مختلف حکمت عملی اور ماڈل استعمال ہورہے ہیں۔ یادش بخیر 1999ء میں جنرل پرویزمشرف کے لیے بھی چیف ایگزیکٹو کا منصب تراشا گیا تھا۔
ڈاکٹر اشرف غنی امریکہ اور مغرب کے دلارے ہیں۔ انھیں 2009ء میں بھی صدر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن حامد کرزئی نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور موصوف 3 فیصد ووٹ بھی نہ لے سکے۔ جامعہ کابل کے سابق رئیس الجامعہ ڈاکٹر اشرف غنی امریکی تہذیب و ثقافت کے پُرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے۔ اس دوران وہ ڈنمارک، امریکہ کی برکلے یونیورسٹی اور جامعہ جان ہاپکنز میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ سانحہ 11ستمبر سے بہت پہلے انھوں نے پاکستان کے مدارس کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے دینی مدارس کو دہشت گردوں کی نرسری قرار دیا تھا۔ 1985ء میں ہونے والی اس تحقیق کے اخراجات فل برائٹ فائونڈیشن نے برداشت کیے تھے۔
اِس بار قضیہ نمٹانے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کابل تشریف لائے اور اپنے پیشرو یعنی جان کیری کے برخلاف سفارتی رکھ رکھائو کے تکلف میں پڑے بغیر صاف و سیدھی دھمکیوں کے کوڑے سے ڈاکٹر صاحبان کو اتفاقِ رائے پر ’’قائل‘‘ کرلیا۔ صدر ٹرمپ کا انداز بہت مختلف ہے، وہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے فلسفے پر گامزن ہیں اور انھیں دوسرے ملکوں میں گماشتے پالنے کا کوئی شوق نہیں، خاص طور پر وہ کٹھ پتلیاں جو امریکہ پر بوجھ بنی ہوئی ہوں۔ اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں صدر ٹرمپ کسی مداہنت کے قائل نہیں، اقبال کے مردِ قلندر کی طرح زبان ان کے دل کی رفاقت کا حق خوب ادا کرتی ہے، اور امریکی سفارت کاری پر بھی صدر ٹرمپ کی فکری چھاپ بہت واضح ہے۔
قسمت کا لکھا سمجھتے ہوئے دونوں افغان صدور ’’مل بانٹ‘‘ کر حکومت کرنے پر راضی ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحبان کا کہنا ہے کہ بحران کا یہ حل ’’میڈ اِن‘‘ افغانستان ہے۔ مشتاق یوسفی مرحوم کا کہنا ہے کہ جس بات کے بارے میں کہنے اور سننے والے ہر دو فریق کو یقین ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو اس پر دروغ گوئی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
واشنگٹن کے سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ دونوں ڈاکٹروں کو اُن کا مقام یاد دلادینے کے بعد واپسی سے پہلے جناب پومپیو نے معاملہ سلجھانے کی ذمہ داری حامد کرزئی کو سونپ دی۔ اس وقت صدر ٹرمپ کی بنیادی ترجیح افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا ہے، اور وہ اپنی فوج کو جلد از جلد اس دلدل سے نکال لینا چاہتے ہیں۔ ان کو یہ بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ افغانستان کا انتظام و انصرام رشوت و بدعنوانی میں لتھڑی کابل انتظامیہ کے بس کی بات نہیں۔ امریکیوں کو اس بات کا یقین ہے کہ اشرف غنی افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ اور اس کی وجہ بھی بڑی واضح ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہے کہ امن قائم ہونے کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا، اور سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے محرومی کے تصور ہی سے ڈاکٹر اشرف غنی کو ہول اٹھتا ہے۔ اسی بنا پر امن مذاکرات سے صدر اشرف غنی کو عملاً باہر نکال دیا گیا ہے۔
امریکی دبائو کی چھری تلے حامد کرزئی نے جو ’’مصالحت‘‘ کروائی ہے اُس کا کلیدی نکتہ افغان امن کے لیے قائم کیے جانے والے اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commission کی تشکیلِ نو ہے۔ اس کمیشن کی سربراہی اب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ہاتھ میں ہے، اور طالبان سے مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے وفد کی تشکیل اور معاہدے کی شرائط طے کرنے کے مکمل اختیارات اب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو حاصل ہوگئے ہیں۔ کونسل کو مالی وسائل اور خودمختاری فراہم کرنے کے لیے قومی مصالحت کی وزارت قائم کی جارہی ہے۔ بادشاہ گر کی حیثیت سے امن مذاکرات سمیت تمام اہم معاملات میں حامد کرزئی اب اہم کردار ادا کریں گے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حامد کرزئی اور طالبان کے درمیان اچھے روابط ہیں اور دونوں امریکی فوج کا جلد از جلد انخلا چاہتے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ بھی ماضی کی رنجشیں فراموش کرکے طالبان سے تعلقات بحال کرنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔
نئے بندوبست میں جنرل عبدالرشید دوستم کے لیے مارشل کے عہدے پر طالبان کو تحفظات ہیں۔ جنرل دوستم کا ماضی انتہائی خون آلود اور مکروہ ہے۔ روسی حملے کے وقت یہ سرکاری فوج میں تھے اور ابتدائی حملے کے دوران بلخ، پنجشیر، قندوز، سرائے پل، اور جوزجان میں اپنی نجی ملیشیا کی مدد سے انھوں نے مجاہدین کا قتلِ عام کیا تھا۔ روس کی پسپائی کے بعد دوستم احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد میں شامل ہوگئے اور طالبان کے خلاف جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ مزارشریف کے قریب شدید لڑائی میں انھیں طالبان کے ہاتھوں شکست ہوئی اور ان کی شاطرانہ سیاست کی بنا پر احمد شاہ مسعود نے بھی ان کو پنجشیر میں پناہ دینے سے انکار کردیا، جس پر موصوف ترکی فرار ہوگئے۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے دوران جنرل صاحب ملک واپس آئے اور زمینی حملے میں امریکیوں کی مدد کی۔ قندوز میں طالبان کے شانہ بشانہ غیر ملکی جنگجو امریکی حملے کی شدید مزاحمت کررہے تھے۔ ان غیر ملکی مجاہدین کی بڑی تعداد ازبکوں پر مشتمل تھی۔ عبدالرشید دوستم نے جو خود بھی ازبک ہیں، اپنی اہلیہ کو ان مجاہدین کے پاس بھیجا اور ذاتی امان دے کر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا، جن کی مجموعی تعداد تین سو غیر ملکیوں سمیت آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ غیر ملکی مجاہدین کو فوری طور پر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا۔ دو امریکی مسلمانوں کے سوا یہ تمام غیر ملکی قلعہ جنگی کے قیدخانے میں مار دیے گئے۔ طالبان قیدیوں کو دوستم نے اپنی پناہ میں لے لیا۔ ان سادہ لوح نوجوانوں کو کنٹینروں میں ٹھونس کر قندوز سے شبرغان روانہ کردیا گیا۔ ایک کنٹینر میں 250 افراد کو رکھاگیا تھا۔ یہ تمام کے تمام لوگ دم گھٹ کر ہلاک ہوگئے۔ شبرغان میں واقع یتیم طاق گیس فیلڈ کے مغرب میں دشت لیلیٰ اور اس کے پہاڑی ٹیلوں پر بے نام قبریں آج بھی موجود ہیں جہاں آنے والے سفید چادریں چڑھاکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ حامد کرزئی طالبان کو یقین دلارہے ہیں کہ 66 سالہ دوستم کا نیا عہدہ محض ایک اعزاز ہے جس کا مقصد اَنا کی تسکین کے سوا کچھ نہیں۔
دوسری طرف اشرف غنی پر امریکہ کا دبائو برقرار ہے جس کی بنا پر عید کے دن انھوں نے 2000 مزید جنگی قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر ہے۔ اس سے پہلے ایک ہزار طالبان رہا کیے جاچکے ہیں۔ طالبان امریکہ امن معاہدے کے تحت طالبان کے 5000 سپاہیوں کو رہا کیا جانا ہے، جس کے بدلے طالبان کابل انتظامیہ کے 1000 امریکہ نواز سپاہیوں کو آزاد کریں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشرف غنی نوشتۂ دیوار پڑھ کر امریکہ و طالبان دونوں کے لیے ’’اچھا بچہ‘‘ بننا چاہتے ہیں، ورنہ چند ہی دن پہلے انھوں نے کابل ہسپتال پر حملے کا الزام لگاکر طالبان پر حملے تیز کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ امریکیوں کو یقین ہے کہ حملہ داعش کی کارروائی ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ مصالحتی کمیشن کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپنے اور حامد کرزئی کو امن مذاکرات میں کلیدی کردار دینے سے افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہوتی ہے یا نہیں، لیکن اس قضیے کے اصل فریق یعنی امریکہ اور طالبان دونوں ہی اس معاملے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ امریکہ جلد از جلد افغانستان سے نکل جانا چاہتا ہے تو طالبان تمام افغانوں کو ساتھ ملاکر سب کے لیے قابلِ قبول حکومت کے لیے پُرعزم لگ رہے ہیں۔ اشرف غنی اور طالبان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ اس کی وجہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مدارس اور مولویوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔
اس بات کا ادراک امریکیوں کو بھی ہے۔ واشنگٹن کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ افغان دھڑوں کے درمیان مفاہمت کے بعد جو وسیع البنیاد حکومت بنے گی اُس پر طالبان کا غلبہ ہوگا، اور یہ بات یقینی ہے کہ نئے بندوبست میں طالبان صدارت کا عہدہ طلب کریں گے۔ اشرف غنی کے لیے منصب کی قربانی اتنی آسان نہیں۔ لیکن اب وہ اُس مفاہمتی کمیشن کے فیصلوں کے پابند ہیں جس کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی نے زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سیاسی جڑیں بہت گہری نہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی جنرل دوستم کی کراچی مارکہ ٹھپے بازی کا نتیجہ تھی۔ اِس بار ووٹ ڈالنے کے لیے مشینیں استعمال ہوئی تھیں جن سے عام ووٹر کے ساتھ انتخابی کارکن بھی ٹھیک طرح واقف نہ تھے، اور پھر ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی صرف 10 فیصد رہا۔ چنانچہ مشینی جھرلو کے نتیجے میں انھوں نے میدان مار لیا۔ اگر طالبان سے معاہدے کے نتیجے میں اشرف غنی کی چھٹی ہوئی تو ان کے لیے مزاحمت بہت مشکل ہے۔ مارشل بنا کر جنرل دوستم کی تالیفِ قلب کے پیچھے بھی یہی حکمتِ عملی کارفرما ہے کہ امن معاہدے کی صورت افغانستان کے تمام دھڑے اس پر مخلصانہ عمل درآمد کو یقینی بنائیں، اور محرومین کو آہ و زاری کے لیے کوئی کاندھا میسر نہ ہو۔
اگر اشرف غنی کے اعلان کے مطابق 2000 جنگی قیدی رہا ہوجاتے ہیں تو طالبان کی جانب سے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر عید کے موقع پر کی جانے والی جنگ بندی میں مزید چند دنوں کی توسیع متوقع ہے، جس کو بنیاد بناکر امریکہ بقیہ 2000 قیدی رہا کرانے کے لیے اشرف غنی پر دبائو ڈالے گا۔ اس صورت میں قیدیوں کا تبادلہ جون کے وسط میں مکمل ہونے کی توقع ہے، جس کے بعد امن مذاکرات کا جانگسل مرحلہ شروع ہوگا۔ دبائو اور دھمکی کے تحت ہی سہی، لیکن ڈاکٹروں کی مفاہت سے دیرپا اور پائیدار امن کی کرن جگمگائی ہے، اور آنے والے دنوں میں افغان ملت کے لیے راحت کا کچھ سامان نظر آرہا ہے۔
افغان امن کی شاہراہ پر جگہ جگہ غلط فہمی، خودغرضی اور عناد کی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، دونوں طرف قبائلی تعصبات اور اَنا کی کھائیاں ہیں۔ افغان قیادت کو اس راستے میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے کہ ایک ہلکی سی لغزش سارے معاملے کو غت ربود کرسکتی ہے۔

…………
اب آپ مسعود ابدلی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔