جنید صحرائی کی شہادت

کشمیر کی تحریک ایسے ہی صاحب عزیمت اور فولادی عزم کے حامل کرداروں کے باعث بھارتی تسلط سے آزاد ہو گی

کشمیر کے ایک اور نامور نوجوان جنید صحرائی نے اپنے لہو سے وطن کی مانگ میں سیندور بھردیا۔ 29 سالہ جنید صحرائی کا شمار بندوق اُٹھانے والے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہوتا تھا، اور وہ کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرچکے تھے۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر منان وانی اور کشمیر یونیورسٹی میں شعبۂ سماجیات میں بطور کنٹریکچوئل اسسٹنٹ پروفیسر محمد رفیع نے بندوق تھام کر دنیا کو حیرت میں مبتلا کیا تھا، اور یہ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مختصر وقفے سے شہید ہوگئے تھے۔
جنید صحرائی کا تعلق تحریکِ آزادی کے لیے برسوں سے قربانیاں دینے والے ایک خاندان سے ہے۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز پر اس خاندان کے کئی نوجوان جن میں جنید کے دو فرسٹ کزن بھی شامل ہیں، بھارتی فوجیوں کے ہاتھ شہید ہوچکے ہیں۔ جنید صحرائی سید علی گیلانی کے دستِ راست اور ان کی تنظیم تحریک حریت کشمیر کے سربراہ محمد اشرف خان صحرائی کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ اشرف صحرائی کشمیر میں صاحبِ کردار و عزیمت انسانوں کی اُس نسل میں نمایاں ہیں جنہوں نے سنِ شعور کر پہنچتے ہی کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے اور تسلط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس کے خلاف سیاسی مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ اس راہ میں انہیں ہر گام پر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بھارت کی مختلف جیلوں میں زندگی کے خوبصورت ماہ وسال گزارنا پڑے۔1990ء میں بھارتی فوج نے کپواڑہ لولاب میں اُن کے گھر کو بارود سے اُڑا دیا تھا، جس کے بعد ان کے اہلِ خانہ سری نگر منتقل ہوگئے تھے۔ سید علی گیلانی نے چند برس قبل تحریک حریت کشمیر کے نام سے تنظیم قائم کی تو اشرف صحرائی ان کے نائب کے طور پر اس تنظیم کا حصہ بنے۔ برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کے جن نوخیز ذہنوں اور جس نسل کو دوبارہ عسکریت کی طرف راغب کیا، جنید صحرائی ان میں شامل تھے۔ دو سال قبل وہ اچانک گھر سے غائب ہوگئے اور چند دن بعد ان کی بندوق تھامے تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ بھارتی پولیس اور فوج نے اشرف صحرائی سے درخواست کی کہ وہ اپنے بیٹے کو عسکریت ترک کرکے واپس گھر آنے کا کہیں، مگر اشرف صحرائی نے دوٹوک انداز میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا ہرگزنہیں کریں گے کیونکہ وہ شعوری طور پر اس راہ پر چل پڑا ہے اور کشمیر کے حالات نے اُسے اس راہ پر چلنے پر مجبور کیا ہے۔ خود اشرف صحرائی نے بتایا کہ بھارتی فوج نے بہار کے ایک غیر مسلم ریڑھی بان کی طرف سے جنید کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد دوطرفہ توتکار پر جنید کو گرفتار کرکے تھانے میں بند کرکے گالیاں دیں، جس کا اثر اُس کے ذہن پر موجود تھا۔ یہ واقعہ بھی جنید کو عسکریت کی طرف لے جانے کا باعث بنا ہوگا۔ برہان وانی بھی فوج کے ایسے ہی ناروا سلوک کی وجہ سے بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوا تھا۔ دوسال تک جنید صحرائی مختلف معرکوں میں دادِ شجاعت دیتے رہے۔ چند دن قبل حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو کے ساتھ جنید صحرائی بھی بھارتی فوج کے محاصرے میں آگئے تھے، مگر وہ محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد بھارتی فوجی ان کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ ریاض نائیکو کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد بھارتی فوج نے جنید صحرائی کا سراغ پالیا اور سری نگر کے مرکزی علاقے میں اُس گھر کا محاصرہ کیا جہاں جنید اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ مقیم تھے۔ دونوں طرف سے شدید جھڑپ ہوئی اور بھارتی فوج نے بارود لگا کر اس گھر کو آگ لگادی، جس کے ساتھ ہی جنید اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے، جبکہ پندرہ گھر بری طرح تباہ ہوگئے۔ ان گھروں کے مکینوں کو زبردستی باہر نکال کر گھروں کو آگ لگائی گئی، جبکہ مکینوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فوجیوں نے قیمتی سامان، نقدی، حتیٰ کہ گیس سلینڈر بھی چرا لیے۔ جنید صحرائی کی شہادت کے بعد سری نگر مظاہروں کا مرکز بن گیا اور مشتعل نوجوانوں کی ٹولیاں گلیوں میں نکل کر بھارتی فوج پر پتھرائو کرنے لگیں۔ بھارت نے وادی میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بند کردیے۔ جنید کے والد اشرف صحرائی نے ان کی نعش حوالے کرنے کے لیے اپیل کرنے سے انکار کیا۔ اس موقع پر ان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں اشرف صحرائی تعزیت کے لیے آنے والوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی نعش کے لیے حکومت سے درخواست نہیں کریں گے۔ ان کے بیٹے کا خون دوسرے نوجوانوں سے زیادہ قیمتی نہیں۔ انہوں نے بھارتی فوج سے بیٹے کی نعش حاصل کرنے کی درخواستوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کردی۔
کشمیر کی تحریک ایسے ہی صاحبِ عزیمت اور فولادی عزم کے حامل کرداروں کے باعث نہ صرف زندہ ہے بلکہ بھارت کے جبر اور جمائو کے باوجود پھیلتی چلی جارہی ہے۔ جنید صحرائی جیسے نوجوانوںکا لہو رائیگاں نہیں جائے گا اورکشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہوگا۔