تحقیقاتی ٹیم پر پائلٹ ایسوسی ایشن کا عدم اعتماد
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا ایک اور مسافر بردار طیارہ 22 مئی کو کراچی کی گنجان آباد ماڈل کالونی کے علاقے کاظم آباد میں گر کر تباہ ہوا تو اس واقعے کی بازگشت نے کورونا وایئرس کے خوف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ کراچی کی آبادیوں میں اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل پاک فضائیہ کے دو طیارے لیاقت آباد اور ملیر میں کم و بیش 10 اور 23 سال پہلے گرنے کے واقعات ہوچکے ہیں، جن میں پی اے ایف بیس مسرور سے پرواز کرنے والا ایک زیر تربیت لڑاکا تھا جو گنجان آبادی لیاقت آباد کے ایک مکان پر جاگرا تھا، جس کے نتیجے میں اس گھر میں رہائش پذیر پورا خاندان ہلاک ہوگیا تھا۔
گزشتہ جمعہ کو ماڈل کالونی کے علاقے میں پی آئی اے کے مسافر بردار جہاز کو پیش آنے والا حادثہ اپنی نوعیت کا واحد بڑا حادثہ تھا جس میں 97 افراد جاں بحق ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی، مگر ہمیشہ کی طرح خدشہ ہے کہ اس سے بھی حادثے کی وجوہات بننے والے عوامل کا پتا نہیں لگایا جاسکے گا، جس کی واضح وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ چار رکنی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایئرکموڈور محمد عثمان غنی کریں گے جو مبینہ طور پر مسافر طیاروں کی ساخت اور بناوٹ کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں، انہیں صرف جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کے ٹیکنیکل امور معلوم ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس تحقیقات سے بھی کوئی غیر معمولی نتائج اخذ نہیں کیے جاسکیں گے اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے نئے وعدے اور دعوے کرکے پھر سبھی خاموش بیٹھ جائیں گے، جبکہ کسی نئے سانحے تک قوم بھی اس واقعے کو بھلا دے گی۔ خیال رہے کہ ایوی ایشن ڈویژن نے حادثے کی تحقیقات کے لیے جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کریں گے۔ ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور ناصر مجید تحقیقاتی ٹیم کے ممبر ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کی تشکیل کے ایک ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ قومی ایئرلائن کی پرواز پی کے 8303 کو لینڈنگ کے وقت حادثہ پیش آیا اور طیارہ 2 بج کر 37 منٹ پر گرکر تباہ ہوگیا، جبکہ جہاز میں عملے کے 7 ارکان سمیت 98 افراد سوار تھے۔
پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں 83 ایئرکرافٹ حادثات رونما ہوچکے ہیں۔
ان میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے طیاروں کے 21 حادثات اور پاکستان ایئرفورس کے طیاروں کو پیش آنے والے نمایاں 24 حادثات شامل ہیں۔ مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق 14 اگست 1947ء سے 22 مئی 2020ء تک پاکستان کی فضائی حدود میں طیاروں کے حادثات کی ایک لمبی تاریخ ہے، جس میں مسافر بردار اور فوجی طیارے دونوں شامل ہیں۔ رواں سال کا پہلا فضائی حادثہ 7 جنوری کو اُس وقت پیش آیا تھا جب پاک فضائیہ کا ایک طیارہ معمول کی پرواز کے دوران پنجاب کے شہر میانوالی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار دونوں پائلٹ ہلاک ہوگئے تھے۔ دوسرا واقعہ 11 مارچ 2020ء کو ہوا جب پاک فضائیہ کا ایک ایف 16 طیارہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ یہ ایف 16 طیارہ 23 مارچ کو ہونے والی یومِ پاکستان پریڈ کی مناسبت سے ریہرسل میں مصروف تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار پائلٹ ہلاک ہوا تھا۔ 2019ء میں بڑا فضائی حادثہ 30 جولائی کو پیش آیا تھا۔ یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب آرمی ایوی ایشن کا ایک چھوٹا طیارہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی حدود میں گر کر تباہ ہوگیا، جس کے نیتجے میں پانچ فوجیوں سمیت کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پاکستانی فوج کا بیچ کرافٹ سی کنگ 350 طیارہ تھا۔ 2019ء کا یہ دوسرا حادثہ تھا۔ پہلا حادثہ جنوری میں بلوچستان کے علاقے مستونگ کے مقام پر ہوا تھا۔ اس حادثے میں پاک فضائیہ کا ایف سیون پی جی گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ فروری 2017ء میں فیصل آباد کے مقام پر شاہین ایئر فلائنگ ٹریننگ اسکول کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا، جس میں دونوں پائلٹ ہلاک ہوگئے تھے۔ مئی 2017ء میں پاک فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ معمول کی تربیتی پرواز کے دوران میانوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہوا جس میں طیارے کا پائلٹ ہلاک ہوگیا۔ طیارہ سبزہ زار علاقے کے قریب تباہ ہوا جس کی وجہ طیارے میں تیکنیکی خرابی بتائی گئی۔ اگست 2017ء میں سرگودھا کے مقام پر پاک فضائیہ کا ایک طیارہ تباہ ہوا تھا تاہم اس حادثے میں پائلٹ طیارے سے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دسمبر 2016ء میں صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا ایک جہاز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے میں 42 مسافر اور عملے کے 5 ارکان سوار تھے۔
۔ 20 اپریل 2012ء کو نجی ایئرلائن بھوجا ایئر کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی، اس میں 127 افراد سوار تھے۔
۔ 28 نومبر 2010ء کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا، اور اس حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28 جولائی 2010ء کو پیش آیا تھا جب نجی ایئرلائن ایئربلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس طیارے میں 152 افراد سوار تھے۔
اس سے قبل 10 جولائی 2006ء کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا فوکر طیارہ ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اُس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈیئر اور بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔ ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کردیا گیا تھا۔
پاکستان میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے دس حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان ایئر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری 2003ء کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اُس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر سمیت 17 افسران ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے لیے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے 17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِِ ذکر ہے جو اُس وقت کے صدر اور فوجی آمر جنرل ضیا الحق سمیت 30 اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔
پاکستانی سرزمین پر گزشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے 9 فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔ ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔ 13 جنوری 1998ء کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ایئر کا مسافر طیارہ خوڑک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے، اور یہ 28 جولائی 2010ء سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔ 9 جنوری 2002ء کو امریکی ایئرفورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کے شمسی ایئربیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور 7 مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔ 24 فروری 2003ء کو ایدھی ایئر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب 8 مسافروں کی موت کا سبب بنا۔
دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک میں ہوائی جہازوں کے حادثات کو بھی ایک عام ٹریفک حادثہ سمجھ کر وقت کے ساتھ فائلوں میں دبادیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی بھی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ سے قوم کو آگاہ نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی ان کی رپورٹس ملک کے منتخب ایوانوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ نتیجے میں مستقبل میں اس طرح کے حادثات و واقعات سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدامات ممکن نہیں ہو پاتے۔
حادثے کی تحقیقات اور پالپا
پاکستان ائیرلائنز پائلٹ ایسوسی ایشن (پالپا) کے جنرل سیکریٹری کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ کمرشل طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ ٹیموں میں کمرشل پائلٹس کی نمائندگی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، اور اِس بار بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ حالانکہ ہمارا پائلٹ کن حالات میں طیارے اور اس کے مسافروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان بھی قربان کردیا کرتا ہے، مگر تحقیقاتی ٹیموں میں پائلٹس کو شامل ہی نہیں کیا جاتا، اور کوشش کی جاتی ہے کہ سارا قصور پائلٹ کا بتادیا جائے۔ عمران ناریجو نے فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ طیارہ حادثے کی جو بھی تحقیقات ہوتی ہے اس میں سول ایوی ایشن، انویسٹی گیشن بورڈ، طیارے کی کمپنی اور پائلٹس ایسوسی ایشن کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کمرشل پائلٹس ہیں مگر ہمیشہ ہم کو نظرانداز کرکے ایک رپورٹ بنالی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حادثے کی تحقیقات کے لیے انٹرنیشنل پائلٹس ایسوسی ایشن سے مشورہ کرکے رپورٹ حکام کو دی تھی تاکہ پائلٹس ایسوسی ایشن کی نمائندگی بھی تحقیقاتی ٹیم میں موجود ہو، مگر ہمیں نظرانداز کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم پائلٹس کو نظرانداز کرکے کس طرح تحقیقات کی جاسکتی ہے، اور کس طرح حادثے کا سارا ملبہ پائلٹ پر ڈالا جاسکتا ہے؟ عمران ناریجو نے کہا کہ جو پائلٹ حادثے میں شہید ہوگیا بھلا وہ کیسے اپنا مؤقف پیش کرسکتا ہے! جہاز کو حادثہ ایک دم پیش نہیں آتا بلکہ اس کی وجوہات ہوتی ہیں، جہاز میں موجود فنی خرابیوں کو پائلٹ فیس کرتے ہیں، وہی اس بارے میں بتاسکتے ہیں۔ عمران ناریجو نے بتایا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں جب ہم نے سیفٹی کٹس کا مطالبہ کیا تو انتظامیہ نے پائلٹس ایسوسی ایشن سمیت تمام ایسوسی ایشنز پر پابندی عائد کردی۔ تحقیقاتی ٹیم کے بارے میں اپنے عدم اطمینان کے حوالے سے پائلٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نے بتایا کہ کمیٹی کے سربراہ ائیرکموڈور نے ساری زندگی ہیلی کاپٹر اڑایا، انہوں نے ایئرفورس میں اپنے طیاروں کے حادثات کی انکوائری کی ہوگی مگر کمرشل طیاروں کا انہیں کوئی تجربہ اور اس بارے میں کچھ بھی علم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ تحقیقاتی کمیٹی بیلنس ہی نہیں ہے، کمیٹی میں جو لوگ ہیں وہ سب ائیرفورس ڈپارٹمنٹ کے ہیں، انہوں نے ائیرفورس میں انکوائریز کی ہوں گی مگر کمرشل طیارے کا تو ان کے پاس کوئی تجربہ اور معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ انکوائری کی جو بھی رپورٹ آئے گی وہ پائلٹ کو حادثے کا ذمے دار قرار دے گی۔
ایکسیڈنٹ انوسٹی گیشن اور ایوی ایشن کے امور کا 50 سالہ تجربہ رکھنے والے ونگ کمانڈر نسیم احمد کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے طیارے پی کے 8030 کے حادثے کا جائزہ لینے سے ایسا معلوم ہوتا ہے یا امکان ہے کہ طیارے کے دونوں پائلٹس سے شدید غلطی ہوئی ہے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ اس جہاز کے لینڈنگ گیئر (سامنے کے پہیے) نہ کھلے ہوں اور پائلٹ نے لینڈنگ گیئر نہ کھلنے کا طریقہ کار کے مطابق انائونس بھی نہیں کیا، پائلٹ معمول کے مطابق طیارے کو لینڈ کرنے لگا، لیکن جب لینڈنگ گیئر کھلے ہوئے نہ ہوں تو انجن نیچے کی جانب لٹکتا ہوا نظر آتا ہے اور پہیے نہ کھلنے کی وجہ سے پہلے جہاز کا پیٹ زمین سے ٹکراتا ہے، ایسی ہی صورت حال کی وجہ سے ائیرکنٹرول نے جب پائلٹ کو پیغام دیا کہ واپس ہوا میں چلے جائو تب نہ جانے کیا ہوا ہوگا کہ جہاز اوپر کی جانب جاتے ہوئے پائلٹ کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ ’’مے ڈے، مے ڈے، آئی لوسٹ انجن‘‘۔ تجزیہ کار و ماہر ایوی ایشن ونگ کمانڈر نسیم کا کہنا ہے کہ ’’پائلٹ جہاز کو واپس ہوا میں لے جاتے ہوئے مے ڈے کا اعلان کررہا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ہدف کے مطابق نہیں اڑ رہا تھا، بلکہ وہ انجن کی خرابی کی وجہ سے ماڈل کالونی کی طرف بڑھتے ہوئے عمارت سے ٹکرا کر گرگیا۔گو کہ پائلٹ سے کوئی غلطی ہوئی ہے لیکن یہ بات تو ہم گزشتہ ہونے والے حادثات میں بھی طے کرچکے ہیں۔ فوکر، ایئر بلیو اور بھوجا کے حادثے میں بھی ہم یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے، کیونکہ پائلٹ ہی ایک ذمے دار قرار پاتا ہے، اور اس سسٹم کا آخری لنک بھی وہی ہوتا ہے۔ ایک خراب گاڑی کو لے کر آنے والا بھی وہی ہوتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ غلطی پائلٹ سے کیوں ہوئی ہے؟ میری نظر میں اس حادثے کا ذمے دار وہ ماحول ہے جس میں پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کو چلایا جارہا ہے، اور وہ ہے’’اوپر سے اپنی مرضی کا بندہ بلائو اور وہ ’’بڑوں‘‘ کی ضروریات کے مطابق ہو‘‘۔ جب ایسا ہوگا تو پھر کسی کی بھی غلطی ہو اس کا تدارک مشکل ہوجائے گا۔ ایسی غلطیوں کے ازالے کے لیے پاکستان میں بھی ایک ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے تحقیقات کرکے ان اغلاط کی نشاندہی اور ان کے ازالے کے لیے فنی سفارشات پیش کرے۔ پاکستان میں ائیر ایکسیڈنٹ، میرین ایکسیڈنٹ، ریل ایکسیڈنٹ، فیول پائپ لائنز سسٹم ایکسیڈنٹ کی انکوائری کا کوئی ادارہ ہی موجود نہیں ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں یہ ادارہ موجود ہے۔ ان اداروں اور خود سول ایوی ایشن پاکستان کی کتاب میں بھی بورڈ آف انکوائریز کا مقصد کسی کو سزا دینا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آئندہ حادثات کی روک تھام ہو یا اگلا حادثہ نہ ہو۔