اردو میں ہم ایسے کئی الفاظ بے مُحابا استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم اور محل واضح ہوتا ہے لیکن کم لوگ جن میں ہم بھی شامل ہیں‘ ان الفاظ کے معانی پر غور کرتے ہیں۔ اب اسی لفظ ’’بے مُحابا‘‘ کو دیکھ لیجیے، استعمال صحیح کیا ہے لیکن اگر ’’بے‘‘ ہے تو ’’محابا‘‘ بھی کچھ ہوگا۔ ’’بے‘‘ تو فارسی کا حرفِ نفی ہے، یعنی بغیر مُحابا کے… اور مُحابا کی شکل کہہ رہی ہے کہ یہ عربی ہے۔ عربی میں اس کے کئی معانی ہیں مثلاً لحاظ، مروت، پاسداری، صلح، اطاعت، فروگزاشت، ڈر، خوف، احتیاط۔ اردو میں بے مُحابا عموماً بے خوف و خطر یا بلا لحاظ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ بھی بے مُحابا استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ سب عربی کے الفاظ ہیں جن میں ’’بے‘‘ کا سابقہ لگاکر نفی بنالی گئی۔ ’’بے تحاشا‘‘ کے بارے میں شاید ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ مُحابا کی تحاشا بھی عربی ہے: بے زاری ظاہر کرنا، اجتناب، پرہیز، ڈر وغیرہ۔ بے تحاشا کا مطلب ہے: مضطربانہ، بے اطمینانی سے، اندھادھند وغیرہ۔
عرب ممالک میں پیٹرول وغیرہ کو محطّہ کہا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے ٹیلی ویژن اسٹیشن کا ترجمہ کیا تھا ’’محطہ آلہ دید بعید‘‘۔ یہ ترجمہ ہی اتنا ثقیل و طویل ہے کہ نشریات ختم ہوجائیں گی۔ ہندی میں ’’دُور درشن‘‘ بہت اچھا ترجمہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کا ترجمہ تلاش کیا جائے۔ جو لفظ زبان میں رائج ہوجائے اور زبان پر چڑھ جائے اُس سے چھیڑ خانی نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ جن انگریزی الفاظ کا عام فہم متبادل موجود ہے اسے ضرور استعمال کیا جائے۔ اخبارات میں ’’ممبران‘‘ بڑی کثرت سے نظر آتا ہے۔ یہ نہ انگریزی، نہ اردو… آدھا تیتر، آدھا بیٹر ہے۔ اب یا تو ممبرز لکھا جائے ورنہ ارکان لکھنے اور کہنے میں کیا تردد ہے! اسٹینڈنگ کمیٹی کو مجلسِ قائمہ لکھنے اور کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں۔ ایگزیکٹو کمیٹی کو مجلس منتظمہ کہا جائے، لیکن اس کا وہ رعب نہیں پڑے گا جو انگریزی میں پڑتا ہے۔ ہم اب تک من حیث القوم انگریزی سے مرعوب ہیں لیکن انگریزوں سے نہیں، اب امریکہ سے مرعوب ہوتے ہیں۔ یاد آیا، ایک ورکنگ کمیٹی بھی ہوتی ہے جو سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔ کام اس کا کیا ہوتا ہے، یہ تو شاید کسی کو معلوم نہ ہو، لیکن اسے بھی مجلسِ عاملہ کہا جا سکتا ہے۔ چیئرمین کسی پارٹی کا ہو یا کسی تعلیمی شعبے کا، اسے صدر نشین کہا جائے تو وہ بھی برا مانے گا کہ شاید اس کا عہدہ یا منصب گھٹایا جارہا ہے۔ ویسے چیئرمین کا صحیح ترجمہ تو ’’کرسی نشین‘‘ بنتا ہے، لیکن کرسی پر کوئی بھی قابض ہوسکتا ہے۔ ہم خود اِس وقت کرسی نشین ہیں۔ یہ بھی عربی اور فارسی کا مرکب ہے۔ کرسی عربی کا لفظ ہے۔ اردو میں عام طور پر عرش، آسمان کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہے: چھت، تخت، بادشاہ کا تخت، وہ جگہ جو آسمانوں کے اوپر ہے اور جہاں خدا کا تخت ہے۔ خدا کے عرش کو عرشِ اعظم کہا جاتا ہے اور عرشِ اکبر انسان کے دل کو کہتے ہیں۔ کسی کسی کا دماغ بھی عرش پر پہنچ جاتا ہے۔ عربی میں عرش کی تصغیر عریش ہے یعنی چھوٹی کرسی، دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہ، پھونس سے بنا ہوا چھپر جو باغوں اور فصلوں کی نگرانی کے لیے عارضی طور پر بنا لیتے ہیں۔ جنگِ خندق کے دوران ایک پہاڑی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ دار جگہ بنائی گئی تھی، اسے بھی عریش کہا جاتا ہے۔ بعد میں اس کی جگہ مسجد فتح بنادی گئی۔ لڑکیوں کا نام عریشہ رکھا جانے لگا اور بحری جہازوں میں عام مسافروں کے لیے عرشہ ہوتا ہے، وہ بھی عرش ہی سے ہے۔
محطہ تو ظاہر ہے کہ احاطہ سے ہے اور یہ لفظ اردو میں عام ہے۔ محیط بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن پیٹرول پمپ وغیرہ کے لیے محطہ استعمال نہیں ہوتا۔ اسی سے ایک لفظ محاط ہے یعنی گھیرا گیا، احاطہ کیا گیا۔ اس کا ایک مطلب ’’مشہور‘‘ بھی ہے۔
چلیے اب عربی کے بجائے اردو کی طرف آجاتے ہیں، عربی دانی کسی اور کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں ’’تار‘‘ کو کثرت سے مونث لکھا جارہا ہے خواہ وہ بجلی کا تار ہو، کسی جلوس کو روکنے کے لیے بچھائے گئے تار ہوں یا تارِ برقی ہو (ٹیلی گرام)، جس کا رواج شاید اب نہیں رہا۔
لیکن تار کسی بھی قسم کا ہو، یہ فارسی کا لفظ ہے اور مذکر ہے۔ مطلب اس کا ہے: ’’تاگا، دھاگا، کسی دھات کا لمبا ڈورا، سلسلہ، قوام، پیپ، تارِ برقی وغیرہ۔‘‘ اب خواہ کانٹے دار تار بچھائیں یا یہ تارِ نگاہ ہو، یہ مذکر ہی رہے گا۔ فارسی میں تار کا ایک مطلب اندھیرا اور تاریک بھی ہے۔ تیرہ و تار تو سنا ہی ہوگا، نہیں تو اب پڑھ لیں۔ تیرہ تاریک اور اندھیرے کو کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے:۔
شبِ غم، تیرہ بختی، فسردہ خاطری اپنی
گری کیا دیکھ کر بجلی مرے اس ساز و ساماں پر
تارِ نگاہ کے بارے میں لکھنؤ کے شاعر امام بخش ناسخ نے کہا تھا:۔
جلا رنگ اے دیدۂ خونبار اب تارِ نگاہ
ہے محرم اس پری پیکر کو ناڑا چاہیے
یعنی محرم میںکمربند بھی سرخ درکار ہے۔ ضمناً یاد آیا کہ اردو میں کمربند کو اِزار بند بھی کہتے ہیں اور اِزار عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: پاجامہ یا پجامہ۔ تار کا استعمال سڑک پر بچھانے یا تار بندی (بجلی کے تار نصب کرنے کا عمل) ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کے اور کئی استعمال ہیں، مثلاً ’’تارباراں‘‘۔ اسی تار کا دو مرتبہ استعمال معنی بدل دیتا ہے۔ یعنی ’’تار تار‘‘… اب اس کا مطلب دوہرے تار بچھانا نہیں بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرنا، چیتھڑے کردینا، بوسیدہ، بہت زیادہ پھٹا ہوا کپڑا، تار تار کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کردینا جیسے کہیں آئین و جمہوریت کو تار تار کردیا جاتا ہے۔ تار تار بکنا اور تار تار بولنا بھی محاورے میں ہے۔ ایک ’’بے تار برقی‘‘ بھی ہوتا ہے جو وائرلیس کا بہت اچھا ترجمہ ہے مگر رائج نہیں ہوا۔ بہرحال، تار مذکر ہی ہے اسے مونث لکھنا اور کہنا صحیح نہیں۔
۔(شائع شدہ21دسمبر 2018ء)۔