سماجی و اقتصادی زندگی کے تعطل کے ساتھ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان المبارک رخصت ہو گیا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے نصف آخر میں عید کی تیاریوں کے لیے کچھ اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوئی تھیں کہ جمعے کا دن قوم کو ایک اور صدمے میں مبتلا کر گیا۔ سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے ابتدائی مرحلے میں اندرون ملک پروازوں کی محدود اجازت دی گئی تھی، اسی سلسلے میں لاہور سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے8303 کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئی۔ تباہ ہونے والا بدقسمت طیارہ ایئرپورٹ کی ہوائی پٹی کے قریب ماڈل کالونی کی گنجان آبادبستی کے رہائشی مکانوں پر گر پڑا جس نے درجنوں سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچایا۔ طیارے کے حادثے نے پوری قوم مغموم کردیا۔ غم کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس بھی ہے۔ اس حادثے نے قومی زندگی کے بارے میں کئی اہم سوالات کو ایک بار پھر قائدین اور حکمرانوں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی میں حادثات کی کثرت یوں ہے؟ پی آئی اے کے طیارے کا حادثہ پہلی بار واقع نہیں ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں حادثات کی فہرست بھی شائع اور نشر کردی ہے۔ اس حادثے کے بعد تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، لیکن کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ قوم کے لیے شائع کی جائے گی اور اس حادثے سے سبق حاصل کیا جائے گا اور ممکنہ انسانی وسائل کے مطابق تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا ،مسئلہ صرف فضائی حادثات کا ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی ہے ملک کی سڑکیں اور شاہراہیں غیر محفوظ ہیں۔ ٹرین کا سفر غیر محفوظ ہے۔ مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے کہ درست تحقیقات کرکے حادثے کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے اور سزا و جزا کے نظام پر عملدارآمد کیا جائے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر صرف پی آئی اے اور ریلوے ہی کو دیکھ لیا جائے تو ان اداروں کی ایک روشن تاریخ ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ادارے تباہ ہوگئے ۔ اس حادثے میں تخریب کاری یا دہشت گردی کے شواہد نہیں ملے ۔ ماہرین دست یاب معلومات کی بنا پر تجزیہ کررہے ہیں اس بات پر تقریباً تمام تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ مرحوم پائلٹ پر تمام ذمے داری لاد کر حقائق پر مٹی ڈال دی جائے گی۔ طیارے حادثے کی شفاف تحقیقات اور اس کے نتائج کے مطابق رویوں میں تبدیلی قواعد وضوابط کی پابندی کا تعلق ہماری پوری قومی زندگی سے ہے۔ آزادی کے بعد ہماری قومی زندگی حادثات سے بھری ہوئی ہے۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے قائد لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ قومی سفر کے انحراف کا یہ نقطہ آغاز تھا۔ اس واقع نے پاکستان کو سرزمین بے آئین بنادیا۔ قومی زندگی میں مداخلت اور مارشل لا کی حکمرانی کے آغاز کے لیے پہلے وزیراعظم اور قوم کے اعتماد کے حامل رہنما کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔ دستور ساز اسمبلی قائد ملت لیاقت علی خان کی رہنمائی میں قرار داد مقاصد کی صورت میں سمت سفر متعین کرچکی تھی اور اگلا مرحلہ دستور کی تدوین تھا لیکن دستور سازی سے پہلے ہی قانون کی حکمرانی کے تصور اور عمل کا خاتمہ کردیا گیا۔ قائد ملت کی شہادت سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے تک کسی بھی حادثے، کسی بھی سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئی۔ ماضی قریب میں بھی کئی حادثات اور سانحات پیش آئے۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ فضا میں تباہ کردیا گیا۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنادیا گیا۔ جو اسی میدان سے خطاب کرکے نکلیں تھیں۔ جہاں لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی اپنی حکمرانی میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر سفاکی سے قتل کر دیا گیا لیکن آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ مرتضیٰ اور بے نظیر کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا۔ 12 مئی کے واقعات، بلدیہ ٹائون فیکٹری کا سانحہ، نشتر پارک میں 12 ربیع الاول کے جلسے میں دہشت گردی اور سانحہ ساہیوال جیسے کئی واقعات ہیں جن کی رپورٹیں سرد خانے میں ڈال دی گئی ہیں۔ طیاروں کے تو کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں ٹرین میں آتشزدگی کا ہولناک سانحہ پیش آ چکا ہے، کیا ان سانحات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ طیارے کے حادثے سے قبل چینی بحران اور قومی دولت کی لوٹ مار کے بارے میں قائم ایک تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ حکومت نے شائع کی ہے، اس کے بارے میں بھی تمام تجزیہ کاروں کا اتفا ق ہے کہ ملک پر جو مافیا حکمران ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا یہ حکمراں مافیا جب لیاقت علی خان، جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کو سر عام قتل کرا سکتا ہے اور جنرل پرویز مشرف کو جرم ثابت ہونے کے باوجود محفوظ رکھ سکتا، ہے تو وہ مافیا بد عنوانوں کو سزا دینے کا نظام کیسے قائم کر سکتا ہے۔ جب میرٹ کی پامالی کو کوٹہ سسٹم کے نام پر اُصول بنا دیا جائے تو ایسا ہی نظام بنے گا، جس میں حادثات بھی ہوں گے اور ان کی اصلاح بھی نہیں ہو سکتی۔ ہماری مقتدرہ نے انقلاب کے راستے کو روکنے کے لیے ’’ریفارم‘‘ کا فارمولا دیا ہے لیکن نا اہل اور بد عنوان طاقتور طبقات کی موجودگی کسی بھی ’’ریفارم‘‘ کے منصوبے کی نا کامی کا اظہر من الشمس ہے۔