چین بھارت تصادم

پاکستان کو غیرجانب دار کرنے کی امریکی خواہش

امریکہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے پاکستان اور بھارت سے کنٹرول لائن پر امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2003ء کی جنگ بندی کے احترام کے لیے کشیدگی ختم کرنے کے عملی اقدامات کا خیرمقدم کریں گے۔ امریکی تھنک ٹینک میں لیکچر دیتے ہوئے ایلس ویلز نے عملی اقدامات کی تمام ذمہ داری پاکستان پر عائد کی اور شدت پسندوں کے مراکز ختم کرنے جیسے اقدامات پر زور دیا۔ حافظ سعید کی نظربندی اور وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کی تعریف کی گئی کہ کنٹرول لائن عبور کرنا کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی ہوگی۔
ایلس ویلز ایک رخصت ہوتی امریکی انتظامیہ کی اہلکار ہیں، اور حیرت انگیز طور پر امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں معمولی سی بہتری کسی مجموعی تبدیلی اور ذہنوںاوردلوں کے زنگ کے اترنے کی وجہ نہیں بلکہ اس ’’ہنی مون‘‘پیریڈکا تعلق افغانستان سے امریکی فوجی انخلا میں مدد سے ہے۔ افغانستان کے مستقبل، پاک بھارت تعلقات، پاک چین تعلقات اور سی پیک سمیت کشمیر جیسے معاملات پر امریکہ اور پاکستان کے تصورات میں سرِدست کوئی نقطۂ اتصال نہیں۔ امن قائم کرنے کی تمام ذمہ داری یہ کہہ کر پاکستان پر ڈالنا کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا، عملی طور پر بھارت کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش ہے۔ ایلس ویلز نے کشمیر کے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے پانچ اگست کے یک طرفہ بھارتی اقدامات پرلب کشائی سے گریز کیا، اور یوں بھارت کو اس راہ پر سفر جاری رکھنے کا سر ٹیفکیٹ جاری کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان2003ء کی جنگ بندی امریکی دبائو اور کوششوں کے باعث ممکن ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ بظاہر برابری کے تعلقات کا تاثر دے رہا تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے تھے، اور امریکہ کی پوری کوشش تھی کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کیمپ ڈیوڈ طرز کا کوئی سمجھوتا ہو، کشمیریوں کو کچھ اختیارات ملیں اورکنٹرول لائن نرم ہوجائے، اس کے آر پار آمد و رفت میں آسانی ہو، اور پاکستان کشمیر میں سیاحتی حقوق حاصل کرکے مطمئن ہوجائے۔ پاکستان ایک موہوم امید پر اس راہ پر آگے بڑھتا رہا، مگر بھارت کشمیر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے پر تیار نہیں ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز واجپائی معاہدے کی طرح مشرف من موہن معاہدہ بھی وقت کی دھول بن کر اُڑ گیا۔ ان معاہدوں میں کشمیریوں کی قربانیوں، تاریخی جدوجہد اور مستقبل کے واضح نقشے کو نظرانداز کیا گیا تھا، اور ان میں صرف امن پر زور دیا گیا تھا، اور امن برائے امن کشمیریوں کا منتہائے مقصود نہیں تھا بلکہ ان کے لیے اصل اہمیت اپنے سیاسی مطالبات کی تھی۔
2003ء کی جنگ بندی دس بارہ سال تک تو جیسے تیسے چلتی رہی، مگر اس کے بعد کنٹرول لائن دوبارہ آگ اور خون کی لکیر بن گئی۔ اب تو اس جنگ بندی کی کوکھ سے جنم لینے والے’’پیس پروسیس‘‘کی آخری نشانی چکوٹھی مظفرآباد بس سروس اور محدود سی تجارت بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس طرح 2003ء کی جنگ بندی کا معاہدہ عملی طور پر ہوائوں میں تحلیل ہوگیا ہے۔ اب دونوں ملکوں کو جنگ بندی کا نیا معاہدہ کرنے کی ضرروت ہے۔
ایلس ویلز کو جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کا خیال اُس وقت آیا جب خطے میں کئی ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور ہر جگہ اس کشیدگی کا مرکزی کردار بھارت ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کشیدگی میں تیزی آرہی ہے اور دونوں طرف کی افواج میں دھینگا مشتی سے بات آگے نکل گئی ہے، اور چین کے جنگی ہیلی کاپٹر علاقے میں محو ِ پرواز ہیں۔ چینی سفارت کاروں کا لہجہ بھارت کے بارے میں تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ نیپال کے ساتھ سڑک کا تنازع شدت اختیار کررہا ہے، اور نیپال کی حکومت بھارت کو پوری قوت سے آنکھیں دکھا رہی ہے۔ بھارت نے نیپال کے علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے جو نقشہ جاری کیا تھا نیپال نے نہ صرف اس کی تصحیح کرکے نیا نقشہ جاری کیا ہے، بلکہ نیپال میں ’’گریٹر نیپال‘‘کے نعرے بلند ہونے لگے ہیں۔ گریٹر نیپال میں بھارت کے بہت سے علاقے بھی شامل ہیں۔ نیپال میں بھارت سے نفرت کی ایک لہر چل پڑی ہے اور نیپالی نیشنل ازم کا جذبہ زوروں پر ہے۔ نیپالیوں کی ایسی وڈیوز وائرل ہورہی ہیں جن میں وہ نریندر مودی اور بھارتیوں کو دھمکیاں دے کر اپنی نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان کے سابق کرکٹر شاہد آفریدی کو بالی ووڈ کی مشہور نیپالی اداکارہ منیشاکوئرالہ کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے یہ کہہ کر بھارتی میڈیا کے تیروں کا رخ اپنی جانب موڑ لیا کہ ’’نیپال کا جاری کردہ نقشہ اور مؤقف ٹھیک ہے‘‘۔ منیشاکوئرالہ پر بھی اب بھارتی میڈیا وہی الزام لگا رہا ہے جو کل تک پاکستانیوں پر لگا رہا تھا، یعنی کھائو بھی ہندوستان کا، کمائو بھی ہندوستان سے اور مخالفت بھی ہندوستان کی ہی کرو۔ پاکستان کے ساتھ تو بھارت کے تنازعات پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور اس میں کہیں ٹھیرائو اور مراجعت کا امکان نہیں۔ اس طرح تین ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بھارت کے معاملات شدید کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں کسی بھی مقام سے مسلح تصادم کے آغاز کا دھماکہ ممکن ہے۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی باقاعدہ تصادم کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ سی پیک کے زیرو پوائنٹ کو ختم کرنے کے لیے گلگت بلتستان پر بھارت کی مہم جوئی بھی ایسے کسی تصادم کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس مرحلے پر امریکہ کی یہ خواہش اور کوشش ہوگی کہ پاکستان 1962ء کی چین بھارت جنگ کی طرح نیوٹرل ہوجائے۔ اس جنگ میں نیوٹرل ہونے کا خمیازہ پاکستان کو صرف ڈھائی سال بعد ہی اس طرح بھگتنا پڑا تھا کہ 1965ء میں بھارت کے ساتھ اسے جنگ لڑنا پڑی تھی، اور اس جنگ میں ظاہر ہے کہ توازن نہیں تھا، اس لیے پاکستان بھارت کے حملے کو روکنے کو ہی بڑی کامیابی جان کر آج تک جشن مناتا ہے۔ چین بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کو کشمیر کا محاذ کھولنے کا مشورہ بھی دیا تھا، مگر پاکستان کے حکمران امریکی جھانسے میں آگئے تھے، جنہوںنے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی یقین دہانی کراکے پاکستان کو غیر جانب دار رہنے پر مجبور کیا تھا۔ امریکہ اِس بار بھی یہ چاہے گا کہ چین اور بھارت کے کسی ممکنہ تصادم میں بھارت کی مشرقی سرحد خاموش اور پُرسکون رہے تاکہ بھارت کو دومحاذوں کی جنگ کے چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بھارت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو نشانہ بنانے کی باتیں کرکے اِس بار پاکستان کو نیوٹرل نہ رکھنے کا تہیہ کیے بیٹھا ہے۔ اس مرحلے پر امریکہ کو پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور کنٹرول لائن پر امن کے قیام کی اپیل کا خیال دیر سے سہی مگر آتو گیا ہے، اور اس کا پس منظر پاکستان نہیں بلکہ بھارت کو کسی ممکنہ مشکل سے بچانے اور اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے سے ہے۔