پاکستان کی خارجہ پالیسی کا امتحان
عالمی وبا کورونا دنیا بھر میں ایک نئے معاشی اور سماجی نظام کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ کورونا وائرس مستقبل کے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے والا ہے۔ وہ نیا عالمی نظام کیسا ہوسکتا ہے، اور کیا پاکستان اس نئے عالمی نظام کے لیے تیار ہے؟ نئے عالمی نظام میں پاکستان کی قومی اور اندرونی سلامتی کے لیے کیا نئے فیصلے ہوسکتے ہیں؟ یہ سوالات اس وقت صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قومی سیاسی قیادت کے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی فرم PEW کے حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق 66 فیصد امریکی کورونا وائرس کی حالیہ وبا کے باعث چین کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔ دفتر خارجہ میں اس سروے پر ملکی مفادات کے تحفظ کی روشنی میں باریک بینی سے تجزیہ ہورہا ہے۔ اس تجزیے کے نتائج جلد مرتب کرلیے جائیں گے۔ اس سروے پر پاکستان کا تجزیہ کسی حد تک ہماری معاشی اور خارجہ امور سے متعلق حکمتِ عملی کے نئے راستوں کی وضاحت کردے گا۔ یہ بات بہت اچھی طرح سمجھی اور سوچی جارہی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات سے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ہمارا دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں پر بہت انحصار ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے رابطہ سڑکوں کے نظام اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے، جبکہ عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے لیے امریکی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے، اور ان کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال بنتی جا رہی ہے جو تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود اوّل دن سے ہی امریکہ کا اتحادی ہے، اور چین سے بھی اس کے گہرے اقتصادی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ سی پیک پاکستان کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے جسے وہ ترک نہیں کرسکتا، جب کہ امریکہ اس منصوبے کی مخالفت کرتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان پر دبائو ہے۔ پاکستان پر چینی قرضوں یا سرمایہ کاری کے بارے میں امریکہ کے اعتراضات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ چین بھی خاموش نہیں بیٹھا ہوا، وہ عالمی حکمرانی پر قابض ہونے کے لیے اپنی صلاحیت اور طاقت کو ثابت کرنے کی خاطر وبا سے لڑنے کے لیے امریکی کمزوریوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود کورونا وائرس ٹیسٹنگ کے سلسلے کو وسعت دینے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اور چین نے ووہان کے ہر شہری کا ٹیسٹ لینے کا پلان پیش کردیا ہے، اور وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کی عالمی پذیرائی کا منتظر ہے۔ یہ ایشو اس وقت امریکہ اور چین کے مابین ایک سرد جنگ کا باعث بنا ہوا ہے۔ مغرب اور امریکہ ایک جانب کھڑے ہیں۔ چین چہرے کے ماسک اور وینٹی لیٹر کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کرکے پوری دنیا میں تقسیم کررہا ہے۔ امریکہ اور چین باہمی تجارت اور اقتصادی شعبوں میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ سرد جنگ مشکل دکھائی دے رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ امریکی انتخابات کے لیے ضرور کوئی مہم جوئی یا ہیجان خیز تجربہ چاہتے ہیں۔ برآمدات کے اعتبار سے چین امریکہ کی تیسری بڑی مارکیٹ ہے اور سب سے زیادہ امریکی خزانے کی سیکیورٹیز بھی چین کے پاس ہیں۔ سرد جنگ کے باوجود دونوں ملک رابطے میں ہیں اور دونوں حال ہی میں تجارتی خسارے کو کم کرنے پر متفق بھی ہوچکے ہیں، جس کے بعد چین نے امریکہ سے اضافی 200 ارب ڈالر کی مصنوعات خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ طبی سامان خریدنے کے لیے چین سے بات چیت کا متمنی ہے۔ مغرب کو اس نے یہی طبی سامان لینے سے منع کردیا تھا۔
امریکہ میں عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ ماسک کی تعداد کے مقابلے میں صرف ایک فیصد ماسک دستیاب ہیں، اور مطلوبہ وینٹی لیٹرز کے مقابلے میں صرف 10 فیصد وینٹی لیٹر دستیاب ہیں۔ چین کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں برآمدات کا حصہ 20 فیصد ہے اور وہ نئی ملنے والی چینی مارکیٹ گنوانا نہیں چاہتا۔ یہ صورتِ حال بالکل واضح ہے کہ سرد جنگ میں الجھے ہوئے دونوں خاموش معاشی اتحادی بھی ہیں۔ یہ بات تقریباً طے ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور چین ہی عالمی فریم ورک بنائیں گے۔ اب یہاں پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نئے عالمی فریم ورک میں کہاں کھڑا ہوگا۔ ملک کی قومی سلامتی کے پیرا میٹرز طے کرنے والے پالیسی ساز کسی بھی جانب جھکائو کے بجائے مسلم دنیا اور امریکہ وچین کے ساتھ اپنے تعلقات کو توازن میں رکھنے کے حامی رہے ہیں۔ نئے عالمی نظام میں عالمی ادارۂ صحت اب ایک اہم فریق اور اسٹیک ہولڈر بن کر سامنے آچکا ہے اور کوئی بھی ملک اسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔
ایک نئی صف بندی یہ بھی ہورہی ہے کہ متعدد ممالک امریکہ اور چین دونوں سے متعلق تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ ممالک امریکہ اور چین دونوں کے طرزِعمل کی وجہ سے خود کو تنہا بھی پارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ باہمی اتحاد قائم کرلیں۔ آسٹریلیا اور جاپان مشترکہ طور پر ٹی پی پی-11 تجارتی اتحاد کا قیام عمل میں لے آئیں۔ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ آئندہ دہائیوں کے دوران امریکہ اور چین کے اثر رسوخ سے آزاد بین المملکتی اتحاد قائم ہوسکتے ہیں۔ ان اتحادوں میں شامل ممالک موسمیاتی تبدیلی، منظم علاقائی باہمی تجارت کے لیے ٹیکس چھوٹ کے فیصلے کرسکتے ہیں۔ یہ تمام تر صورتِ حال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ جنوب ایشیا میں بھارت، افغانستان اور ایران اہم ملک ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انہیں کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت پر پوری نظر رکھنے کی ضرورت اب ماضی سے کہیں بڑھ گئی ہے، اب اسلام آباد کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام کے لیے خود کو تیار کرے۔ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس کے علاوہ دیگر خطرات جس بڑے پیمانے پر موجود ہیں وہ اتنے ہی زیادہ مہلک ہیں جتنا کورونا وائرس۔ سب سے اہم مسئلہ غیر منصفانہ اور ظالم عالمی اقتصادی نظام ہے۔ محروم طبقے میں اس نظام کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ ایسا نظام جو انہیں غریب سے غریب تر کرنے اور ایک چھوٹی سی اقلیت کو پیسے کمانے میں مدد دیتا ہے۔ بالائی طبقے کا 0.1 فیصد حصہ 90 فیصد نچلے طبقے کے مقابلے میں 196 گنا زیادہ پیسے کماتا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث برطانیہ میں مرنے والے ایک لاکھ افراد میں سے 21.4 فیصد مرد کم آمدن والی ملازمتوں سے وابستہ تھے، جبکہ 5.6 مرد سفید پوش ملازمتوں سے وابستہ تھے۔پانی کی قلت خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک ارب 10 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی ہی نہیں رکھتے۔ ہماری زراعت کا قومی مجموعی پیداوار میں حصہ 19.8فیصد تھا جو2016ء میں 19.5 فیصد،2017ء میں 18.9فیصد اور سال2018ء میں زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 18.5فیصد پر آگیا ہے جو ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی ہے۔ زرعی شعبے میں مسلسل گراوٹ سے معیشت کے تمام شعبہ جات بری طرح متاثر ہورہے ہیں، جبکہ ہماری کُل برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ بلا واسطہ و بالواسطہ زراعت کے شعبے سے ہی وابستہ ہے، اور 38 فیصد سے زائد لوگوںکا روزگار اسی شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ ہمارے ملک میں چلنے والی صنعتوں کا پہیہ بھی زرعی خام مال سے رواں دواں ہے۔ زرعی شعبے میں تنزلی کی وجوہات میں بجلی وڈیزل کے مہنگے ریٹس، زرعی مشینری و آلات پر ٹیکسوں کی بھرمار اور پیداواری لاگت میں اضافہ جیسے کئی مسائل شامل ہیں جن کی وجہ سے کاشت کار کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے زرعی شعبے کو سنبھالا دینے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی سیکٹر کے لیے57ارب روپے کا کسان دوست پیکیج دیا جو ایک بہترین قدم ہے، اس فیصلے سے تمام کاشت کاروں خاص کر کپاس کے کسانوں کو ضرور ریلیف ملنا چاہیے۔ حکومت اس وقت گنے کے بجائے کپاس پر توجہ دینا چاہتی ہے، یہ شعبہ ملک کی ٹیکسٹائل اور گھی انڈسٹری سے وابستہ ایک سو سے زائد صنعتوں کو ساتھ لے کرچلتا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کپاس کی فصل کے لیے فیصلہ لے چکی ہے کہ کھادوں پر 37 ارب روپے،کپاس کے بیجوں پر 2.3 ارب روپے، اورکپاس کے کیڑے مکوڑوں خاص کر سفید مکھی کی روک تھام کے خلاف زرعی زہروں پر6 ارب روپے کی کسانوں کو سبسڈی دی جائے گی۔ زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی، مقامی طور پر تیار کیے جانے والے ٹریکٹرز کی سیلزٹیکس میں سبسڈی، مقامی طور پر تیار کردہ زرعی مشینری اور درآمدی زرعی آلات اور ٹریکٹرز پر اربوں روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔70ارب کی سبسڈی کے ذریعے زراعت کو اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ بجٹ میں طریقہ کار واضح کردیا جائے گا کہ یہ سبسڈی کسانوں کو براہ راست دی جائے گی یا اسکریچ کارڈ کے ذریعے دی جائے گی۔
انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کے محاذ پر کیا ہورہا ہے؟
انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور اس تنائو کو 1999ء میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جارہا ہے۔ اس سے قبل 2017ء میں انڈیا اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئی تھیں، لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ سرحدی تنازع اس قدر کشیدہ ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کے روز بری، بحری اور فضائی تینوں افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سے مشورہ کیا ہے لیکن اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں ا?ئی ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تینوں افواج کے سربراہان اور چیف ا?ف ڈیفنس اسٹاف بپن راوت سے علیحدگی میں بات چیت بھی کی ہے۔ ان دونوں میٹنگز کا پیش خیمہ رواں ماہ ایل اے سی پر کم از کم چار مقامات پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ رہی ہے۔
لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے، جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش ا?ئے ہیں۔ تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل منوج نراونے نے کہا ہے کہ ان دونوں علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے انتہائی خراب صورت حال کے پیش نظر اپنی فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے اور ملک کی سالمیت کا مضبوطی کے ساتھ دفاع کرنے کے لیے کہا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی زنہوا کے حوالے سے پی ٹی آئی نے لکھا کہ شی جن پنگ نے کہا کہ فوج کو خراب ترین صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور اس کے لیے اپنی تربیت اور جنگی تیاری کی سطح میں اضافہ کردیا ہے۔
صورت حال کشیدہ کیوں ہوئی؟
گزشتہ ہفتے پیر کے روز بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا کہ ’مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیا کے ذریعے یک طرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوشش کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کردیا ہے‘۔ انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی نے انٹیلی جنس ماہرین کے اوپن سورسز ڈیٹریسفا کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین پینگوگ جھیل سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ایئربیس پر بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کررہا ہے۔ اس سے قبل انڈیا نے کہا تھا کہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ اسی کے ساتھ چین کا الزام ہے کہ انڈیا وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کررہا ہے۔ خطے کی اس صورت حال پر اپنے ردعمل میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر انڈیا نے متنازع علاقے میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر خطے کے امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کو انڈیا کے عزائم کا نوٹس لینا چاہیے کہ انڈیا کس طرف چل پڑا ہے؟ ایک ٹویٹ میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ انڈیا شہریت کے قانون سے بنگلہ دیش، تو ایک جعلی کارروائی سے پاکستان کو خطرہ ہے، جبکہ نیپال/چین کے ساتھ سرحدی تنازعات صورتِ حال کی سنگینی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ادھر پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈیا کو کبھی نیپال سے مسئلہ ہو جاتا ہے اور کبھی افغان امن عمل میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی یہ بلوچستان میں شورش کو ہوا دیتا ہے، اور اب انڈیا نے لداخ میں وہی حرکت کی ہے اور الٹا چین کو مورد الزام ٹھیرانے کی کوشش کررہا ہے۔
انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع کیا ہے؟
انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور 1962ء کی جنگ کے بعد یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش میں انڈیا سے ملتی ہے، اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹر یعنی جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔ بہرحال انڈیا اور چین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی، اور جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیا ہے، تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔ انڈیا مغربی سیکٹر میں اقصائے چن پر اپنا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ خطہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ 1962ء کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’چینی میڈیا میں اس سرحدی تنازعے کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی، لیکن انڈیا میں قوم پرست میڈیا میں اس پر خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہے۔‘
(بی بی سی)