حکومت کے بلڈرز کے پیکیج کو زندہ باد نہیں کہہ سکتے

فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے چیئرمین مسرت اعجاز خان سے انٹرویو

مسرت اعجاز خان مزدور بھی ہیں اور محنت کش بھی۔ پیدل چل کر روزگار تلاش کیا۔ طیب رزق اور علم نافع کے قائل ہیں۔ روزگار کی تلاش میں ان کی کہانی کراچی اور اسلام آباد کے گرد گھومتی ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں پیپلزپارٹی کے جیالے تھے، پی ایس ایف کے سرگرم کارکن رہے ہیں، جیل بھی جاچکے ہیں، جیل سے واپس آئے تو پہلا کام یہ کیا کہ پیپلزپارٹی کو خیر باد کہا، کہ جس جماعت کے لیے جیل کاٹی اُس کا کوئی رہنما گھر کی خبر گیری اور ان کی بیمار والدہ کی تیمارداری ہی نہیں کرسکا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کو صاف صاف بتادیا کہ اس جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتا جس کے لیے جیل کاٹو اور پارٹی رہنما حال تک نہ پوچھیں۔ سیاست سے اب دور دور تک تعلق نہیں ہے، لیکن سیاست دانوں میں سراج الحق ان کے پسندیدہ سیاست دان ہیں، ان کے ساتھ تصویر کھنچوانا فخر سمجھتے ہیں، اس بات کا اظہار انہوں نے پاکستان بزنس فورم کے زیر اہتمام پانچ فروری کو کشمیر فورم میں بھی کیا تھا۔ چالیس سال سے رئیل اسٹیٹ پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ ہیں، پورے ملک میں جانے پہچانے جاتے ہیں، کراچی میں ڈیفکلیریا کی بنیاد ڈالی تھی، یہ تنظیم آج بہت بڑی نمائندہ تنظیم بن چکی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں تعمیراتی انڈسٹری کے لیے ایک پیکیج دیاہے، اس بارے میں ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ یہ کام گراس روٹ لیول پر ہونا چاہیے، اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تعمیراتی شعبے کی فلاح کے لیے وہ حکومت کے اداروں اور خصوصاً اس شعبے کے ذمہ دار جنرل انور حیدر علی سے بھی ملاقات میں گزارشات کرچکے ہیں۔ حکومت کے تعمیراتی پیکیج، اور اس شعبے کے حوالے سے ان سے گفتگو کی گئی، جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
…٭…٭…

فرائیڈے اسپیشل: کچھ اپنے بارے میں بتائیے کہ آپ کا یہ سفر کن کن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے؟ آپ جیسے ایک مزدور نے کیسے زندگی کو ایک کامیاب اسٹوری بنایا ہے؟
مسرت اعجاز خان: ملک میں کام کرنے والے ہرمزدور کو سلام۔ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے، آج ہر وہ مزدور جو دیانت داری سے کام کرتا ہے، محنت سے جی نہیں چراتا، وہ اللہ کا دوست ہے۔ جہاں تک میری اپنی بات ہے، چھے ماہ کا تھا کہ والدِ محترم دنیا سے رخصت ہوگئے، مجھے میری والدہ نے محنت، مشقت اور بہت کٹھن حالات میں پالا پوسا ہے۔ میری والدہ نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی غلام تھیں، اور میں انہیں دنیا کی عظیم ترین خاتون سمجھتا ہوں۔ آج جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ کی دعائوں کی وجہ سے ہوں۔ میں ایک سال کا تھا جب میرا خاندان کراچی آیا تھا، یہ غالباً1966ء تھا، ہم پٹیل پاڑا کے علاقے میں آکر ٹھیرے تھے۔ کراچی میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ہم اسلام آباد چلے آئے، یہاں سیکٹر جی سکس میں سرکاری اسکول میں پرائمری تعلیم حاصل کی۔ مجھے شروع دن سے ہی تقریریں کرنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ ہمارے گھر کے معاشی حالات بہت اچھے نہیں تھے، بہت ہی مشکل سے میٹرک کیا۔ انٹرمیڈیٹ میں گیا تو گھر میں معاش کی فکر اور بڑھ گئی تھی، لہٰذا مجھے تعلیمی سفر ادھورا چھوڑ کر خاندان کی گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرنا پڑی۔ جب یہ فیصلہ کیا تو اتفاق سے میرے ایک عزیز نے یہاں پراپرٹی خریدی، میں اس پورے عمل میں شریک رہا جس سے مجھے دو ہزار روپے کمیشن ملا، اس کے بعد ہم تین دوستوں شاہد خان اور تنویر ایوب نے اس کام میں مزید دلچسپی لی اور رئیل اسٹیٹ کے کام کو بطور روزگار چن لیا۔ اُن دنوں ملک میں تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ کا ملنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا، اور ہم نے دفتر ایک ایسی جگہ بنایا جس کے نزدیک سیمنٹ ایجنسی تھی۔ ایک چھوٹے سے دفترسے کام شروع کیا تھا، حالات یہ تھے کہ جیب میں دفتر کا کرایہ نہیں تھا، گھر سے فرنیچر لاکر دفتر میں رکھا۔ کچھ عرصے کے بعد پہلی بڑی ڈیل ہوئی، کمیشن کی باہمی تقسیم کے بعد میرے ہاتھ میں پانچ سو روپے آئے تو گھر جاکر اپنی والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ انہوں نے تفتیش شروع کردی کہ بتائو یہ پیسے کہاں سے آئے؟ کیونکہ گھر کی کُل ماہانہ آمدنی تو چار سو روپے تھی، یہ پانچ سو کہاں سے آگئے؟ جب میں نے انہیں ساری تفصیل بتائی تو مطمئن ہوگئیں۔ اس کے بعد مسلسل توجہ سے کام کرتا رہا، اور اپنے کالج فیلوز سے بھی بہت مدد لی۔ سابق آئی جی سندھ کلیم امام میرے جونیئر اور کالج فیلو ہیں۔ کالج میں چونکہ بہت متحرک تھا اور اسی دوران بھٹو حکومت ختم ہوئی اور ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا، جنرل ضیاء الحق آگئے۔ بھٹو حکومت کی برطرفی پر دلی طور پر بہت رنجیدہ ہوا۔ میں خود پی ایس ایف میں تھا اور میرے بھائی ریاض خان این ایس ایف کے مرکزی صدر تھے۔ میں نے پارٹی قیادت سے کہا تھا کہ میں طالب علموں کی قوت کے ساتھ بھٹو کو جیل سے باہر نکال سکتا ہوں۔ بہرحال بھٹو کی گرفتاری کے بعد پی ایس ایف نے احتجاج کیا، اور طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا۔ لیاقت باغ میں بہت بڑا جلسہ کیا، اس جلسے کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیا۔ پولیس مجھے پہلے مندرہ لے گئی، پھر جاتلی، اور اس کے بعد چونترہ ریسٹ ہائوس لے گئی۔ کچھ عرصے کے بعد بہرحال میری رہائی ہائی کورٹ کے حکم پر ہوئی۔ جب رہا ہوکر گھر آیا تو میرا خیال تھا کہ پارٹی کا سرگرم کارکن ہونے کی وجہ سے میری گرفتاری پر پارٹی کے رہنمائوں نے میری عدم موجودگی میں میرے گھر کی خبرگیری کی ہوگی، لیکن پارٹی کا کوئی رہنما میرے گھر نہیں آیا، جس کا بہت رنج ہوا۔ رہا ہوکر آیا تو اسی روز جتوئی ہائوس سے پیغام آیا کہ پارٹی کی میٹنگ ہے اس میں شریک ہوں۔ میں پارٹی میٹنگ میں گیا اور جاتے ہی کہا کہ آج کے بعد میرا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ آپ میں سے کوئی بھی میرے گھر کی خبر گیری کے لیے نہیں آیا۔ جس پارٹی کے لیے جیل کاٹی اُس کا سلوک ناقابلِ برداشت تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: جتوئی ہائوس میں پارٹی اجلاس میں کون کون شریک ہوتے تھے؟
مسرت اعجاز خان: مصطفیٰ کھر، غلام مصطفیٰ جتوئی سمیت بہت سے اہم رہنما شریک ہوا کرتے تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: ان میں سے کوئی بھی خبر گیری نہیں کرسکا؟
مسرت اعجاز خان: نہیں، ان میں سے کوئی نہیں آیا، میں نے دلبرداشتہ ہوکر سیاست چھوڑ دی اور ساری توجہ روزگار پر مبذول کرلی۔ جیل جانے سے میرا جو چھوٹا موٹا روزگار شروع ہوا تھا وہ سب تباہ ہوگیا۔ اُس زمانے میں چار کروڑ روپے تک نقصان ہوا۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیے کہ محنت جیسی آپ نے کی اس پروفیشن میں، اس جیسی محنت اب بھی کہیں نظر آتی ہے؟ محنت، مستقل مزاجی، اور اپنے کام سے وفاداری ملتی ہے؟
مسرت اعجاز خان: نہیں، نہیں، اب محنت اور دیانت کے بجائے بددیانتی بڑھ گئی ہے، اکثریت چاہتی ہے کہ بس پیسہ کمائو، جیسے بھی ہو۔ اب تو حالت یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ سے شروع ہونے والے اپنے نام کے ساتھ لفظ ’بلڈر‘ لگاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں، اسی کو عزت کا معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا روزگار میرے لیے اولاد کی طرح ہے، اس نے مجھے بہت عزت دی۔ اب تو کسی بھی رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کا الیکشن کروڑوں سے کم میں نہیں ہوتا۔ پیسہ ہی سب کچھ بن گیا ہے، دیانت داری کی جگہ پیسے نے لے لی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: رئیل اسٹیٹ کی کسی بھی تنظیم میں بلڈرز کیوں ہیں؟
مسرت اعجاز خان: یہ بلڈرز اور انویسٹرز رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو خراب کررہے ہیں اور یہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے حق کو بھی کھا رہے ہیں۔ میں تو اس پیشے میں رہتے ہوئے سیاست سے کنارہ کش ہوچکا تھا لیکن2016ء میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ پھر اس میں کسی نہ کسی حد تک آنا پڑا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس پورے عمل میں آپ کا کنٹری بیوشن کیا ہے؟
مسرت اعجاز خان: کراچی میں ڈیفکلیریا میں نے بنائی، میرے ساتھ زکریا محنتی تھے، شاہد علیم تھے، راجا مظہر تھے۔ ہم نے یونٹی گروپ بنایا۔ میں آپ کو2016ء کی بات بتاتا ہوں…
فرائیڈے اسپیشل: وہ بات بھی کریں گے، یہ بتائیے کہ حکومت نے جو اس وقت پیکیج دیا ہے اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
مسرت اعجاز خان: یہ پیکیج میری نظر میں اس شعبے کے مقاصد کو پورا نہیں کرتا، یہ بلڈرز کا پیکیج ہے، اسے میں زندہ باد نہیں کہہ سکتا۔ جب تک گراس روٹ لیول تک عام آدمی کو فائدہ نہیں ملے گا اس پیکیج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ چند لوگ ہیں جنہیں فائدہ مل جائے گا۔ حکومت نے اسے انڈسٹری کا درجہ دیا ہے، اتھارٹی بھی بن رہی ہے، لیکن میرا مؤقف ہے کہ چند افراد کے فائدے کے بجائے اس پیکیج کو گراس روٹ لیول تک لے جایا جائے۔ عام رئیلٹر کو فائدہ ہوگا تو عام آدمی تک یہ فائدہ پہنچے گا۔ میں بھی پتھروں پر چل کر ہی رئیل اسٹیٹ کی کہکشاں تک پہنچا ہوں، جانتا ہوں کہ یہ پیکیج کیا ہے؟ یہ پیکیج چند افراد کے لیے ہے۔ حکومت اگر چند افراد کو نواز رہی ہے یا صرف ان کی فلاح ہی اسے مقصود ہے تو پھر یہ الگ بات ہے۔ بہرحال میں آپ سے 2016ء کی بات کررہا ہوں، اُس وقت کچھ لوگ بڑی تعداد میں چیمبر کے دفتر جارہے تھے۔ معلوم کیا کہ کیا ہوا؟ بتایا کہ حکومت نے ٹیکس لگایا ہے لہٰذا اس کے ردعمل میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ میں بھی چلا گیا۔ وہاں بڑے ہال میں بہت سے لوگ جمع تھے، اُن دنوں رئوف عالم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر تھے، میں نے وہاں ان لوگوں کی گفتگو سنی اور اپنی رائے دی کہ آپ جو بات کررہے ہیں اس سے رئیل اسٹیٹ کی تباہی کی بنیاد رکھی جائے گی کیونکہ مقابلہ سیاست دانوں اور بیوروکریسی سے ہے۔ یہاں میٹنگ کے بعد ایف بی آر میں میٹنگ ہوئی، وہاں اُس وقت کے چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان اور ہمایوں اختر سے ملاقات تھی۔ چیئرمین ایف بی آر نے افسر شاہی کے مزاج کے ساتھ یک طرفہ گفتگو کی اور رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد سے کہا کہ آپ کو کیا پتا کہ رئیل اسٹیٹ بزنس کیا ہوتا ہے! انہوں نے لمبی تقریر کی، جب بات مکمل کرلی تو ہر جانب سٹانا… میں نے یہ سناٹا توڑا اور کہا کہ ’’جناب نثار صاحب! سنبھل کر بات کریں‘‘۔ اور پھر انہیں ان کے ہر اعتراض کا جواب دیا تو چیئرمین ایف بی آر نثار خان کے علاوہ ہمایوں اختر بھی خاموش ہوگئے، انہوں نے سب سے کہا کہ جائیں اور دوبارہ سوچ کر آئیں پھر بات ہوگی۔ میں نے کہا کہ آپ یہاں سے جائیں اور ہمیں ایف بی آر کا یہ ہال دیں تاکہ ہم آپس میں بات کرسکیں۔ وہاں بات تو ہوئی لیکن افسوس کہ بات ایف بی آر نے اپنی منوائی۔ مجھے اسحاق ڈار نے کہا کہ پریس کانفرنس میں میرے ساتھ کھڑے ہوں، میں نے انکار کردیا، لیکن دوسرے تمام رہنما ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے پریس کانفرنس میں تصویر کے چکر میں اسحاق ڈار کے ساتھ چمٹے رہے، جب کہ میں نے اس کمیونٹی کے لیے بہت کچھ کیا، سی وی ٹی میں نے معاف کرایا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کیا چاہتے تھے؟
مسرت اعجاز خان: میں چاہتا تھا کہ اسحاق ڈار کے ساتھ مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ بائیکاٹ کیا جائے، اسی میں ہمارا فائدہ تھا۔ مگر میری رائے کسی نے نہیں سنی۔ پلاٹوں کی قیمت کے تعین کا ایشو تھا، یہ بڑا ایشو ہے، میں نے تجویز دی کہ پانچ سو گز کے پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ رکھی جائے۔ وہاں رئوف عالم نے کہا کہ وہ ایف ایٹ میں انہیں اتنے سائز کا پلاٹ دس کروڑ میں لے کر دکھائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: گویا قیمت مصنوعی بڑھائی گئی؟
مسرت اعجاز خان: ظاہر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پھر کیا ہوا؟
مسرت اعجاز خان: ہم نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ پہلا کنونشن اگست2017ء میں بلایا، جس کے لیے میں نے ملک بھر میں رابطے کیے۔ معلوم ہوا کہ پورے ملک میں 9 ایسوسی ایشن ہیں جن کے عہدیدار منتخب ہیں۔ بہرحال انہیں ساتھ ملایا اور 9 رکنی کمیٹی بنائی گئی، فیصلہ یہی تھا کہ ایک فیڈریشن بنائی جائے۔ اس کے قیام کی سب سے پہلے مخالفت اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن نے کی تھی۔ بہرحال ہم نے رئیل اسٹیٹ کے لوگوں کے کنونشن بلائے۔ کراچی میں، لاہور میں رابطے کیے۔ اسلام آباد کلب میں اجلاس بلایا۔ میجر(ر) رفیق حسرت کو عبوری سربراہ بنایا گیا، یہ ایک عبوری سیٹ اپ تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: پلاٹوں کی قیمت کا تعین کیسے ہوتا رہا؟
مسرت اعجاز خان: یہ ضلعی انتظامیہ اور ایف بی آر کے ذریعے کہہ لیں، ان کی مشاورت سے کہہ لیں یا ان کی سفارشات کی روشنی میں۔ کراچی میں ٹیکس کے ایشو پر ڈیفکلیریا کا اپنا اعتراض تھا۔ بہرحال اب قیمت کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ چیف کمشنر خود رئیل اسٹیٹ کے لوگوں کو بلاتے ہیں اور قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ انہی رابطوں میں مَیں نے فیڈریشن کے قیام کی تجویز دی، جسے آج فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کہا جاتا ہے۔ رئیلٹر لفظ میں نے امریکی ڈکشنری سے لیا تھا، اُس وقت میں نے تہیہ کرلیا تھا اور اس بارے میں چیمبر کے دوستوں کو بھی چیلنج دیا تھا کہ فیڈریشن کے مقابلے میں ایک فیڈریشن کھڑی کرنا چاہتا ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ ہوسکتا ہے؟
مسرت اعجاز خان: ہوگا اور ضرور ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: اب آتے ہیں فیڈریشن کی جانب۔ اس کی تو رجسٹریشن ہی نہیں ہوسکی، اس کی وجہ کیا ہے؟
مسرت اعجاز خان: اس کی ٹیکنیکل وجہ ہے۔ ڈی جی ٹی او کا مؤقف ہے کہ الیکشن ہر سال ہوگا، یہ ویلفیئر فورم نہیں ہوگا اور ہر ممبر ووٹ دے گا۔ ویسے بھی ان کے پاس پہلے سے ہی تین اور درخواستیں پڑی ہوئی ہیں، لیکن ہم بھی کچھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں کہ ہر سال الیکشن کرائو، ویلفیئر کر نہیں سکو گے تو فائدہ کیا! ویلفیئر کے محکمے تو ویسے بھی اب صوبوں کے پاس ہیں۔ کچھ فنی مسائل ہیں جن کی وجہ سے یہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
فرائیڈے اسپیشل: مگر رجسٹریشن نہ ہونے کے باوجود نام تو استعمال ہورہا ہے؟
مسرت اعجاز خان: ہاں ہورہا ہے، مگر قانون سازی کے لیے بھی پیش رفت جاری ہے۔ کوئی نہ کوئی شکل نکل ہی آئے گی۔ ہمیں ڈی جی ٹی او کی جانب سے یہ یقین دلایا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ خود کسی بھی عہدے کے لیے سرگرم امیدوار نہیں بنے؟
مسرت اعجاز خان: جب تک اس بارے میں کوشش ہوتی رہی، دوستوں کو اکٹھا کیا تو کچھ مہربان دوستوں نے کہا تھا کہ اتنی محنت کی ہے تو کوئی عہدہ بھی لیں۔ میں نے کہا کہ عہدہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن دوستوں کے اصرار پر سامنے آیا اور الیکشن میں خود بھی حصہ لیا، لیکن ووٹ برابر ہوگئے۔ اس کے بعد طویل مشاورت ہوتی رہی جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ سب باہم مل کر ایک متفقہ باڈی بنالیں۔ اس طرح سردار طاہر محمود صدر بن گئے اور چیئرمین مجھے بنایا گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: چیئرمین کے پاس اختیار کیا ہے؟ کوئی نہیں۔
مسرت اعجاز خان: یہ بات ٹھیک ہے کہ اختیار نہیں ہے۔ پہلے تجویز کچھ اور تھی، مگر اب تجویز کے مطابق صدر کو اختیار دیا گیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: گویا اپوزیشن حکومت میں شامل ہوگئی؟
مسرت اعجاز خان: میں آپ کے سوال کو سمجھ گیا ہوں، لیکن یہی کہوں گا کہ اب سب کی ذمہ داری ہے کہ مل کر کام کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ لوگ جو سینئر ہیں، اس روزگار کو اپنانے والے جونیئر اور ینگ رئیلٹرز کی تربیت کے لیے کوئی ورکشاپ کریں تاکہ انہیں اس کاروبار کے مثبت پہلو سکھا سکیں، یا وہ خود اپنی دنیا آپ بنائیں گے؟
مسرت اعجاز خان: یہ بہت ضروری ہے، ہم ایک ایسا نظام لارہے ہیں کہ اس بزنس میں آنے والوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام ہوگا جس کے بعد سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔