گرم جوش محبت بے لوث رفاقت سحر انگیز شخصیت
سعادت اللہ حسینی
قرآنِ مجید میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ ایمان کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ (الحجر۱۵:۸۸)(تم ان [مومنین] کے لیے اپنی شفقت کے بازو پھیلا دو)۔ اور آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی گئی کہ لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ(التوبہ ۹:۱۲۹) (تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے، جس کو تمہاری ہرتکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق اور نہایت مہربان ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ کوئی مصافحہ کرتا تو آپؐ اُس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، جب تک وہ الگ نہ کرلے۔ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ کوئی آپؐ سے بات کرتا،تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، اور ہرفرد یہی تصور کرتا کہ آپؐ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
۲؍اپریل سہ پہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا پیرو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا، جس کے بارے میں اس وقت بلامبالغہ ہزاروں لوگ یہ محسوس کررہے ہوں گے کہ وہ سب سے زیادہ مجھے چاہتا تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ اسوے کی پیروی کا بہترین عملی نمونہ، اپنی معاصر شخصیات میں، ہم نے سابق امیرجماعت اسلامی ہند مولانا محمد سراج الحسن رحمۃ اللہ علیہ میں دیکھا ہے۔
گرم جوش محبت اور بے لوث رفاقت، مولانا مرحومؒ کی دل نواز شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ ان کے وجود کی گرمی اور شخصیت کی مٹھاس کو ہرملنے والا ملاقات کی پہلی ساعت ہی میں محسوس کرلیتا۔ آنے والے کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے، نظر پڑتے ہی گرم جوشی سے گلے لگا لیتے۔ دیر تک سینے سے لگا کر انتہائی اپنائیت سے گفتگو کا آغاز فرماتے۔ ان کے کشادہ سینے اور اس سے کہیں زیادہ وسیع قلب کی گہرائیوں میں شکوے، شکایتیں اور مسائل و اُلجھنیں، آنِ واحد میں تحلیل ہوکر غائب ہوجاتیں۔ خوئے دل نوازی اور جانِ پُرسوز کس طرح قائدین کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے، اس کا عملی مشاہدہ مولانا سراج الحسن کی سحرانگیز شخصیت میں کیا جاسکتا تھا۔
مرحوم قائدؒ نہ کوئی بڑے عالم دین تھے، نہ شعلہ نوا مقرر، اور نہ نام وَر دانش ور، نہ ان کے پاس اُونچی ڈگریاں تھیں اور نہ تحقیقی یا دل چسپ تصنیفات کا ذخیرہ۔ لیکن ذہانت، معاملہ فہمی، دُوراندیشی، فکری توازن وغیرہ کے ساتھ اُن کا اصل اثاثہ ان کی انسان نوازی، اخلاقی بلندی اور تعلقات کی گرم جوشی تھا۔ ان اوصاف نے ان کی شخصیت میں غیر معمولی کشش اور جاذبیت پیدا کردی تھی۔ اس اثاثے کو اللہ کے دین کی اشاعت اور جدوجہد کے لیے انھوں نے بہت شان دار طریقے سے استعمال کیا۔ تحریکی کارکن، ان سے مل کر لوٹتے تو نئی توانائی اور جوشِ عمل سے سرشار ہوتے۔ عام و خاص مسلمان ملتے تو تحریک کا اچھا اثر قبول کرتے، دُوریاں ختم ہوتیں اور تحریک کا اثر بڑھتا۔ غیر مسلم ملتے تو اسلام، اس کی دعوت اور اس کے پیغام کے بارے میں ان کی رائے بہتر ہوجاتی۔ ان سب نتائج کے اثرات پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اور برسوں بعد آج بھی لوگ ان کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت فرمائے اور جو محبتیں انھوں نے اللہ کے بے شمار بندوں پر اور اس کے دین کے مخلص کارکنوں پر لٹائی ہیں، اس کا عظیم صلہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمتوں کے نزول کے ذریعے عطا فرمائے، آمین!
محمد سراج الحسن صاحب، ملک کی آزادی سے پندرہ سال پہلے، ریاست حیدرآباد دکن کے ایک دُورافتادہ قصبے میں، ایک متمول زمیندار گھرانے میں جناب ابوالحسن کے ہاں ۳مارچ ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔ ’جوالاگیرہ ‘(Jawalagera)نامی یہ قصبہ اب کرناٹک کے ضلع رائچور کے تعلقہ سندھنور میں واقع ہے۔ بچپن میں کسی بااثر راجا سے خاندانی تنازعے کی وجہ سے انھیں برسوں چھپ کر رہنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی باقاعدہ تعلیم منقطع ہوگئی۔ اسی دوران اسلامی لٹریچر کے گہرے مطالعے کا موقع ملا اور تحریک اسلامی سے تعارف حاصل ہوا۔ نظربندی کی طویل مدت سے آزاد ہوئے تو اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کا سودا سر میں سماچکا تھا۔ کم عمری میں رکن جماعت بنے اور ۲۶ سال کی عمر میں کرناٹک کے امیر حلقہ بنائے گئے۔ اس کے بعد پوری زندگی اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں میں گزار دی۔ گھر کے آرام اور پُرتعیش طرزِ زندگی کو چھوڑ کر، ریاست کرناٹک کے دُوردراز کے علاقوں کے پُرمشقت دورے شروع کردیے۔ سیکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا، بے شمار کارکن تیار کیے، اَن گنت لوگوں کے دلوں میں تحریک کی شناسائی، ہمدردی اور تعلق خاطر کے بیج بوئے۔ خود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اپنی دولت اس راہ میں کھپاکر اور متاعِ زندگی خدا کی راہ میں لٹاکر بے نیازی اور استغنا کی قابلِ رشک شان کے ساتھ، فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اس وقت ذہن کی اسکرین پر بہت سی تصویریں چل رہی ہیں۔ عجیب و غریب، حیرت انگیز لیکن نہایت حسین اور دل نواز۔ میری ان سے پہلی ملاقات ایک اجتماع میں اُس وقت ہوئی جب میں ۱۸ سال کی عمر کا ’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن‘ (SIO) میں ایک گمنام کارکن تھا۔ اس ملاقات کے بعد وہ کبھی میرا نام نہیں بھولے۔ پھر جگہ جگہ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایس آئی او کا کُل ہند صدر بنا تو کئی سال ان کے سایۂ شفقت میں مرکز کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اُس وقت مرکز کے جن ذمہ داروں سے ملنے اور بے تکلف بات کرنے میں ہم ایس آئی او کے کارکنوں کو کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی، ان میں ایک نمایاں نام خود امیر جماعت سراج الحسن صاحب کا تھا۔ ہم وقت لیے بغیر پہنچ جاتے، بے تکلف بات کرتے۔ کبھی اپنے دفتر ایس آئی او میں بھی دعوت دینے کی جسارت کرتے۔ ہلکی پھلکی تنقید اور تیکھے سوالات بھی کرڈالتے۔ کبھی مولانا کی باتوں سے متفق ہوتے، کبھی نہیں ہوتے، لیکن ان کے پاس سے کبھی مایوس یا دل شکستہ نہ لوٹتے۔ مولانا تحریک کے اُمور پر بھی بات کرتے، علمی و فکری مسائل پر بھی گفتگو ہوتی، لیکن ساتھ ہی بڑے غیر محسوس انداز میں ہماری ذاتی زندگیوں کے بہت سے اُمور بھی زیربحث لے آتے۔ تعلیم کے بارے میں پوچھتے۔ والدین کے بارے میں سوال کرتے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم ان سے کہتے، اسے یاد بھی رکھتے تھے۔
یہ بات ہمارے نوجوان رفقا کے لیے انتہائی تعجب کا باعث ہوتی تھی کہ امیرجماعت کو ایک عام کارکن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کا باپ بیمار ہے یا اس کا پورا خاندان اس کی بہن کے رشتے کے حوالے سے متفکر ہے، یا اسے انجینئرنگ کے دو فلاں فلاں پرچے پاس کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے، یا وہ کئی دنوں سے نوکری کی تلاش میں پریشان ہے۔ وہ صرف سوالات ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اُس کے ذاتی مسائل کو حل کرنے میں ممکنہ تعاون بھی کرتے۔ میری اس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ کئی رشتوں کی نشان دہی کی۔ ایک آدھ رشتے کے بارے میں والد صاحب مرحوم سے بھی بات کی۔ مولانا مرحوم کی شخصیت، خوئے دل نوازی کی ایسی بے شمار ادائوں کا مرقع تھی۔
مولانا سراج الحسن صاحب کو معلوم ہوتا کہ ہمیں کوئی سفر درپیش ہے تو ٹکٹ کے بارے میں پوچھتے۔ ریزرویشن کی کنفرمیشن کے بارے میں معلوم کرتے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں ہدایات دیتے: ’’فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن کے درمیان چوریاں بہت ہوتی ہیں، دھیان رکھنا۔ فلاں ٹرین میں کھانا اچھا نہیں ملتا، ساتھ میں ٹفن لے لینا، فلاں روٹ پر دن میں عام مسافر بھی ریزرو ڈبوں میں چڑھ جاتے ہیں۔ رات ہی میں نیند اچھی مکمل کرلینا، وغیرہ‘‘۔
ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں لوگوں سے وہ پوسٹ کارڈوں کے ذریعے رابطے میں رہتے۔ سفر و حضر میں ہروقت ان کے پاس پوسٹ کارڈوں کا ایک بنڈل ساتھ ساتھ ہوتا۔ روزانہ کا کچھ حصہ خطوط لکھنے میں صرف ہوتا۔ جہاں جاتے دفتر یا ہوٹل کے بجائے اپنے رفقا کے گھروں میں قیام کو پسند فرماتے۔ ٹرین سے طویل سفر پر نکلتے تو راستے میں آنے والے اسٹیشنوں کے رفقا کو خبر کردیتے۔ وہ خوشی و مسرت کے ساتھ ملاقات کے لیے آتے۔ بعض اوقات آدھی رات کو بھی اُٹھ کر، اسٹیشن پر آنے والے رفقا سے ملاقاتیں کرتے۔ کھانے پینے کی پسند بہت سادہ تھی۔ مرچی کے پکوڑے، جوار کی روٹی، اس جیسی سادہ چیزوں کو اپنی مرغوب ترین چیزیں کہتے۔ رفقا ان سادہ چیزوں کو لاکر اور کھلاکر بے حد خوشی محسوس کرتے۔ یہ سب بھی تعلقات کے استحکام کے انوکھے انداز تھے، جنھیں بہت خوب صورتی سے برتتے تھے۔
غالباً ۲۰۰۲ء کی بات ہے، ایس آئی او کی کوئی کُل ہند مہم چل رہی تھی۔ میرے مسلسل دورے ہورہے تھے۔ ایک دفعہ بھوپال میں رات کا پروگرام کرکے مجھے اگلے دن میرٹھ میں ایک بڑے پروگرام کی صدارت کے لیے جانا تھا۔ رات بھوپال اسٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے لیے جس ٹرین کی ریزرویشن تھی، اس کی روانگی منسوخ ہوگئی ہے۔ کسی طرح دلی کا ٹکٹ بنایا گیا۔ وقت تنگ تھا۔ دلی سے میرٹھ، پروگرام کے وقت پر، اسی صورت میں پہنچ سکتے تھے جب ٹرین وقت پر چلے۔ اسٹیشن پر فوری طور پر کار مل جائے اور دلی سے میرٹھ کا سفر تیزی سے مکمل ہوجائے۔ لیکن کار اس وقت ہمارے پاس نہیں تھی۔ دلی میں موجود رفقا نے مرکز جماعت پہنچ کر درخواست کی اور یہ واقعات امیرجماعت کے علم میں آگئے۔ اس کے بعد مولانا کی بے چینی کا جو عالم تھا وہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ فون کرکے معلوم کیا کہ برتھ کنفرم ہوئی ہے یا نہیں؟ پھر دلی پہنچنے کے بعد فون آیا کہ کیا مرکز کی گاڑی وقت پر آگئی تھی؟ پھر میرٹھ پہنچنے کی اطلاع، پھر پروگرام میں بروقت پہنچ جانے کی اور پروگرام کے بخیروخوبی مکمل ہونے کی اطلاع۔۔۔ یہ سب اطلاعات وہ حاصل کرتے رہے۔ اور واپس آتے ہی حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی اور تفصیل سے سفر کی رُوداد سنی۔ شفقت، اپنائیت اور دل بستگی کا یہ انداز اللہ اللہ!۔
اسی طرح کا ایک واقعہ چند سال پہلے اُس وقت پیش آیا، جب مولانا کو امارت سے فارغ ہوئے خاصا عرصہ گزرچکا تھا۔ میرے ایک عزیز کا ایک پیچیدہ آپریشن ہونا تھا اور مَیں انھیں لے کر حیدرآباد سے مولانا کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوا تھا۔ ہمارے گھر کی بعض خواتین بھی ساتھ تھیں۔ شام میں دُعا سے فارغ ہونے کے بعد، مولانا نے پہلے رات میں آرام کرکے صبح جانے کے لیے کہا۔ ہم نے مصروفیات کی وجہ سے معذرت کی تو فرمایا کہ ’’رات رُک نہیں سکتے تو پھر اب فوری نکل جائو، خواتین کے ساتھ دیر رات کا سفر مناسب نہیں‘‘۔ فوری طور پر ناشتے کا سامان منگوایا اور بغیر کسی تکلف کے، خود عجلت کرکے رخصت کردیا۔ یہ بھی مولانا کا مخصوص انداز تھا۔
انھیں روایتوں کی پاس داری سے زیادہ اپنے رفقا کے آرام اور ان کی بھلائی کی فکر رہتی، اور اس معاملے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ مہمان کی مرضی کے خلاف اس کی پلیٹ میں باصرار کھانا ڈالنا اور اس کے کاموں میں حرج کرکے اس کو اپنے یہاں روکنا وغیرہ، ان کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور ناشائستہ حرکتیں تھیں۔ اس زمانے میں یہ بات مشہور تھی کہ مولانا کی یادداشت خاصی متاثر ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ حیدرآباد پہنچتے ہی مولانا کا فون آگیا کہ ’’کیسے پہنچے؟‘‘ اپنے عزیز کے آپریشن کی جو تاریخ اور وقت بتایا تھا، اس وقت فون، پھر آپریشن مکمل ہوتے ہی فون، اور پھر ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کی تاریخ کو فون۔ عام کارکنوں سے یہ تعلق کسی مصنوعی کوشش کے ذریعے پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے، جو رؤف و رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکاروں کو وہ عطا کرتا ہے۔
ایک قائدِ تحریک کو بنیادی طور پر تین کام کرنے پڑتے ہیں: تحریک کے وژن اور سمت کا تعین، اس کے لیے افرادِ کار کی تربیت، اور اس کے حصول کے لیے مؤثر تنظیمی ماڈل۔۔۔ سراج الحسن صاحب نے ان تینوں محاذوں پر بہت سے نئے تجربات کیے۔ان تجربات کا گہرا اور سنجیدہ مطالعہ ہونا چاہیے۔ ان کے وژن میں دعوتِ دین کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اپنی تقریروں کے ذریعے انھوں نے پوری جماعت میں اس کا شعور بیدار کیا۔ غیرمسلموں سے تعلقات و روابط کے نمونے خود بھی قائم کیے اور جماعت کو بھی اس کے لیے آمادہ کیا ۔ اس کے لیے کئی ادارے وجود میں لائے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ماضی پر فخر، بادشاہوں کے کارناموں کے تذکروں اور اپنے آپ میں رہنے کے بجائے، اس وقت کی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں اور دعوتِ دین کے کام پر تمام توجہات کو مرکوز کردیں۔ دعوت کے کام کے لیے جس اخلاص، بے لوثی، قومی یا فرقہ وارانہ اور تاریخی عصبیتوں سے بالاتری وغیرہ درکار تھی، مولانا کی ذات خود بھی اس کا نمونہ تھی اور وہ اپنی تقریروں سے ان صفات کو اپنے رفقا میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
محترم سراج الحسن صاحب کا تنظیمی ماڈل کئی امتیازی خصوصیات کا حامل تھا۔ زیادہ سے زیادہ مشاورت اس ماڈل کی اہم خصوصیت تھی۔ کثرتِ مشورہ سے بعض لوگ پریشان بھی ہوجاتے، اور معترض بھی ہوتے، لیکن مولانا نے ہمیشہ مشاورت کو بہت اہمیت دی۔ اسی طرح ان کے ماڈل کی ایک خصوصیت اختیارات کی تقسیمِ کارتھی۔ اپنے بہت سے کام اور اختیارات انھوں نے اپنے معاونین کو تفویض کیے اور کام کے بھرپور مواقع ان کو فراہم کیے۔
وہ جانتے تھے کہ ہر کام وہ خود بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ علمی و فکری رہنمائی کے لیے انھوں نے مولانا سیّد جلال الدین عمری، ڈاکٹر فضل الرحمان فریدیؒ اور ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ جیسی بلندپایہ علمی شخصیتوں کو آگے بڑھایا۔ تنظیمی اُمور میں محمد شفیع مونس صاحب اور محمد جعفر صاحب پر بھرپور اعتماد کیا۔ ملّی و سیاسی اُمور میں شفیع مونسؒ صاحب، سیّد محمد یوسفؒ صاحب، عبدالقیوم ؒ صاحب جیسے لوگوں کو کام کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ اس طرح اجتماعی قیادت کی ایک پوری کہکشاں مرکزِ جماعت میں روشن کر دی۔
نوجوانوں اور نئے لوگوں کو آگے لانا اور ان کو ذمہ داریاں دینا، اس تنظیمی ماڈل کی تیسری اہم خصوصیت تھی۔ اپنی پہلی اور دوسری میقات میں جو امرائے حلقہ انھوں نے مقرر کیے، یہ سارے تقرر ان کے بڑے جرأت مندانہ فیصلے تھے۔ اکثر امرائے حلقہ اپنے اپنے حلقوں میں نہایت جونیئر تھے، لیکن ان کو آگے بڑھا کر انھوں نے جماعت کو تازہ دم کیا اور نئی توانائی اور قوت فراہم کی۔
نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان کا انداز بھی نرالا تھا۔ ایک انوکھی روایت، دوروں میں نوجوان امرائے حلقہ کو ساتھ رکھنے کی تھی۔ وہ کثرت سے دورے کرتے اور ریاستوں کے دُور دراز مقامات اور دیہات میں بھی تشریف لے جاتے۔ اس موقعے پر نوجوان امرائے حلقہ کو ضرور ساتھ رکھتے۔ اس کے ذریعے امرائے حلقہ کو ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والے اچھے تجربات سے روشناس کراتے۔ اپنے ساتھ رکھ کر اپنی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتے اور تنظیمی مسائل اور تحریکی کاموں کے آداب اور طورطریقوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے اور سیکھنے کے موقعے بھی فراہم کرتے۔
بحیثیت صدر ایس آئی او مجھے بھی بعض دوروں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دوروں کے علاوہ دہلی میں جب سرکردہ شخصیتوں سے ملاقات یا اہم اجلاسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس وقت بھی مجھے طلب فرماتے۔ بعض اہم اور حساس اجلاسوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ اجلاسوں میں پوری طرح اہمیت دیتے۔ دیگر بڑی شخصیتوں سے تعارف کراتے۔ کئی دفعہ بات کرنے کا بھی موقع فراہم کرتے۔ اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانی کے اس دور میں تنظیمی اور قیادتی تربیت کے عمل میں ان صحبتوں سے غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے۔
۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۱ء کی ایک میقات میں مجھے ان کے ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن رہنے اور ساتھ میں اجلاسوں میں شرکت کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہ میری پیدایش سے پہلے سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن چلے آرہے تھے۔ میری تحریکی و تنظیمی تربیت انھی کے بلکہ ان کے بعض شاگردوں کے زیرسایہ ہوئی تھی۔ لیکن کبھی شوریٰ کے مباحث کے دوران ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان قدآور بزرگوں کی موجودگی میں ہم کو بات کرنے میں کوئی تکلف یا دشواری درپیش ہے۔ ہم آزادانہ بات کرتے اور تجاویز پیش کرتے رہتے۔ اُن کی اور دیگر بزرگوں کی باتوں سے اختلاف بھی کرتے۔ بعض وقت گرما گرم بحثیں بھی کرتے اور وہ بڑی خوش دلی سے سنتے، سراہتے یا بڑی نرم دلی سے وضاحت کرکے اختلاف کو دُور کردیتے۔ یہ صالح شورائی روایات تحریک ِ اسلامی کے کلچر کی بہت بڑی خصوصیت ہے، جو مولاناؒ جیسے وسیع الظرف بزرگوں ہی کی روایت اور صدقۂ جاریہ ہے۔
اللہ سے گہرے تعلق اور اس کے بندوں سے گہرے روابط کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اللہ کی محبت ہی انسانوں کے اندر سچی انسان نوازی پیدا کرتی ہے۔ مولانا مرحومؒ کے تعبدی پہلو کو دوروں اور اسفار کے مواقع پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تہجد کے وقت اُٹھنے کی عادت انھوں نے مصروف سے مصروف دنوں میں بھی نہیں چھوڑی۔ صبح کاذب سے پہلے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل اور نماز اور باقاعدہ تلاوت سے اُن کے دن کی شروعات ہوتی۔ ذکر و اذکار کے معمول کی بھی سختی سے پابندی کرتے۔ اللہ نے بعض مخصوص بیماریوں کی شفا ان کے دم اور دُعا میں رکھی تھی۔ بواسیر، آدھے سر کا درد اور اس جیسے بعض امراض کے مریض ان کی دعائوں سے فوری شفایاب ہوجاتے۔ وہ جہاں بھی جاتے، ایسے مریض ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہرجگہ پرانے سے پرانے امراض کی شفایابی کی حیرت ناک داستانیں سننے کو ملتیں۔
اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق، اس کے بندوں سے بے پناہ محبت، تمام انسانوں کی ہدایت اور فلاح و کامرانی کی حرص، زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد اور اس کی خاطر جان نچھاور کرنے اور اپنا سب کچھ لگا دینے اور لٹا دینے کا حوصلہ و جذبہ۔۔۔ یہی مومنانہ اوصاف شخصیتوں کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ مولانا سراج الحسن مرحوم و مغفور اس حوالے سے یقیناً بہت اُونچے اور بہت بلند و بالا کردار کے مالک تھے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی عظیم قربانیوں اور محنت و جدوجہد کو قبول فرمائے، اور تحریکِ اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین!۔
تفہیم القرآن کے پشتو مترجم مولانا قیام الدین کشاف کا انتقال
افغانستان کے ممتاز عالم دین، ادیب، شعلہ بیان اور فصیح البیان خطیب، روسی استعمار کے خلاف جہادی اور فکری رہنما، کئی کتابوں کے مصنف مولانا قیام الدین کشاف انتقال کرگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون
مرحوم فِعلًا شوراء علمائے افغانستان کے رئیس اور ہر طبقے میں محترم مقام رکھتے تھے۔ پشتو، اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ محقق عالم دین اور معتدل فکر کے ساتھ عالمی اسلامی تحریکوں میں بہت متعارف تھے۔ مرحوم نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرۂ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کا انتہائی آسان اور سلیس پشتو میں ترجمہ کیا تھا جو علمی حلقوں میں مقبول تھا۔
حامد ریاض ڈوگر کو صدمہ
سینئر صحافی،روزنامہ جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کے بیورو چیف برائے لاہور اور پی ایف یو جے دستور کے مرکزی فنانس سیکرٹری حامد ریاض ڈوگر کے والد محمد طفیل ڈوگر کا قضائے الٰہی سے انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم ریونیو ڈپارٹمنٹ سے سبک دوش ہوئے۔ اس وقت عمر 90 سال سے زائد تھی۔ 1980ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ پوری زندگی دعوتِ دین کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ گلی محلوں میں دستک دیتے اور جماعت کا لٹریچر تقسیم کرتے رہے۔ کینٹ صدر سے ہر مرتبہ کونسلر منتخب ہونے والے مرحوم ولی محمد اور طفیل ڈوگر صاحب اپنے علاقے میں مرجع خلائق کی شناخت رکھتے تھے۔ مرحوم ان شخصیات میں شامل تھے جنہیں سید مودودی کی تحریک کی دعوت اور مطالعہ لٹریچر بے چین رکھتا ہے۔ مرحوم کے دیگر دو بیٹوں میں احمد رضا ڈوگر اور احمد نسیم ڈوگر سوگواران میں شامل ہیں۔ اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین