جلیس سلاسل
یہ المیہ نہیںہے کہ کسی انسان کا انتقال ہوگیا ۔ کیونکہ موت تو بر حق ہے اور خالق کائنات اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘ لیکن حقیقتاً یہ المیہ ہے کہ کسی ایسے شخص کا انتقال ہوجائے جو اپنی زندگی رحمت العالمین محمد ﷺ کی اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے کوشاں رہا ہو کہ ’’ دنیا تمہارے واسطے تم دین کے واسطے پید اکئے گئے ہو ‘‘ اس شخص کو فراموش کردیا جائے اس کی خد مات ، اس کے کارناموں اور اس کی کا وشوں کو محض اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ نئی نسل اس کومشعل راہ نہ بنا لے ۔ میں نے یہ تمہید شہر کراچی کے ہی نہیں بلکہ قومی سطح کے منفرد لہجہ کے معروف شاعر، مشہور کالم نگار ، سینئر صحافی اور کئی کتابو ں کے مصنف مرحوم عارف شفیق سے متعلق باندھی ہے ۔ عارف شفیق 31اکتوبر 1956ء کو لالوکھیت کے بلاک نمبر 5میں پیدا ہوئے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ان کی نماز جنازہ فیڈرل کیپٹل ایریا کی مسجد الفلاح میں ہوئی اور حسن اسکوائر کے نزدیک عیسیٰ نگری کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی ۔ مرحوم کے نماز جنازہ میں بمشکل دودرجن افراد شریک ہوئے جن میں میرے علاوہ قلم کاروں میں قومی اخبار کے صابر علی ، نوائے وقت کے راشد نورؔ ، بھوپال نور فورم کے اویس ادیب انصاری ، رضوان صدیقی ، طارق فروغ ، رونق حیات اور فیصل سبزواری شریک تھے ۔ مرحوم عارف شفیق کی مطبوعہ تصانیف کے شعری مجموعوں میں یقین ، میں ہوائوں کا رخ بدل دوں گا ، میرے کشکول میں چاند سورج ، اندھی سوچیں گونگے لفظ ، احتجاجی ، میری دھرتی میرے لو گ ، جب زمین پر کوئی دیوارنہ تھی ۔ کراچی کی آواز ، ان کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔ مرحوم ماہنامہ ادبی دنیا ،کرائم اسٹوری کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ۔ جبکہ ’’کراچی کی ادبی ڈائر ی ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ، قومی اخبار میں کالم لکھے ایکسپریس ، جرأ ت جو کافی پڑھا جاتا تھا پرچم کے علاوہ ہفتہ وار ، اخبار جہاں میںکراچی کا ادبی منظر نامہ ، کے عنوان سے کالم لکھا ۔ یہ بھی انتہائی مقبول تھا ایک مختلف ومنفرد انداز سے کالم لکھتے رہے ۔ جو شہر کراچی کی ادبی تقریبات کی رپورٹر وں پر مشتمل ہوتا تھا جو ادبی حلقوں میں بے حد مقبول تھا ۔ اس کو قارئین بڑے ذوق وشوق سے پڑھنے تھے اور کئی معروف شعرا ء نے اپنی تصانیف کا انتساب بھی عارف شفیق کے نام کیا ہے جس میں فرحت عباس شاہ اور وسیم بریلوی قابل ذکر ہیں ۔ اطلاعا ً عرض ہے مرحوم کے صاحبزادے محمد علی عارف ادبی ڈائر ی کے کالموں کا ان کا انتخاب جلد شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اور غیر مطبوعہ غزلوں کا مجموعہ بھی شائع کریں گے ۔
میں نے مرحوم عارف شفیق کی قلمی کاوشوں کا ایک مختصر جائزہ اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ سے یہ سوال کر سکوں کیا مرحوم عارف شفیق اس قابل بھی نہ تھا کہ اس پر کوئی اخبار اپنے ادبی صفحات کا ایڈیشن نکال دیتا ۔ بلکہ کم از کم شعرا ، ادبا ء میں سے تعزیت کے حوالے سے کوئی ایک مضمون ہی لکھ دیتا ۔خیرمیں پہلے مرحوم عارف شفیق کی کتاب کراچی کی آواز کے اجرا ، کے موقع پر ہونے والے ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ جو جولائی 2018ء میں سند ھ اسکائوٹس آڈیٹوریم میں منعقد ہوا تھا ۔ اور اس میں انور سن رائے ، علاو ء الدین خانزادہ ، ڈاکٹر شاداب احسانی اور راقم ( جلیس سلاسل ) مقرر تھے ۔ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دئے تھے ۔ میں تقریب میں جیسے ہی شرکت کے لیے پہنچا عارف شفیق نے مجھے آیڈٹیوریم سے باہر بلوا کر کہا کہ جلیس سلاسل تم کو بھی تقریر کرنا ہے ۔ میں نے انکار کیا کہ کا فی سینئر صحافی وادباء موجود ہیں میری ضرورت نہیں ہے ۔ عارف شفیق نے جواباََ کہا کہ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے ۔ جو حقیقتاً مجھ سے واقف ہو میرے بارے میں جس پہلو سے تم جانتے ہو وہ ان میں سے کوئی نہیں جانتا اس لیے تم ضرور تقریر کرو گے ۔ خیر میں نے جو کچھ کہا وہ فرائیڈے اسپیشل میں عبد الصمد تاجی نے لکھ دیا تھا ۔ ملاحظہ کیجئے ۔
قائد اعظم رائٹر ز گلڈ کے بانی معروف صحافی جلیس سلاسل نے کہا کہ ’’ مجھے تقریب شروع ہونے سے پانچ منٹ قبل عارف شفیق نے حکم دیا کہ مجھے بھی ان سے متعلق کچھ کہنا ہے ۔ میں نے اپنے استاد محتر م آغا شورش کا شمیری سے خطابت کا فن نہیں سیکھا ، اس لیے مجھے جو کچھ کہنا ہوتاہے وہ پہلے لکھ لیتا ہوں ، چنانچہ ابھی جو لکھا وہ پیش خدمت ہے ۔ عارف شفیق سے میری دوستی قریباً 24سال سے ہے اور ان کے والد شفیق بریلوی سے تو میرے 1970ء سے قریبی تعلقات رہے اور ان کی صحبتوں سے فیض یا ب ہوتا رہا ۔ ان کے والد کے ہمراہ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی ، بابا ذہین شاہ تاجی اور اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کو ثر نیازی سے بھی ملاقاتیں رہیں ۔ یہاں عارف شفیق سے متعلق صرف ایک بات ببانگ دہل کہوں گا کہ یہ سیکولر اور اشتراکی ذہن رکھنے والا نہیں ، اور نہ ہی اسلام اور پاکستانیت کا دشمن ہے ۔ میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ اللہ رب العزت پر مکمل یقین رکھتا ہے ۔ اس لیے اس کے شعری مجموعے کا نام بھی ’’یقین ‘‘ہے ، جو اس بات کا بڑ ا ثبوت ہے ۔ اس کو عاشقِ رسولؐ ہونے پر فخر ہے ۔ اس کی شاعری میں جرأ ت ، صداقت یوں ہے کہ اس نے برسوں پہلے کہاتھا۔
مجھے نسبت ہے محمدؐ سے، نہیں دنیا کا خوف
گر ٹکرائی بھی گردش تو اس کو چکر آئے گا
اور یہی شعر میر ی 1995ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ ٹیبل ٹاکس ‘‘ کے صفحہ اول پر انتساب میں شامل ہے جو میں نے اپنے آقا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام کیا ہے ۔
( مطبوعہ ۔ ’’فرائیڈے اسپیشل ‘‘ 8اگست 2018ء)
عارف شفیق نے اپنی کتاب ’’ کراچی کی آواز ‘‘ کے اجرا ء کے موقع پر یہ کیوں کہا تھا کہ تم میرے بارے میں جس طرح جانتے ہو ان میں سے کوئی نہیں جانتا ہے ۔ تو اس کی حقیقت کیا ہے میں اپنے آپ سے عارف شفیق کی ملاقاتوں کے سلسلے کے حوالے سے اس کا میں ایک کالم پیش کروں گا ۔ جو ’’ قومی اخبار ‘‘ میں 30نومبر 2017ء کو شائع ہوا تھا ۔ اور بعد ازاں اس کی کتاب ’’ کراچی کی آواز ‘‘ میں شامل کیا گیا ۔ ا س سے اس کی ادبی پس منظر اور مذہبی میلان کا بھی اندازہ ہوسکے گا ۔ اس کا عنوان ہے ’’ ہنس ہنس کے رورہے ہیں لوگ‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔
۔’’جلیس سلاسل سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی ، یہ تو مجھے یاد نہیں ۔ بس اتنا یاد ہے کہ1994ء کے بعد ہوئی تھی جب اس نے قائد اعظم رائٹرز گلڈ قائم کی تھی ۔دلچسب بات یہ ہے کہ ہم دونوں ہم عصر ہیں ہم دونوں کا بچپن اور لڑکپن ایک ہی علاقے لیاقت آباد میں گزراہم دونوں ہی صحافت سے وابستہ رہے ۔ ہم دونوں کہیں ایک دوسرے کے آس پاس رہتے ہوئے بھی کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے ۔ شاید وقت بھی ہم دونوں کی یہ دوری زیادہ عرصہ تک مناسب نہیں سمجھتاتھا اور جب وقت نے ہم دونوں ایک کو ملایاتو اس طرح ملایا کہ اب ہم دونوں ایک دوسرے کے قریبی ساتھی ہیں۔ اب ہم دونوں ہی جو انی کی منزلوں سے گزر کر بڑھاپے کی سر حدوں میں شامل ہو چکے ہیں ۔ اب ہم جب بھی ملتے ہیں تو ان بزرگوں کو یاد کرتے ہیں ۔ جنہوں نے ہم دونوں کی الگ الگ وقتوں اور الگ الگ مقاموں پر ذہنی اور فکر ی تربیت کی تھی ۔ شعوری طور پر بھی اور لاشعوری طور پر بھی ۔ ہم یاد کرتے ہیں جمال میاں فرنگی محلی کو ابو الجلال ندوی اور حسن مثنی ندوی کو اور سب سے زیادہ عبدالقدوس ہاشمی کو ہماری گفتگو دوسری اور بھی علمی و ادبی شخصیات پر ہوتی ہے لیکن ہماری گفتگو کاا ختتام اکثر انہی چار شخصیات پر ہو تا ہے ۔ آج کل کیونکہ مہاجر تہذیب کو محدود کرنے کے لئے صرف ایم کیو ایم کے لوگوں کو مہاجر بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس لئے کہ ایم کیو ایم اس وقت الزامات کی زد میں ہے ۔ اس پر بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، چائنا کٹنگ اور ایم کیو ایم کے قائد پر تو ’’ را ‘‘ کا ایجنٹ ہونے کا بھی الزام لگ گیا ہے ۔ جو مہاجر تہذیب کے اصلی نمائندے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز نے ان کے حوالے سے گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی ہو اس لئے میں اپنی صحافتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان اہم مہاجر شخصیات پر مسلسل کالم لکھ رہا ہوں تاکہ دنیا مہاجر تہذیب کا اصلی چہرہ دیکھ سکے ۔ جلیس سلاسل کی سوچیں سو فیصدتو نہیں ۹۹فیصد مجھ سے ضرور ملتی ہیں مثلا میں کہتا ہوں کہ میری پہلی پہچان یہ ہے کہ میں مسلمان ہوںجلیس سلاسل بھی یہ کہتا ہے ۔ میں کہتاہوں میری دوسری پہچان یہ ہے کہ میں پاکستانی ہوں وہ بھی یہی کہتا ہے لیکن جب میں یہ کہتا ہوں میری تیسری پہچان یہ ہے کہ میں مہاجر ہوں تو جلیس سلاسل مہاجر ہوتے ہوئے بھی اپنی تیسری پہچان کی بات نہیں کرتا شاید اسے بھی ہزاروں مہاجروں کی طرح یہ خوف ہوکہ اگر وہ خود کو مہاجر کہے گا تو اس کے پاکستانی ہونے کو مشکوک بنادیا جائے گا۔ جلیس سلاسل ایک صحافی ہے لیکن میں کیا کروں ، میں ایک صحافی ہی نہیں ایک عوامی اور انقلابی شاعر بھی ہوں۔ اس لئے مجھے تو پورا سچ لکھنا ہوگا ، صحافی تو اپنی کسی بھی خبر کی خود تردید کرکے اپنا دامن بچاسکتا ہے لیکن کوئی شاعر اپنے شعر کی تردید نہیں کرسکتا ۔ میر، غالب ،اقبال سے فیض ، فراز اور حبیب جالب تک یہی روایت قائم رہی ہے تو میں اس روایت سے بغاوت کیسے کرسکتا ہوں مجھے تو ہر حال میں پورا سچ لکھنا ہے
سر اٹھائے ہوئے مقتل کی طرف جاؤں گا
میں نے سچ بات کہی ہے تو سزا پاؤں گا
اب کی بار جب میری اور جلیس سلاسل کی ملاقات ہوئی تو ہم نے اپنے حکمرانوں پر سرسری گفتگو کے بعد یہ سوال اٹھایا کہ پاکستانی قوم کے رہنما کو کیسا ہونا چاہئے ، میں نے کہا ہمارے بزرگوں کی طرح پھر ہم دونوں ہی یہ سوچ کر ہنس پڑے کہ ان جیسی شخصیات اب ہم کہاںسے لائیں گے ؟میں نے جلیس سلاسل سے کہا کہ عبدالقدوس ہاشمی پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے تو آج پاکستان کیسا ہوتا ؟ جلیس سلاسل نے بے ساختہ کہا کہ پھر تو پاکستان میں اسلامی نظام رائج ہوچکا ہوتا ۔ معاشرے سے سود اور حرام خوری دور ہو چکی ہوتی، ہر جگہ عدل اور انصاف کا راج ہوتامیں نے کہا پاکستان میں تحریک انصاف کا تو راج ہوسکتاہے لیکن عدل وانصاف کا راج کبھی نہیں ہوگا ۔ جلیس سلاسل نے پوچھا کیوں؟ تو میں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ عبدالقدوس ہاشمی اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور ان جیسا کوئی دوسرا شخص بھی نہیں ، کچھ دیر تو ہم ہنسی ہنسی میں اپنی سنجیدہ سوچوں کا مذاق اڑاتے رہے پھر ہماری گفتگو عبدالقدوس ہاشمی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے گرد گھومتی رہی۔ میں جلیس سلاسل سے کہہ رہا تھا کہ میں نے تو عبدالقدوس ہاشمی کی گفتگو اپنے گھر کی محفلوں میں سنی تھی جب وہ کسی موضوع پر بول رہے ہوتے تھے تو جمال میاں فرنگی محلی ان کی گفتگو سنتے ہوئے اس طرح سر ہلارہے ہوتے تھے جیسے ان کی ہر بات کی تائید کررہے ہوں ۔ ابو الجلال ندوی کی اور حسن مثنیٰ ندوی کی بھی یہی کیفیت ہوتی تھی ۔ ماہر القادری محمود احمد برکاتی اور میرے والد شفیق بریلوی بھی بڑی خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہے ہوتے اور میں ایک کونے میں بیٹھا حیرت سے ان کی گفتگو کو سمجھنے کی کو شش کررہا ہوتا ، مجھے ایسا لگتا کہ علم کا ایک سمندر ہے جو جوش میںآیا ہوا ہے ۔ مجھے وہ دیکھنے میں ایک عام شکل صورت کے عام سے آدمی لگتے تھے لیکن جب وہ گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ
مر مٹا اس پے آئینے کا جمال
وہ جو اندر سے خوبصورت ہے
میں نے اپنے بزرگوں کی انہیں محفلوں سے ظاہری اور باطنی خوبصورتی کے فرق کو محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔ میں نے جلیس سلاسل سے پوچھا کیا تم نے ان کی کتا ب پاکستان ، پڑھی ہے تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو جو قرارداد لاہور پیش کی گئی تھی اس میںپاکستان کا نام نہیں تھا لیکن جنوری ۱۹۴۱ء میں پاکستان کے نام سے عبدالقدوس ہاشمی کی کتاب منظرِ عام پر آگئی تھی ۔ میں جلیس سلاسل کو بتارہا تھا کہ میں نے ایس ایچ ہاشمی کے حوالے سے قومی اخبار میں ایک کالم لکھا تھا وہ جب مجھے آرٹس کو نسل میں ملے تو مجھے گلے لگا کر کہنے لگے تم نے بڑی سچی بات لکھی ہے ۔ میں نے اس کالم میں لکھا تھا کہ ایس ایچ ہاشمی مجھے پہلی بار اور ینٹ ایڈورٹائزنگ، کے مالک نہیں بلکہ عبدالقدوس ہاشمی کے صاجزادے کے روپ میں نظر آئے ، میں اور جلیس سلاسل کئی گھنٹوں تک دنیا ومافیہا سے بے خبر عبدالقدوس ہاشمی کی باتیں کرتے رہے ۔ جلیس سلاسل نے رخصت ہوتے وقت مجھ سے پھر مسکراتے ہوئے پوچھا کہ اگر عبدالقدوس ہاشمی ، پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے تو کیا ہوتا ؟ میں نے کہا کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم تو کیا سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی نہیں بن سکتے تھے۔ جلیس سلاسل (فوجی ٹائمز) اور (پاکستانی اخبار ) کا ایڈیٹر بھی رہ چکا ہے ۔ شاید اس لئے ہی وہ میرے جیسے عوامی شاعر کی بات نہیں سمجھ سکا۔
اس نے حیرت سے پوچھا وہ کیوں ؟میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ کیونکہ وہ تھے تو مہاجر ہی ، ہم دونوں اس جملے کی تلخی دور کرنے کے لئے بے ساختہ ایک ساتھ ہنس پڑے ۔ میری اور جلیس سلاسل کی ہنسی میں بس تھوڑا سا فرق تھا:۔
ہنسا رہا ہے وہ خنجر سے گدگدی کرکے
عجب تماشا ہے ہنس ہنس کے رو رہے ہیں لوگ
عارف شفیق نے کراچی شہر کے نمائندوں کی فہرست میں سب سے پہلے میرا ہی تعارف اس طرح کروایا ہے ۔ملاحظہ کیجئے۔
جلیس سلاسل ایک سینئر صحافی ہیں جنہوں نے اپنی صحافت کے آغاز میں ہی شورش کا شمیری جیسے صحافی سے داد حاصل کر لی تھی جب سید مظفر الحق نے کراچی کے ایک ہوٹل میں مقیم آغا شوزش کا شمیری ایڈیٹر ہفت وار ’’چٹان‘‘ لاہور سے دسمبر ۱۹۷۰ء میں اپنے دوست جلیس سلاسل کی ملا قات کروائی اور نام بتایا تو مسہری پر آرام سے لیٹے ہوٹے آغا شورش کاشمیری فوراً کھڑے ہو گئے اور جلیس سلاسل کو اپنے سینے سے لگاتے ہو ئے بے ساختہ اپنے مخصوص انداز سے بولے یہ جلیس سلاسل ہے جلیس سلاسل لکھتا ہے بہت اچھا لکھتا ہے اس کے قلم نے تو مجھے غلط فہمی میں مبتلا کردیا تھا میں تو سمجھتا تھاکوئی ادھیڑعمر کا ہوگا لیکن یہ تواپنی تحریر اور تصویر کی طرح خوبصورت نوجوان نکلا ۔ آغا شورش کاشمیر ی نے ان خوبصورت جملوں میں 47سال پہلے جس جلیس سلاسل کی حوصلہ افزائی کی تھی وہ بھی آج اس شہر کراچی کی پہچان ہے ۔ کورٹ مارشل، ٹیبل ٹاک اور طلاق شدہ پیشہ ، جیسی کتابوں کا مصنف۔ عالمی اسلامی ڈائجسٹ ، فوجی ٹائمز ، فوجی اخبار اور پاکستانی اخبار کا چیف ایڈیٹر چٹان ، جسارت ، حریت ، مشرق، اخبار جہاں ، صداقت ، اعلان اور فرائیڈے اسپیشل میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے والا جلیس سلاسل اس شہر کے ایک اہم ادبی ادارے قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کا رو ح رواں بھی ہے ۔
عارف شفیق نے قائد اعظم رائٹر ز گلڈ پاکستان کا تذکرہ کیا تو مجھے یاد آیا کہ عارف شفیق نے ’’ کراچی کی ادبی ڈائری‘‘تقریبا 30،35کالموں میں گلڈ کی مختلف تقریبات کا تفصیل سے احوال لکھا ہے ۔ جو ’’ قومی اخبار‘‘ اور ’’ اخبار جہاں میں شائع ہوئی تھیں ، اسی وجہ سے گلڈ نے اپنی سلور جوبلی تقریب میں مرحوم کو صحافتی خدمات پر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اب بھی عار ف شفیق کی توحید پرستی ، اللہ پر کامل یقین ہونے کا ثبوت اس کے اشعار کی زبان میں ہی پیش کروں گا ، ملاحظہ کیجئے ۔
ڈس رہی جو خواہش دنیا
اس کو دل سے نکال دے مولا
ظلم کی سلطنت عروج پہ ہے ۔
تو ہی اس کو زوال دے مولا
چٹنی روٹی خوشی سے کھا لوں گا ۔
مجھ کو رزق ِ حلال دے مولا
کب سے سجدے میں پڑا ہے عارفـ ـ ؔ
اس کی مشکل کو ٹال دے مولا
اس کی رحمت پر یقین کر کے جو توبہ کر لے
اس وحشی کو وہ انسان بنادیتا ہے
جس کو وہ صاحب ِ ایمان بنادیتا ہے
اس کی مشکل کو بھی آسان بنادیتا ہے
اپنے شعروں میں اس کی سنا کروں
میری نظر میں ہے بندگی شاعری
مصرعے تو کیا ایک لفظ بھی لکھنا محال
تو فیق جب تلک مجھے میر اخدا نہ دے
مجھے یقین ہے میرے یہ سر پھر ے اشعار
لوگوں میں جذبہ ایمان کو ابھاریں گے
وہ حال بھول چکا ہے صلیبی جنگوں کا
پھر ایک بار اسے تاریخ سے گزاریں گے
مجھے یقین ہے عارفؔ جو آج بھی مسلم
جہاد فرض سمجھ لیں تو پھر نہ ہاریں گے
یہاں جب آئے تھے ہم لا الہ پڑھتے ہوئے
ہم ساتھ دین کے سارے اصول لائے تھے
اس کی چاہ میں سب کچھ لٹا کے ہجرت کی
یہ سر زمین مراآخری ٹھکانہ ہے
اب آپ عشق رسول و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کے اشعار ملاحظہ کیجئے۔
اس انقلاب سے پھر کتنے انقلاب آتے
وہ انقلاب جو میرے رسولؐ لائے تھے
مجھ کو نسبت ہے محمدؐ سے نہیں دنیا کا خوف
مجھ سے ٹکرائی تو گردش کو بھی چکر آئے گا
اب وطن عزیز پاکستان کے سیاسی ناگفتہ حالات و قومی المیوں کی تصویر کشی کر کے ان کو سنوارنے کا راستہ بھی کیا تجویز کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے ۔
ایک بازو میر ا کاٹنے والے تھے کون لوگ
چہروں سے ان کے پردہ اٹھا یا نہ گیا
کیا میں آئینہ تاریخ کو کھلائو ں
زخم چہرے پہ میرے اپنی ہی تلوار کا ہے
یہ قوموں فرقوں کی ہم نے اٹھا کے دیواریں
خود اپنے دیس کی بنیاد کھوکھلی کر لی
طبقوں میں جس نے بانٹ دیا اس نظام سے
کیسے ملے نجات کو ئی سوچنا نہیں
عارف شفیق نے دل سے پختہ پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی سمجھا اور آخری وقت تک اس پر قائم یا اس کا سبب کیا تھا؟ یہ اس کے کالم مطبوعہ ’’ قومی اخبار‘‘کے 31مئی 2017ء میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے ۔ ملاحظہ کیجئے ۔
میری پہلی پہچان ، مسلمان کیوں ؟
کیونکہ کراچی کی اور میری کہانی الگ الگ نہیں ایک ہی ہے ، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں پہلے انسان ہوں کیونکہ انسان ہونے کا دعویٰ تو وہ بھی کرتے ہیں جو ساری دنیا میں تباہی پھیلا رہے ہیں ۔ ہاں میری پہلی پہچان یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں ، دوسری پہچان یہ ہے کہ میں پاکستانی ہوں اور تیسری پہچان یہ ہے کہ پختوں و پنچابی ، سندھی اور بلوچوں کے درمیان ایک مہاجر ہوں جب میرے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا تھا وہ جب بھی مسلمان تھے ۔ میں نے دو شعری مجموعوں کا انتساب اپنے وطن پاکستان کے نام کیا ہے میں اپنے مسلما ن اور پاکستانی ہونے کسی بھی شعری مجوعے کا انتساب اپنی تیسری پہچان مہاجروں کے نام نہیں کی کہیں ایساتو نہیں کہ اپنی اس پہچان کو میں اپنی وقتی پہچان سمجھتاہوں کیونکہ یہ پہچان تو مجھے دوسری قوموں کے لوگوں نے دی ہے جسے میں نے اندر سے قبول نہیں کیا اور شاید ا س کی پہلی پہچان مسلمان ہونا اور دوسری پہچان پاکستانی ہونا تھی ، مجھے یاد ہے کہ جب ہم شریف آباد میں رہا کرتے تھے تو میرے والد شفیق بریلوی ہر ماہ گھر پر اپنے قریبی احباب کی دعوت کیا کرتے تھے ان محفلوں میں اسلام ، تاریخ ، فلسفہ ، صحافت اور خاص طور پر تحریک پاکستان اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں گفتگو ہوا کرتی تھی ، وہی گفتگو سن کر میں نے سوچنا اور سمجھنا سیکھا تھا آج بھی ان تمام بزرگوں کے چہرے اور گفتگو میری یاد داشت کا سرمایہ ہیں جمال میاں فرنگی محلی ابو الجلا ل ندوی ، جلیل قدوائی ، حسین امام حسن مثنیٰ ندوی ، مولانا شاہ حسن عطاء مولاناماہر القادری ، ضیا الدین برنی ، حکیم محمود احمد برکاتی ، سید محمد جعفری ، بہزاد لکھنوی ، منور بدایونی ،جعفر پھلواری ، پروفیسر غفور احمد ، عبرت بریلوی ، رحمان کیانی ، محمود احمد صدیقی ، نیر علوی ، کموڈ در آصف علوی، محمد صلاح الدین ، ڈاکٹر بشارت علی ، اقبال احمد صدیقی ، شفیع عقیل ، رفیق خاور ، محشر بدایونی وغیرہ وغیرہ ایسی شخصیات کی گفتگو کے بعد جب میں گھر سے باہر نکلا اور کراچی کی ادبی محفلوں میں شریک ہوا تو کسی بھی ادبی حلقے میں ہونے والی گفتگو مجھے متاثر نہیں کرسکی اسی لیے کسی ادبی حلقے میں آج تک شامل نہیں ہوسکا اس کے بعد میں نے جو کچھ بھی حاصل کیاوہ کتابوں سے اور زندگی کے تجربوں سے حاصل کیا میں بات کررہاتھا اپنی پہچان کی مہاجروں کا اہم مسئلہ اور دکھ ان کی پہچان تھا اور مہاجروں کی نئی نسل اس طرح بھی سوچنے لگی تھی ۔
اپنی پہچان گنو ا بیٹھے ہیں
جانے کیا سوچ کر ہجرت کی تھی
اب میںآپ کو عارف شفیق سے آخری ملاقات کا احوال سناتاہوں جو اس کے اپنے گھر پر ہوئی تھی اور کئی گھنٹوں پر محیط تھی ۔ جس کے لیے مرحوم نے پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ اب کی تمہارے ساتھ نشست کا فی طویل ہوگی ۔ اس لیے واپسی کے لیے جلدی مت کرنا ۔ کچھ ضروری باتیںکرنی ہے ۔ میں اس نشست کے بارے میں پہلے عرض کردوں کہ یہ گفتگو اس کے کسی کالم میں شائع نہیں ہوئی کیونکہ اس نے اس کے بعد کوئی کالم لکھا ہی نہیں ۔ مجھے اس کا سبب نہیں معلوم کہ کیوں نہیں لکھا ؟ ہاں یہ ضرور کہوں گا اس نشست میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں جو کچھ لکھوں گا ۔ وہ اللہ کے اس فرمان کو کہ اگرتم نے کوئی لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلوبچایا تو یاد رکھو اللہ کو اس کی پوری طرح خبر ہے ( سورۃ النساء آئت 135) ۔
میں جیسے ہی مرحوم عارف شفیق کے گھر پہنچا اس نے میرے بیٹھتے ہی مجھ سے پہلا سوال کیا کہ کیا تم جماعت اسلامی میں شامل ہو ۔ میں نے انکار کیا پھر اس نے سوال کیا کیوں؟ میں نے جواب دیا اس لیے کہ میرے استاد آغا شورش کا شمیری نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ صحافی کو کسی سیاسی پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہئے اورکسی شخص کی کوئی اچھی بات بھی ہو تو تقریب میں صحافیوں کو تالیاں نہیں بجانا چاہیے صحافی اپنی رپورٹ یا تحریر میں دل کھول کر پذیرائی کر سکتاہے ۔ خواہ اس کی سیاسی پارٹی کو پسند بھی نہ کرتاہو۔ اگر وہ کسی سیاسی پارٹی میںشامل ہوگا تو حق بات پر بھی پذیرائی نہیںکر سکے گا ۔ میں نے کہا جہاں تک جماعت اسلامی کی بات ہے میں اس کے بانی مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی ؒ سے کئی بار ملاقات کر چکا ہوں ۔ اور ان کا ایک خصوصی انٹرویو بھی کر چکا ہوں میں مولانا مودودی ؒ کی علمیت ، قابلیت سے ہمیشہ متاثر رہا میںان کو اپنا مرشد سمجھتا ہوں ۔ ان کے اخلاق و کردار نے مجھ کو بے حد متاثر کیا ۔ ان کی تصانیف نے میرے ذہین کی آبیاری کی ۔ ان کی تصانیف نے ہی اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ایمان کو پختہ کیا ۔ گو کہ میں جماعت اسلامی کے دیگر راہنمائوں سے ملاقاتیں کرتا رہا ۔ پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر غفور احمد کا میں نے انٹرویو بھی کیا تھا ۔
میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن سے بھی بے حد متاثر رہا وہ ایک سچے کھر ے نڈر بے باک سیاسی راہنما ہیں ۔ وہ میرے کرم فرما بھی ہیں ان کے پائے کا کوئی سیاسی لیڈر نہیں دیکھا ۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں ، لیکن جماعت اسلامی میں کبھی شامل نہیں ہوا ۔گو کہ میرے والد راجہ رئیس محمد خان نارتھ ناظم آباد بلاک سی کے 1960ء کی دہائی میں ناظم بھی رہے تھے ۔ وہ بھی مولانا مودودی ؒ کے بے حد عقید ت مند تھے ۔ مولانا کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے تھے۔ ہاں میں اسلامی جمعیت طلبہ میں ضرور شامل رہا ۔ میرے دور میں عظمت اللہ اور محمد حسین محنتی اسلامی جمعیت کے ناظم رہے ۔ بلکہ غالباً 1967ء میں اسلامی جمعیت طلبہ مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر مرحوم کی دعوت پر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہواتھا ۔ آج بھی اسلامی جمعیت طلبہ میرے اندر بستی ہے ۔اور مجھے اس پر فخر ہے ۔ عارف شفیق نے کہا کہ میں اسلامی جمعیت طلبہ میں توکبھی شامل نہیں ہو ا لیکن اگر کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوا توصرف جماعت اسلامی میں ہوں گا ویسے میرے ڈاکٹرپرویزمحمود سے دوستانہ تعلقات رہے میرے علاقہ کے ٹائون ناظم رہے ۔وہ میرے بہت اچھے دوست تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہو جائوں گوکہ میں اس وقت تو جماعت اسلامی میں شامل نہیں ہو ا لیکن اب سوچ رہا ہوں گو کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا ۔ میں نے پوچھا تم جماعت اسلامی میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہو ۔ عارف شفیق نے برجستہ کہا کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے ۔ جس کے اراکین پر کسی قسم کے کرپشن کا الزام نہیں ہے اور یہ بات وثوق سے کہتاہوں کہ اس کے بانی مولانا سید ابو الا علیٰ مودیؒ کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے نئی نسل کو اپنے قلم سے لکھا ہوا وہ لٹریچر فراہم کیا ۔ جس نے ذہنوں کی نشوونما کی ۔ جس نے نئی نسل کو دینی گمراہی سے بچایا ۔ یہ کام کسی بھی سیاسی پارٹی کے راہنما نے تو کیا کسی عالم دین نے بھی نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ لسانی ، صوبائی تعصبات کی قید سے نئی نسل کو محفوظ رکھا، اور ان کی قائم کی ہوئی جماعت اسلامی صوبائیت ، لسانیت ، فرقہ واریت کی اسیرنہیں ہے ۔ ان کی کتاب ـ’ الجہاد فی الاسلام ‘ نے نوجوانوں میںجذبہ جہاد پیدا کیا ۔ ہمارے یہاں ایک بڑا طبقہ جہاد کے خلاف ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ میں بھی جہاد کی حمایت نہ کروں حالانکہ میرے والد مرحوم شفیق بریلوی نے 1966ء میں ماہنامہ ’ خاتون پاکستان ، کراچی کا ’’جہاد نمبر‘‘ نکالا تھا۔
میں کیسے جہاد کا مخالف ہوسکتاہوں ۔ جب امریکہ کے صدر نے دھمکی دی کہ صلیبی جنگ کا آغاز ہو اچکا ہے ۔ تو میں نے یہ شعر کہا کہ ؎۔
وہ حال بھول چکا ہے صلیبی جنگ کا
پھر ایک باراسے تاریخ سے گزاریں گے
پھر میں نے عالم اسلام کو یاد دہانی کرواتے ہوئے یہ شعر کہا ؎۔
مجھے یقین ہے عارؔف جو آج بھی مسلم
جہاد فرض سمجھ لیں تو پھر نہ ہاریں گے
اب اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے کا پڑے گا کہ اس کی شاعری میںمذہب سے لگا ئو ، حب الوطنی ، تہذیب اقدار کی پاسداری اہل علم و اہل قلم کی صحبتوں کا ثمر ہے ۔ جو اس کو اپنے والد کے ساتھ محفلوں سے ملی ۔ یہ اس کا شعر اس کی مکمل ترجمانی کرتاہے ۔ ملاحظہ کیجئے ۔