زیر نظر کتاب ڈاکٹر خالد امین کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر ذوالقرنین احمد المعروف شاداب احسانی کی نگرانی میں لکھا۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’تحریک اتحادِ اسلامی (Pan-Islamism) انیسویں صدی میں مسلمان ممالک کو انحطاط سے نکالنے کے لیے علامہ سید جمال الدین افغانی نے سلطنتِ عثمانیہ کی تائید سے شروع کی۔ چوں کہ ہندوستانی مسلمان سلطنتِ عثمانیہ کی خلافت کو روحانی، سیاسی اور تہذیبی طور پر اپنا رہنما تسلیم کرتے تھے اس لیے یہاں کے مسلم دانش وروں کا بہت بڑا طبقہ تمام تر مسلکی اور علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس میں شامل ہوگیا۔
ان دانش وروں میں علما، سیاست دان اور ادیب شامل تھے۔ اس لیے اس تحریک کے اثرات ادبی حوالوں سے بھی موجود ہیں۔ اردو نظم و نثر کے علاوہ اردو صحافت بھی اس تحریک سے متاثر ہوئی، اور اُس دور کے اُن اخبارات نے بھی اس تحریک کو خصوصی اہمیت دی جن کے مالکان ہندو تھے۔ انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریک کا مطالعہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔
کوئی بھی ادبی مطالعہ اپنے تاریخی و تہذیبی ربط کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس موضوع میں بھی برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخی و تہذیبی زندگی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے تاکہ اس عہد کے فکری تناظر کا صحیح اور درست تجزیہ ممکن ہوسکے، کیوں کہ خالص ادب کسی بھی معاشرے میں بجائے خود کوئی چیز نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاشرے کا فکری اور تصوراتی پہیہ ہی اس گاڑی کو توانائی فراہم کرتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں اس تحریک کے حوالے سے اردو زبان میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس تحریک پر مسلمان دانش وروں اور مستشرقین نے خاصا اہم کام کیا ہے، جن کے تراجم بھی اردو زبان میں ہوئے ہیں۔ ان میں کئی کتابیں اور مصنف تو ایسے گزرے ہیں جنہیں ہماری تاریخ نظرانداز کرسکتی ہے نہ ہماری روایات۔ ان کے کاموں میں جذباتی ابال نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے اس تعلق سے جو کچھ لکھا ہے وہ ہماری علمی اور ادبی میراث ہے۔ بہرحال ان ساری چیزوں کو اس کتاب میں سمیٹنے کی جو کوشش میں نے کی ہے اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔ میری کوشش صرف یہی رہی ہے کہ ہماری تاریخ کا گم شدہ باب ترتیب پاجائے۔
اردو ادب پر اس تحریک نے جو اثرات مرتب کیے اُس کو باب پنجم اور ہشتم میں نہایت تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس میں کئی ایسی غیر معروف کتابوں کو حوالہ بنایا گیا ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں پردے میں پڑی ہوئی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر خلیل طوق آر استنبول یونیورسٹی کی رائے اس کتاب کے متعلق یہ ہے:
’’اس کتاب میں 1857ء سے 1914ء کے درمیان جنوبی ایشیا میں تحریک اتحادِ اسلامی کے تاریخ، تہذیب اور اردو ادب پر متنوع اثرات کا غائر مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ ماخذ کو استعمال کرتے ہوئے تحریک اتحادِ اسلامی کی ان جہتوں کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کو متاثر کیا، اور اُس وقت کے مسلم دانش وروں نے اس ضمن میں کیا تصورات پیش کیے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں پان اسلام ازم کی فکری بنیادوں کا احاطہ کرتے ہوئے فاضل مصنف نے ترکی کی خلافت کو بچانے کے لیے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی سیاسی زندگی کا منظرنامہ نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے، یعنی اس تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو سیاسی قوت فراہم کرنے والے رہنما جمال الدین افغانی کی مقبولیت کی وجہ کیا تھی۔
اس کتاب میں جنوبی ایشیا کے مسلم دانش وروں اور ملّی و سیاسی زندگی میں برپا ہونے والی تحریکوں علی گڑھ، دیوبند، ندوۃ العلما نے اس تحریک سے کیا حاصل کیا اور اس تحریک کو کتنا متاثر کیا، اس کی تفصیلات کو اس کتاب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں اردو کی اہم نثری و شعری اصناف پر اس تحریک کے اثرات کا سلسلہ وار مطالعہ کیا ہے اور ایک ارتقائی عمل کے ذریعے ان اصناف میں اس تحریک کی فکری اور نظریاتی بنیادوں کا نہایت جامع مطالعہ پیش کردیا ہے‘‘۔
کتاب سات ابواب میں منقسم ہے۔ پیش لفظ اور مقدمے کے علاوہ ابواب کی فہرست درج ذیل ہے:
باب اوّل: تحریک اتحادِ اسلامی: تعارف، پس منظر، محرکات
باب دوم: تحریک اتحادِ اسلامی اور جمال الدین افغانی
تحریک اتحادِ اسلامی کا تناظر: جنوبی ایشیا کی سیاسی، تہذیبی اور ادبی صورتِ حال
باب سوم: سید احمد خان، جمال الدین افغانی اور بین الاسلامیت
شبلی نعمانی اور سید احمد خان کے اختلافات: شبلی کی بین الاسلامی مراجعت
سید احمد خان کے رفقا کی تحریک اتحادِ اسلامی سے قلمی وابستگی
تحریک اتحادِ اسلامی اور برعظیم کے علما کی علمی و ادبی خدمات
باب چہارم: تحریک اتحادِ اسلامی: معاصر علمی و ادبی تحریکوں پر اثرات
علی گڑھ تحریک، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما
باب پنجم: تحریک اتحادِ اسلامی: اردو ادب کا نثری سرمایہ
داستان، ناول، افسانہ، ڈراما، سفرنامہ
تاریخی وسوانحی کتب و مقالات
باب ششم: تحریک اتحادِ اسلامی اور اردو شاعری
الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، اکبر الٰہ آبادی، محمد علی جوہر، اسمٰعیل میرٹھی، حسرت موہانی،مولانا ظفر علی خان، علامہ اقبال، زخ ش (زاہدہ خاتون شیروانیہ)، ابراہیم بیگ چغتائی، آغا غلام حسین ارشد، شاہ قسیم الدین، آغا حشر کاشمیری، مولانا تمنا عمادی، عبدالحلیم شرر لکھنوی، صفی لکھنوی، اشتیاق سلونوی، ہاشمی فرید آبادی،عزیز لکھنوی، رضا علی وحشت
باب ہفتم: تحریک اتحادِ اسلامی کا تناظر: اردو کی علمی و ادبی صحافت
ماحصل
ڈاکٹر خالد امین جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں استاد ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی مجلے تحصیل میں نائب مدیر ہیں۔ ان کی اس تحقیق سے ہماری ملّی، علمی، ادبی تاریخ کے ایک اہم گوشے کی وضاحت ہوگئی ہے۔
کتاب مجلّد ہے، سادہ سرورق سے آراستہ ہے۔ اردو لائبریری میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔
……٭٭٭……
عرب اور موالی
زیر نظر کتاب ’’عرب اور موالی‘‘ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی پی ایچ ڈی کے مقالے پر مبنی تحقیق ہے۔ یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ قرطاس کے سلسلۂ مطبوعات میں اس کا شمار 153 ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کو کتابی شکل میں طبع کرانے کا ارادہ ہوا تو میں نے یہ مسودہ اپنے استادِ محترم پروفیسر علی محسن صدیقی صاحب کو اس خیال سے بھجوایا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈال لیں، تاکہ مقالے میں جو کمی رہ گئی ہے یا تسامحات سرزد ہوئے ہیں، یا اگر کہیں اصلاح کی گنجائش ہے تو اشاعت سے قبل کرلی جائے۔ عدیم الفرصتی کے باوجود جناب صدیقی صاحب نے جس طرح میرا طویل مقالہ لفظاً لفظاً پڑھا اور اصلاح فرمائی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مقالہ حتی المقدور غلطیوں سے پاک ہوگیا، اور اب میں اپنا یہ کام اطمینانِ قلب کے ساتھ پیش کرسکتی ہوں۔ ان کی نظرثانی نے میرے مقالے کو جو وقار بخشا ہے، اس کے لیے ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بہت چھوٹا ہوگا۔
ڈاکٹر سلیم صاحب کی شدید علالت کے دوران میں نے اپنا تھیسس BASR میں جمع کرایا تھا، اس سے قبل کہ مجھے ڈگری ایوارڈ ہوتی، اور میرے ممتحن حضرات (پروفیسر سیّد سلمان ندوی، ڈربن، سائوتھ افریقہ اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری، علی گڑھ، انڈیا) کی شاندار رپورٹ سے وہ شاد کام ہوتے، پیغامِ اجل آپہنچا اور وہ راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ اس کے بعد کے تمام انتظامی مراحل پروفیسر ڈاکٹر محمد صابر کی راہنمائی میں طے کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی شفقت، راہنمائی اور تعاون نے ہر مرحلہ آسان کردیا، ورنہ ہوسکتا تھا کہ جامعہ کراچی میں بعض اساتذہ کی ناروا سیاست اور بے جا حسد راہ کھوٹی کرتا۔ آج میں جس مقام پر ہوں (یعنی شعبہ اسلامی تاریخ کی سربراہ) یہ ڈاکٹر صاحب کی خصوصی توجہ، مہربانی، عنایت اور شفقت کی وجہ سے ہے۔ ان کے لیے بھی ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بہت معمولی اور حقیر ہے۔‘‘
’’زیرنظر کتاب پہلی بار دسمبر 2006ء میں شائع ہوئی۔ 2008ء میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا، اور جلد ہی اسٹاک ختم ہوگیا، اس کی مانگ برقرار رہی۔ تاہم قرطاس کی دیگر مطبوعات میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کی اشاعتِ ثانی مسلسل تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ بہرحال اب بارہ سال کے وقفے کے بعد کتاب دوبارہ پیش کی جارہی ہے۔ اس طبع ثانی میں ایک باب ’’شعوبیت‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل میرا مقالہ تھا جو خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ، انڈیا سے شمارہ 140(بابت اپریل۔ جون 2005ء) میں شائع ہوا تھا‘‘۔
ڈاکٹر صاحبہ مقدمے میں تحریر فرماتی ہیں:
’’پہلی صدی ہجری کی سیاسی، تہذیبی و علمی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے، تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں ’’موالی‘‘ کے حوالے سے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ لفظ ’’مولیٰ‘‘ (جمع: موالی) کا اطلاق کن پر ہوسکتا تھا؟ اس ’ادارے‘ کی اس عہد میں کیا ضرورت تھی؟ قرآن، موالی کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اسلام نے ان کو کیا سماجی مقام عطا کیا؟ نیز عربوں کی قبائلی عصبیت اور فاتحانہ ارستقراطیت (Aristocracy) بعد میں ان کا یہ مقام کس حد تک برقرار رکھ سکی؟ خود موالی، قبولِ اسلام کے بعد اسلامی روح سے کس حد تک واقف ہوسکے اور اپنی سابقہ قومی عصبیت سے کس حد تک دست بردار ہوسکے؟ ان کے سیاسی عزائم نے بنوامیہ کی حکومت کے لیے کن خطرات کو جنم دیا؟ اور یہ کہ زیر نظر صدی اور اس سے ملحقہ دوسری صدی ہجری میں اٹھنے والے بیشتر مذہبی فتنوں میں دستِ موالی کی کارفرمائی کا کیا سبب تھا؟
پھر یہ علمی مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ جس طرح اس امر کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ اسلام نے انسانی سماج کو قدیم عصبیتوں سے نجات دلانے میں جو کامیابی حاصل کی، اس کے وسائل و مدارج اس عالمِ اسباب میں کیا رہے، وہیں اس امر کے بارے میں تحقیق بھی تاریخ کی اہم ضرورت ہے کہ اسلام نے انسانی سماج کو جب قدیم جاہلانہ عصبیتوں سے پاک کردیا تھا تو پھر نصف صدی کے اندر اندر ہی وہ کیونکر سابقہ شدت سے انہی جاہلانہ عصبیتوں میں گرفتار ہوگیا؟
زیر نظر مقالے میں انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس موضوع پر جرجی زیدان، احمد امین المصری، حسن ابراہیم حسن اور مستشرقین میں سے خصوصاً ولہاوزن (J.Wellhousen)، لیوی (Reuben Levy)، گولڈزیہر (Gold Ziher) اور گب (H.A.R. Gibb)وغیرہ نے اظہارِ خیال کیا ہے۔ مگر اس موضوع پر کافی کچھ کہنے کی گنجائش پائی گئی ہے، اور بعض مؤرخین نے جن نتائج کا استخراج کیا ہے، وہ خاصے متنازع رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک معتدل اور معروضی فکر کی ضرورت مستقل محسوس کی جارہی تھی، اور یہی ضرورت اس موضوع کے انتخاب کا سبب بنی۔
اس علمی مسئلے کے لیے پہلی صدی ہجری کے دور کو منتخب کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ موالی کے سماجی مرتبے کے تعین کا اہم اور حل طلب مسئلہ اٹھا ہی اس صدی میں تھا۔ اگر عربوں کو اپنی عربیت پر ناز تھا تو دوسری طرف عجمیوں خصوصاً ایرانی موالی کو اپنے شاندار سابقہ ساسانی تمدن پر غرور تھا، اور فتوحات کے نتیجے میں جب یہ دونوں تہذیبیں ٹکرائیں تو فاتحین (یعنی عربوں) کی قائم کردہ ریاست و معاشرے میں مفتوحین (یعنی موالی) کے سماجی مرتبے کا تعین ایک اہم اور نازک مسئلے کی شکل اختیار کرگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسی صدی میں مختلف مذہبی فرقوں، مثلاً شیعہ، خوارج، مُرِجۂ وغیرہ کا ظہور ہوا، جن کے سیاسی و تمدنی نظریات نے اس سماجی مسئلے کو اپنے اپنے تناظر میں حل کرنے کی کوشش کی۔
’’تاریخ‘‘ ایک ایسا مضمون ہے جس میں قیاسیات و تاویلات سے کام لینے کی گنجائش ہوتی ہے، خصوصاً اسبابِ واقعات معلوم کرنے کے معاملے میں مؤرخ کو بیشتر حالات میں قیاس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں علومِ سائنس کا معاملہ دوسرا ہے۔ سائنس میں جب کوئی نتیجہ حاصل کرنے یا سبب معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو تجربہ گاہ میں جاکر بڑی حد تک حتمی سبب حاصل کرلینا اور پھر متعدد تجربات کے ذریعے اس کی تصدیق بھی کرلینا اک امرِ ممکن ہے، مگر یہ معاملہ تاریخ کے ساتھ نہیں ہے۔
علم التاریخ کا شاید سب سے دشوار اور کٹھن مرحلہ (جس سے اس مقالے کی تیاری کے دوران مجھے بارہا گزرنا پڑا) وہ ہوتا ہے جب مؤرخ کسی تہذیب کا کیمیائی تحلیل کی طرح ایسا تجزیہ کرنا چاہتا ہے، جس کے ذریعے وہ اس کے داخلی عناصر کی اصلیت کا پتا چلا سکے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس تہذیب پر وقت کا ایک طویل عرصہ گزر چکا ہو۔ ابھی تک کوئی ایسی کیمیائی تجربہ گاہ (Laboratory) وجود میں نہیں آئی ہے (اور نہ آسکتی ہے) جو تاریخی تحلیل کا حتمی کام انجام دے سکے، اور نہ کوئی ایسی خوردبین (Microscope) ہی ایجاد ہوئی ہے جو ان تہذیبی عوامل کی تمام تر باریکیوں کے ساتھ وضاحت کرسکے، جنہوں نے کسی تہذیب کی تشکیل میں خاص حصہ لیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں کوئی بات بھی ’’حرفِ آخر‘‘ نہیں ہوتی۔ لہٰذا مجھے بھی اس بات کا دعویٰ نہیں ہے کہ یہ مقالہ اس موضوع پر حرفِ آخر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی واقعے سے مختلف ذہن، مختلف نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس موضوع پر بھی مزید کچھ کہنے کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس مقالے کے حوالے سے پہلی صدی ہجری کی سیاسی، تہذیبی اور علمی تاریخ پر ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اموی عہد کی بیشتر تاریخیں عباسی عہد میں لکھی گئیں، جو دونوں حکمران خانوادوں کے مابین ایک طویل کشمکش اور عرب و موالی تعلقات کے حوالے سے بھی معروضیت کے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ حقائق کا صحیح ادراک کرکے اس عہد کی سیاسی و معاشرتی تاریخ بیان کرنا واقعتاً جان جوکھوں کا کام ثابت ہوا۔‘‘
کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اوّل: لفظ مولیٰ کی تشریح و توضیح
باب دوم: عہدِ جاہلیہ میں موالی
باب سوم: فصل اول: اسلامی معاشرے کا قیام
فصل دوم: اسلام میں غلامی کا تصور
فصل سوم: اسلامی معاشرے میں موالی کی سماجی حیثیت
(عہد رسالت)
باب چہارم: موالی: عہدِ خلافتِ راشدہ میں
باب پنجم: موالی: معاشرے کا جارح عنصر
باب ششم: موالی: حکومتی ردعمل کی زد میں
باب ہفتم: ترویج علوم میں موالی کا حصہ (پہلی صدی ہجری)۔
باب ہشتم: شعوبیت
نتائجِ تحقیق
کتاب کے آخر میں ریحان عمر صاحب کا مرتبہ اشاریہ دیا گیا ہے، کتابیات کی تفصیل بھی درج کی گئی ہے۔