انہیں ارطغرل کے کردار پر اعتراض کیا ہے؟ میں تو اپنی نالائقی یا سستی کی وجہ سے آج کل ڈرامے دیکھ نہیں پاتا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان خاں کے والد کی تاریخ کو ترک فلم ساز نے بڑی کاوشوں کے ساتھ لکھ کر نکالا ہے۔ اور اس کا اسکرین پلے بھی اس طرح لکھا ہے کہ اس میں بڑے تخلیقی انداز میں شعائرِ اسلام کی ترجمانی ہوتی ہے، اسمائے صفات کا ورد ہوتا ہے، نماز کو بڑے تخلیقی انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ارطغرل کچھ ’’بابوں‘‘ سے ملتے اور راز و نیاز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بابے رجالِ غیب یا ابدالِ وقت ہوسکتے ہیں، حتیٰ کہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے صوفی، مفکر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ان سے رابطہ دکھایا گیا ہے۔ بھلا یہ باتیں انہیں کیسے ہضم ہوتیں! میرے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ میں خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ کو غیر تہذیب سمجھوں اور بالی وڈ کی فلموں میں پوجا پاٹ کو تخلیق کا اظہار کہوں۔ میں موہنجوداڑو سے نکلا ہوا انسان نہیں ہوں، اگرچہ ہڑپہ کے پڑوس میں پروان چڑھا ہوں۔ میرے بارے میں مرحوم سراج منیر نے ہجرت کے فیصلے کو یوں بیان کیا تھا کہ جنہوں نے جغرافیے سے جغرافیے میں ہجرت کی ہے، وہ پناہ گیر ہیں، اور بھلے سے پاکستان کے قیام کو مختلف پیمانوں سے جانچیں، مگر جنہوں نے تاریخ کے ساتھ جغرافیے سے جغرافیے میں ہجرت کی ہے وہ نئی ریاست مدینہ کے مہاجر ہیں۔ ”تو ہے اک ہجرت کدہ شہر مدینہ کی طرح“
میں کہا کرتا تھا کہ میں ساہیوال کا رہنے والا ہوں۔ ایک ہاتھ اٹھاتا ہوں تو ہڑپہ پہ پڑتا ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھوں تو سامنے بابا فریدؒ کا مزار نظر آتا ہے، اور دوسری طرف دیکھوں تو دیپالپور کی عظیم سلطنت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو میری تہذیب و تاریخ کا حصہ ہے۔ احمد خاں کھرل ہے، ملکہ ہانس کی وہ مسجد ہے جہاں بیٹھ کر وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ یہ سب میری تاریخ ہے، اور میں اس کا حصہ ہوں۔ میری پشت پر بنوامیہ کی فتوحات بھی ہیں۔ عباسیوں کی علمی کاوشیں بھی ہیں۔ عثمانیوں کی حریت پسندی بھی ہے اور مغلوں کا شکوہ بھی ہے۔ میں کسی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ جو لوگ خود کو جغرافیے میں محدود کرنا چاہتے ہیں وہ اسی طرح حمیدہ کھوڑو اور نفیسہ شاہ کی طرح تنگ نظری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ علاقائی اور مقامی شاونزم اسی طرح پیدا ہوا کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے ترکوں پر آپ سے کم سیکولرازم اور لبرل ازم بیتا ہوگی۔ انہوں نے اس میدان میں طویل جنگ لڑی ہے۔ قربانیاں دی ہیں۔ وہ جن مراحل سے گزرے ہیں، اس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اپنے آپ کو تنگنانے میں بند نہ کرو، سکڑ کر رہ جائو گے۔ میں ہندوستان میں اجمیر شریف، تاج محل اور بستی نظام الدین کو اپنی تہذیبی میراث سے کاٹ نہیں سکتا چاہے جغرافیائی طور پر وہ آپ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس طرح میں کیسے عثمانیوں کی حریت پسندی سے منکر ہوسکتا ہوں! حیرانی کی بات ہے جو لوگ لبرل، سیکولر اور ترقی پسند بنتے ہیں، بلکہ جمہوریت دوست کہلاتے ہیں، وہ کن تنگ نظریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بات کو دور تک لے جانا مناسب نہیں ہے۔ ضرورت ہوئی تو یہ بھی کرلیں گے۔ یہ سب سیاست کی دین ہے کہ ہم قوم پرستی اور شاونزم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وگرنہ تہذیبی انسان تو تاریخ کے گہرے پانیوں میں اتر کر موجیں مارتا ہے۔ ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا میں شخصیت پرستی یا ہیرو ور شپ کا قائل نہیں ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو حضورؐ کی سیرت اور اسوہ حسنہ سے جو عشق ہے، اس میں کسی کو غلط فہمی ہوجائے کہ ہم ہیرو ور شپ کے قائل ہرگز نہیں۔ مسلمان تو اس بات سے چڑتے ہیں کہ انہیں محمڈن کہا جائے۔ انگریز نے بہت کوشش کی، مگر بات چل نہ پائی۔ اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو وحی کے تصور کا قائل ہو، صرف وہی اندازہ کرسکتا ہے کہ اسلام میں نبی اور رسول کا تصور کیا ہے، اور نبوت سے وابستگی دراصل توحید تک پہنچنے کا دروازہ ہے۔ وحی سے حاصل تعلیمات کی رہنمائی کے لیے قرآن کے بعد جو اہمیت نبیؐ کی ذات اور سیرت کو حاصل ہے، اس کا مفہوم تخلیقی سطح پر سمجھے بغیر آپ جان نہ پائیں گے کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہم بتوں کو نہیں پوجتے، مگر زندگی کو درست راستے پر رکھنے کے لیے اس لائحہ عمل پر چلتے ہیں جو ہمیں وحی الٰہی کے ذریعے سکھایا گیا ہے، اور اس لائحہ عمل پر چلنے کے لیے لازم ہے کہ ہم رسولؐ کی محبت کا دامن تھامے رہیں۔ ہمارے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو قرآن کی عملی تفسیر کہا گیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہماری زندگیوں میں ہڑپہ، موہنجو داڑو یا ٹیکسلا کے جو اثرات ہوں گے، وہ کہیں دور گہرائی میں ہوں گے۔ یہ سب تاریخ کے وہ نقشِ قدم ہیں جن پر پائوں رکھ کر ہم آج یہاں تک پہنچے ہیں۔ اس ملک میں کلچر اور تہذیب کی یہ بحث کئی بار ہوئی ہے۔ بھٹو صاحب کی آمد پر بھی بڑی دھوم دھام سے ہوتی تھی جس میں آپ نے اپنے بڑے بڑے جغادری جھونک دیے تھے۔ ہر بار یہ بحث پٹ جاتی ہے، مگر ہم تازہ دم ہو کر دوبارہ آنے لگتے ہیں۔ آئیے، بسم اللہ، ایک بار پھر سہی، ہم حاضر ہیں۔
(سجاد میر۔ روزنامہ92۔ 14مئی2020ء)
مرحوم پائلٹ کا میڈیا ٹرائل
طیارہ حادثے کے حوالے سے مرحوم پائلٹ کے خلاف جو مہم چل رہی ہے، وہ بھی افسوس ناک ہے۔ ابھی انکوائری کمیٹی نے شواہد اکٹھے کرنے شروع کیے ہیں، بلیک باکس ڈی کوڈ ہونے میں کئی ہفتے لگ جائیں گے، اس سے پہلے مفروضوں پر حتمی رائے کیوں دی جارہی ہے؟ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حادثے کے دو گھنٹے بعد ہی کنٹرول ٹاور کے ساتھ پائلٹ کی چند سیکنڈ کی گفتگو کیوں لیک کردی گئی؟ کس نے ایسا کیا؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ واضح طور پر یہ میڈیا ٹرائل کا حصہ لگ رہا ہے۔ اگر لیک ہی کرنی تھی تو پھر مکمل گفتگو دی جاتی، صرف وہ حصہ کیوں سوشل میڈیا پر ڈالا گیا، جس سے سول ایوی ایشن کو فائدہ پہنچے؟ بعد میں یہ بات بھی اڑائی گئی کہ پائلٹ لینڈنگ گیئر کھولنا ہی بھول گیا۔ یہ بات منطقی اور قابلِ قبول نہیں لگ رہی۔ اس کے ساتھ کو پائلٹ بیٹھا تھا، کیا وہ بھی بھول گیا؟ لینڈنگ میں سب سے اہم کام ہی لینڈنگ گیئر کھولنا ہے، کوئی اناڑی پائلٹ بھی اسے کھولنا نہیں بھول سکتا۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ تمام تر الزام دنیا سے چلے جانے والے پائلٹ پر ڈال کر سول ایوی ایشن اور پی آئی اے اپنی تمام ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ مرحوم پائلٹ کی جانب سے کس نے وضاحت یا صفائی پیش کرنی ہے! کراچی طیارہ حادثے میں سو کے قریب قیمتی جانیں گئیں۔ اتنے بڑے حادثے کی تفصیلی انکوائری ہونی چاہیے۔ اس میں جو لوگ یا محکمے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ مرحوم پائلٹ کا بھی خاندان، والدین، اولاد ہے، ان کا ہی خیال کرلینا چاہیے، جن پر عید سے ایک دن پہلے قیامت ٹوٹ پڑی۔ بغیر ثبوت کے تمام ذمہ داری اس بدنصیب پائلٹ پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ ہم سب کو اللہ کو جان دینی ہے، جہاں ہر ایک چیز کا حساب ہوگا، ہر شہادت تولی جائے گی۔ پروفیشنل ازم اور خوفِ خدا دونوں ہمیں ذمہ داری کا سبق دیتے ہیں۔
(عامر خاموانی،روزنامہ92،27مئی2020ء)