تاریخ کا ایک ورق

ابوسعدی
جب مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا تو آلِ عثمان کو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا۔شاہی خاندان (ملکہ اور شہزادوں) نے التجا کی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن، مصر یا شام کسی?عرب علاقے ہی میں بھیج دیا جائے۔ لیکن صہیونی آقاؤں کی تعلیمات واضح تھیں،اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرنا، ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا، چناں چہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور اُن کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا۔ اور ان کی تمام جائدادیں ضبط کرلی گئیں۔ یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان وحید الدین کے شہزادے منہ چھپا کر پیرس کی گلیوں میں کاسہ گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی انھیں پہچان نہ پائے۔ پھر جب سلطان کی وفات ہوئی تو کلیسا ان کی میت کو کسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوا کیونکہ دکان داروں کا قرض ان پر چڑھا ہوا تھا۔ بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کا قرض ادا کیا اور ان کی میت کو شام روانہ کیا، اور وہاں وہ سپردِ خاک ہوئے۔ بیس سال بعد جنھوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا اور ان کی خبرگیری کی وہ ترکی کے پہلے منتخب وزیراعظم عدنان مندریس تھے۔ شاہی خاندان کی تلاش کے لیے وہ فرانس گئے اور وہاں جاکر ان کے احوال وکوائف انھوں نے معلوم کیے، پیرس کے سفر میں وہ کہتے تھے کہ مجھے میرے آباء کا پتا بتاؤ ،مجھے میری ماؤں سے ملاؤ۔ بالآخر وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید کی زوجہ 85 سالہ ملکہ شفیقہ اور ان کی بیٹی 60 سالہ شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر مندریس اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار وقطار رو پڑے، پھر ان کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے: مجھے معاف کیجیے، مجھے معاف کیجیے! شہزادی عائشہ نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ کہا: میں ترک وزیراعظم عدنان مندریس ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ وہ بول اٹھیں: اب تک کہاں تھے؟ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ اور خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑیں۔ عدنان مندریس جب انقرہ واپس گئے تو انہوں نے جلال بیار سے کہا کہ میں آل عثمان کے لیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں، اور اپنی ماؤں کو واپس لانا چاہتا ہوں۔ بیار نے شروع میں تو اعتراض کیا، مگر مندریس کے مسلسل اصرار پر صرف عورتوں کو واپس لانے کی تائید کی۔ پھر عدنان مندریس خود فرانس گئے اور ملکہ شفیقہ اور شہزادی عائشہ دونوں کو فرانس سے ترکی لے آئے، مگر شہزادوں کے لیے معافی نامہ جاری کرکے ان کو اپنے وطنِ عزیز ترکی لانے کا سہرا مرحوم نجم الدین اربکان کے سر جاتا ہے، جب وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز تھے۔ پھر جب مندریس پر جھوٹا مقدمہ چلا کر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو منجملہ الزامات کے ایک الزام یہ تھا کہ انھوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اور بیٹی پر خرچ کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہر عید کے موقع پر ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کے لیے جاتے، ان کے ہاتھ چومتے، اور اپنی جیبِ خاص اور اپنے ذاتی صرفے سے 10 ہزار لیرا سالانہ شہزادی عائشہ اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔جب 17 ستمبر 1961کو عدنان مندریس شہید ہوئے تو دوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اور شہزادی) کی بھی بحالتِ سجود وفات ہوئی۔یہ سلوک ہے نام نہاد جمہوریت پسندوں اور سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ۔ نہ کوئی مروت، نہ شرافت، نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری، نہ اخلاق کا پاس، نہ قدروں کا لحاظ! یہ جو قومیت اور وطنیت کا راگ الاپتے ہیں اور نعرے لگا لگا کر جن کی زبانیں نہیں تھکتیں ان کا مقصد بجز اس کے اور کیا ہے کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیا جائے، اور اس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کر اس کو ایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیا جائے جن میں احترامِ ذات مفقود ہے اور حرمتوں اور انسانی رشتوں کا کوئی پاس و لحاظ نہیں۔ روئے زمین پر موجود شیطان کے چیلوں سے کبھی بے خبر نہ رہنا! اور ہاں یہ قصے بچوں کو سلانے کے لیے نہیں بلکہ سوتوں کو جگانے اور جواں مردوں کو کمربستہ کرنے کے لیے ہیں!۔

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

(عربی سے ترجمہ : ابو فاتح ندوی)
ِزبیر منصوری

امام ابوحنیفہؒ

نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان بن ثابت بن قیس بن یزد گرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں بادشاہ، المعروف بہ امام ابوحنیفہؒ 80ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ ’’تاریخ خطیب بغدادی‘‘ و ’’تاریخ ابن خلکان‘‘ سے روایت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے پوتے اسمٰعیل نے کہا: ’’میں اسمٰعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان فارس کے ابنائے احرار میں سے ہوں اور خدا کی قسم ہم پر کبھی رق واقع نہیں ہوئی‘‘۔ ’’مفتاح السعادہ‘‘ میں منقول ہے کہ جب آپ کے والد فوت ہوئے تو آپ کی والدہ سے امام جعفر صادقؒ نے نکاح کیا۔ صغیر سنی کے باعث آپ نے امام جعفر صادقؒ کی آغوش میں پرورش پائی۔ آپ نے انس بن مالکؓ کو دیکھا۔ عطا بن ابی رباح، نافع مولیٰ ابن عمر، حماد بن ابی سلیمان، ہشام بن عروہ، علقمہ بن مرثد وغیرہم سے سماعت ِ حدیث کی۔ عبداللہ بن مبارک، وکیع بن الجراح، یزید بن ہارون، ابویوسف القاضی، محمد بن حسن وغیرہم نے ان سے روایت کی ہے۔ فقہ میں خصوصی اکتساب کیا۔ پچپن حج کیے۔ ملا علی قاری نے ’’طبقات الحنفیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا بعض صحابہ کو دیکھنا بالتحقیق ثابت ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ ان سے روایت کی ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے آپ تابعی ہیں۔ عہدِ بنوامیہ میں ابنِ ہبیرہ عامل کوفہ نے قضا کا عہدہ قبول کرنے پر اصرار کیا، انکار پر انہیں سو کوڑے لگوائے گئے۔ دوسری مرتبہ خلیفہ منصور نے اسی عہدے کو قبول کرنے کے لیے بغداد بلوایا، مگر آپ انکار کرتے رہے، جس پر منصور نے قید کا حکم دیا۔ اسی قید میں 150ھ میں وفات پائی۔ امام ابوحنیفہؒ کا اصل کارنامہ فقہ، یعنی اسلامی قانون کی تدوین و ترتیب ہے۔ اس مدرسۂ فکر کی ابتدا حضرت علیؓ سے ہوئی۔ پھر شریح، علقمہ، مسروق، ابراہیم نخعی سے اس کی امامت حماد تک پہنچی۔ امام ابوحنیفہ انھی کے شاگرد ہوئے اور پورے اٹھارہ سال ان کی صحبت میں گزارے۔ 120ھ میں جب ان کے استاد حماد کا انتقال ہوا تو پھر اس مسند پر امام ابوحنیفہؒ کو بٹھایا گیا اور کامل تیس سال تک انہوں نے درس و تدریس اور افتا کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا، جس پر اہلِ تقلید کی بنیاد ہے، اور یہی مذہبِ حنفی کی اساس ہے۔ آپ نے تراسی ہزار قانونی مسائل کے جواب دیے اور سات سو سے زائد شاگرد تیار کیے۔ انہوں نے حکومت اور اس کے مناصب سے بے نیاز ہوکر اسلامی قانون کی تدوین کا کام جاری رکھا، جس کے بعد ان کے نامور شاگردوں بالخصوص امام ابویوسفؒ نے اس کام کو بہت آگے بڑھایا۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

سہ بندی کا پیادہ، جس کا آگا پیچھا برابر ہے

ایسا شخص جس کی دوستی اور دشمنی میں کوئی فرق نہ ہو۔ یہ کہاوت اُس وقت کہی جاتی ہے جب کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑ جائے جو ہر طرح سے مضر ہو۔ سہ بندی کا پیادہ اُس سپاہی کو کہتے ہیں جو ہر سال چند ماہ کے لیے مال گزاری وصول کرنے کے لیے رکھا جائے اور پھر علیحدہ کردیا جائے۔ کنایتاً عارضی دولت مند اور چند روزہ حاکم کو بھی کہتے ہیں۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب درج ذیل ہے:
کہا جاتا ہے کہ اودھ میں تحصیل وصول کرنے کے لیے صرف نو مہینے کی مدت کے لیے سپاہی رکھے جاتے تھے۔ وہ سپاہی سہ بندی کے پیادے کہلاتے تھے۔ سہ بندی کے پیادے کسانوں کے ساتھ تین طریقوں سے پیش آتے تھے جن کو ربط، ضبط اور خبط کہا جاتا تھا۔ پہلے تو یہ لوگ کسانوں سے میل ملاپ بڑھا کر ربط پیدا کرتے تھے اور ان کی پیداوار کا سارا حال معلوم کرلیتے تھے۔ جب کھیتی پکنے پر آتی تو اُس وقت ضبط کی نوبت آتی اور آنکھیں بدل کر حکومت جمانے لگتے تھے۔ آخر پر خبط پر اتر آتے تھے یعنی جو کچھ بھی ملتا اس کو لے بھاگتے تھے اور کبھی کسانوں پر غالب آجاتے۔ غرض کہ ہر صورت سے سرکاری مال گزاری وصول کرکے ہی پیچھا چھوڑتے تھے۔