شیر، بھیڑیا اور لومڑی

مہدی آذریزدی/مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک شیر، ایک بھیڑیے اور ایک لومڑی کا صحرا میں ایک جگہ سامنا ہوا۔ معلوم ہوا کہ تینوں بھوکے ہیں اور شکار کے لیے نکلے ہیں۔
شیر بولا: ’’میرے خیال میں یہ کوئی اچھی صورت نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک، الگ الگ مصروفِ کار رہتا ہے اور الگ الگ کھاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے رفیق و شریک بنیں، مل کر شکار کھیلیں اور مل کر کھائیں۔ جب ہم بے غرض ہیں تو کیوں ناں اتفاق اور یگانگت کو اپنائیں‘‘۔
بھیڑیا کچھ نہ بولا۔ لومڑی ان دونوں کے مقابلے میں کمزور تھی، سوچ میں تھی کہ شیر اور بھیڑیا دونوں بہرحال خوب شکار کرتے ہیں اس لیے مجھے تو نفع ہی نفع ہے۔ بولی: ’’بالکل ٹھیک ہے، یہ کام خوب رہے گا، شیر کے ساتھ مل کر کام کرنا ہمارے لیے باعثِ فخر ہے، سبحان اللہ‘‘۔
انہوں نے ایک جگہ طے کرلی اور قرار پایا کہ ہر کوئی شکار کے لیے نکلے اور جو شکار جس کے ہاتھ لگے اُس جگہ لے آئے اور سب مل کر کھائیں۔
تینوں روانہ ہوئے۔ شیر نے جنگلی گدھے کا شکار کیا، بھیڑیے نے ایک ہرن مارا، اور لومڑی کے ہاتھ خرگوش لگا۔ تینوں مقررہ جگہ پر اپنا اپنا شکار لے آئے۔
شیر بولا: ’’بہت خوب۔ اب آئو شکار کو اس طرح تقسیم کرلیں کہ عدل پر مبنی ہو۔ دنیا میں کوئی چیز انصاف سے بہتر نہیں‘‘۔ لومڑی شیر سے مخاطب ہوکر بولی:’’آپ سب سے بڑے ہیں، اختیار آپ کے پاس ہے، جو مناسب ہے کیجیے‘‘۔
شیر بولا: ’’نہ نہ یہ نہ کہو۔ میں تم سے زیادہ طاقت ور ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ باتیں بنائیں کہ شیر، شکار کی تقسیم میں خودغرض واقع ہوا۔ تم خود فیصلہ کرو، تجویز پیش کرو۔ جب انصاف پیش نظر ہو تو میں بھی اس سے اتفاق کروں گا۔ بہتر ہے کہ ہم یہ ذمہ داری بھیڑیے کو سونپیں کہ بولتا کم ہے اور سوچتا زیادہ ہے۔ اے بھیڑیے، شکار تقسیم کر‘‘۔
بھیڑیا بولا: ’’میں کیا عرض کروں۔ اب جب آپ کا حکم ہے تو میرے خیال میں سارا معاملہ صاف ہے۔ آپ سب سے بڑے ہیں، جنگلی گدھے کا خود آپ نے شکار کیا ہے لہٰذا یہ آپ کا مال ہوا۔ میں متوسط درجے کا جانور ہوں۔ ہرن کا شکار بھی خود میں نے کیا ہے، سو اِس پر میرا حق ہے۔ لومڑی سب سے چھوٹی ہے۔ خرگوش کا شکار خود اس نے کیا ہے لہٰذا خرگوش اسی کے حصے میں آتا ہے‘‘۔
شیر غصے میں آگیا، بولا: ’’اے چیرپھاڑ کرنے والے بھیڑیے، اپنی غلطی کا احساس کر۔ تیری اس تقسیم پر لوگ نفرین کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تجھے کسی چیز کا شعور نہیں اور تُو بڑوں کے سامنے فضول گوئی کرتا ہے۔ کیا کروں شیطان کا حکم ہے کہ ایک جھانپڑ مار کر تیرا بھیجا پارہ پارہ کردوں‘‘۔
شیر نے ایک زور کا پنجہ بھیڑیے کی گردن پر مارا۔ اس کے سرکو اس کے تن سے جدا کرکے اپنے سامنے رکھا اور پھر لومڑی سے مخاطب ہوا: ’’یہ اکھڑ اور اُجڈ بھیڑیا ادب اور انصاف سے عاری تھا سو اپنے انجام کو پہنچا۔ اب تُو آگے بڑھ اور چوں کہ تُو تمام حیوانات سے زیادہ عاقل ہے، اس گوشت کو تقسیم کر‘‘۔
لومڑی نے سوچا، مجھے چاہیے کہ میں ایک لقمے کی قربانی دے کر اپنی جان بچالوں۔ بولی:’’مجھے امید ہے آپ ناخوش تو نہیں ہوئے ہوں گے۔ بھیڑیا بزرگوں سے دوستی کے آداب سے واقف نہ تھا، اور اچھا ہوا کہ اپنے انجام کو پہنچا۔ رہا تقسیم کا معاملہ، تو اس میں کوئی مشکل نہیں۔ جنگلی گدھا آپ کے دوپہر کے کھانے کے لیے ہے، ہرن آپ کے شام کے کھانے کے لیے ہے، اور خرگوش آپ کے ناشتے کے لیے اچھا رہے گا‘‘۔
شیر کو ہنسی آگئی، بولا: ’’آفرین ہے تجھ پر، شاباش! تُو تقسیم کے ہنر سے کس قدر واقف ہے۔ ذرا یہ تو بتا تُو نے یہ انصاف اور ادب کہاں سے سیکھا؟‘‘
لومڑی بولی: ’’میں کس قابل ہوں! اچھائی کا وجود آپ کی ذات سے ہے۔ رہا ادب و انصاف کا معاملہ، تو یہ میں نے بھیڑیے کے کٹے سر سے سیکھا ہے جو اس وقت آپ کے سامنے پڑا ہے‘‘۔
(’’بے زبانوں کی زبانی‘‘… حکمت بھری کہانیاں)