درویش صفت صحافی جناب عبدالکریم عابد مرحوم

۔23مئی کو ممتاز صحافی، تجزیہ نگار، ادیب، دانشور اور فرائیڈے اسپیشل کے بانی ایڈیٹر جناب عبدالکریم عابد مرحوم کی برسی ہے۔ عابد صاحب ٹی وی چینلز کی چکاچوند سے پہلے کے صحافیوں کی اُس آخری کھیپ کے سرکردہ افراد میں شامل تھے جن کے ہاں صداقت، دیانت، جرأت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے بغیر صحافت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، جو قلم کو روزی کا نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ سمجھتے تھے، جو شائستگی کے ساتھ اختلاف کرتے اور حوصلے کے ساتھ سچائی پر ڈٹ جاتے تھے، جو پگڑی اچھالنے اور سمجھوتوں کے ذریعے آسودگی دونوں کو گناہ سمجھتے تھے۔ سڑک سوار یہ لوگ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ اس کھیپ کے کئی دوسرے لوگوں کی طرح جناب عبدالکریم عابد کی ذات اور تحریر دونوں ایسی ہیں جن پر آج کی صحافی نسل بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ میری یہ رائے کوئی جذباتی رائے نہیں ہے، بلکہ اُن کی ذات کو جاننے اور اُن کی تحریر کو تسلسل سے پڑھنے والے ہر شخص کی یہی رائے ہے۔ جس کا بہتوں نے اُن کی زندگی ہی میں اظہار کردیا تھا، اور باقی نے اُن کے مرنے کے بعد اعتراف کرلیا ہے۔
میں آج عبدالکریم عابد صاحب کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ ان سے وہ اکتسابِ فیض کیوں نہ کیا جو کیا جا سکتا تھا۔ ان کی محفلوں اور گفتگو کو زندگی کے روز و شب میں کیوں شامل نہ کیا جو میرے جیسے کتنے ہی لوگوں کے لیے رہنمائی کا باعث بن سکتی تھیں۔ ان کی زبان اور قلم سے نکلے ہوئے وہ الفاظ کیوں نہ سمیٹے جو اب متروک ہوتے جارہے ہیں، اور ان کے کردار کی ان بلندیوں کو کیوں سمجھنے کی شعوری کوشش نہ کی جو آج کی صحافی نسل میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
بہت عرصہ پہلے میرے ایک سینئر ساتھی اور ملک کے ایک نامور صحافی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تم ایسے 20 صحافیوں کی فہرست بنا سکتے ہو جن پر تم فخر کرسکو۔ چونکہ میں اُس وقت صحافت کے میدان میں نووارد تھا اور اس کارزار کی نئی اور پرانی نسل سے پوری طرح واقف نہیں ہوا تھا اس لیے خاموش ہورہا۔ لیکن میرے وہ صحافی دوست اگر آج مجھ سے یہ سوال کریں تو میں اس فہرست میں سب سے اوپر جو دو نام لکھوں گا ان میں سے ایک جناب عبدالکریم عابد کا ہوگا۔
جناب عبدالکریم عابد سے میرا کوئی لمبا چوڑا تعلق نہیں تھا۔ ان سے ملاقاتیں، رفاقتیں اور گفتگوئیں کم ہی رہیں۔ وہ صحافت میں میری پیش رو نسل کے سرکردہ افراد میں شامل تھے۔ اخبار بدلنا ان کا معمول تھا۔ میں نے صحافت میں قد م رکھا تو وہ کراچی میں تھے، پھر لاہور آئے تو ہمارے حریف اخبارات سے وابستہ رہے۔ اس لیے ان کے ساتھ ایک فاصلہ سا رہا۔ ان کی عمر اور تجربہ بھی جہاں میرے دل میں ان کے لیے احترام کے جذبات پیدا کرتا، وہیں یہ احترام ازخود فاصلہ بھی بن جاتا تھا۔ وہ مزاجاً بھی کم گو تھے۔ بلاوجہ لوگوں سے بے تکلف ہونے کے عادی نہیں تھے۔ اس لیے جب کبھی ان سے ملاقات ہوتی، میری خواہش ہوتی کہ وہ بولیں تاکہ میں ان کی گفتگو کے موتی سمیٹ سکوں۔ مگر ان کی پوری کوشش ہوتی کہ دوسرے کو بات کرنے کا موقع دیں۔ اس لیے ان کے ساتھ میری جتنی بھی ملاقاتیں اور باتیں ہیں وہ مختصر ہی ہیں، مگر میرے لیے اثاثے اور اعزازکا درجہ رکھتی ہیں۔
یہ تو مجھے یاد نہیں کہ جناب عبدالکریم عابد سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی، مگر یہ ضرور یاد ہے کہ ان کی تحریریں 1970ء کی دہائی سے میرے مطالعے میں تھیں۔ ان کی ہر تحریر پہلے سے زیادہ مدلل، بے باک اور جان دار ہوتی۔ ساتھ ہی ہر نئی تحریر کسی پرانی تحریر کی یاد بھی تازہ کردیتی۔ سنا ہے کسی زمانے میں وہ بے تکان بولتے تھے، جو رفتہ رفتہ کم گوئی میں تبدیل ہوگیا۔ مگر شاید بے تکان لکھنے کا سلسلہ انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھا۔ وہ اُن چند صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے موت کوگلے لگانے تک قلم سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔

ہم خاک نشینوں کی عادت یہ پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

ہمارے ہاں عام طور پر صحافت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ ہفتے دو ہفتے میں ایک آدھ تحریر لکھ دیتے ہیں۔ بیشتر تو اس سے بھی بہت جلد اکتا جاتے ہیں اور صرف مطالعے پر اکتفا کرکے باقی زندگی گزار دیتے ہیں۔ مگر عبدالکریم عابد آخری عمر میں زیادہ لکھنے لگے تھے۔ 1974ء میں ان کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو مایوس ہونے کے بجائے انہوں نے زندگی کو زیادہ بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لکھتے وہ پہلے بھی تھے، مگر اس تشخیص کے بعد وہ بہت زیادہ لکھنے لگے۔ شاید اسی بھرپور محنت اور عزم نے انہیں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص کے بعد 31 سال تک زندہ رکھا۔ میری دانست میں شاید یہ کوئی ورلڈ ریکارڈ ہو کہ کینسر کے مرض کے ساتھ کسی شخص نے 31 سال گزارے ہوں، اور یہ اکتیس سال بھی بھرپور انداز میں اپنا کام کرتے ہوئے۔ ورنہ عام طور پر اس مرض میں مبتلا لوگوں کو یہ عرصہ بستر پر گزارنا پڑتا ہے۔ مگر عبدالکریم عابد نے اس بیماری کے خلاف یہ جنگ ایسی شان سے لڑی کہ خود بیماری کو ان سے ہار ماننا پڑی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ہفتے میں بھی اپنے اخبار کو معمول کے مطابق تمام تحریریں روانہ کیں، اداریہ لکھا، بلکہ جس روز ان کا انتقال ہوا وہ اپنے کمرے میں کچھ لکھ رہے تھے۔ ان کے بیٹے سلمان عابد کے بقول وہ چار سلپیں لکھ چکے تھے کہ ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اہلِ خانہ نے ہسپتال پہنچایا جہاں چند گھنٹے بعد وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اس طرح ان کی زندگی کی آخری تحریر نامکمل رہ گئی۔ میری اطلاع کے مطابق وہ ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں ’’پہلی بات‘‘ کے نام سے جو تحریر لکھتے تھے یہ نامکمل تحریر وہی ’’پہلی بات‘‘ تھی جو ان کی زندگی کی ’’آخری بات‘‘ بن گئی۔
جناب عبدالکریم عابد نے 1940ء کی دہائی میں حیدرآباد دکن سے لکھنا شروع کیا۔ وہ ایک امیر باپ کے بیٹے تھے، ان کے والد غیر منقسم ہندوستان میں گرم کپڑے کے چند بڑے درآمد کنندگان میں سے تھے۔ والد نے خاندانی کاروبار میں بیٹے کو بھی ابتدائی عمر میں ہی شریک کرلیا۔ اُس وقت شاید عابد صاحب چھے سات جماعت تک ہی تعلیم مکمل کرسکے تھے۔ وہ مجبوراً کاروبار پر بیٹھ تو گئے مگر ان کا دل اس کام میں نہ لگ سکا، چنانچہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اخبارات کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ ایک تحقیق کے مطابق وہ اس دوران کسی مجلے کے ایڈیٹر بھی ہوگئے، پھر ایڈیٹری ان کے نام کے ساتھ نتھی ہوگئی۔ وہ ایک اخبار کی ادارت چھوڑتے تو دوسرے اخبار کے ایڈیٹر ہوجاتے۔ پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات و جرائد کے وہ ایڈیٹر رہے، مگر ایڈیٹری کے لیے اپنی اَنا کو کبھی قربان نہ کیا۔ وہ روزنامہ مشرق لاہور میں غالباً فیچر رائٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے کہ اچانک انہوں نے مشرق چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ مشرق کے اُس وقت کے ایڈیٹر ضیاء الاسلام انصاری نے ان کے اعزاز میں ایک الوداعی دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں جناب ضیاء الاسلام انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مشرق اس وقت ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے، یہاں مشاہرہ اور مراعات دیگر تمام اخباری اداروں سے بہتر ہیں، بڑے بڑے صحافی سفارشیں بلکہ منتیں کرکے اس اخبار میں آنے کے لیے کوشاں ہیں، ایسے میں جناب عبدالکریم عابد اس اخبار کو چھوڑ کر جارہے ہیں، ان کا یہ فیصلہ ہم میں سے کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔ جناب عبدالکریم عابد کی باری آئی تو انہوں نے دوستوں کی محبتوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد اپنے فیصلے کی وجہ بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے صحافی قلاش، غریب، تنگ دست بلکہ فاقہ کش ہوتے تھے۔ ان کے پاس گھر ہوتا نہ گاڑی، مگر اَنا اور جرأت موجود ہوتی۔ آج اچھے مشاہروں اور مراعات نے صحافیوں کو گھر، گاڑی، بنگلہ سب کچھ دے دیا مگر ان کی اَنا ختم کردی ہے۔ میں اس اَنا کو بچانے کے لیے یہ اچھی نوکری چھوڑنے کا تجربہ کررہا ہوں۔ یقیناً عبدالکریم عابد مرحوم اپنے اس تجربے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد بھی وہ مختلف اخبارات و جرائد میں کام کرتے رہے مگر اپنی اَنا کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دی۔ جہاں کہیں وہ اس خدشے کا شائبہ بھی محسوس کرتے فوراً اس اخبار سے الگ ہوجاتے، اور اگلے چند روز میں کسی اور اخبار یا جریدے کی ایڈیٹری ان کی جھولی میں آگرتی۔ ویسے انہیں ایڈیٹری سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے افکار، خیالات اور تجزیے کو قارئین تک پہنچانا چاہتے تھے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دیتے۔ کبھی یہ کام وہ ایک اخبار کے ذریعے کرتے اور کبھی دوسرے کے ذریعے۔ ایک اخبار سے دوسرے اخبار تک کے اس سفر نے ان کی عمرِ عزیز کے 78 سال اور تحریروں کے بیسیوں ڈھیر لگا دیے۔ اخباری کالموں، تجزیوں اور اداریوں کے علاوہ ان کی کئی کتب اب تک اپنے قارئین سے بے پناہ داد وصول کرچکی ہیں۔ جبکہ ان کے شائع شدہ مضامین اور کالموں سے کئی مزید کتب مرتب کی جا سکتی ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ ان کے ہونہار بیٹے احمد ناصر اور سلمان عابد یہ فرض ضرور ادا کریں گے۔
عابد صاحب اپنی ذات میں ایک انتہائی منکسر المزاج، عجز پسند اور روادار شخص تھے۔ عجز و انکسار شاید ان کی شخصیت کا حصہ ہو، مگر غریبی انہوں نے ازخود اپنائی تھی۔ باپ کا کروڑوں کا کاروبار چھوڑ کر وہ پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں روزنامہ ’تسنیم‘ میں غالباً پروف ریڈر کی حیثیت سے کام شروع کردیا۔ روزنامہ تسنیم میں کام کے دوران ہی انہوں نے انگریزی سیکھی، اس کام کے لیے انہوں نے ڈکشنری کو اپنا استاد بنایا اور بہت جلد اس بدیسی زبان سے بھرپور استفادہ کرنے لگے۔ ان کے تجزیے اردو اور انگریزی اخبارات و جرائد کے گہرے مطالعے اور مختلف موضوعات پر آنے والی تازہ ترین کتابوں کا نچوڑ ہوتے تھے۔ وہ اس حاصلِ مطالعہ کو باریک بینی سے دیکھتے اور وسیع تر تناظر میں اس پر تبصرہ کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ غربت کا دعویٰ کرنا آسان مگر غریبی میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ مگر عابد صاحب نے خودداری کے ساتھ اس غریبی میں پوری زندگی گزار دی جسے انہوں نے ازخود اپنایا تھا۔ صحافتی زندگی میں وہ شاید پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں رہے اور تقریباً ہر اخبار و رسالہ میں کام کیا۔ کئی اخبارات و جرائد کا آغاز ہی انہوں نے کیا، مگر اپنی عاجزانہ طبیعت کے باعث اس کا ذکر کم ہی کیا۔ وہ جتنی رواں تحریر لکھتے تھے ایک زمانے میں اتنی ہی روانی سے پان سگریٹ اور چائے کا استعمال کرتے تھے۔ وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے اور چائے کا کپ ختم ہونے سے پہلے ان کی میز پر دوسرا کپ آ جاتا۔ مگر بیماری کے باعث انہوں نے سگریٹ اور پان بالکل چھوڑ دیے تھے، البتہ چائے کا استعمال نسبتاً کم کردیا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے کالم اور تجزیے سیاست دانوں، حکمرانوں اور عوام میں یکساں مقبول تھے۔ بیشتر سیاست دان ان سے ازخود رابطہ رکھتے، مگر حکمرانوں سے ملاقات سے وہ گریز ہی کرتے۔ صدر ضیاء الحق نے ملاقات کے لیے انہیں اسلام آباد بلایا تو وہ ہوٹل آکر ایسے سوئے کہ ملاقات کا نصف وقت گزر گیا۔ آنکھ کھلی تو وہ اسی طرح بستر سے اٹھے اور چپل پہنے ہوئے صدرِ پاکستان سے ملاقات کرکے واپس آگئے۔
عابد صاحب اپنے ساتھی کارکنوں کی عزت اور خواہش کا بڑا احترام کرتے۔ مجھ جیسے انتہائی جونیئر سے بھی اس قدر عزت سے ملتے کہ خود ہمیں شرمساری ہوتی۔ جب بھی ملاقات ہوتی محبت سے ملتے، توجہ سے بات سنتے، مشفقانہ انداز میں رہنمائی کرتے اور تواضع کے بعد رخصت کرتے۔ تنظیم الاخوان کے سربراہ مولانا اکرم اعوان نے جناب عبدالکریم عابد سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، میں نے عابد صاحب سے ذکر کیا تو فوراً تیار ہوگئے۔ ہم مقررہ وقت کے بجائے خاصی تاخیر سے ان کے گھر پہنچے تو وہ تیار تھے، بغیر کسی تردد کے ساتھ چل دیے۔ مولانا اکرم اعوان اور عبدالکریم عابد کے درمیان ہونے والی یہ نشست بڑی معلومات افزا رہی۔ واپسی میں خاصی رات ہوگئی۔ عابد صاحب بیمار بھی تھے اور انہیں بہت سا کام بھی کرنا تھا، مگر انہوں نے کوئی جلدی نہ کی۔ ہم نے اس تاخیر پر معذرت کی تو محبت سے ٹال گئے۔ موت سے کچھ عرصہ قبل میں نے مدنی فائونڈیشن کے عہدیداروں کی خواہش پر جناب عبدالکریم عابد سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھی اور نامور صحافی جناب محمود احمد مدنی مرحوم کے بارے میں ایک مضمون لکھ دیں۔ انہوں نے طبیعت کی خرابی کے باوجود یہ مضمون ایک دو روز میں ہی لکھ کر میرے حوالے کردیا۔
عابد صاحب کی شخصیت کی طرح ان کی تحریر بھی سادہ اور رواں تھی۔ وہ بے لاگ تجزیہ کرتے، نڈر ہوکر تنقید کرتے اور دردمندی کے ساتھ رہنمائی فرماتے تھے۔ ان کی ذات اور تحریر دونوں ہر طرح کی آلائشوں سے پاک تھیں۔ بڑے بڑے نامور لوگ ان سے فکری اور سیاسی رہنمائی حاصل کرتے۔ کراچی میں ان کے گھر کے تھڑے پر انتہائی بے تکلفی سے کئی قومی رہنمائوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا گیا۔ لاہور میں بھی بہت سے سیاسی و سماجی رہنما اور علمی شخصیات ان سے رہنمائی حاصل کرتیں۔ وہ نظریاتی صحافت کی ایک بھاری بھرکم اور جان دار شخصیت تھے، مگر ان کے مخالفین بھی ان کی رائے سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کے ذاتی اوصاف اور وسیع مطالعے کے باعث ان کا بے پناہ احترام کرتے۔ ان کے تعزیتی ریفرنس میں بائیں بازو کے نامور صحافی حسین نقی کے یہ الفاظ ان کی خوبصورت شخصیت اور بلند علمی حیثیت پر مہرِ تصدیق ہیں کہ دائیں بازو کے صحافیوں میں عبدالکریم عابد وہ واحد شخص تھے جو جدید عالمی تناظر، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے رجحانات کا پورا ادراک رکھتے تھے۔ ان کی موت سے صحافت کو بالعموم اور دائیں بازو کی صحافت کو بالخصوص زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عبدالکریم عابد کے اندازِ صحافت اور تحریروں پر کوئی اللہ کا بندہ تفصیلی تحقیق کرے۔ اور اس درویش صفت صحافی کارکن کے علمی و صحافتی کام کو محفوظ کرنے کا بندوبست کرے۔