بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
دنیا میں کچھ انسانی رشتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ان رشتوں میں بڑا رشتہ والد اور والدہ کا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر والدہ کے رشتے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، اور اس کا اظہار بھی ہمیں مختلف صورتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے برعکس ہم والد کے رتبے سے محبت تو بہت کرتے ہیں مگر اس کے اظہار میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔ حالانکہ والد اور والدہ دونوں کا سایہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور دونوں کی اپنی اپنی اہمیت بھی ہے جسے کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماں کے قدموں تلے اگر جنت ہے تو باپ کا احساس بھی ایک شجرِسایہ دار کی طرح ہے، جو اولاد کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ میں جانتا ہوں جو بچے، بچیاں بچپن میں ہی یتیم، یا عورتیں جوانی میں ہی بیوہ ہوتی ہیں وہی والد یا خاوند کے دکھ کو محسوس کرسکتی ہیں۔
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
میرے والد عبدالکریم عابد کو اس دنیا سے گئے پندرہ برس بیت گئے ہیں۔ ان کی زندگی ایک عملی جدوجہد کا نام تھی، اور یہ جدوجہد ان کی زندگی کے آخری سانس تک جاری رہی۔ ممبئی اور پھر حیدرآباد دکن بھارت سے شروع ہونے والا یہ سفر پاکستان کے شہر لاہور میں 23 مئی 2005ء کو اپنے اختتام کو پہنچا۔آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے والدِ گرامی کی ساری جدوجہد میرے سامنے ہے جو میں نے دیکھی۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا، وہ ان کی سوانح عمری’’ سفر آدھی صدی کا ‘‘ میں پڑھنے کو ملی۔ میری زندگی کا اہم سرمایہ باقی بہن بھائیوں کی طرح ماں اور باپ کی شفقت تھی۔ والد گرامی کے سامنے ہمیشہ کاغذ، قلم، اخبارات و رسائل، کتابیں موجود ہوتیں اور وہ لکھتے ہوئے نظر آتے۔ ریڈیو پر عالمی نشریاتی اداروں کے تبصروں اور تجزیوں کو سننا، یا گھر آئے ہوئے دوستوں سے سیاسی، سماجی، مذہبی موضوعات پر گفتگو ان کا خاصہ تھا۔
والدِ گرامی نے ایک بڑے کاروباری میمن خاندان میں آنکھ کھولی، لیکن کاروبار کرنا ان کے مزاج کے خلاف تھا، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں موجود ایک بڑے کاروبار کو چھوڑ کر تن تنہا پاکستان آگئے اور صحافت سے اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک مشکل زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ جوانی میں ہی ’’کارل مارکس اور اس کے معتقدات‘‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب ان کی شہرت کی وجہ بنی۔ بقول معروف دانشور اور صحافی سجاد میر ’’عبدالکریم عابد مرحوم اُن صحافیوں میں سے تھے جن کا بائیں بازو کی سوچ اور فکر پر سب سے زیادہ مطالعہ تھا‘‘۔ دیگر مذاہب پر بھی انہوں نے خوب پڑھا، اور ان کے بقول اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لیے پہلے دیگر مذاہب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ان کی سوانح عمری ’’سفر آدھی صدی کا‘‘ ایک ایسی کہانی ہے جس میں بھارت اور پاکستان کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور علمی و فکری تحریکوں کے مختلف ادوار و حالات اور واقعات کو باریک بینی سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’مسلم دنیا میں زوال کے اسباب‘‘، ’’سیاسی وسماجی تجزیے‘‘ سمیت کئی اہم کتابچے بھی شامل تھے۔ اِس برس 2020ء میں ان کی تین اہم کتابیں ’’ہمارا اجتماعی شعور‘‘، ’’ہمارا قومی مزاج‘‘ اور ’’ہمارے رجحانات‘‘ ان شاء اللہ شائع ہونے والی ہیں۔
میں آج جہاں کھڑا ہوں اور جو کچھ لکھنا، پڑھنا، بولنا سیکھا ہے اس میں میرے والدِ گرامی کا بہت اثر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ شخصی ٹکرائو میں مت الجھنا کیونکہ یہ عمل انسانی شخصیت کو کمزور کرتا ہے، اور فرد کو بہت زیادہ بنیاد بنانے کے بجائے اجتماعی پہلوئوں، نظام کی خرابیوں اور اس میں اصلاح کو اپنے مکالمے کا حصہ بنائو۔ ان کے بقول انسانی کردار مسئلے میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے اس کو حل کرنے کا ہونا چاہیے، اور ایسے ہی لوگ معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی ماخذ انسانی تربیت کا پہلو تھا، اور ان کے بقول جب تک ہم اپنی تربیت کے نظام کو اصلاحی عمل سے نہیں جوڑیں گے، ہماری سیاست اور سماج دونوں بگاڑ کا شکار رہیں گے۔
میرے والدِ گرامی نے 35برس کینسر جیسے موذی مرض کا بڑی جرأت سے مقابلہ کیا۔ حالانکہ 1970-71ء میں عملی طور پر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، مگر میرے والد نے اس مرض کا اپنی ہمت سے مقابلہ کیا، وہ کہتے تھے کہ ابھی میری زندگی بہت زیادہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے بہت سا کام لینا ہے۔ انہوں نے اپنی بیماری اور معاشی تنگ دستی کو کبھی بھی اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیا، اورجہاں بھی کام کیا بڑی جرأت، عزت اور وقار کے ساتھ کیا، جہاں ان کو محسوس ہوا کہ ان کا دل بوجھل یا سیاسی گھٹن ہے، یا جو کچھ وہ کہنا یا لکھنا چاہتے ہیں اس میں رکاوٹ ہے، یا ان کو بوجھ سمجھا جارہا ہے تو وہ خود ہی ملازمت چھوڑ دیتے، تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ ان کی زندگی کی آخری خواہش تھی کہ جب دنیا سے جائیں تو لکھتے ہوئے ہی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا سنی اور وہ بس لکھتے ہوئے ہی دنیا سے چلے گئے۔
اگرچہ والد صاحب کی وفات کو پندرہ برس گزرگئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ کمرے میں ان کی بڑی تصویر کی موجودگی ان کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ جب کبھی تھک ہار کر بیٹھتا ہوں تو والد صاحب کی تصویر سے بات کرنا عملاً مجھے نیا حوصلہ دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے، والد صاحب کہا کرتے تھے کہ جو لوگ حالات و واقعات کو بنیاد بناکر ہمت ہار جاتے ہیں، یا اللہ پر ان کا بھروسا کم ہوتا ہے وہ کوئی بڑی جنگ نہیں جیت سکتے۔ ان کے یہ الفاظ ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمیں ہمت نہیں ہارنی بلکہ اپنی زندگی کی اس جنگ کو اللہ پر بھروسا کرکے محنت، اصول، دیانت داری کو بنیاد بناکر ہی لڑنا ہے۔
مجھ کو چھائوں میں رکھا خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
میرے والد ایک وسیع المطالعہ فرد تھے اور اپنے نظریات، سوچ اور فکر سے ہٹ کر دوسروں کی سوچ اور فکر کے مطالعے کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں بھی ان کا درس یہی تھا کہ دوسروں کے نظریات اور فکر سے اختلاف کے باوجود نفرت اور تعصب سے گریز کرو، اور دوسروں کی فکر کو عزت دینا سیکھو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد کے دوستوں میں ہر طرح کے نظریات، سوچ اور فکر کے لوگ تھے، اور ان سے تعلقات بھی مثالی تھے۔ بلکہ دائیں بازو سے زیادہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے ان کے تعلقات شاندار تھے۔ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، عدم رواداری، عدم برداشت یا لعن طعن کے کلچر کے سخت خلاف تھے، اور ان موضوعات پر اُن کی تحریریں آج بھی موجود ہیں جو ہم سب کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دیتی ہیں۔
میرے والد کئی اہم قومی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر رہے، اور سب سے زیادہ اخبارات و رسائل میں ایڈیٹر ہونے کا اعزاز بھی ان کو حاصل تھا۔ سیاسی تجزیہ نگاری، کالم نگاری، اداریہ نویسی پر ان کو کمال حاصل تھا۔ دائیں بازو میں وہ اُن چند صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کو چیلنج کیا۔ سیاسی اورجمہوری نظام، اسلام اور دیگر مذاہب، معاشرے کی تشکیلِ نو، سماجی اور اخلاقی معاملات، فوجی آمرانہ نظام، اسلامی فکری تحریکیں، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے رجحانات، مسائل اور معاملات پر ان کی گرفت اور مطالعہ کمال کا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سختی دیکھی اورکئی حوالوں سے معاشی تنگ دستی اور بے روزگاری کا سامنا کیا، بھٹو کی آمریت کو چیلنج بھی کیا، لیکن بھٹو کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل بھی قرار دیا اور بھٹو دشمنی کا حصہ نہ بنے۔ ان کے صحافتی دوست اور ساتھی اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ ایک اصولی، نظریاتی اور دیانت داری پر مبنی نظریاتی صحافت کے ساتھ انہوں نے خوب انصاف کیا۔
عاجزی اور درویشی والدِ گرامی کے مزاج کا حصہ تھی۔ نہایت سادہ زندگی گزاری۔ کہا کرتے تھے کہ اگر تم اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہو تو اپنے رہن سہن کو سادہ، اور کفایت شعاری اور قناعت پسندی کو بنیاد بنائو، جبکہ تعصب، نفرت، بغض اورلالچ سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ یہ بیماریاں انسانی زندگی کو مشکل بناتی اور دیمک کی طرح چاٹتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ کبھی سختی نہیں کرتے تھے، اور والدہ کے کہنے پر بھی بس خاموشی اختیار کرلیتے اورکہتے کہ بے جا سختی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ خاموش طبع تھے اورکام کی ہی بات کرتے تھے۔ البتہ ان کی بے تکلفانہ گفتگو کا ایک انداز ہم نے والد صاحب اور اپنی پیاری مرحومہ پھوپھی عائشہ زکی الدین جیلانی کے درمیان دیکھا، جہاں وہ اپنے بچپن کے قصوں کا تبادلہ کرتے اور خوب انجوائے کرتے تھے۔ دونوں بہن بھائی کا پیار خوب دیکھا اور والد صاحب کو ہنستے ہوئے دیکھ کر ہمیں بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ ہماری والدہ اور والد نے ایک دوسرے کی بیماری میں جیسے ایک دوسرے کا ساتھ دیا وہ کمال تھا، اور دونوں کو معلوم ہوتا تھا کہ کس کو کس وقت کون سی دوائی دینی ہے، اورکب کس کو کہاں اور کس ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ بہرحال والد صاحب کی یادیں ہمیشہ میرے اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ہیں۔ ان کی یادیں ہمیشہ آنکھیں بھگو دیتی ہیں اور احساس دلاتی ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہیں اورہم نے اُن کی انگلی تھامی ہوئی ہے۔ بقول حسن نثار
میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں
آخر میں اپنے والد عبدالکریم عابد مرحوم کی اپنی ہی تحریر اپنے بارے میں جو انہوں نے لکھی، پیش خدمت ہے جو اُن کی سوچ اور فکر کی بہتر طور پر ترجمانی کرسکتی ہے:۔
’’کبھی کبھی میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں، کتنی طویل زندگی خوابوں، خواہشوں، خیالوں میں گزرگئی۔ کتنی ہی آرزوئیں تھیں جو ناتمام رہ گئیں، کتنے نقش تھے جو اجاگر نہ ہوسکے،کتنے لفظ اَن کہے رہ گئے، کیسے کیسے لمحے ہاتھوں سے پھسل گئے، کتنے ہی دن بے کار بیت گئے اور کتنے سورج بے سبب ڈوب گئے… مگر اس لمبی خالی زندگی میں کچھ جاگتی سوچتی ہوئی راتیں بھی ہیں، اور اگر مجھے خودستائی کے لیے معاف کیا جائے تو کچھ جگمگاتے ہوئے لمحے بھی… وہ لمحے جب خدا نے مجھے سچ لکھنے اور حق پر گواہی دینے کی توفیق عطا کی۔ میں ان لمحوں کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں: اے سچے رب، جب تک سانس کی آواز باقی ہے، جب تک دل سینے میں دھڑکتا ہے، مجھے سچ پر گواہی دینے کی توفیق عطا کر، خواہ میں اس ہجوم میں اکیلا ہی رہ جائوںگا، جس کی آنکھیں معلوم نہیں کب کھلیں گی۔‘‘
بقول قتیل شفائی
آج تک دل کو ہے اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ چاہا کہ اس کو بھول جائوں قتیلؔ
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی اپنی جگہ
مرزا ادیب(ممتاز قلم کار)۔
عبدالکریم عابد صحافی ہیں، انشا پرداز ہیں، ادیب ہیں۔ ان کا یہ سفر عام واقعاتی سفر نہیں ہے بلکہ ذہنی سفر بھی ہے، باطنی سفر بھی ہے۔ اخباروں کے قارئین عبدالکریم عابد سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ایک سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ عبدالکریم عابد کی سیاسی تجزیہ نگاری، ایسی تجزیہ نگاری ہی نہیں جو عموماً ہر روز اخبارات میں نظر آتی ہے۔ ان کے پیرایۂ بیان میں شگفتگی ہوتی ہے، ادیبانہ رنگ ہوتا ہے، بیانیہ دلآویزی ہوتی ہے۔ وہ ہیں تو بنیادی طور پر صحافی ہی، لیکن ایسے صحافی جو اپنی شگفتہ نگاری کے ناتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو متعینہ مقام صحافت ہوتے ہوئے بھی مقامِ ادب سے قریب تر ہوتا ہے۔
سید منور حسن: (امیر جماعت اسلامی پاکستان)۔
عبدالکریم عابد صاحب… مرنجاں مرنج، دھیمے مزاج اور نرم دم گفتگو سے آراستہ و پیراستہ شخصیت کا نام ہے۔ جس نے عبدالکریم عابد کو پڑھا ہو، دیکھا سنا نہ ہو، وہ اپنے سارے زائچے اور اندازے غلط کر بیٹھے گا جب ان سے ملے گا۔ ایک Unassuming شخصیت!! عبدالکریم عابد صاحب مدت سے تندرستی کے حصول اور تنگ دستی سے فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیںُ لیکن دونوں محاذوں پر خاطر خواہ کامیابیوں سے محروم چلے آتے ہیں، پھر بھی پُرعزم اور امیدِ بہار کی سج دھج لیے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی حوصلے نے انہیں کئی بار نئی زندگی سے نوازا ہے۔ میدانِ صحافت میں کیا نہیں ہوتا، اور کیریئر میں صحافی کن کن مراحل سے نہیں گزرتا اور کیسی کیسی آزمائش اس کا دامن نہیں کھینچتی… عبدالکریم عابد صاحب جس دور کے صحافی ہیں وہ دور اب لپٹ چکا، اپنی مدت پوری کرچکا۔ عبدالکریم عابد صاحب نے عزم صمیم، حوصلے اور پامردی سے پورا دور بِتایا، روکھی سوکھی پر گزارا کیا، چادر سر کی طرف لے جاتے تو پیر کھل جاتے، اور پیر کی طرف کرتے تو سر کھل جاتا… ہم نے بارہا ان کا سر اور پیر کھلے دیکھے، لیکن انہیں ہمیشہ راضی بہ رضا دیکھا۔ حق ہے کہ جس نے دنیا کے معاملے میں اپنے سے کمتر کو دیکھا اور دین کے معاملے میں اپنے سے برتر کو، بارگاہِ رب العزت میں اسے صابر و شاکر لکھا گیا۔ عبدالکریم عابد صاحب کی تحریروں میں تحریکی سوچ، اجتماعیت کا غلبہ، جمہوری و آئینی جدوجہد، انتخابی کلچر کا فروغ جابجا اپنے آپ کو منواتا نظر آتا ہے۔ دلائل و براہین، تجزیاتی و تحقیقی مواد، تاریخی حوالے، معقولیت و استدلال… اور ان سب پر مستزاد اختصار و جامعیت ان کی تحریر کا اعجاز ہے۔ ان کی تحریر مترادفات، خطابت و شعلہ افشانی، تمہید و ابتدائیہ اور مقدمہ و حرص و آز سے صاف پہلو بچا جاتی ہے اور کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ پیغام رسانی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ زائد از ضرورت کوئی جملہ، فقرہ بلکہ حرف و لفظ بھی ان کی تحریر میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ یہ خوبی آج کے لکھنے والوں میں کم کم دکھائی دیتی ہے۔ عبدالکریم عابد صاحب کی تحریر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے متنوع موضوعات پر لکھا ہے۔ نظریات اور ان کی آویزش پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال، امت کی زبوں حالی، مسلم معاشرے میں قیادت و سیادت، سماجیات، فکرِ اسلامی، لیفٹ اور رائٹ کی سیاست، مغرب کی تہذیب اور اس کا سیکولرازم نہایت مربوط اور مبسوط انداز میں ان کا قلم یہ اور اس نوع کے دیگر موضوعات پر کم و بیش نصف صدی سے ذہنوں کی آبیاری کررہا ہے، اور علم و فضل کے موتی بکھیرتا رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر عبدالکریم عابد صاحب کے خوشہ چینوں میں اپنا شمار کرتا ہوں۔ میں نے جب بھی انہیں پڑھا ہے، سوچ کی لہروں کو رفعتوں کا سفر طے کرتے دیکھا ہے، فکر و خیال کی دنیا کو وسعتوں میں ڈھلتے دیکھتا ہے۔