امریکہ کی بھارت کو افغان معاملات میں بطور اہم مہرہ استعمال کرنے کی حکمت عملی
افغانستان میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران کا ڈراپ سین حسبِ توقع افغان صدر اشرف غنی اور اُن کے نام نہاد سیاسی حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکتِ اقتدار کا معاہدہ طے پانے کی صورت میں ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اشرف غنی ملک کے صدر رہیں گے، اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ ہوں گے، جب کہ اس معاہدے کی رو سے نئی افغان کابینہ کے وزرا کی نامزدگی بھی اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ مساوی طور پرکریں گے۔ دارالحکومت کابل میں اس معاہدے سے متعلق جہاں گزشتہ سال صدارتی انتخابات کے نتائج کے اجرا کے وقت سے جاری سیاسی بحران کے ٹلنے کی امیدیں باندھی جارہی ہیں، وہیں اقتدار میں افغانستان کی دو بڑی قومیتوں پختونوں اور تاجکوں کے اشتراکِ عمل کو بھی افغانستان کے نسبتاً مستحکم مستقبل کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
یاد رہے گزشتہ برس افغانستان میں ہونے والے چوتھے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کی کامیابی کے اعلان کے بعد گزشتہ صدارتی انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نہ صرف ان نتائج کو ماننے سے انکار کردیا تھا بلکہ انہوں نے افغان آئین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے حلف برداری کی ایک الگ تقریب منعقد کرکے اس میں صدارت کا حلف بھی اٹھا لیا تھا، جس کے بعد سے ماضی میں اتحادی رہنے والے ان دونوں راہنمائوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے تھے جو اب اس تازہ معاہدے پر منتج ہوچکے ہیں۔
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ابھی چند دن قبل دارالحکومت کابل کے ایک ہسپتال کے زچگی وارڈ میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ دو نوزائیدہ بچے اور نرسیں بھی شامل تھیں، جب کہ اسی روز مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع شیوہ میں ایک جنازے پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی 32 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ شروع میں افغان حکومت نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری طالبان پر عائد کرتے ہوئے جہاں اُن سے ممکنہ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے کر افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو دھچکہ پہنچانے کی دانستہ کوشش کی، وہیں صدر اشرف غنی نے بلاتحقیق طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن لانچ کرنے کے اعلان کے ذریعے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ انہیں افغانستان میں مستقل قیامِ امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور وہ ان بے سروپا اور غیر سنجیدہ بیانات کے ذریعے کسی اور کا کھیل کھیلنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اگلے ہی دن طالبان نے ان دونوں واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کرکے جہاں اشرف غنی کے بے بنیاد دعووں اور الزامات کی قلعی کھول دی ہے، وہیں ان کے ان الزامات کے نتیجے میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ وہ یہ سب کچھ بھارت کی ایما اور خوشنودی کے لیے کررہے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ پچھلے دنوں کابل کے ایک گوردوارے پر ہونے والے حملے کا الزام بھی طالبان پر عائد کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے نہ صرف اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکردیا تھا بلکہ بعد میں یہ بات جلد ہی سامنے آگئی تھی کہ اس حملے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ تھا جو سکھوں کی مقدس عبادت گاہ کو نشانہ بناکر ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی تھی، لیکن طالبان نے اس کے عزائم کو ناکام بنادیا تھا۔ اب جب افغان حکومت اور افغان میڈیا کی جانب سے کابل اور ننگرہار کے حملے طالبان کے کھاتے میں ذالنے کی کوشش کی گئی تو طالبان نے ان دونوں حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کرکے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی ان سازشوں کو ایک بار پھر ناکامی سے دوچارکردیا ہے۔
دراصل اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان حالیہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 29 فروری کو دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے بعد پوری افغان قوم یہ آس لگائے ہوئے تھی کہ اس معاہدے کے تحت جب افغان حکومت 10مارچ سے پہلے پہلے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کردے گی تو اس کے نتیجے میں جہاں ایک جامع بین الافغان ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہوجائے گی وہیں پچھلی چار دہائیوں کے دوران پہلی دفعہ افغانوں کو خود مل بیٹھ کر اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار اور موقع بھی مل سکے گا۔ لیکن ان امیدوں پر پچھلے دنوں اُس وقت پانی پھر گیا جب اشرف غنی نے پہلے تو طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا، لیکن جب ان پر امریکی دبائو آیا تو انہوں نے طالبان کی فراہم کردہ فہرستوں کے بجائے طالبان کی آڑ میں داعش کے جنگجوئوں کو چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کا مقصد طالبان کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہوئے ان کو اور داعش کو باہم دست وگریباں کرکے خود اس جنگ و جدل کا آرام سے بیٹھ کر تماشا دیکھنا تھا۔ دوسری جانب گزشتہ ماہ طالبان نے یہ کہتے ہوئے مذاکرات سے دست برداری کا اعلان کیا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی روبرو بات چیت کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے، کیونکہ افغان حکومت سرے سے ان مذاکرات میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ دراصل ان مذاکرات کا مقصد جنگ کے خاتمے کی طرف ایک قدم تھا، لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکام قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ اس کے جواب میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے مطالبے غیر معقول ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر طالبان کا اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ امریکہ سے طے پانے والے معاہدے کی رو سے غیر معقول ہے تو پھر اس معاہدے کی کیا وقعت اور افادیت باقی رہ جاتی ہے جسے امریکہ ایک تاریخی معاہدے سے تعبیرکررہا ہے! لہٰذا اس حوالے سے افغان حکومت جو اصل میں اس معاہدے کا سرے سے حصہ ہی نہیں ہے، کے بجائے اس شرط پر عمل درآمد کی اصل ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے اس معاہدے پر دستخط کے ذریعے طالبان کی اس اہم شرط کوتسلیم کیا تھا۔ اس بحث سے قطع نظر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان طے پانے والا معاہدہ 2014ء کے معاہدے سے زیادہ مضبوط ہے جو امریکی کوششوں کا نتیجہ تھا، جب کہ حالیہ معاہدہ خود دوافغان راہنمائوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے، لہٰذا اس کی پائیداری کے زیادہ امکانات ہیں۔ حالانکہ شراکتِ اقتدار کے اس معاہدے میں وہی پرانے چہرے سامنے ہیں، اور یہ معاہدہ دراصل ماضی کی ان ہی خودغرض سیاسی قوتوں کے درمیان طے پایا ہے جو اپنی ذاتی اور سیاسی خواہشات کی اسیر بن کر افغانستان کی مجروح اور اذیت ناک تاریخ کی پہلی صف میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
اس معاہدے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں بھارت کے کردارکو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ قرائن بتاتے ہیں کہ اِس مرتبہ یہ معاہدہ کرانے میں افغانستان میں امریکہ کے پراکسی کا کردار ادا کرنے والے بھارت نے طالبان کا توڑ کرنے اور افغانستان میں پاکستان کے کردارکو محدود کرنے، نیز امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اپنے پائوں جمانے کے لیے اپنے زیراثر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر دبائو ڈال کر ان دونوں کو زیربحث معاہدے پر مجبور کیا ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ امریکہ کے بعد اگر کسی ملک نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے اور کسی ملک کے افغانستان میں سیاسی واقتصادی اور اسٹرے ٹیجک مفادات ہیں تو وہ بھارت ہے، جو شروع دن سے یہاں اپنے پر پرزے نکالنے کے جتن کرتا رہا ہے۔ بھارت کی افغانستان میں دلچسپی کی بنیادی وجہ پاکستان کا گھیرائو ہے، جب کہ دوسری جانب وہ اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کی ریاستوں حتیٰ کہ روس تک رسائی حاصل کرکے تجارتی اور اقتصادی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور دلچسپی کا اندازہ اُس کی جانب سے طالبان امن مذاکرات میں شمولیت کی خواہش کا برملا اظہار کرنا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اس سے پہلے بھی مختلف فورمز پر ہونے والے افغان امن مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کرتا رہا ہے، لیکن اُسے اس ضمن میں اب تک کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی ہے، البتہ اب اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے قریب آنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان دونوں کو قریب لانے میں یقیناً بھارت کی آشیرباد نظر آتی ہے، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سارے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں بھارت کو امریکہ کی واضح حمایت حاصل رہی ہوگی، کیونکہ اب تک امریکہ کی آشیرباد کے بغیر اس بیل کے منڈھے چڑھنے کا بظاہرکوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ اِس مرتبہ شاید امریکہ کے پسِ پردہ رہتے ہوئے یہ معاہدہ کروانے کے پیچھے اگر ایک طرف طالبان کی ناراضی اور ردعمل کا خوف کارفرما تھا تو دوسری جانب اس ڈپلومیسی کے تحت امریکہ بھارت کو افغان معاملات میں بطور ایک اہم مہرہ استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنانے میں بھی کامیاب نظر آتا ہے، جس کا اندازہ جہاں اس معاہدے پر دستخطوں کے بعد اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پُراعتماد لہجے اور باڈی لینگویج سے لگایا جاسکتا ہے، وہیں پچھلے دوچار دنوں کے دوران کابل سے واشنگٹن اور دوحہ تک افغان معاملات میں بھارت کا ذکر باربار سامنے آنے کی صورت میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ افغان میڈیا اس حوالے سے یہ دعویٰ کرچکا ہے کہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اس سلسلے میں نہ صرف بھارتی حکام سے ملاقات کرچکے ہیں بلکہ وہ اس حوالے سے طالبان کو بھی اعتماد میں لینے کا اشارہ دے چکے ہیں، جب کہ دوسری جانب جب گزشتہ روز امریکہ میں متعین پاکستانی سفارت کار اسد خان سے میڈیا نے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر بھارت طالبان سے امن مذاکرات میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو اس پہلو کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے طالبان کا اپنا مؤقف ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
دریں اثناء افغان امریکہ امن مذاکرات کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے، کیوں کہ بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں غداروں کی مدد اور حمایت کی ہے، تاہم بھارت اگر افغانستان میں مثبت کردار ادا کرے تو افغان طالبان کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر عباس ستنکزئی نے کہا کہ اگر بھارت نئے افغانستان کی تعمیر کے لیے امن مذاکرات میں مثبت کردار ادا کرنا شروع کردے تو طالبان بھی مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت گزشتہ 40 سال سے افغانستان میں موجود ہے جہاں وہ افغانیوں کے بجائے ایک کرپٹ گروپ کے ساتھ سیاسی، عسکری اور معاشی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔
لہٰذا اس ساری صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی منزل اب بھی کوسوں دور ہے، کیونکہ یہ سرزمین جب تک بیرونی طاقتوں کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں نرم چارے کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی تب تک یہاں پائیدار اور مستقل امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔