آج کل ایک نیا املا پڑھنے میں آرہا ہے مثلاً بلکل، کلعدم، بلخصوص، بلیقین وغیرہ۔ ایک بینک کے بڑے سے اشتہار میں بھی ’’بلکل‘‘ پڑھا۔ یہ کیا لاعلمی ہے، املا آسان کیا جارہا ہے، یا دانستہ بگاڑا جارہا ہے؟ برسوں سے جو املا رائج ہے اسے بدلنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے؟ شاید یہ وجہ ہوکہ بچے ’بالکل‘ کو ’’بال۔ کل‘‘ پڑھتے ہیں۔ عربی حروف کا املا بدلنے کی کوشش رشید حسن خان نے کی تھی جن کا ایک مقصد تھا۔ انھوں نے ’اعلیٰ‘ کو ’’اعلا‘‘ اور ’ادنیٰ‘ کو ’’ادنا‘‘ کردیا، اور اب کہیں کہیں یہ استعمال میں بھی ہے۔
آج کل کورونا کی وجہ سے ’’کساد بازاری‘‘ کا چرچا ہے۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ہو تو پڑھے لکھے لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ ہم جیسے پوچھتے ہی پھرتے ہیں کہ یہ کون سا بازار اور بازاری ہے۔ بازاری تو وہ زبان ہوتی ہے جو بازار کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اچھی نہیں سمجھی جاتی، یا پھر بازاری عورتیں ہوتی ہیں۔ بازاری زبان کو سوقیانہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ عربی میں بازار کو ’سوق‘ کہتے ہیں۔ مگر کساد بازاری؟ ’کساد‘ عربی کا لفظ اور مؤنث ہے۔ اس کا مطلب ہے اشیاء کی خریداری نہ ہونا، بے رونقی، بے رواجی۔ کساد بازاری کا مطلب ہے بِکری نہ ہونا، بازار سرد ہونا۔
رندؔ کا شعر ہے:۔
دکانِ دہر میں تھا متاع گراں بہا
ارزاں مجھے کسادیِ بازار نے کیا
کسادیِ بازار فارسی ترکیب ہے۔
آج کل انگریزی کا لفظ ’’کنفیوژن‘‘ بہت عام ہورہا ہے، اور اردو میں جم کر بیٹھ گیا ہے، حالانکہ اس کا متبادل ’’ابہام‘‘ موجود ہے، لیکن جو کنفیوژ ہو اسے کیا کہیں گے؟ یہاں تو مبہم نہیں چلے گا۔ کنفیوژن کا ایک ترجمہ الجھن بھی ہے، چنانچہ کنفیوز کو ’الجھا ہوا‘ یا ’الجھن میں‘ کہا جاسکتا ہے۔ ’’ذمے داری‘‘ بہت عام سا لفظ ہے، لیکن ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے دانشوروں اور اینکرپرسن سے اس کے مختلف تلفظ سننے میں آتے ہیں۔ کوئی تو ’ذ‘ پر پیش لگا کر اسے ’’ذُمے داری‘‘ کردیتا ہے، اور کوئی زبر لگا کر بولتا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اسے ’’ذمے واری‘‘ کردیتا ہے۔ ’’کَش‘‘ اور ’’کُش‘‘ کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ ایک خاتون اینکر تو ’’فوج کُشی‘‘ (کاف پر پیش) کہہ رہی تھیں۔ ’’خودکَشی‘‘ تو عام ہے۔ ایک ادبی تنظیم کی رپورٹ میرے سامنے رکھی ہوئی ہے جس میں دلچسپی کے بہت سے سامان ہیں، مثلاً ’’الیکٹرانک میڈیا پر الفاظوں کے تلفظ کا خیال نہیں رکھا جاتا‘‘۔ یہ الفاظوں کیا ہوتا ہے؟ ’’زبان کی بے قدرتی‘‘ کا شکوہ بھی اسی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ ادب کی خدمت کررہے ہیں۔
اردو زبان نے اپنی ابتدا سے اب تک کئی کروٹیں بدلی ہیں، خاص طور پر املا کے حوالے سے۔ تذکرہ نویسوں کے مطابق قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں (ولادت 1565ء)۔ قدیم زبان اور متروک الفاظ کی وجہ سے ان کا کلام ایک عام قاری نہیں سمجھ سکتا (پیمانہ غزل، محمد شمس الحق)۔ وہ اور اُن کے بعد کے کئی شعرا نے ’مجھ‘ کی جگہ ’’منج‘‘ استعمال کیا ہے۔ ’کو‘ کی جگہ ’’کوں‘‘، ’تجھ‘ کی جگہ ’’تج‘‘۔ مثلاً قلی قطب شاہ کا یہ مصرع ’’تج بن پیارے نیند ٹک نیناں میں منج آتی نہیں‘‘۔ اس دور کے شاعروں نے ’ٹھیرتا‘ کو ’’ٹھارتا‘‘ باندھا۔ ولی دکنی سے کسی قدر قدیم قاضی محمود بحری نے بڑا صاف شعر کہا:۔
میں جو رویا تو تُو سمجھ کہ دھواں
بے سبب آنکھ کوں رلاتا ہے
اس میں ’’کوں‘‘ کی جگہ ’کو‘ کردیا جائے تو یہ آج کا شعر لگے گا۔ شاہ قلی خان شاہی کا تعلق 17 ویں صدی کے اواخر سے ہے، انھوں نے شعر میں تمھن اور سچ مچھ باندھا۔ پھر ولی دکنی کا دور آیا (وفات 1720ء۔ 1725ء کے درمیان) اس دور میں اردو زبان بہت صاف ہوگئی گوکہ ریختہ کہلاتی تھی۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:۔
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
انھوں نے بھی ’سے‘ کو’’سوں‘‘ اور ’جیسے‘ کو ’’جیوں‘‘ استعمال کیا تاہم ایسے اشعار بھی کہے:۔
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اردو کا املا کروٹیں بدل بدل کر اب اس مقام پر پہنچا ہے کہ ایک صاف ستھری زبان ہمارے سامنے ہے جس کے قواعد تشکیل پاچکے ہیں اور املا و تلفظ کا تعین بھی ہوچکا ہے۔ دوسری زبانوں خاص طور پر انگریزی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ شیکسپیئر کے دور کی انگریزی کے الفاظ متروک ہوگئے اور پھر امریکیوں نے بھی کچھ الفاظ کے ہجے بدل دیے۔ مگر اب الٹا پہیہ گھوم رہا ہے۔ سب سے پہلا حملہ املا اور تلفظ پر ہوا۔ ہر ایک اپنی مرضی کا املا استعمال کررہا ہے۔ کچھ دن سے اخبارات میں ’کنارہ‘ کا املا ’’کنارا‘‘ پڑھنے میں آرہا ہے۔ چاق و چوبند، السلام وعلیکم وغیرہ تو عام غلطیاں ہیں۔ ٹی وی کھول کر دیکھیے تو نئے سے نیا تلفظ سننے میں آتا ہے۔ انشا کا عالم یہ ہے کہ جسارت کے ایک کالم نگار لکھتے ہیں ’’آپ ٹھیک ہوجائوگے‘‘۔ یہ کون سی اردو ہے؟ اگر ہم یہ لکھیں کہ ’’تم ٹھیک ہوجائیں گے‘‘ یا ’’تو ٹھیک ہوجائوگے‘‘ تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ آپ، تم اور تُو کے ساتھ فعل بدل جاتا ہے اور یہی اردو ہے۔ طٰہ کا املا طحہٰ ہوگیا ہے۔ ایک خاتون نے اپنے مضمون میں سورہ طحہٰ کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے کبھی قرآن کریم کھول کر دیکھا ہوتا یا سورتوں کی فہرست ہی پر نظر ڈال لی ہوتی۔ جو لوگ اپنا نام طٰہ رکھتے ہیں وہ بھی عموماً طحٰہ لکھتے ہیں۔ کیا یہ ترقیِ معکوس ہے؟ ٹی وی پر ایک معروف مبلغ ’’حسن و سلوک‘‘ فرما رہے تھے۔ ’جس‘ اور ’جن‘ کے استعمال میں فرق روا نہیں رکھا جارہا۔ مثلاً ’’جس ہدایات‘‘۔’ جس‘ واحد کے ساتھ اور’ جن‘ جمع کے ساتھ آتا ہے۔
یاد رہے کہ زبان کوئی جامد شے نہیں ہے۔ اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے، لیکن کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت۔ اب ایک ٹی وی کی اینکر’سند‘ کو بروزن ہند کہیں تو اسے جہالت کہا جائے گا۔
لاہور سے شائع ہونے والے جریدے ’’آتش فشاں‘‘ سے وابستہ سینئر صحافی جناب منیر احمد منیر نے پچھلے ایک کالم کے حوالے سے اعتراض کیا ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے مغربی پاکستان میں پاکستان کا پرچم نہیں لہرایا تھا۔ ان کی بات صحیح ہوگی۔ ہم نے اب تک یہی پڑھا اور سنا تھا۔ پاکستان اور قائداعظم سے متعلق بہت سی روایات غلط ثابت ہوئی ہیں اور یہ کام ڈاکٹر صفدر محمود بڑی دل جمعی اور تحقیق کے ساتھ کررہے ہیں۔ منیر احمد منیر کا شکریہ، لیکن اگر وہ یہ بھی بتا دیتے کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں سرکاری طور پر کس نے پاکستان کا پرچم بلند کیا تو ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا۔ انھوںنے کالم پڑھا اور اس پر رائے دی، ہمارے لیے یہی باعثِ اطمینان ہے۔
کنارہ کے حوالے سے استاد ذوقؔ کا شعر یاد آیا:۔
ذوقؔ اس بحرِ فنا میں کشتیِ عمرِ رواں
جس جگہ پر جا لگی وہی کنارہ ہو گیا
کنارہ فارسی کا لفظ اور بروزن نظارہ ہے۔’ ک‘ بالفتح ہے، اس کے معانی معروف ہیں تاہم لغت میں اس کا ایک مطلب ’’لوہے کا کانٹا‘‘ بھی دیا ہے۔ بحرؔ کا شعر بھی سنتے جائیے:۔