پارلیمانی کمزوری کا ذمے دار کون؟
حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سنگین قومی مسائل پر اتفاقِ رائے کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت میں مسائل کا حل ٹکرائو کے مقابلے میں اتفاقِ رائے کی سیاست سے جڑا ہوتا ہے، اور یہ عمل ذمہ دارانہ سیاست کے پہلوئوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں سیاست اور جمہوریت اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہیں، وہاں ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی سیاست کو فوقیت دینے سے ہم مجموعی طور پر بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس طرز کی سیاست کا عملی نتیجہ محاذ آرائی اور لعن طعن کی سیاست کی صورت میں نکلتا ہے، جو جمہوریت میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ اتفاقِ رائے کی سیاست وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں سیاست سے جڑے افراد شعوری طور پر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں قوم کورونا کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی تناظر میں حزبِ اختلاف کی درخواست پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس تمام حفاظتی اقدامات کے ساتھ منعقد کیے گئے۔ ان اجلاسوں میں خاص طور پر کورونا بحران سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں اور حکمتِ عملی کو سمجھ کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کے تناظر میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی مشترکہ حکمتِ عملی کو سامنے لانا تھا۔ لیکن نتائج نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ہماری قومی سیاست بدستور سیاسی ناپختگی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کے تناظر میں ہونے والے اجلاس الزام تراشیوں، لعن طعن، سیاسی شعبدہ بازی، طنزیہ جملوں، مخالفین کے خلاف سخت زبان، بلاوجہ کے سیاسی ماتم، سیاسی شخصیتوں پرکیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے سے انکار کے گرد گھومتے رہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو نے حکومت کو اپنے تعاون کی پیش کش کی، مگر مجموعی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے خلاف دست وگریباں ہی نظر آئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب حکومت یا حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی ماننے سے انکار کردیں تو مفاہمت کی سیاست کیسے اپنی حیثیت منوائے گی! حزبِ اختلاف کے بقول یہ حکومت سلیکٹڈ یا اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے اور اسے کوئی عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں، یہ جعلی حکومت ہے۔ جبکہ حکومت کے بقول حزبِ اختلاف کی قیادت بدعنوان ہے اور ان کے ساتھ کسی بھی سطح کی مفاہمت کرپشن سے سمجھوتا کرنا ہوگا۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس پر حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں، ایسے میں ہم جیسے لوگوں کی یہ توقع کہ یہ مل کر کچھ کرسکیں گے، زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ کیونکہ حزبِ اختلاف کا مقصد کورونا بحران سے نمٹنے کے بجائے حکومت پر ایک بڑا دبائو ڈال کر اس بیانیے کو طاقت دینا ہے کہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ کیونکہ حکومت کی ناکامی ہی ان کے سیاسی مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے پیش نظر حکومت کی ناکامی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جبکہ حکومت سمجھتی ہے کہ ہم نے اگر حزبِ اختلاف کو ساتھ ملایا تو جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں وہ ممکن نہیں ہوگا۔ اور حکومت کی کوشش ہے کہ وہ لوگوں کو باور کرائے کہ جو بحران ہے وہ اسی حزبِ اختلاف کا پیدا کردہ ہے۔
حزبِ اختلاف کے راہنمائوں بلاول بھٹو زرداری، خواجہ آصف، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، شیری رحمان… سب کا پارلیمانی تقریروں میں بنیادی نکتہ یہی تھا کہ حکومت کے پاس کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی نہیں جو اس کی پالیسی کی واضح عکاسی کرسکے۔ حکومت پر تنقید بجا، مگر خود حزبِ اختلاف پارلیمنٹ میں کیا متبادل خاکہ پیش کرسکی؟ کوئی ٹھوس تجاویزحزبِ اختلاف کی جانب سے بھی پیش نہیں کی جاسکیں۔ یہ بات بجا کہ مفاہمت کی سیاست میں حکومت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اور اسی کو مفاہمت کے ایجنڈے کی قیادت کرنا ہوتی ہے۔ مگر خود حکومت میں ماشااللہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مفاہمت کے بجائے ٹکرائو پیدا کرکے اتفاقِ رائے کی سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے مجموعی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کا رویہ مایوس کن تھا، اور لوگوں میں یہی سوچ اور فکر پیدا ہوئی کہ پارلیمنٹ کے یہ اجلاس وقت اور وسائل کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ قائدِ ایوان سمیت قائدِ حزبِ اختلاف کی عدم موجودگی نے بھی یہی ظاہر کیا کہ پارلیمانی سیاست کی کوئی اہمیت نہیں۔
سیاست میں سمجھنے کی بنیادی بات یہی ہوتی ہے کہ اہلِ سیاست مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھتے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل میں مزید اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہیں؟ نتیجہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اہلِ سیاست مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دینے کی سیاست کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قومی نوعیت کے مسائل پر بھی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورکیے جاتے ہیں۔حالانکہ جب تسلیم کیا جارہا ہے کہ ہماری کورونا سے جڑی پالیسی میں ابہام ہے اوریہ فریقین کو تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہماری پارلیمانی سیاست سے جڑے تمام فریق ایک مشترکہ پالیسی تیار کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں؟اگر ان سارے معاملات کوپارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لانا اورکوئی مشترکہ حکمت ِعملی اختیار نہیں ی تو پارلیمانی سیاست کا مستقبل کیا ہوگا؟
بدقسمتی سے جہاں ہماری سیاست میں جمہوری روایات کمزور ہیں وہیں ہماری پارلیمانی سیاست کا طرزِ عمل بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس میں عملی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ذمہ دار ہیں، اوران کی سیاست نے پارلیمانی سیاست کی اہمیت کو کمز و ر کیا ہے۔ جب وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف سمیت وزرا اور اہم ارکان پارلیمنٹ میں آکر جواب دہ ہونے کے لیے تیار نہیں تو پارلیمانی سیاست کے مستقبل پر سوالات ہی اٹھیں گے۔جن معاشرو ں میں سیاست ایشوز کے بجائے شخصیات کی بنیاد پر ہو، وہاں سنجیدہ طرز کی سیاست اور اس سے جڑے مسائل قومی سیاست میں بالادست نہیں ہوتے۔وزیراعظم حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اور حزبِ اختلاف ان کو بطور وزیراعظم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو ان کا بیٹھنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے!
یہ جو کچھ ہم وفاق اور سندھ کے درمیان ٹکرائو کی سیاست دیکھ رہے ہیں، اور وہ بھی صورتِ حال کو خراب کررہی ہے۔ وفاق اور سندھ کی قیادتیں معاملات میں ٹھیرائو اور تلخیوں کو کم کرنے کے بجائے باہمی الزام تراشی کے ذریعے اس میں مزید شدت پیدا کرتی نظر آرہی ہیں۔ اس بحران میں بلاوجہ صوبائی خودمختاری کا کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کا وزیراعظم کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنا اور پھر بیان بازی کرناالمیہ ہے۔ سیاست دونوں طرف سے ہورہی ہے، اور سیاست کرنا برا نہیں اگر یہ مثبت سوچ کے ساتھ ہو، لیکن اگر اس میں سو چ منفی ہوگی تو نتائج بھی منفی ہی ہوں گے۔ کیا اہلِ سیاست کو اس بات کا ادرا ک ہے کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں ، اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت نے لاک ڈائون نہیں کیا، اوراس میں نرمی دکھا کر بحران پیدا کیا۔ اصولی طور پر ہم لاک ڈائون اور کرفیو کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈائون نہیں ہوا اُن کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ تمام سرکاری، غیر سرکاری اداروں کی بندش، تعلیمی اداروں کی بندش، مقامی اور دوسرے شہروں میں جانے والی سرکاری و نجی ٹرانسپورٹ کی بندش، تمام بڑے چھوٹے کاروبار کی بندش، ریسٹورنٹ، جم، باربر شاپس، شاپنگ مالز، کھیلوں کے میدان، پبلک پارکس، بیوٹی پارلر سمیت سب کچھ بند تھا۔ صرف میڈیکل اسٹورز اور روزمرہ کی کھانے پینے کی اشیاء کی دکانیں کھولنے کی اجازت تھی۔ اگر مسئلہ لوگوں کے باہر نکلنے کا تھا تو پھر واضح مطالبہ کیا جائے کہ لاک ڈائون سمیت کرفیو نافذ کیا جائے۔ اس مسئلے پر بھی ہم حکومت اورحزبِ اختلاف کو ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔اس لیے تمام ترخواہشات کے باوجود ہمیں حکومت اورحزبِ اختلاف میں اتفاقِ رائے کی سیاست کے امکانات بہت محدود نظر آتے ہیں، اور بظاہر لگتا ہے کہ محاذ آرائی بھی بڑھے گی اور سیاسی تقسیم بھی۔یہی ہماری قومی سطح کی سیاست کا المیہ بھی ہے اور بحران بھی۔