محصولات میں 9 سو ارب روپے کی کمی
بجٹ کی آمد آمد ہے، یہ ہمارا یومِ معاشی حساب بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت بجٹ پیش کرتی ہے۔ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی حکومت پارلیمنٹ سے بجٹ پاس نہ کرا سکے تو وہ حقِ حکمرانی کھو دیتی ہے، لیکن روایت یہی ہے کہ بجٹ پاس کرلیا جاتا ہے۔ اِس بار تو کورونا ہے اور حکومت بہت دبائو میں ہے، اس کا سیاسی مستقبل بھی گرم پانی میں ہے۔ بجٹ تیار کرتے ہوئے حکومت یہ بات طے کرچکی ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے جون میں مکمل ہونے والا مالی سال ترقی کی شرح منفی 1.5 کی سطح پر منتج ہوگا، اور آئندہ مالی سال کے دوران شرح ترقی 2فیصد رہے گی۔ ان اعدادو شمار کا صاف صاف مطلب ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھے گی، برآمدات اور ٹیکس ریونیو گھٹ جائے گا۔ لہٰذا مجموعی طور پر ہماری بقا سادگی اور کفایت شعاری میں ہے۔ حکومت نے یہ اعدادو شمار دے کر تقریباً آدھا بجٹ تو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے ہی قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ بجٹ میں دو فی صد ترقی بھی اس شرط کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ حکومت کو یورپی یونین کی طرف سے26 ارب روپے، اور جاپان کی جانب سے اقوامِ متحدہ پروگرام کے تحت کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے 40لاکھ ڈالر امداد کی پانچویں قسط مل چکی ہے۔ جاپانی حکومت یونیسیف، اقوام متحدہ کمیشن برائے مہاجرین اور کئی دیگر پروگراموں کی مد میں 34 لاکھ ڈالر کی معاونت پہلے ہی دے چکی ہے، یہ وسائل ملے ہیں تو حکومت آئندہ کے لیے دو فی صد ترقی کا بجٹ بنانے کے قابل ہوئی ہے، اور آئی ایم ایف کے ایک ارب 40کروڑ ڈالر بھی اسی میں شامل ہیں۔ امریکہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جن 10 ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر امداد دے گا ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان کو تقریباً ڈھائی کروڑ ڈالر امداد ملے گی۔ ابتدا میں امریکہ کی طرف سے صرف 10 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا، جسے پھر 20 لاکھ ڈالر اور اس کے بعد 90 لاکھ ڈالر تک بڑھایا گیا، اور اب اسے 2 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تک پہنچا دیا گیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت میں بھی پاکستان کو ان دو ممالک میں شامل کیا گیا ہے جن کی اس فورم پر بھی مدد کی جائے گی۔ آئی ایم ایف سے 1.4 ارب ڈالر اور جی ٹوئنٹی ممالک سے تقریباً 1.8 ارب ڈالر کے ریلیف کی فراہمی میں بھی امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔ یوں سمجھ لیں کہ سارا بجٹ ادھار کی رقم سے بن رہا ہے۔
اس وقت بجٹ 2020-21ء کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ حکومت بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ تعمیراتی شعبہ غلط اور بے بنیاد قسم کے اعدادو شمار دے کر حکومت سے اپنے رعایتیں لے چکا ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ملک کی چالیس دیگر صنعتیں اس سے وابستہ ہیں، حالانکہ یہ دلیل ملک کے ہر شعبے میں دی جاسکتی ہیں۔ زرعی شعبے کی اہم فصل کپاس ہی سے دھاگے سے لے کر گارمنٹس تک چالیس سے زائد شعبے جڑے ہوئے ہیں، لیکن چونکہ تعمیراتی شعبہ ایک مافیا بن چکا ہے لہٰذا حکومت اس کے سامنے سرنگوں ہے، اور تاجر تنظیمیں بھی حکومت سے اپنے لیے ریلیف مانگ رہی ہیں۔ اگرچہ ان سے کوئی وعدہ نہیںکیا گیا، فی الحال ان کے مطالبات سنے جارہے ہیں۔ ملک کا یہ کاروباری طبقہ 6 مہینے کا ریلیف مانگ رہا ہے، لیکن حکومت 2020-21ء کے لیے ٹیکس ریونیو کا ہدف 5100 ارب روپے رکھ چکی ہے جو مکمل ہوجانے والے مالی سال سے تقریباً 30فیصد زیادہ ہے، جو ہر لحاظ سے غیر حقیقی ہے۔ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، یا بجٹ کسی بھی ملک کا ہو… تجارتی توازن مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں معاشی منڈیاں سکڑ چکی ہیں اور وہ نئی حکمت عمی تیار کررہی ہیں۔ پاکستان کی تو کوئی تیاری ہی نہیں کہ عالمی معاشی منڈیوں کے بدلتے ہوئے رجحان کا چیلنج قبول کرسکے۔ حکومت اور کاروباری طبقے کی کشمکش ملک میں غربت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ حالیہ بحران میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 1.6فیصد کمی سے اِس سال منفی 1.57جی ڈی پی گروتھ اور ریکارڈ مالی خسارہ 9.6 فیصد تک جائے گا، ہمارے روپے کی قدر میں بھی کمی ہوگی۔ توقع کی جارہی ہے کہ 2024ء میں ڈالر 178روپے تک کا ہوجائے گا۔ بجٹ سے پہلے ہی مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار شروع ہوچکا ہے۔ حکومت بھی اس قبیح کاروبار کو نہیں روکے گی کہ اسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے اب ادائیگیوں کے لیے دبائو نہیں ہے۔ ڈالر کا کاروبار کرنے والے ان دو برسوں میں لکھ پتی سے ارب پتی بن جائیں گے۔
حکومت نے حالیہ بحران میں مستحق افراد میں 75 ارب روپے تقسیم کیے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے 900 ارب روپے کی ریونیو وصولی میں کمی آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت ایک ہزار ارب روپیہ کہیں نہ کہیں سے ضرور پورا کرے گی۔ یہ تو بجٹ کا سیدھا سیدھا خسارہ ہے اور حکومت یہ بات تسلیم کرچکی ہے کہ ملک میں ایک کروڑ 80لاکھ افراد بے روزگار اور 2 سے 7کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں، اور 10لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں۔ مستقبل کے لیے ملک کا معاشی نقشہ یہ نظر آرہا ہے کہ بھوک اور بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی اور حکومت بجٹ میں کفایت شعاری اختیار کرنے کا درس دے گی۔
ملکی معیشت کے اس پس منظر میں حکومت نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان بھی کیا ہے جس میں صوبے مرکز کے ساتھ بغل گیر ہونے کے بجائے آپس کی کش مکش اور تنائوکا شکار ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ وہ پانچ وفاقی مالیاتی امور ہیں جن پر مستقبل میں مرکز اور صوبوں میں بات چیت ہونے جارہی ہے۔ مرکز اپنی بات منوانے میں کامیاب رہا تو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں قابلِ تقسیم محصولات کی طے کردہ شرح یکسر بدل جائے گی۔ نئی شرائط میں قومی سلامتی، پبلک سیکٹرز کارپوریشنز، سبسڈیز کے لیے امدادی رقوم، قرضوں کی ادائیگی اور آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا شامل کیے گئے ہیں، لیکن آئین بھی کچھ پابندیاں لگاتا ہے اور صوبوں کو ضمانت دی گئی ہے کہ ان کے حصے کی رقم کم نہیں ہوگئی۔ آئین کی شق (3A) 160کے تحت صوبوں کے مالیاتی حصے کی شرح گزشتہ این ایف سی ایوارڈ (ساتواں ایوارڈ) سے کم نہیں کی جا سکتی۔ یہ شرح صوبوں کے لیے 57.5فیصد اور مرکز کے لیے 42.5 فیصد ہے۔ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں سندھ اور بلوچستان نے اپنے تحفظات ظاہر کردیے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کی 97 شقوں میں ترامیم کی گئی تھیں اور 18وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کے فرائض اور مالی ذمہ داریاں بھی صوبوں کو منتقل کی گئی تھیں۔ دس سال گزر جانے کے باوجود بہت سے ڈویژن اور وزارتیں مرکزی بیوروکریسی حیلے بہانوں سے ابھی بھی مرکز کے پاس رکھنے پر مُصر ہے۔ اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور زکوٰۃ فنڈ کے وفاق کے پاس رہنے کا کیا جواز ہے؟ نواں این ایف سی ایوارڈ اس لیے اپنے ہدف حاصل نہیں کرسکا کہ قومی سلامتی کے لیے 3 فیصد اور وفاق کے زیرِانتظام علاقوں کے لیے 4 فیصد کی کٹوتی پر اصرار کیا گیا تھا۔ اگر سلامتی اور وفاق کے زیرِ انتظام اور سابق فاٹا کے علاقوں کے علاوہ قرض کی ادائیگی، کارپوریشنز کے نقصانات اور امدادی رقوم کو بھی مجموعی فنڈز سے منہا کرلیا گیا تو صوبوں کے حصے میں صرف 7 فیصد نہیں بلکہ 15فیصد سے زائد کمی ہوسکتی ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اپنی تشکیل کے فوراً بعد ہی دسواں قومی مالیاتی کمیشن کسی حد تک متنازع ہوگیا ہے، اسی لیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا ہے جس میں کمیشن کی تشکیل کو آئین کے منافی قرار دیا ہے۔ وہ مشیرِ خزانہ کو کمیشن کا رکن بنانے اور اُن کی صدارت میں کمیشن کا اجلاس ہونے پر معترض ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی سیکرٹری خزانہ کو ماہرِ معیشت کی حیثیت سے کمیشن کا رکن بنانے پر بھی اعتراض اٹھا دیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا مؤقف ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے اخراجات وفاقی حکومت اپنے حصے سے ادا کرتی ہے۔ اگر اب حکومتوں کو زیادہ وسائل فراہم کرنا ہیں تو وفاقی حکومت اپنے حصے سے فراہم کرے، یہ رقم صوبوں کے حصے سے نہ لی جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ قابلِ تقسیم پول میں دفاعی اخراجات کو الگ کردیا جائے اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو چاروں صوبوں کی طرح الگ الگ حصہ دیا جائے، اس طرح قابلِ تقسیم پول میں سے دفاعی اخراجات الگ کرنے سے باقی جو رقم بچے، وہ وفاق اور صوبوں میں تقسیم کے لیے نیا فارمولا بنایا جائے۔ صوبوں کے حصے میں سے پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو نئے فارمولے کے تحت رقوم تقسیم کی جائیں۔ حکومت ان تجاویز پر عمل کرتی ہے تو اسے سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، کیونکہ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے موجودہ فارمولے میں ان تجاویز کے مطابق تبدیلی اور اس تبدیلی کو آئینی تحفظ دینے کے لیے 18ویں آئینی ترمیم ختم کرنے کے لیے مزید ترمیم لانا پڑے گی، یا یہ ہوسکتا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن میں اکثریتی فیصلے لے لیے جائیں، کیونکہ وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں، لیکن آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے۔ این ایف سی ایوارڈ آرٹیکل 161 اور 162 کے تحت دیا جاتا ہے، اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے کمیشن آئین کے مطابق ہو۔
صدر نے ایک اور آرڈیننس پاس کیا ہے کہ آف شور اکائونٹ میں 10 فیصد شیئر ہیں تو حکومت نہیں پوچھے گی۔ تحریک انصاف ایمنسٹی اسکیم کے خلاف تھی مگر دو سال میں ایمنسٹی کی سات اسکیمیں لاچکی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس وقت سازگار حالات ہیں کہ ملک میں سیاسی قوتیں کمزور ہیں اور ان پر احتساب کی تلوار بھی لٹک رہی ہے، لہٰذا وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گی۔ لیکن 18ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی وسائل کی تقسیم کا فارمولا دستور کے اندر رہتے ہوئے سیاسی قوتوں کی ایک بڑی کامیابی سمجھا اور خیال کیا جاتا ہے۔ حکومت حزبِ مخالف کی سیاسی قوتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اسی لیے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف سات ارب کا ریفرنس تیار کیا جارہا ہے۔ حکومت صرف الزام لگائو اور خود کچھ نہ کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ حکومت نے کابینہ کے رکن خسرو بختیار کو ایک بار پھر این آر او دے دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا مگر حکومت نے ذخیرہ اندوزی کے خلاف آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا، لہٰذا یہ چار ماہ کے بعد خود ختم ہوجائے یا پھر اسے صدر دوبارہ نافذ کریں گے۔ حکومت اسے پارلیمنٹ میں پیش کردیتی تو بحث کے بعد قانون بھی بن جاتا، لیکن آرڈیننس تو کیا وزیراعظم عمران خان خود بھی قومی اسمبلی نہیں آئے، حکومت نے اجلاس میں بھی کورونا سے متعلق کوئی پالیسی نہیں دی، صرف سندھ کو دھمکی دی گئی۔
آخر میں کچھ نیب سے متعلق… کہا جارہا ہے کہ اسے ختم کردیا جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا، اس کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسدادِ بدعنوانی کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں، اور دستخط کنندہ ہونے کی وجہ سے پاکستان نیب کو ختم نہیں کرسکتا۔ دیگر ممالک کو باہمی قانونی معاونت کے لیے خطوط صرف نیب ہی لکھ سکتا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک صرف اس کنونشن کے تحت ہی بدعنوانی کے خلاف اور انسداد منی لانڈرنگ کے لیے تعاون کرتے ہیں۔