اندرونی اور بیرونی سازشوں سے خبردار رہنا ہوگا
سابق منصفِ اعلیٰ پاکستان میاں ثاقب نثار کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اورکیا بھی گیا ہے، خاص طور پر انہوں نے اپنے دور میں جس طرح بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں ازخود نوٹس کے تحت کارروائیاں کیں اور انتظامیہ کے اختیارات خود استعمال کرتے محسوس ہوئے، اس پر انہیں ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم ازخود نوٹس ہی کا ایک معاملہ ایسا ہے جس پر قوم اُن کی ممنون اور احسان مند ہے اور رہے گی۔ وطنِ عزیز میں پانی کی قلت اور کم یابی کسی سے پوشیدہ نہیں، اور ہمارے اربابِ اختیار کے طرزعمل سے اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اسی قلت آب کے سبب ملک کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا رہا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے بطور منصفِ اعلیٰ مملکت کے اس اہم مسئلے کا ازخود نوٹس لے کر قوم اور حکمرانوں کو اس معاملے کی گمبھیر صورت حال کی جانب متوجہ کیا اور پینے کے پانی سے لے کر زراعت، صنعت اور توانائی وغیرہ تک کے شعبوں میں اس قلت کی بد سے بدتر ہوتی ہوئی صورتِ حال کو ہر ممکن طریقے سے اجاگر کیا۔ انہوں نے اس ضمن میں صرف عوام ہی کو نہیں جھنجھوڑا اور حکمرانوں کی سرزنش پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس معاملے میں خود بھی آگے بڑھ کر قوم کو مستقبل کے اس سنگین ہوتے بحران سے نجات دلانے میں عملی کردار ادا کیا۔ بطور منصفِ اعلیٰ میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس کیس کے ذریعے جولائی 2018ء میں حکومت کو پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا، اور اس مقصد کے لیے ’’مہمند، دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ‘‘ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے تمام اہلِ وطن سے اس فنڈ میں عطیات جمع کرانے کی استدعا کی۔ انہوں نے صرف دوسروں سے عطیات کی درخواست پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سب سے پہلے اپنی جیب سے اس فنڈ میں دس لاکھ روپے کا عطیہ دے کر ایک اچھی مثال قائم کی۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے بھی اس فنڈ کی تائید و توثیق کی اور اندرون و بیرون ملک سے بارہ ارب روپے کے لگ بھگ رقم اس فنڈ میں جمع ہوگئی جو آج بھی عدالتِ عظمیٰ کے ڈیم اکائونٹ میں بینکوں میں محفوظ ہے، اور میاں ثاقب نثار منصفِ اعلیٰ کے منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی قوم کو قحط سالی کے عذاب سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
دیامیر بھاشا ڈیم کا منصوبہ نیا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہونے کے باوجود سالہا سال سے دیگر بہت سے اہم منصوبوں کی طرح بوجوہ التوا کا شکار چلا آرہا تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر کی منصوبہ بندی اور تفصیلی ڈرائنگ کا کام مارچ 2008ء میں مکمل ہوگیا تھا اور اس کے لیے رقم فراہم کرنے کا وعدہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے کیا گیا، مگر ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمیشہ کی طرح یہاں بھی آڑے آیا اور جس طرح اُس نے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے اہم ترین منصوبے کالا باغ ڈیم کو اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے اندرون پاکستان اپنے دوستوں کے ذریعے رکوا دیا تھا، اس طرح دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی نہ ہونے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، اور اگست 2012ء میں اس منصوبے کے مالیاتی شراکت داروں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے رقم کی فراہمی سے انکار کردیا۔ جواز اس کا یہ بتایا گیا کہ یہ ڈیم گلگت بلتستان کے متنازع علاقے میں تعمیر کیا جارہا ہے، اس لیے پاکستان اگر اس منصوبے کے لیے فنڈز لینا چاہتا ہے تو اسے بھارت سے عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ لینا ہوگا۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسی شرط تھی جس کا پورا ہونا تقریباً ناممکنات میں سے تھا، چنانچہ یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم ہی کی طرح ختم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ حالانکہ جس طرح کالا باغ ڈیم کی منصوبہ بندی پر خطیر رقم خرچ کی جا چکی تھی اور قیمتی بھاری مشینری بیرونِ ملک سے درآمد کرکے منصوبے کی جگہ تک پہنچانے پر اربوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں، مگر سب کچھ دشمن کی سازش سے ضائع ہوگیا، یہاں بھی دیامیر بھاشا ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے عملے کے لیے رہائشی کالونی، تعمیراتی سامان اور مشینری کو منصوبے کے مقام تک پہنچانے کے لیے سڑکوں وغیرہ کی تعمیر جیسے مختلف کاموں پر قومی خزانے سے بھاری رقم خرچ کی جا چکی تھی جو عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں کے فنڈز کی فراہمی سے انکار کے باعث ایک بار پھر ضائع ہوتی محسوس ہونے لگی۔ اس اثناء میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اگست 2013ء میں دیامیر بھاشا اور داسو ڈیمز پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر پھر طویل عرصہ خاموشی چھائی رہی، اور پھر سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں منصوبے کی باقاعدہ منظوری دے کر 2017ء کے آخر میں تعمیراتی کام شروع کرنے کی ہدایت کی، مگر اس کی نوبت بھی نہ آسکی اور عین اُس وقت جب دوچار ہاتھ لب بام رہ گیا، نومبر 2017ء میں منصوبہ مشکلات کا شکار ہوکر کھٹائی میں پڑ گیا اور اسے ملک کی تعمیراتی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ جولائی 2018ء میں میاں ثاقب نثار نے اپنے از خود نوٹس کے ذریعے اسے از سر نو زندہ کیا اور قوم و حکومت کو اس کی تعمیر کی جانب متوجہ کیا…!
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے ایک بار پھر دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام فوری طور پر شروع کرنے کا اعلان کیا، اور ایک اچھی ہدایت اس ضمن میں یہ جاری کی ہے کہ منصوبے کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ مقامی سامان اور ملکی افرادی قوت کو استعمال میں لایا جائے۔ انہوں نے ڈیم کے تعمیراتی معیار اور بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کی تلقین بھی کی۔ وزیراعظم کی ہدایات کے بعد منصوبے کا ٹھیکہ چین کی سرکاری کمپنی ’’چائنا پاور‘‘ اور افواج پاکستان کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دے دیا گیا ہے۔ ٹھیکے کی مجموعی مالیت 442 ارب روپے بتائی گئی ہے، جس میں سے چائنا پاور اور ایف ڈبلیو او 70 اور30 فیصد کی شراکت دار ہوں گی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے منگل 19 مئی کو دیامیر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی مقام کا دورہ کیا تاکہ منصوبے پر کام کے بروقت آغاز کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ملکی تعمیر وترقی اور قومی معیشت کے لیے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے، اس کی تکمیل ملک کی تقدیر میں انقلابی تبدیلیو ں کا سبب بنے گی، اس منصوبے میں مجموعی طور پر 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی، جب کہ یہاں چار ہزار پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ منصوبے کی بدولت ملک میں انسانی وسائل کو ترقی دینے میں مدد ملے گی اور اس کی تعمیر سے انجینئرز اور دیگر عملہ کے لیے روز گار کے 16500 مواقع فراہم ہوں گے۔ منصوبے کی تکمیل سے قومی ترقی کے ساتھ علاقے میں بھی ترقی و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔
دعا ہے کہ یہ منصوبہ بخیر و خوبی تکمیل کے مراحل طے کرلے کہ یہ اس شعبے میں طویل عرصے کے بعد تکمیل پذیر ہونے والا پہلا منصوبہ ہوگا جس سے 4500 میگاواٹ نہایت سستی بجلی کی پیداوار کے علاوہ دس لاکھ ایکڑ رقبہ بھی زیرکاشت لایا جا سکے گا، اور ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر سے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ پہلے بنائے گئے تربیلا ڈیم کی زندگی میں 35 برس کا اضافہ ہوجائے گا۔ منصوبے سے 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی جو بڑی مقدار ذخیرہ کی جائے گی اُس سے ملک کی زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ ہو گا، اس کے علاوہ ہر سال بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی وسیع پیمانے پر تباہ کاریوں، فصلوں، مال مویشی اور مکانات کو پہنچنے والے نقصانات سے بھی محفوظ رہا جا سکے گا۔ منصوبے پر اخراجات کا تخمینہ 1400 ارب روپے لگایا گیا ہے جو پاکستان جیسے ملک کے لیے یقیناً ایک بہت بڑی رقم ہے اور جس کی فراہمی بلاشبہ آسان نہیں ہوگی، تاہم ایک عزم مصمم کے ساتھ اس کی تکمیل ہماری قومی زندگی کے لیے ناگزیر ہے جس کے نتائج اور فوائد بہت دوررس ہوں گے۔ تاہم اس ضمن میں ہمیں اپنے دشمنوں کی اندرونی اور بیرونی سازشوں سے بھی خبردار رہنا ہوگا جنہوں نے منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی واویلا شروع کردیا ہے۔