جاوید جبار کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنادیا جائے!۔
ہم اس مسئلے پر بحث کرنے سے قبل ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا چاہتے ہیں۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کے مختلف علما اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی، اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا آرڈیننس کے ذریعے دو ڈویژن قلات اور کوئٹہ کو یکجا کرکے صوبہ بلوچستان بنادیا۔ کنفیڈریشن کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا، ریاست قلات ماضی میں برطانوی استعمار کے ماتحت تھی اور افغانستان کے حکمرانوں کی باج گزار ریاست تھی۔ خان قلات مرحوم کی کتاب ’’تاریخ خوانینِ بلوچ‘‘ جو خان کے حکم پر اُن کے وزیر دربار ملک اللہ بخش نے 8 اگست 1980ء کو شائع کی، اس میں ملک اللہ بخش نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً خود خانِ اعظم بلوچ گزشتہ تمام حالات و واقعات کے ریکارڈ اور بلوچی تاریخ کے پس منظر کو جمہوری طور پر دربار قلات سے جمع کرکے افرادِ قوم کے سامنے پیش کرتے رہے، بصورت دیگر انہوں نے اپنے وزیر دربار یا کسی اور افسرِ دربار کو حکم صادر فرمایا کہ وہ اس سلسلے میں بلوچی تاریخ، پس منظر اور تمام گزشتہ حالات اور واقعات کا ریکارڈ مدون کرکے کتابی صورت میں لوگوں کے مطالعے کے لیے پیش کردے۔ اس کا مقصدِ وحید صرف یہی رہا ہے کہ لوگوں کو کماحقہٗ گزشتہ اور موجودہ پیش آمدہ حالات سے متعلق وافر معلومات حاصل ہوجائیں کہ ماضی میں اس علاقے میں کیا حالات رہے ہیں اور موجودہ دور میں کیا ہورہا ہے۔ اب کے بھی مجھے حضورِ اعلیٰ حضرت بیگلر بیگی خانِ اعظم نے اس ضمن میں یہ حکم صادر فرمایا کہ میں ان کی ہدایات اور مرضی و منشا کے مطابق دربار کے گزشتہ ریکارڈ سے چند تاریخی اہم امور اور مشہور و معروف واقعات صحیح طور پر ایک کتابی شکل میں افراد اور قوم کے سامنے مطالعے کے لیے پیش کردوں۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس کتاب کا تمام ریکارڈ دربار قلات سے مدون کیا گیا ہے۔
مجھے اس کتاب کے مطالعے کا موقع کئی بار ملا، اس میں بے شمار واقعات تاریخ کے حوالے سے درست نہیں ہیں۔ خان موصوف جب گورنر بلوچستان تھے تو نیشنل سینٹر جو جناح روڈ پر فتح خان بلڈنگ کی اوپر والی منزل پر واقع تھا تو قاضی عیسیٰ خان مرحوم نے خان کی کتاب ہاتھ میں لے کر اس کے مختلف صفحات پلٹے اور وہ خان کے بیان کردہ واقعات کی تردید کرتے رہے، اور میں نوٹ کرتا رہا۔ اُس وقت میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں بلوچستان کے واقعات بیان کرتا تھا۔ اس سینٹر کے منیجر نسیم الدین تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور میرے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا ’’یار امان تم نے جو کچھ نوٹ کیا ہے اس کو شائع نہ کرنا ورنہ میری نوکری دائو پر لگ جائے گی‘‘۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا اور جو کچھ نوٹ کیا تھا اسے نہیں لکھا۔ کچھ باتیں میری یادداشت میں ہیں۔ قاضی عیسیٰ نے کتاب کا صفحہ نمبر 190 کھولا جس میں یہ لکھا تھا کہ ’’خان بلوچ نے قائداعظم کو کامل یقین دلایا کہ ریاست قلات اور پاکستان کے تعلقات تو ویسے ہی 1938ء سے قائم ہوچکے تھے۔ اور پھر مورخہ 4 اگست 1947ء کو قلات اور پاکستان کے مابین جو ’’اسٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ‘‘ طے پایا ہے اس پر قاضی عیسیٰ مرحوم نے کہا کہ خان نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ 1938ء میں پاکستان موجود ہی نہیں تھا تو تعلقات کہاں سے قائم ہوگئے تھے!
اس موقع پر خان قلات مرحوم کی کتاب سے ایک اور حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ معاہدہ جو حکومتِ برطانیہ نے خان صاحب میر محراب شہید سے 28 مارچ 1938ء کو بمقام قلات کیا، چونکہ حال ہی میں حکومت برطانیہ نے اعلیٰ حضرت شاہ شجاع الملک سے دائمی رفاقت اور دوستی کا ایک معاہدہ کیا ہے اور چونکہ خان صاحب میر محراب خان والیِ قلات اور اُن کے خلاف ہمیشہ شاہی خاندان سدوزئی کے مطیع رہے ہیں، اس لیے اب حکومت برطانیہ برضا و مشورہ شاہ شجاع الملک میر محراب خان اور ان کی اولاد نسلاً بعد نسلاً کے ساتھ اس معاہدے کی دفعات کی حلیف رہے گی، اور جب تک خان صاحب موصوف اپنی خدمات عمدگی کے ساتھ انجام دیتے رہیں گے، حکومتِ برطانیہ اس معاہدے کی پابند رہے گی۔
دفعہ دوم: جس طریق پر میر نصیر خان اوّل اور ان کی اولاد، اخلاف و قوم، عید احمد شاہ درانی مرحوم علاقہ جات قلات، کچھی، خراسان، مکران، کیچ و بیلہ، بندرگاہ سومیانی پر قابض رہے ہیں اسی طرح وہ مستقبل میں اپنے علاقہ جات کے مالک رہیں گے۔
سوم و دفعہ چہارم: برطانوی فوج علاقہ خراسان میں مقیم رہے، حکومتِ برطانیہ چار لاکھ روپیہ میر محراب خان کو ادا کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔ اس رقم کی ادائیگی کے صلے میں خان صاحب میر محراب خان شاہ شجاع الملک کے مطیع اور حکومتِ برطانیہ کے دوست رہیں گے۔
دفعہ ہشتم: خان صاحب میر محراب خان اپنی حسن خدمات اور نمک حلالی کے ذریعے خاندان سدوزئی کے ساتھ جس قدر دوستی کا اظہار کریں گے اسی قدر ان کی دوستی حکومتِ برطانیہ کے ساتھ بڑھے گی، اس پر خان صاحب موصوف کو پورا بھروسا اورکامل اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ عہدنامہ برضا روبرو لیفٹیننٹ کرنل سر الیگزینڈر برزونائٹ نمائندہ منجانب رائٹ آنریبل جارج لارڈ گورنر جنرل سلطنت ہند و میر محراب خان والیِ قلات منجانب خود انجام پایا، اور اس کی تصدیق و دستخط گورنر جنرل صاحب بہادر مقرر وقت پر کروائی جائے گی۔ بمقام قلات تاریخ 28 مارچ 1939ء بمطابق 14 ماہ محرم الحرام 1375ھ قرار پایا۔ دستخط سفیر دربار قلات صفحہ 220۔ 221
ایک اور معاہدہ میر محراب خان کے بعد 1941ء میں حکومت ہند اور نصیر خان والیِ قلات کے درمیان ہوا۔ دراں حالیکہ میر نصیر خان ولد میر محراب خان شہید اپنی نمک ہلالی و فرماں برداری ظاہر کرچکا ہے، حکومت ہائے ہند و اعلیٰ حضرت شاہ شجاع الملک یعنی میر نصیر خان موصوف اور اس کے اخلاف کو مندرجہ ذیل شرائط پر قلمرو قلات کا فرماں روا تسلیم کرتی ہے:
اول: جس طرح میر نصیر خان کے وارث و اجداد بادشاہِ کابل کے اخلاف کے مطیع و فرماں بردار رہے ہیں اسی طرح میر نصیر خان موصوف اپنے اخلاف اور اپنے آپ کو اعلیٰ حضرت کا مطیع اور فرماں بردار تسلیم کرتا ہے۔
دفعہ دوم: اعلیٰ حضرت شاہ شجاع الملک کے لطف و مہربانی سے علاقہ جات کچھی، مستونگ اور شال میر محراب خان کی شہادت کے بعد قبضے میں لیے گئے تھے۔ قبل الذکر دو علاقہ جات خان صاحب موصوف اور اُن کے جانشینوں کو واپس کردیے جائیں گے۔
حصہ سوم: اگر قلات کے کسی خطے میں فوج کا رکھا جانا ضروری سمجھا جائے تو فوج مذکورہ سرکار شاہ شجاع الملک کی ہو یا آنریبل کمپنی کی، وہ اس علاقے پر جیسے چاہے قبضہ کرسکے گی۔
ہم بلوچستان کے حوالے سے اس مسئلے پر تجزیہ کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے قومی مالیاتی کمیشن میں ایک غیر بلوچستانی کو نامزد کیا ہے، اس سے قبل بھی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے ایک غیر مقامی کو صوبے میں اہم ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ معاشی طور پر بلوچستان کو کھڑا کرکے پنجاب سے بھی آگے لے جائے گا۔ بلوچستان برطانوی سامراج کی گرفت میں رہا ہے اس لیے یہاں غلامی اور احساسِ کمتری کے اثرات موجود ہیں۔ ہم اس کا مشاہدہ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر اکثر کرتے ہیں کہ چمک کے ذریعے غیر بلوچستانی سینیٹ میں پہنچ جاتا ہے، یا کوئی ایسی شخصیت منظورِ نظر بن جاتی ہے جس کے پاس زر کی چمک ہوتی ہے۔ یہ تجزیہ اس حوالے سے ہورہا ہے کہ جاوید جبار کو بلوچستان کی نمائندگی کے لیے وزیراعلیٰ نے نامزد کیا۔ ہم نے اس کا تجزیہ کیا اور اس میں خان کی کتاب کے حوالے اس لیے دیے ہیں کہ اُن کے خان صاحبان اور والیِ ریاست انگریزوں کے تابع دار رہے ہیں، تو اس احساسِ کمتری سے ابھی تک والیان ریاست نہیں نکل سکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے جاوید جبار کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے ’’بلوچستان کا حصہ این ایف سی ایوارڈ میں پہلے سے زیادہ محفوظ ہے، صوبے کے ارکان کی قومیت کو دیکھ کر فیصلے نہیں کیے جاتے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنی بہتری سے معاملات کو سامنے رکھ کر بحث کرکے قائل کرسکتا ہے۔ NFC کے ارکان کی تقرری پر بحث کرنے والے گوگل کو دیکھیں کہ 2008ء سے 2018ء تک بلوچستان میں NFC کے ارکان کون تھے‘‘۔ یقیناً اُن کا بیان اہمیت کا حامل ہے کہ حزب اختلاف ذرا مڑ کر ماضی میں جھانکیں کہ کون کون این ایف سی میں نمائندگی کررہا تھا۔ لیکن مجھے حزبِ اختلاف کے مؤقف سے اتفاق نہیں ہے اگر انہوں نے ماضی میں کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کی ہوئی تھی، لیکن ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے محترم وزیراعلیٰ جام کمال سے عرض کرنا ہے کہ بلوچستان میں 1972ء سے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق بلوچوںسے رہا ہے، اس لیے انہوں نے بھی کمیشن میں غیر بلوچستانی کو ہی نامزد کیا تھا تو گلہ کیا کریں! ان کے ذہنوں پر بھی طویل محکومی کے اثرات غالب رہے ہیں۔ اگر بلوچستان قابلیت کے حوالے سے ایک بانجھ صوبہ ہے تو ہمیں فاتحہ پڑھ لینی چاہیے، اور جام صاحب ازراہِ کرم کمیشن میں چلے جائیں اور وزیراعلیٰ کا منصب جاوید جبار کے حوالے کردیں۔