دنیائے جدید کا سیاہ (فام) باب

امریکہ میں غلاموں کی تجارت کی تاریخ

ہاورڈزن/ترجمہ:ناصر فاروق
ایک سیاہ فام امریکی مصنف، جے ساؤنڈرزریڈنگ، سال 1619ء میں شمالی امریکہ کے ساحل پر لنگرانداز ہونے والی ایک کشتی کے بارے میں لکھتا ہے: کشتی کا بادبان تیز ہوا سے پھڑپھڑا رہا تھا، جھنڈا بل کھاکر ڈنڈے پر لپٹ گیا تھا، وہ لہریں اٹھاتی تیزی سے ساحل کی طرف آرہی تھی۔ وہ بہت عجیب کشتی تھی، درحقیقت وہ ایک خوف زدہ کردینے والی کشتی تھی۔ یہ تجارتی کشتی تھی، کسی کی ذاتی ملکیت تھی، یا جنگی کشتی تھی؟ کوئی نہ جانتا تھا۔ اُس کے پشتے سے سیاہ توپ کا دہانہ جھانک رہا تھا۔ ڈچ پرچم اُس پر لہرا رہا تھا، بھانت بھانت کا عملہ تھا۔ اس کشتی کی منزل جیمس ٹاؤن کی انگریز کالونی تھی، یہ ریاست ورجینیا میں تھی۔ وہ آئی، تجارت کی، اور آناً فاناً روانہ ہوگئی۔ شاید تاریخِ جدید میں ایسی کوئی کشتی نہ گزری ہو جس نے ایسے سامان کی ترسیل کی ہو۔ کیا تھا اُس کا سامانِ تجارت؟ بیس سیاہ فام غلام!
دنیا کی تاریخ میں کوئی ملک ایسا نہیں گزرا، جہاں نسل پرستی اتنی اہم رہی ہو، جیسی کہ طویل عرصے تک امریکہ میں رہی ہے۔ ’’سیاہ لکیر‘‘ کا مسئلہ، جیسا کہ W. E. B. Du Bois لکھتا ہے، آج تک ہمارے ساتھ ہے۔ یوں یہ ایک بہت ہی خالص تاریخی سوال بنتا ہے: یہ کیسے شروع ہوا؟ اور اس سے بھی زیادہ فوری نوعیت کا سوال یہ ہے کہ کیسے ختم ہوگا؟ یا اس کو کچھ یوں بھی کہہ سکتے ہیں: کیا یہ ممکن ہے کہ کبھی سیاہ فام اور سفید فام برابری سے زندگی بسر کرسکیں گے؟
اگر تاریخ ان سوالوں کے جواب دینے میں کچھ مددگار ہوسکتی ہے، تو پھر شمالی امریکہ میں پہلے سفید فام آقاؤں اور پہلے سیاہ فام غلاموں کی کھوج کرنی ہوگی، شاید اس طرح کوئی سراغ ہاتھ آسکے۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے سیاہ فام غلام ورجینیا پہنچائے گئے تھے، جبکہ یورپ سے سفید فام کانٹریکٹ مزدور بھی امریکہ بھجوائے گئے تھے۔ تاہم سیاہ فام اس اعتبار سے مختلف تھے کہ ’’غلام‘‘ درجے میں رکھے گئے تھے۔ بہرصورت، غلامی امریکہ میں ایک ادارے کی صورت تیزی سے پروان چڑھی۔ اس نئی دنیا میں سفید فام مزدور اور سیاہ فام غلاموں میں امتیاز قائم رکھا گیا۔ اس سے نسل پرستی کے احساسات نفرت، حقارت، ترس، اور کفالت کی شکلوں میں عام ہوئے۔ یہ احساسِ کمتری 350 سال تک امریکہ میں سیاہ فاموں کی نفسیات پر چھایا رہا۔ ابتدائی سفید فام آبادکاروں کے تجربے میں ’سیاہ فاموں کی غلامی‘ عام بات بن چکی تھی۔ 1619ء میں ورجینیا کے گوروں کو کاشت کاری اور اناج کی پیداوار کے لیے بہت زیادہ مزدور درکار تھے، خوراک کی شدید کمی سے زندگی کی امید کم ہوچلی تھی۔ قحط کی صورت حال پیدا ہوچکی تھی۔ وہ جنگلوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ کہیں کوئی بیری یا جنگلی پھل ہی ہاتھ آجائے۔ وہ وقت آیا کہ پانچ سو آبادکاروں میں سے صرف ساٹھ زندہ بچے۔ Journals of the House of Burgesses of Virginia ایک ایسی دستاویز ہے، جو بتاتی ہے کہ جیمس ٹاؤن کے ابتدائی بارہ برسوں میں صرف سو آبادکار یہاں رہتے تھے، جوں جوں آبادی بڑھتی گئی، خوراک کی قلت بڑھتی گئی، اور لوگ انتہائی مشکل میں پڑگئے۔ آبادکاروں نے ہاؤس آف برجیسس کوگورنر سر تھامس اسمتھ کے خلاف ایک درخواست لکھی، جس میں کہا گیا: سر تھامس اسمتھ کی بارہ سالہ گورنری میں یہ آبادی شدید مصائب کا شکار ہوچکی ہے، یہاں کے قوانین اتنے ظالمانہ ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں، ایک فرد کو ایک دن میں صرف آٹھ اونس خوراک کھانے کی اجازت ہے، اور وہ بھی سڑی ہوئی، مکڑی کے جالوں سے اٹی ہوئی… ایسی خوراک جو انسان تو انسان جانور بھی کھانا پسند نہ کرے، بہت سے لوگ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ٹاؤن سے فرار ہوچکے ہیں۔
ورجینیا والوں کو مزدوروں کی شدید ضرورت تھی، تاکہ کم از کم مکئی کاشت کرسکیں اور قحط کی حالت سے باہر نکل سکیں، اور تمباکو کی اتنی زیادہ کاشت کرسکیں کہ برآمد بھی ممکن ہوسکے۔ اراواکس پر اب کولمبس کے وقتوں جیسا دباؤ ڈالنا ممکن نہ رہا تھا، وہ بہت سخت جان اور باغی طبیعت کے تھے، قتل عام کی صورت میں انتقام لے سکتے تھے، جبکہ سفید فام مزدوروں کی مطلوبہ کھیپ بھی دستیاب نہ تھی، یہ ویسے بھی ’غلام‘ نہ تھے۔
چنانچہ نئی ترقی یافتہ دنیا کی کاشت کاری کے لیے سیاہ فام غلام ہی بچتے تھے۔
ایڈمنڈ مورگن اپنی کتاب American Slavery, AmericanFreedom: میں، بعدکے اراواکس ہندیوں کی بابت لکھتا ہے کہ: اگر تم ایک نوآباد کار تھے، توتم جانتے تھے کہ مہذب ہو، جبکہ دیسی امریکی اجڈ ہیں، تم جانتے تھے کہ تمہاری ٹیکنالوجی برتر ہے، لیکن یہ ٹیکنالوجی پیداوار میں ناکام رہی تھی۔ دیسی تمہیں دیکھ کر ہنستے تھے، وہ آسانی سے گزر بسر کرلیتے تھے، کم مشقت کرکے زیادہ پیداوار کی صلاحیت رکھتے تھے، اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ تمہارے اپنے لوگ تمہیں چھوڑ چھوڑ کر دیسیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے، یہ ناقابلِ برداشت تھا، چنانچہ تم نے اُن کا قتلِ عام شروع کردیا، اُن کے گھر جلا ڈالے، اُن کی کھیتیاں اجاڑ دیں، اُن کے دیہات برباد کردیے، اس طرح تم نے اپنی ناکامیوں پر اپنی بالادستی کا پردہ ڈال دیا۔ تم نے اُن میں گھل مل جانے والے اپنے لوگوں پر بھی ظلم کیا، مگر مکئی کی پیداوار پھر بھی نہ بڑھ سکی…
اس مایوس کن صورت حال کا بس ایک ہی جواب تھا، سیاہ فام غلام۔ اور یوں درآمد شدہ سیاہ فاموں کو غلام سمجھنا فطری سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ ’غلامی‘ کے ادارے کی دہائیوں تک کوئی قانونی حیثیت بھی متعین نہ ہوسکی۔ سن 1619ء تک، دس لاکھ سیاہ فام افریقہ سے جنوبی امریکہ اور کیریبین پہنچائے جاچکے تھے، یہ پرتگالی اور ہسپانوی نوآبادیوں میں غلام بناکر رکھے گئے۔
کولمبس کی امریکہ آمد سے پچاس سال قبل پرتگالی دس افریقی غلاموں کو لزبن درآمد کرچکے تھے، یہ غلاموں کی تجارت کا باقاعدہ آغاز تھا۔ سو سال تک کے لیے افریقی سیاہ فاموں پر ’غلامی‘ کی مہر لگادی گئی تھی۔ اس لیے جب بیس غلام بیگار کے لیے جیمس ٹاؤن لاکر بیچے اور خریدے گئے، تو یہ انوکھا واقعہ نہ تھا۔ سیاہ فاموں کی وطن سے دوری اور بے بسی نے ’’غلامی‘‘ کا تجربہ آسان بنادیا تھا، کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ اراواکس ہندی اپنے وطن میں تھے۔ سفید فام اپنی یورپی ثقافت میں آباد تھے۔ جبکہ سیاہ فام اپنے وطن اور ثقافت دونوں سے مکمل طور پر کاٹ دیے گئے تھے، اور ایک ایسی صورتِ حال میں جبراً دھکیل دیے گئے تھے، کہ جہاں زبان، لباس، اطوار، خاندانی تعلقات ایک ایک کرکے مٹ رہے تھے۔
کیا سیاہ فاموں کی ثقافت کمتر تھی کہ اسے تباہی سے دوچار کردیا جاتا؟ نہیں، بلکہ وہ عسکری طور پر کمزور تھے، اس لیے گوروں کی بندوقوں سے زیر ہوگئے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ گوروں نے افریقی ساحلوں پر چھوٹے چھوٹے قلعے بنا لیے تھے، اندرونی علاقوں میں دور تک جانے کی جرأت اُن میں موجود نہ تھی۔ افریقی تمدن ترقی کررہا تھا، تاہم ان کے ہاں مظالم بھی تھے، طبقاتی نظام بھی رائج تھا، اور انسانوں کی بَلی بھی چڑھائی جاتی تھی۔ یہ دس کروڑ سیاہ فاموں پر مشتمل تہذیب تھی۔ یہ لوہے کا استعمال جانتے تھے اور ماہر کاشت کار تھے۔ ان کے ہاں بڑے بڑے شہری مراکز تھے۔ سولہویں صدی کے یورپی سیاح افریقی ریاستوں ٹمبکٹو اور مالی سے بہت متاثر ہوئے تھے، یہ بہت مستحکم اور منظم تھیں، جبکہ یورپی ریاستوں میں ابھی ترقی کا آغاز ہی ہوا تھا۔ سن 1563ء میں وینس کی حکومت کے سیکریٹری Ramusioنے اطالوی تاجروں کو لکھاکہ’’وہ جائیں اور ٹمبکٹو اور مالی کے بادشاہ اور تاجروں سے تجارت کریں، بلاشبہ کہ وہ بہت مہربان میزبان ہیں، وہ اپنی کشتیوں کے استعمال اور سامان کے لین دین میں فراخ دلی سے پیش آتے ہیں، اور ہر وہ سہولت دیتے ہیں جو مانگی جائے…‘‘
سن 1602ء کے آس پاس کی ایک ڈچ رپورٹ، مغربی افریقہ میں بینن کی بادشاہت کے بارے میں کہتی ہے: ’’یہاں کے قصبات بہت شاندار ہیں۔ جب آپ یہاں داخل ہوتے ہیں، ایک چوڑی شاہراہ آپ کا استقبال کرتی ہے، یہ ایمسٹرڈیم کی مرکزی شاہراہ سے بھی سات آٹھ گنا کشادہ ہے۔ اس قصبے کے مکانات ایک ترتیب سے تعمیر کیے گئے ہیں، جیسا کہ ہالینڈ میں نظرآتے ہیں۔‘‘ 1680ء میں گنی کوسٹ کا ایک یورپی سیاح لکھتا ہے: ’’شہری طور طریقوں سے آراستہ، نیک فطرت لوگ، جن سے معاملات آسان ہوں، ہر چیز کا دگنا بدلہ دینے والے، بڑھ چڑھ کر تحفے تحائف پیش کرنے والے باشندے یہاں بستے ہیں‘‘۔
افریقہ میں ایک قسم کا جاگیردارانہ نظام قائم تھا، جیسا کہ یورپ میں زرعی بنیادوں پر استوار تھا، یہ نوابوں کے خاندانی سلسلے تھے، مگر افریقہ کی جاگیرداریت یورپ کی مانند ’’غلام یونانی اور رومی معاشروں‘‘ پر مستحکم نہ ہوئی تھی، کہ جس نے قدیم قبائلی زندگی نیست ونابود کردی تھی۔ افریقہ میں قبائلی زندگی اب بھی قائم تھی، اور یہاں معاشرتی روح، قانون اور سزا میں رحم دلی پائی جاتی تھی۔ یہاں کے جاگیرداروں اور نوابوں کے پاس یورپی نوابوں جیسے ہتھیار بھی موجود نہ تھے، اور یہ آسانی سے ہرکسی کو اپنا تابع بھی نہ بناسکتے تھے۔
اپنی کتاب The African Slave Trade میں باسل ڈیوڈسن سولہویں صدی کے کانگو کا موازنہ پرتگال اور برطانیہ سے کرتا ہے۔ جن یورپی ریاستوں میں ذاتی جائداد کا تصور مستحکم ہورہا تھا، چوری کی سزا انتہائی ظالمانہ تھی۔ سن 1740ء کے برطانیہ میں ایک بچے کوکپڑے کا ٹکڑا چرانے پر پھانسی پر لٹکایا جاسکتا تھا۔ مگر کانگو میں ذاتی جائداد کا تصور اجنبی تھا، لوگ مل جل کر رہتے تھے، چور کی سزا جرمانہ یا خدمت گاری کی کوئی صورت ہوتی تھی۔ ایک بار کانگو کے ایک رہنما نے ایک پرتگالی سے قوانین پر گفتگوکے دوران طنزیہ سوال کیا کہ ’’تمہارے ہاں زمین پر پاؤں رکھنے کی کیا سزا مقرر ہے؟‘‘ افریقہ کی ریاستوں میں ’’غلامی‘‘ موجود تھی، اور یورپی اسی کو جواز بناکر غلاموں کی تجارت کرتے تھے۔ مگر جیسا کہ ڈیوڈسن لکھتا ہے کہ ایک افریقی غلام یورپی مزدور کی طرح کانٹریکٹر ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو افریقہ کے غلام یورپ کی اکثریتی آبادی کی طرح تھے۔ یہ سخت مشقت والی غلامی تھی، مگر انھیں حقوق حاصل تھے۔ جو سیاہ فام غلام امریکہ لائے گئے تھے، انھیں کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ یہ کشتیوں میں جانوروں کی طرح بھر بھر کر لائے جاتے، اورکھیتوں میں مشقت پر لگادیے جاتے تھے۔
مغربی افریقہ کی بادشاہت’’ آشانتی‘‘ میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد، ایک سیاح نے لکھاکہ ’’یہاں ایک غلام آزادی سے شادی کرسکتا تھا، ذاتی جائداد بھی رکھ سکتا تھا، اور ایک خدمت گار بھی رکھ سکتا تھا، اور اپنے مالک کی جائداد میں حصہ دار بھی ہوسکتا تھا… ایک آشانتی غلام، یعنی ہر دس میں سے ایک غلام سرپرست خاندان کا باقاعدہ رکن بھی بن جاتا تھا، اور ان کی نسلوں میں ایک وقت وہ بھی آتاکہ باہمی رشتے داریوں سے یہ یاد ہی نہ رہتا کہ کبھی کوئی غلام بھی تھا۔‘‘
غلاموں کا ایک تاجر جان نیوٹن، جو بعد میں ’غلامی‘ کا مخالف رہنما بن کر ابھرا، سیرالیون کے لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ان جنگلی بربروں (جیسا کہ ہم انھیں سمجھتے ہیں) میں غلامی کا معاملہ ہماری نوآبادیات سے بہت بہتر تھا۔ ایک جانب تو انھوں نے ہماری طرح لامحدود اراضی پر کاشت نہیں کی تھی، کہ جس کے لیے انھیں تاحیات غلاموں کی ضرورت پڑے، دوسرا یہ کہ کسی شخص کو کسی مزدور کا خون نچوڑنے کی اجازت بھی نہ تھی۔ ‘‘
ظاہر ہے افریقی ’غلامی ‘کی بھی تحسین نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ امریکی غلامی سے یکسر مختلف نوعیت کی تھی۔ امریکی غلامی تاحیات، اخلاقی طورپر کچل دینے والی، اورخاندان، رشتہ داریاں تباہ کردینے والی تھی۔ امریکی غلامی میں مستقبل کی کوئی امید نہ تھی۔ افریقی غلامی میں اُن دو عناصر کی کمی تھی جوامریکی غلامی کوتاریخِ انسانی کی بدترین غلامی بناتے ہیں: لامحدود منافع کا جنون جوسرمایہ دارانہ طرزِزراعت کی پیداوار ہے، اورغلام کو انسان سے کم تر کسی مخلوق کے درجے پر گرادینا، اور اس کے لیے نسل پرستی کوفروغ دینا، سیاہ فام کا غلام اور سفیدفام کا آقا ہونا، یہ سب غلامی کی بدترین حالتیں تھیں۔
سیاہ فام افریقیوں کو دیگر سیاہ فام غلاموں کی مدد سے اندرون علاقوں میں گھس کر اغوا کیا جاتا، ساحلوں پر بیچا جاتا، اور پھر وہاں سے کشتیوں میں دیگر غلاموں کے ساتھ امریکہ روانہ کردیا جاتا تھا۔ یہ اغوا اور خریدو فروخت افریقی باشندوں کے لیے ایک طویل تھکا دینے والا، انتہائی ذلت آمیز تجربہ ہوتا تھا، ساحلوں تک پیدل مارچ کروایا جاتا تھا، یہ فاصلہ کبھی کبھی ایک ہزار میل تک طویل بھی ہوتا تھا، گردنوں میں طوق پڑے ہوتے تھے، ہر طرف سے کوڑے اور بندوقیں گھیرے میں لیے رکھتی تھیں، اس دوران کئی غلام مر جاتے تھے۔ جب تک ان کے مناسب دام نہ لگ جاتے، ساحلوں پر جانوروں کی طرح پنجروں میں بند پڑے رہتے تھے۔ ایک عینی شاہد جان باربوٹ سترہویں صدی کے اواخر میں، ایسے ہی پنجروں کے بارے میں بتاتا ہے کہ: ’’جیسے ہی غلام اندرون آبادیوں سے اغوا کرکے ساحل پر پہنچائے جاتے، انھیں پنجروں میں قید کردیا جاتا… جہاں یورپی انھیں وصول کرتے تھے۔ وہ غلاموں کی جسمانی حالت کا بغور معائنہ کرتے، چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا، مرد عورت بچے، سب کا برہنہ حالت میں جائزہ لیا جاتا… جو پسند آتے انھیں ایک جانب کردیا جاتا، ان کے سینوں پر دہکتی ہوئی سلاخ سے نشان لگائے جاتے۔ یہ فرانسیسی، انگریزی، یا ڈچ کمپنیوں کا ’ٹریڈ مارک‘ ہوتا تھا… ’برانڈڈ‘ غلاموں کو واپس پنجروں میں دھکیل دیا جاتا تھا، جہاں وہ ’شپ منٹ‘ کا انتظار کرتے تھے۔ کبھی کبھی یہ انتظار دس سے پندرہ روز تک طویل بھی ہوجاتا تھا۔ جہاز آتے ہی انھیں بیڑیوں میں جکڑ کرعرشہ تک پہنچایا جاتا، ایک ایک غلام کو تابوت جتنی جگہ میسر آتی تھی۔ یہ باہم زنجیروں میں بھی جکڑے جاتے تھے، جہاز کے سب سے نچلے حصے میں، جہاں تاریکی ہوتی تھی، ان غلاموں کو رکھا جاتا تھا۔ یہ اپنی ہی بدبو کی گھٹن میں سارا سفر طے کرتے تھے۔ ‘‘
تاریخی دستاویزات میں غلاموں کی یہ حالت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے: جہاز میں غلاموں کی ایک باڑھ میں بہ مشکل اٹھارہ انچ کی گنجائش ہوتی تھی،جہاں بدنصیب انسان پہلو بھی نہ بدل سکتے تھے، کروٹ تک نہ لے سکتے تھے، مشکل ہی سے ایک دوسرے کے کاندھے سے سر اٹھا کرسانس لے پاتے تھے، کیونکہ ان کی زنجیریں باڑھ سے بھی بندھی ہوتی تھیں، اس لیے ذرا سی نقل و حرکت بھی ممکن نہ تھی۔ اس طرح کی بدحالی میں کوئی گھٹن اوراذیت کا اندازہ کرسکتا ہے! نیگروز پاگل ہوجاتے تھے… ایک موقع پر، جہاز کے نچلے حصے سے شور کی آوا ز اٹھی، ایک دیکھنے والے نے جو جھانک کر دیکھا، سیاہ فام غلام زنجیروں میں جکڑے بے ہوش پڑے تھے۔ جب اُن کے دروازے کھولے گئے، وہ عجیب حالتوں میں پائے گئے، بہت سارے گھٹن سے مرچکے تھے، کچھ نے سانس لینے کی کوشش میں دوسروں کو مارڈالا تھا۔ یہ غلام اکثراس ذلت اور بے بسی کی حالت سے بچنے کے لیے سمندرمیں کود کرجان دے دیتے تھے۔
ایک عینی شاہد کہتا ہے : ’’غلاموں کی باڑھیں خون، بلغم، اورپسینے کی چپچپاہٹ سے لتھڑی ہوتی تھیں، کوئی ذبح خانہ معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘ان حالات میں، ہر تین میں سے ایک سیاہ فام راستے ہی میں مرجاتا تھا، مگر پھر بھی اس سرمایہ کاری پر دگنا منافع ہوجاتا تھا، ’غلاموں کا تاجر‘ فائدے میں ہی رہتا تھا۔
ابتدا میں’ ڈچ‘ غلاموں کی تجارت پر چھائے رہے، پھر’انگریز‘ بازی لے گئے۔ سن1795ء تک، صرف لیورپول میں سو سے زائد بحری جہاز سیاہ فام غلاموں کی تجارت کررہے تھے، اوریورپ میں غلاموں کی نصف کھیپ مہیا کررہے تھے۔ نیوانگلینڈ سے تعلق رکھنے والے چند امریکی اس کاروبار میں داخل ہوئے، اور1637ء میں پہلی امریکی کشتی Desire غلاموں کو لے کر ماربل ہیڈ کی بندرگاہ سے روانہ ہوئی۔ اس میں غلاموں کے لیے لوہے سے بنے 2×6فٹ کے شکنجے لگے ہوئے تھے۔ سن 1800ء میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ سیاہ فام غلام براعظم امریکہ پہنچادیے گئے تھے۔ یہ افریقہ سے اغوا کیے گئے غلاموں کا شاید ایک تہائی تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افریقہ نے مغرب کی ’’غلام تجارت‘‘ میں پانچ کروڑ انسان ہمیشہ کی غلامی یا موت کے ہاتھوں گنوائے۔یہ وہ مغرب تھا، جو جدید دنیا کی بنیادیں رکھ رہا تھا(1)، اور ان بنیادوں کی بھرائی میںامریکہ، ’غلاموں ‘کے تاجروں اورمغربی یورپ کے جاگیر داروں کاکردار کلیدی تھا۔یہ وہ ممالک تھے جنھیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ باور کیا گیا۔
سال 1610ء میں امریکہ کے ایک کیتھولک پادری نے جس کا نام فادر سینڈوول تھا، یورپ کے گرجاگھرکو خط لکھا، پوچھا کہ کیا افریقی سیاہ فاموں کا اغوا، ترسیل اور غلامی ’چرچ ڈاکٹرائن‘ عیسائی عقیدے کے مطابق قانونی ہے؟ 12 مارچ 1610ء کا خط، برادر لوئی برینڈن نے جواب میں لکھا: محترم، آپ کی جانب سے پوچھا گیا ہے کہ یہ نیگروز جو آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کی غلامی مسیحیت کے نکتہ نظر سے جائز ہے یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں آپ کے اندر کوئی خلش نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے، جو لزبن کے Board of Conscience کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے سارے ارکان دانشور اور باضمیر ہیں۔ یہاں تک کہ ساؤ تھام، کیپ وردے، اور لوانڈو کے بشپس نے اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ ہم یہاں چالیس سال سے آباد ہیں، اور ہمارے درمیان کریم النفس اور نیک اطوار پادری موجود ہیں… انھوں نے کبھی اسے (غلاموں کی تجارت کو) غیر قانونی خیال نہیں کیا۔ لہٰذا ہم برازیل میں ان غلاموں کی خریداری کرتے ہیں، اور اس معاملے میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ جیمس ٹاؤن کے نوآبادکاروں کو مزدوروں کی انتہائی ضرورت بھی تھی، جبکہ اراواکس سے وہ مایوس ہوچکے تھے، اور سفید فام مزدور زیادہ مشقت کے لیے تیار نہ تھے، اس صورت حال نے سیاہ فام غلاموں پر مظالم کی راہ مزید ہموار کی۔ یہی ایک طبقہ تھا جس کا کوئی والی وارث نہ تھا۔ انسانی مشقت کی صورت میں ان کے پاس یہی سب سے منافع بخش ذریعہ تھے۔ جہاں تک سیاہ فاموں کی نفسیاتی حالت کا تعلق ہے، وہ بہ مشکل موت سے بچ کر کھیتوں تک پہنچتے تھے، اس بے بسی میں اُن کے پاس دو ہی راستے بچتے تھے، خودکشی یا غلامی۔
ان حالات میں اگر کوئی فرار کی کوشش کرتا، تو ایسی سنگین اور انسانیت سوز سزائیں دی جاتی تھیں کہ سُن کر ہی انسان لرز اٹھے۔ کوڑے مارنے سے لے کر زندہ جلادینا عام تھا۔
سن 1640ء کی بات ہے، تین مزدور فرار ہوئے، ان میں سے دو سفید فام اور ایک نیگرو تھا۔ گرفتاری پر سفید فام ملازموں کی مدت ملازمت بطور سزا بڑھادی گئی، جبکہ سیاہ فام کو تاحیات غلامی کی سزا سنائی گئی۔ اسی سال کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک سیاہ فام عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا، اس کا باپ سفید فام شخص تھا، عورت کو سرعام کوڑے مارے گئے جبکہ سفید فام مرد کو سرعام ’معافی مانگنے‘ کی سزا دی گئی۔
یہ عدم برابری کا رویہ، حقارت اور ظلم کی یہ نفسیات، یہ احساس اور عمل، جسے ہم نسل پرستی کہتے ہیں، سیاہ فام نسل سے گہری نفرت کا فطری نتیجہ تھا۔ یہ معاشرتی نظام کی خامی بھی تھی، جو فطری نہ تھی بلکہ مخصوص حالات سے پیدا ہوئی تھی۔ ہمارے پاس اُن معاشرتی رویوں کی اصل کو جاننے کا کوئی بہت مؤثر طریقہ نہیں ہے، تاہم اتنا واضح ہے کہ یہ دونوں نسلیں سترہویں صدی میں ایک دوسرے سے انتہائی نفرت کررہی تھیں۔ اس دوران ذرا سا بھی انسانی رویہ ابتدا میں اجنبی ہی سمجھا جاتا رہا۔ حال یہ تھا کہ سترہویں صدی کی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں سیاہ فام کی تعریف ’’ایک ایسا مکروہ انسان، جوکیچڑ اور گندگی کی وجہ سے سیاہ پڑچکا ہو، انتہائی خطرناک اور کمینہ صفت، انتہائی دھوکے باز، اور سیاہ کار، ایک ایسا کردار جسے سزا ملنی چاہیے‘‘۔
یہا ں تک کہ سترہویں صدی کے گورے مزدوروں اورکالے غلاموں میں دوستانہ ماحول بننے لگا، جسے ختم کرنے کے لیے 1661ء میں ورجینیا میں ایک قانون منظور کیا گیا، جس کے تحت ایسے کسی تعلق پرکڑی سزائیں مقرر کی گئیں۔ کسی سیاہ فام سے رشتے داری قائم کرنے پر سفید فام مرد یا عورت کو جلا وطن کردیا جاتا تھا۔
جوں جوں زرعی پیداوار بڑھی، غلامی بھی بڑھی۔ اس طرح ’’نسلی نفرت‘‘ کے علاوہ یہ بھی غلامی کی ایک اہم وجہ بن کر سامنے آئی۔ کیونکہ سفید فام کانٹریکٹ مزدور پیداوار کی ضرورت پوری نہیں کرپاتے تھے، اس لیے ایسے مستقل غلام درکار تھے جو تاحیات بلا معاوضہ کام پر جُتے رہیں۔ سن 1700ء تک ورجینیا میں 6 ہزار غلام کاشت کاری پر جھونک دیے گئے تھے، یہ وہاں کی مجموعی آبادی کا بارہواں حصہ تھے۔ سن1763ء تک یہ تعداد 170,000 ہوچکی تھی، یعنی تقریباً آبادی کا نصف۔ امریکہ کے جنوب میں تیس لاکھ سیاہ فام غلام بنائے جاچکے تھے۔ شمالی امریکہ میں یہ غلامی دوسو سال تک مظالم اور موت کے سائے تلے ہی زندگی بسر کرتی رہی، کبھی کبھی بغاوت یا فرار کی کوئی کوشش کی جاتی، جسے انتہائی سفاکی سے کچل دیا جاتا تھا۔ سن1669ء کے ورجینیا کا ایک مجسمہ ہے، جس کا عنوان ’’سیاہ فاموں کی سرکشی‘‘ رکھا گیا۔ یہ سیاہ فام غلاموں کی جانب سے بغاوت پر ناپسندیدگی کا استعارہ تھا۔ ایسی کئی نفرت انگیز علامتیں اور استعارے امریکی نوآبادیوں میں عام تھے۔
برطانیہ کی نوآبادیاتی دستاویزات میں ملتا ہے کہ ورجینیا کے لیفٹیننٹ گورنر برائے برطانوی تجارت نے بتایا کہ ’’تقریباً پندرہ نیگروز نے اپنے مالک سے جان چھڑانے کا منصوبہ بنایا، اور قریبی پہاڑوں پر بھوکے پیاسے ہی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی۔ یہ نیگروز کسی طرح کچھ ہتھیار اورسامانِ زندگی ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے… کچھ کپڑے، بستر، اور کام کے آلات وغیرہ… تاہم انھیں آسانی سے زیر کرلیا گیا تھا۔ یہ واقعہ ہمارے لیے آنکھیں کھول دینے والا تھا۔ ہم نے اس کے بعد کچھ مؤثر اقدامات اٹھائے۔‘‘
کچھ گورے آقاؤں کے لیے غلامی بہت زیادہ نفع بخش کاروبارتھا۔ جیمس میڈیسن (امریکہ کا چوتھا صدر) ایک برطانوی مہمان کو بتاتا ہے کہ ہر نیگرو سے وہ سالانہ $257کماتا ہے، جبکہ اس کی کفالت پر بارہ تیرہ ڈالرسے زیادہ خرچ نہیں آتا۔ ایک اورگورے آقا لینڈن کارٹر کا نکتہ نظر یہ تھا کہ غلام بالکل بے کار تھے، کسی کام کے نہ تھے، وہ سوچتا تھا کہ انھیں رکھنے کا کچھ فائدہ بھی ہے یا نہیں۔
سن 1700ء کا ورجینیا ’غلام ‘ کوڈکہتا ہے: اب جب کہ غلام بہت زیادہ فرار ہورہے ہیں، جنگلوں اور دلدلی علاقوں میں چھپ رہے ہیں، خنزیروں کو مار رہے ہیں، اور وہاںکے رہنے والوں پر حملے بھی کررہے ہیں… اگر یہ غلام فوری واپس نہیں آتے… توکوئی بھی ان غلاموں کو قتل یا نقصان پہنچانے کا پورا اختیار رکھتا ہے… اگر ایسا کوئی غلام پکڑا جاتا ہے تو عدالت کو پورا قانونی حق حاصل ہے کہ اسے سخت سے سخت سزا دے، ٹکڑے ٹکڑے کروادے، تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو، اور آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرسکے۔
سن1750ء تک، ریاست میری لینڈ میں غلام آبادی کا ایک تہائی تھے، 1660ء سے ’غلامی‘ یہاں قانونی قرار دے دی گئی تھی، اور بغاوتوں پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین منظور کیے گئے تھے۔ اس ریاست میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے تھے جن میں سیاہ فام غلام عورتوں نے سفید فام مالکوں کو قتل کردیا تھا، کبھی زہر دے کر، گھروں کوآگ لگا کر، یا دیگر طریقوں سے۔ ان عورتوں کو کوڑے مارنے سے لے کر موت تک کی سزائیں دی گئیں۔ سن 1742ء میں مالک کو قتل کرنے پر سات غلاموں کو سزائے موت دی گئی تھی۔
امریکہ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ بغاوتیں جاری رہیں اور کڑی سزائیں بھی دی جاتی رہیں۔ یہ بغاوتیں بہت زیادہ نہ تھیں، مگر سفید فام آقاؤں میں خوف پیدا ہورہا تھا۔ شمالی امریکہ کی نوآبادیوں میں سب سے پہلے سب سے بڑی بغاوت نیویارک میں سن 1712ء میں ہوئی۔ یہاں غلام آبادی کا دس فیصد تھے، یہ شمالی ریاستوں میں سیاہ فاموں کی سب سے بڑی شرح تھی۔ پچیس سیاہ فاموں اور دو اراواکس نے ایک عمارت کو آگ لگادی تھی، اور اس دوران 9 سفید فاموں کوقتل بھی کردیا تھا۔ انھیں بعد میں فوج نے گرفتار کرلیا تھا، اور مقدمہ کے بعد سزائے موت دے دی گئی تھی۔ گورنر نے برطانیہ کو رپورٹ میں لکھا: ’’کچھ کو زندہ جلادیا گیا، باقی کو لٹکادیا گیا، ایک کو پہیے تلے کچل دیا گیا، اور ایک کو زنجیروں سے باندھ کر قصبے کے بیچوں بیچ لٹکادیا گیا…‘‘ ایک غلام کو ہلکی آنچ میں یوں جلایا گیا کہ مکمل طور پر راکھ ہونے میں آٹھ سے دس گھنٹے لگے، یہ انتہائی ظلم دیگر غلاموں کو سبق سکھانے کے لیے تھا۔ یہ اور اس طرح کی کئی بغاوتیں اسی طرح کچلی گئیں، اور انھیں قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔
ہربرٹ اپٹھیکر، جس نے شمالی امریکہ میں غلاموں کی مزاحمت پر طویل تحقیق کی ہے، اپنی کتاب American Negro Slave Revolts میں لکھتا ہے کہ ڈھائی سو ایسے واقعات ہیں کہ جن میں کم از کم دس غلاموں نے مل کر بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔ کبھی کبھی دردِ دل رکھنے والے بہت سے سفید فام مزدور بھی ان بغاوتوں میں معاون بن جاتے تھے۔ سن1663ء میں گلوسیسٹر کاؤنٹی ورجینیا میں سفید اور سیاہ فام غلاموں نے مل کر بغاوت کی سازش ترتیب دی، تاہم یہ منصوبہ غداری کی نذر ہوا، اور ان سب کو ماردیا گیا۔

حواشی

۔1) سن 1492ء، یہ انسانی تاریخ کا انتہائی اہم سال ہے، یہ وہ موڑ ہے جہاں سے آگے جدید دنیا کا آغازہوا اور ازمنہ وسطیٰ کی دنیا پیچھے رہ گئی۔ اس سال سقوطِ غرناطہ ہوا اور امریکہ کی دریافت ہوئی۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے انتہائی غور طلب پہلو یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کا یورپ میں ’’زوال‘‘، ایک ایسی تہذیب کا زوال تھا کہ جہاں رنگ ونسل ومذہب کی تفریق پر معاشرہ بندی کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ مسلم اندلس ایک کثیرالثقافتی، کثیر العقائدی، اور انتہائی ترقی یافتہ ریاست تھی، یعنی یہ تہذیب اپنے زوال میں بھی ’’کمال‘‘ پر تھی۔ جبکہ جدید دنیا کا آغاز کرنے والا کولمبس بلاشبہ ایک قزاق اور لٹیرا تھا، امریکہ اور اس کی نوآبادیوں میں جس طرح اراواکس اور سیاہ فام غلاموں کی تذلیل، نسل کشی، اور تجارت ہوئی، وہ جدید دنیاکی شرمناک ابتدا تھی۔ ایک جملے میں کہا جائے تو یورپ میں اسلامی تہذیب اپنے زوال میں بھی اُس کمال پر تھی کہ مغرب اپنے کمال میں بھی اس معیارِ ’’زوال‘‘ کی گرد نہ پاسکا تھا، اور نہ ہی آج اُس تہذیبی معیار پر پہنچ سکا ہے۔ رہ گیا صنعتی ’’انقلاب‘‘، تو اب اُسی کے ہاتھوں مغرب پر حالتِ نزع طاری ہے۔ حقیر سے کورونا وائرس نے جدید مغرب کی ’’موت‘‘ پر پکی مہر ثبت کردی ہے۔