زیر نظر گراں قدر فاضلانہ کتاب قرآن مجید کی آیات کی عمدہ و اعلیٰ تشریحات پرمشتمل ہے۔ اس کے مترجم جناب ارشاد الرحمٰن نے اس کا اتنا عمدہ اسلوب میں شستہ اور شگفتہ اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے یا طبع زاد تحریر ہے۔ ’’قرآن حکیم اور انسان کے پیچیدہ مسائل‘‘ اس شخص کی تحریر ہے جس نے سالہا سال شک کی وادیوں میں بھٹکنے کے بعد ایمان و یقین کی منزلیں طے کیں۔ یہ مصنف کا فکری حاصل ہے۔ جناب ارشاد الرحمٰن تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب مصر کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر، ادیب، فلسفی اور سائنس دان مصطفیٰ محمود [27 دسمبر 1921ء۔ 31 اکتوبر 2009ء] کی تصنیف ’’القرآن: محاولۃ لفہم عصری‘‘ کا ترجمہ ہے۔ یہ مصنف کے طویل و عمیق مطالعۂ قرآن، گہرے حیاتیاتی و کائناتی مشاہدے اور غوروفکر کا حاصل ہے۔ 1953ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر امراضِ سینہ میں تخصص کرنے والے نوجوان مصطفیٰ محمود 1960ء میں بحث و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہوگئے۔ وہ ایک فلسفی اور سائنس دان ہونے کے ساتھ بہترین مصنف اور ادیب بھی تھے۔ 1970ء میں ان کے ناول ’رجل تحت الصفر‘ پر انہیں قومی ایوارڈ عطا ہوا۔ وہ عدل اجتماعی اور امتِ مسلمہ کی سربلندی کا خواب دیکھتے رہے اور ملّتِ عربیہ اسلامیہ کی وحدت اور غلبے کے آرزومند رہے۔
اسرارِ کائنات خصوصاً ’’اسرارِ حیات‘‘ میں گہری دلچسپی نے مصنف کو ایک طویل عرصہ حیات و کائنات پر گہرے تامل و تفکر میں مصروف رکھا۔ اس دوران ایسا مرحلہ آیا کہ محقق خالقِ کائنات کی ذات کے بارے میں تشکیک سے دوچار ہوگیا۔ تاہم یہ شکوک و شبہات ایک ایسے خلّاق دینی مفکر کی تشکیل کا سبب بنے جس کے قلم سے 89 کتب نے وجود پایا۔ کائنات، زندگی… اور خالقِ کائنات اُن کے غوروفکر اور تحقیق و جستجو کا موضوعِ خاص ہونے کی بنا پر وہ الحادی، تشکیکی مراحل سے گزرے اور بالآخر جس ایمانی و یقینی منزل تک پہنچے اس کو آپ بیتی کے رنگ اور نتیجۂ افکار کی صورت، دونوں انداز میں بیان کرکے اپنی گواہی ثبت کردی۔ اُن کی حوارمع صدیقی الملحد، رحلتی من الشک الی الایمان، لغزالموت اور لغز الحیاۃ اس سلسلے کی بہترین کتابیں ہیں۔ ان کی 89 کتابوں میں سائنسی و دینی، سیاسی و سماجی اور فلسفیانہ موضوعات کے علاوہ افسانے، ڈرامے اور ناول و سفرنامے بھی شامل ہیں۔ ان کا اسلوبِ تحریر فکری و نظری گہرائی کے باوجود بہت سادہ اور سلیس ہے۔
فکر و ادب، فلسفہ و تصوف اور دین و عقیدہ پر ان کے مقالات اور کتب کی اشاعت نے مصر کے اندر ایک فکری ہلچل برپا کیے رکھی۔ ذرائع ابلاغ اور وسائل اِعلام میں ان کی فکر پر بحثیں جاری رہیں۔ مصر کے مرحوم شاعر کامل الشاوی کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ محمود جب الحاد کا شکار تھے تب بھی وہ جائے نماز پر ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سائنس ہر سوال کا جواب دے سکتی ہے۔ جب سائنس کے متعلق ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوگیا تو پہلے انہوں نے ادیانِ سماوی اور پھر ادیانِ ارضی پر بحث و تحقیق کی۔ آخرکار قرآن کریم کے سوا انہیں کچھ نہ ملا۔‘‘
اس علمی و فکری اور روحانی و کلامی سفر کے بارے میں مصنف نے خود کہا ہے:
’’اس امر نے کتابوں میں استغراق، شب و روز کی گوشہ نشینی و خلوت اور تامّل مع النفس میں مجھے 30 برس مصروف رکھا۔ اللہ و انسان سے لے کر رازِ موت و حیات کی طرف جانے والے تمام تشکیکی راستوں کو چھوڑنے میں یہ عرصہ صرف ہوا… یہاں تک کہ آج میں شاہراہِ ایمان و یقین پر گامزن ہوکر لکھ رہا ہوں!‘‘
’ایمان اور سائنس‘ کے عنوان سے ٹیلی وژن پر ان کے 400 پروگرام نشر ہوئے۔ 1979ء میں انہوں نے قاہرہ میں زمین خرید کر ’’مسجد محمود‘‘ تعمیر کرائی۔ اس میں تین طبی مراکز معمولی فیس میں علاج کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ 16 ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل اسکواڈ خدمات مہیا کرتا ہے۔ اس مرکز میں چار فلکیاتی رصد گاہیں اور زولوجی کا ایک میوزیم قائم ہے جس میں ماہر اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس میوزیم میں گرینائیٹ پتھر، مختلف و متنوع شکلوں کے حشرات اور پتنگے اور بعض بحری اشیاء رکھی گئی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں مصنف نے مطالعے کی تمام جہتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حاصلاتِ فکر و فلسفہ پیش کیے ہیں۔ یہ کتاب کثیر الجہت مفکر اور حیاتیاتی سائنس دان کے وسیع اور وقیع مطالعے کا ماحصل ہے۔ گویا یہ فکری تجربات سے گزر کر آسمانی تعلیمات پر ایمان لے آنے کی مہرِ تصدیق ہے۔
فلسفہ، تصوف، سائنس… تینوں مصنف کے مطالعے کا میدان اور وابستگی کا موضوع رہے، لہٰذا اس کتاب میں ان تینوں پہلوئوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے ان تینوں علوم و فنون کی نارسائی کا ذکر بھی کیا ہے اور ان سے استفادہ بھی روا رکھا ہے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے قرآن کی فوقیت اور بڑائی ثابت ہوتی ہے۔ ایمان و اعتقاد کا قرآنی تصورکسی لاگ لپیٹ کے بغیر بیان کیا گیا ہے۔ مصنف کے کسی خیال سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر یہ اعتراف کیے بغیر نہیں بنتی کہ انہوں نے قرآنی فکر کے بحر زخار میں غوطہ زن ہوکر بیش قیمت تابدار موتی قاری کے سامنے لا رکھے ہیں۔
یہ کتاب ابتداً مقالات و مضامین کی صورت میں قاہرہ کے ایک ہفت روزہ مجلے میں شائع ہوتی رہی۔ مصنف کا اسلوبِ تحریر اور موضوعِ کلام پڑھنے والوں کی گہری دلچسپی کا باعث رہا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے اشکالات، اعتراضات اور تاثرات خطوط کے ذریعے مصنف تک پہنچائے۔ ان میں سے بعض اہم اشکالات اور ان کے جوابات کتاب کے آخر میں شامل ہیں۔ یہ مقالات غالباً 1984ء میں بطور کتاب طبع ہوئے۔ کتاب کی طباعت چہارم کا نسخہ ہمارے پیش نظر رہا ہے۔
کتاب کے آخر میں مترجم نے ’’فہم قرآن اور موجودہ مسلم معاشرہ‘‘ کے عنوان سے ہر مسلمان کے لیے فہم قرآن کی اہمیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ امید ہے یہ کتاب نہ صرف فہم قرآن کے طلبہ بلکہ ہر پڑھنے والے کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔
اللھم انفعنا بما علمتنا و علمنا ما ینفعنا و زدنا علمًا۔‘‘
ڈاکٹر محمود مصطفیٰ نے درج ذیل عنوانات کے تحت اپنی نگارشات پیش کی ہیں:
٭قرآنی معمار۔ ٭قرآن معجزہ کیوں ہے؟ ٭ انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ ٭معبود ایک، دین بھی ایک٭ لاالٰہ الا اللہ۔ ٭انسان اور رب کے درمیان تعلق۔ ٭انسان کی نشاتِ ثانیہ۔ ٭عالمِ غیب۔ ٭علم اور عمل۔ ٭جنت اور جہنم۔ ٭استفسارات و توضیحات۔ ٭فہم قرآن اور موجودہ مسلم معاشرہ۔
برادرم ارشاد الرحمٰن شکر گڑھ نارووال کے گائوں تغل پور میں 1973ء میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم وفاق المدارس کے زیر سایہ حاصل کی۔ ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات، ایم فل پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ ایم فل کا موضوع امام ابن قیم اور مطالعہ ادیان ہے۔ ان دنوں پی ایچ ڈی کے سلسلے میں مصروف ہیں۔ 1997ء سے 2007ء تک جماعت اسلامی کے ہفت روزہ ایشیا کے نائب مدیر رہے۔ آج کل اقبال اکیڈمی پاکستان میں سب ایڈیٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی شائع شدہ کتب میں تذکرۂ تابعین، نقوشِ صحابہ، رسول اکرم اور تعلیم، اربعین نووی اور زیر تبصرہ کتاب قرآن حکیم اور انسان کے پیچیدہ مسائل ہیں۔ ان کے مقالات ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور، ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، ایشیا لاہور، زندگیِ نو دہلی میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے۔