گورنمنٹ کالج میرپور آزاد کشمیر معروف علمی درسگاہ ہے۔ کالج کا پہلا مجلّہ پروفیسر عبدالعلیم صدیقی کی ادارت میں 1958ء میں شائع ہواُ اور یوں اب تک 28 مجلّے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ مدیراعلیٰ پروفیسر خورشید احمد اداریے میں رقم طراز ہیں:۔
’’گورنمنٹ کالج میرپور کے سنہری دور کے ابتدائی اساتذہ میں سے پروفیسر عبدالعلیم صدیقی بہت سے حوالوں سے ایک معتبر، قابلِ تقلید اور بلندتر کردار کی حامل شخصیت ہیں۔ انہوں نے دس برس تک اپنی محنت، توجہ اور تحرک سے گورنمنٹ کالج میرپور کو ہم نصابی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہ اہلِ زبان تھے، کالج کا مان تھے۔ ان کی کوثر و تسنیم میں دھلی خالص، چٹخارے دار، درست لب و لہجے والی اردو… اُس کی مٹھاس، طلبہ و طالبات کے لیے ان کی شفقت نے سب کو متاثر کیا، مسحور کیا۔ خالص علمی، ادبی ماحول کے اثرات اور ثمرات نظر اور میسر آنے لگے۔ طلبہ میں ادبی ذوق جھلکنے اور چھلکنے لگا۔ کالج کے میگزین کی اہمیت اور افادیت انہی کے ذہنِ رسا میں آئی۔ چنانچہ انہوں نے اس کا بہت بامعنی اور پُرکشش نام، مرزا غالبؔ کے ایک مشہور شعر
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
سے کشید کیا اور ’’سروش‘‘ نام رکھا۔
’’سروش‘‘ میں شخصیات کے سات گوشے بنائے، سجائے اور نبھائے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر گوشے پر اس کے مزاج اور میسر مواد کی بنیاد پر محنت اور توجہ دی گئی ہے۔ ان میں سے ’’گوشۂ قائداعظم‘‘ اپنی اہمیت اور حیثیت کے لحاظ سے بہت اہم اور خصوصی ہے کہ اس میں قائد کے دو خطوط، چند نادر تصاویر اپنے تاریخی حوالوں سمیت شامل کی گئی ہیں۔ متذکرہ گوشے پر آخری مرحلے میں تحقیقی کام کیا گیا جو بتدریج پھیلتا چلا گیا، ہر مرحلہ قائداعظم کی کشمیر اور اہلِ کشمیر سے محبت کو روشن کردینے والا ثابت ہوا‘‘۔
’’سروش‘‘ میں سات اہم شخصیات کے گوشے ہیں جن میں گوشۂ قائداعظم کے علاوہ گوشۂ اقبال، گوشۂ میاں محمد بخش، گوشۂ محمود ہاشمی، گوشۂ ارشد راٹھور، گوشۂ ڈاکٹر معین الرحمٰن، گوشۂ بانو قدسیہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’یادوں کے دریچے‘‘، ’’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘، ’’ذرا نم ہو تو‘‘، ’’علم و ادب‘‘ میں معروف اہلِ قلم کی نگارشات شامل ہیں۔ رنگِ تغزل کے ساتھ مختلف نظمیں اور ’’جاگ اٹھا کشمیر‘‘ کے عنوان سے نظمیں بھی ’’سروش‘‘ کا حصہ ہیں۔
’’گوشۂ محمود ہاشمی‘‘ میں محمود ہاشمی مرحوم کی ایک تحریر ’’چناروں کی آگ‘‘ قابلِ ذکر ہے: ’’اور ان اڑھائی لاکھ شہریوں سے دور جھیل ڈل کے کنارے اپنے عظیم الشان محل میں مہاراجا ہری سنگھ اُداس بیٹھا تھا۔ اگرچہ اس شام اُس نے نذر دربار رچایا تھا، اور اس دوران میں اپنے آپ کو پورے طور پر یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ وہ اب بھی اپنی پرجا کا معبود ہے۔ اب بھی اس کی پرجا اس کی غلام ہے۔ وہ اسے اپنے سامنے جھکا سکتا ہے۔ اس سے اپنی پوجا کروا سکتا ہے۔ باغی عبداللہ اب اس کا بن چکا تھا۔ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اب ’’عہدنامہ امرتسر توڑ دو۔ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کے نعرے بلند نہیں کررہی، اور ’’آزاد کشمیر زندہ باد‘‘ کہتے ہوئے کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی طرف آنے والوں کو حملہ آور کہنے لگی ہے۔ لیکن پھر بھی اسے اطمینان میسر نہ آسکا۔ وہ ساری شام اُداس رہا تھا۔ اب بھی اُداس تھا اور یہ اُداسی بڑھتی جارہی تھی۔ حملہ کرنے والے مہورہ تک پہنچ چکے تھے۔ کل وہ بارہ مولا پہنچ جائیں گے اور پرسوں یہاں۔ افواہیں گرم تھیں کہ وہ لوگ عید کی نماز سری نگر میں پڑھیں گے۔ اور اب یہ افواہیں سچ معلوم ہونے لگی تھیں۔ مہورہ سے بارہ مولا کچھ دور نہیں، اور بارہ مولا سے سری نگر صرف تیس میل ہے۔ پرسوں عید ہے اور کون کہہ سکتا ہے سری نگر کے یہی لوگ جو آج شام اس کے آگے جھک رہے ہیں اُن کے پہنچتے ہی اُن کی صفوں میں جاکھڑے ہوں۔ مہاراجا نے سوچا، وہ بھاگ جائے گا، سری نگر کی یہ نگری چھوڑ کر، ڈل کے وسیع پانیوں کا یہ منظر چھوڑ کر، اور یہ باغ و راغ چھوڑ کر وہ بھاگ جائے گا۔ آج تک وہ لوگوں سے یہ کہتا رہا تھا کہ وہ ان کی جان و مال کا محافظ ہے۔ مگر آج اسے محسوس ہورہا تھا کہ اصل میں یہ لوگ ہی اس کی جان و مال کے محافظ تھے۔ چوں کہ دل نے ان کو کبھی اپنایا نہ تھا، راجا اور پرجا آج تک ایک دوسرے سے دور رہ رہے تھے۔ سدا سُکھ کے جھولے میں جھولنے والے راجا نے کسی کے دکھ کی آواز سننا کبھی پسند نہ کیا تھا۔ راجا اور پرجا آج تک ایک دوسرے سے دور رہ رہے تھے۔ اس لیے یہ آج بھی دور ہی رہیں گے۔ پرسوں وہ لوگ جن کا خون مدتوں تک ظلم سہتے رہنے کے بعد اب کھول رہا ہے، عیدگاہ میں کسی بلند و برتر محبوب کے سامنے جھکیں گے تو مہاراجا ان کی نگاہوں میں ایک حقیر ذرہ ہوگا، اور اس حقیر ذرے کو ان کے پائوں کی ٹھوکر اڑا دے گی۔ مہاراجا نے سوچا، وہ بھاگ جائے گا۔ یہ بزدلی سہی لیکن آخر وہ یہاں کس بل بوتے پر رہے! اپنا ماضی اس کے سامنے تھا اور اپنے بھیانک مستقبل کو دیکھنے کی اس میں تاب نہ تھی، اور اس لیے صبح ہوتے ہوتے وہ بھاگ گیا۔ اپنی مہارانی کو لے کر اور اپنے کچھ حواریوں کو لے کر وہ بھاگ گیا۔ لاریاں اور کاریں انہیں بھگا کر لے گئیں۔ ماضی کا سراب پاش پاش ہوگیا ہے اور مہاراجا کو اپنی منزل نظر نہیں آرہی۔ اور اس وقت جب کہ مہاراجا اپنی کار میں بیٹھا، اپنے ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں بندوق سنبھالے اپنے شاہی مندر کی سونے کی مورتیاں وہاں سے اکھڑوا کے اپنے ساتھ لیے بھاگا جارہا تھا، ایک ستارے نے اپنے پڑوسی ستارے سے پوچھا کہ مہاراجا یہ مورتیاں اپنے ساتھ اس لیے تو نہیں لے جارہا کہ یہ سونے کی ہیں؟ تو پڑوسی ستارہ کھلکھلا کے ہنس پڑا… آہ اے مہاراجا تم مہاراجا بن کے ہمیشہ بھولے رہے کہ تم بھی انسان ہو۔ ورنہ آج تمہیں انسانوں سے یوں نہ بھاگنا پڑتا۔
مہاراجا بھاگ گیا اور سری نگر کی وہ رات ختم ہوگئی۔‘‘
سروش میں 108 صفحات انگریزی میں ہیں۔ آرٹ پیپر پر اہم رنگین تصاویر نے مجلے کا حسن بڑھا دیا ہے۔ پروفیسر نذر حسین چودھری کے زمانۂ سربراہی کی منفرد تقریبات اور سرگرمیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ مجلسِ ادارت میں شامل طلبہ و طالبات نے نہایت محنت سے مجلے کی تیاری میں حصہ لیا ہے۔ اشاعتی ادارہ ’’نقوش‘‘ کی نئی ڈائریکٹر فرح جاوید نے نہایت دلچسپی سے طبع کرایا، پروف ریڈنگ عمدہ ہے۔ مشتاق شادؔ کے دو اشعار بہت اچھے لگے:۔