نامناسب دعا آداب ِزندگی کے خلاف ہے

ابوسعدی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ سخت بیمار ہوگئے۔ شدتِ ضعف کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے سے بھی معذور ہوگئے۔ حضور پاکؐ عیادت کے لیے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ بیمار صحابی نے جب آپؐ کو دیکھا تو خوشی سے نئی زندگی محسوس کی اور ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مُردہ اچانک زندہ ہوگیا ہو۔
’’زہے نصیب! اس بیماری نے تو مجھے خوش نصیب کردیا، جس کی بدولت میرے غریب خانے کو شاہِ دو عالمؐ کے پائے اقدس چومنے کی سعادت حاصل ہوئی‘‘۔
اس صحابی نے کہا ’’اے میری بیماری اور بخار اور رنج و غم، اور اے درد اور بیداریِ شب تجھے مبارک ہو، بہ سبب تمہارے اس وقت نبی پاکؐ میری عیادت کو میرے پاس تشریف لائے‘‘۔
جب آپؐ ان کی عیادت سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’تمہیں کچھ یاد ہے کہ تم نے حالتِ صحت میں کوئی نامناسب دعا مانگی ہو‘‘۔
انہوں نے کہا ’’مجھے کچھ یاد نہیں آیا، کہ کیا دعا کی تھی‘‘۔
تھوڑے ہی وقفے کے بعد حضورؐ کی برکت سے ان کو وہ دعا یاد آگئی۔ صحابی نے عرض کیا کہ ’’میں نے اپنے اعمال کی کوتاہیوں اور خطائوں کے پیش نظر یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ تعالیٰ وہ عذاب جو آخرت میں آپ دیں گے وہ مجھے اس عالم دنیا میں دے دیں تاکہ عالمِ آخرت کے عذاب سے فارغ ہوجائوں۔ یہ دعا میں نے بار بار مانگی، یہاں تک کہ میں بیمار ہوگیا اور یہ نوبت آگئی کہ مجھ کو ایسی شدید بیماری نے گھیر لیا کہ میری جان اس تکلیف سے بے ارام ہوگئی۔ حالتِ صحت میں میرے جو معمولات تھے، عبادت، ذکر ِ الٰہی، اوراد و وظائف کرنے سے عاجز اور مجبور ہوگیا۔ برے بھلے، اپنے بیگانے سب فراموش ہوگئے۔ اب اگر آپؐ کا روئے اقدس نہ دیکھتا تو بس میرا کام تمام ہوچکا تھا۔ آپؐ کے لطف و کرم ا ور غمخواری نے مجھ کو دوبارہ زندہ کردیا ہے‘‘۔
اس مضمونِ دعا کو رسول اللہؐ نے سن کر ناراضی کا اظہار فرمایا، اور فرمایا کہ ’’آئندہ ایسی نامناسب دعا مت کرنا، یہ آدابِ زندگی کے خلاف ہے کہ انسان اپنے مولیٰ سے بلاوجہ عذاب طلب کرے۔ انسان تو ایک کمزور چیونٹی کی مانند ہے، اس میں یہ طاقت کہاں کہ آزمائش کا اتنا پہاڑ اٹھا سکے‘‘۔
صحابی نے عرض کی ’’اے شاہِ دو عالمؐ میری ہزار بار توبہ کہ آئندہ کبھی ایسی بات زبان پر لائوں۔ حضورؐ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اب آئندہ کے لیے میری رہنمائی فرمائیں‘‘۔
آپؐ نے اُن کو نصیحت فرمائی!
ترجمہ: اے اللہ دنیا میں بھی ہمیں بھلائیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی ہم کو بھلائیاں عطا فرما۔ خدا تمہاری مصیبت کے کانٹوں کو گلشن راحت میں تبدیل کردے۔ (آمین!)۔
درسِ حیات: خدا کی طرف سے عطا شدہ نعمتوں کی ناشکری کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ ناراض ہوتے ہیں۔
۔(”حکایاتِ رومیؒ“۔۔۔مولانا جلال الدین رومیؒ)۔

اللہ کے تقرب کا بہترین ذریعہ؟

تعلیماتِ غزالی میں ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ نے خواب میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا: یا اللہ! آپ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بہترین ذریعہ کون سا ہے اور کس طریق سے آپ تک رسائی ممکن ہے؟ فرمایا: بکلامی یا احمد…اے احمد! میرے کلام کے ذریعے، یہی میرے تقرب کا بہترین ذریعہ ہے‘‘۔ امام نے دریافت کیا: کیا اس سے مقصود سمجھ کر پڑھنا ہے یا بغیر سمجھے بوجھے پڑھنا بھی تقرب اللہ کا باعث ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ’’بفھم وغیر فھم‘‘سمجھ بوجھ کر پڑھنا اور یونہی ازراہ محبت و شوق پڑھنا دونوں اس میں داخل ہیں۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ نومبر 2019ء)

فرانسس بیکن

فرانسس بیکن (Francis Bacon) لندن میں 22 جنوری 1561ء کو پیدا ہوا۔ 1573ء میں ٹرینٹی کالج کیمبرج میں داخل ہوا۔ کچھ دیر کے لیے فرانس چلا گیا۔ 1582ء میں گرے اِن سے بیرسٹری کرلی۔ 1584ء میں اسے پارلیمنٹ کا ممبر چنا گیا۔ اس نے ملکہ الزبتھ کو ایک طویل نصیحت آموز خط لکھا۔ شاہی خاندان سے اس کا رابطہ برقرار رہا۔ اس پر رشوت اور تحائف لینے کے الزامات لگے، جس کا اس نے اعتراف کیا۔ زندگی کے آخری پانچ برس میں اس نے زندگی کے اہم ترین علمی کام سرانجام دیے۔ بہت سی کتابیں اور مضامین لکھے۔ 1626ء کے ایک یخ بستہ دن وہ شدید سردی سے وفات پاگیا۔ اس نے جدید تجرباتی سائنس میں استقرائی طریق استدلال کے ذریعے فلسفہ کو باثروت کیا۔ وہ انگریزی اسلوب میں صاحبِ طرز تھا۔ اس کے فلسفیانہ اجتہاد پر بہت تنقید ہوئی، لیکن اس نے انسانیت کے کلی علم کی تنظیم ِنو کا جو منصوبہ بنایا، اس سلسلے کی وہ صرف دو ہی کتابیں لکھ پایا کہ زندگی نے اس کے ساتھ وفا نہ کی۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)