مہدی آذریزدی /مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیونٹی جَو کے دانے جمع کرنے کے لیے ایک رستے سے گزر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر شہد کے ایک چھتے پر پڑی۔ شہد کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ چھتّا ایک پتھر کے اوپر تھا۔ چیونٹی نے ہر چند کوشش کی کہ وہ پتھر کی دیوار سے اوپر چڑھ کر چھتے تک رسائی حاصل کرے، مگر ناکام رہی، کیوں کہ اس کے پاؤں پھسل جاتے تھے اور وہ گر گر پڑتی تھی۔
شہد کے لالچ نے اسے آواز لگانے پر مجبور کردیا اور وہ فریاد کرنے لگی: ”مجھے شہد کی طلب ہے۔ ہے کوئی جو مجھے شہد کے چھتے تک پہنچا دے تو میں اسے معاوضہ کے طور پر ایک جَو دوں گی۔“
ایک پَر دار چیونٹی ہوا میں اڑتی ہوئی وہاں سے گزر رہی تھی، اس نے چیونٹی کی آواز سنی تو اسے تنبیہ کرنے لگی: ”دیکھو، چھتے کی طرف جانے کی خواہش مت کرو، اس میں بڑا خطرہ ہے۔“
چیونٹی بولی: ”فکر نہ کرو، مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔“
پَر دار بولی:”وہاں شہد کی مکھیاں ہیں جن کے ڈنک ہیں۔“
چیونٹی بولی: ”میں شہد کی مکھیوں سے نہیں ڈرتی، مجھے شہد چاہیے۔“
پَر دار بولی: ”شہد چپکائو ہے۔ تمہارے ہاتھ پاؤں اس میں الجھ جائیں گے۔“
چیونٹی بولی:” اگر یونہی ہاتھ پاؤں چپک جایا کرتے تو کوئی شہد نہ کھا پاتا۔“
پَر دار بولی: ”تم بہتر جانتی ہو۔ لیکن آئو، میری بات سنو اور شہد کا خیال چھوڑو۔ میں پَر دار ہوں، اور تجربہ رکھتی ہوں۔ چھتے کی طرف جانا بہت مہنگا پڑے گا اور ممکن ہے تم کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ۔“
چیونٹی بولی: ”اگر ممکن ہو تو اپنی مزدوری لو اور مجھے وہاں تک پہنچا دو۔ اگر تم ایسا کرنے سے قاصر ہو تو زیادہ جوش نہ کھاؤ۔ مجھے کسی سرپرست کی ضرورت نہیں، اور جو نصیحت کرتا ہے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“
پَر دار بولی: ”ممکن ہے کوئی ایسا نکل آئے جو تمھیں وہاں تک پہنچا دے، لیکن اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی، اور جس کام کا انجام اچھا نہ ہو، میں اس میں معاونت نہیں کرتی۔“
چیونٹی بولی: ”میں تو آج ہر قیمت پر چھتے تک پہنچوں گی۔“
پَر دار نے اپنی راہ لی اور چیونٹی نے دوبارہ آواز لگائی: ”کوئی ہے جو مجھے شہد کے چھتے تک پہنچادے اور معاوضے میں ایک جَو مجھ سے وصول کرلے؟“
اچانک ایک مکھی کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: ”اے بے چاری چیونٹی! تمھیں شہد کی طلب ہے اور تمہیں اس کا حق ہے۔ میں تمہاری آرزو برلاتی ہوں۔“
چیونٹی بولی:” الله برکت دے، خدا تمھاری عمر دراز کرے۔ تم میری خیر خواہ ہو۔“ مکھی نے چیونٹی کو زمین سے اٹھایا اور اسے چھتے کے قریب بٹھا کر خود اڑ گئی۔
چیونٹی حد درجہ مسرور تھی۔ کہنے لگی: ”واہ واہ! کیسی سعادت ہے، کیسا چھتا ہے، کیسی اچھی خوشبو ہے، کیسا عمدہ شہد ہے، کیا مزہ ہے اس میں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے۔ چیونٹیاں کس قدر بدقسمت ہیں کہ گندم اور جَو جمع کرتی رہتی ہیں اور کسی وقت بھی ان کا رخ شہد کے چھتے کی جانب نہیں ہوتا۔“
چیونٹی نے اِدھر اُدھر سے کچھ شہد چاٹا اور آگے بڑھتی گئی، حتیٰ کہ شہد کے حوض میں جا پہنچی اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ پاؤں شہد سے چپک گئے ہیں اور اس کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرنا ممکن نہیں رہا۔
جب چیونٹی کو پڑا شہد سے کام اے وائے
حوض میں شہد کے، پاؤں ہوئے لت پت اس کے
پڑ گیا سست تڑپنے سے جو اس کا پیوند
دست و پا مارنے سے سخت ہوا اور بھی بند
اس نے اپنی نجات کے لیے جس قدر کوشش کی، بے نتیجہ رہی۔ تب اس نے فریاد کی: ”عجب طرح پکڑی گئی ہوں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہوگی، اے لوگو! مجھے نجات دلاؤ۔ کوئی ہےجو مجھے اس چھتے سے باہر نکالے اور میں اسے دو جَو انعام میں پیش کروں؟“
پیش کش پہلے تھی اک جَو کی سو اب دو کی ہے
اس جہنم سے نکلنے کی یہی سوجھی ہے!
عین اُس وقت پَر دار چیونٹی اپنے سفر سے واپس آرہی تھی۔ اسے اس حال میں دیکھ کر پَر دار کو بڑا دکھ ہوا اور اس نے فوراً اس کو مصیبت سے نکالا۔ پھر بولی: ”میں تمہیں سرزنش نہیں کرنا چاہتی لیکن اتنی بات ضرور کہوں گی کہ زیادہ لالچ گرفتاری کا سبب بن جاتا ہے۔ آج تو تمہارا نصیب بلندی پر تھا کہ میں اچانک یہاں پہنچ گئی، لیکن آئندہ محتاط رہنا۔ گرفتاری سے پہلے نصیحت کو غور سے سن لینا اور کسی مکھی سے مدد نہ مانگنا۔ مکھی چیونٹی کی ہمدرد نہیں اور اُس کے لیے چیونٹی کا خیرخواہ ہونا ممکن بھی کہاں ہے؟