فتح مکہ

لطف الرحمٰن فاروقی
ہجرت کے بعد کے طویل چھے برسوں تک قریشِ مکہ نے آپؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کو چین سے زندگی گزارنے نہ دی۔ بالآخر چھے ہجری کے ماہ ذی القعدہ کے پہلے عشرے میں مکہ مکرمہ سے تقریباً دس میل اور جدہ سے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر واقع حدیبیہ کے مقام پر اگلے دس سال کے لیے معاہدۂ امن طے پایا تھا، مگر قریشِ مکہ کی طرف سے اس امن معاہدے کی خلاف ورزی پر آپؐ اپنے دس ہزار جاں نثار اصحاب کے ہمراہ دس رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اہلِ مکہ کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اس مہم کو روکنے کی ازحد کوشش کی، مگر آپؐ اپنے عزم پر قائم رہے اور 20 رمضان المبارک کو مکہ فتح کرلیا۔

مفتوح کے لیے اعلانِ امن

مکہ میں فاتحانہ قدم رکھتے ہوئے آپؐ نے اپنے سپہ سالاروں اور افواج کو جو حکم دیا وہ تاقیامت فاتحین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ابن اسحاق اور بلاذری کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوتے ہوئے افواج کو حکم دیا کہ وہ مختلف راستوں سے داخل ہوں اور ان احکام کی پابندی کریں:
-1 جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے۔
-2 جو شخص خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
-3 جو شخص اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
-4 جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
-5 جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اسے قتل نہ کیا جائے۔
-6 بھاگ کر جانے والے کا تعاقب نہ کیا جائے۔
-7 زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔
-8 اسیروں کا قتل نہ کیا جائے۔

خطبۂ تشکر

مکہ فتح ہونے کے بعد آپؐ کعبہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ایک مختصر تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس کو ہم خطبۂ تشکر کہہ سکتے ہیں۔ راوی کے مطابق خطبے کے الفاظ یہ ہیں:
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو ایک اور تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا وعدہ سچا ہوا۔ اس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی۔ محض اس نے تمام گروہوں کو شکست دی۔ سن لو، ہر موروثی استحقاق، ہر خون اور مال جس کا دعویٰ کیا جائے وہ میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے، سوائے خدمت ِ بیت اللہ کے حق اور حجاج کو پانی پلانے کے حق کے۔ سن لو، جو خطاً قتل ہوا وہ کوڑے اور لاٹھی سے عمداً قتل کیے جانے والے کے مشابہ ہے۔ پس اس میں دیت مغلظہ ہے یعنی سو اونٹ جن میں سے چالیس ایسی اونٹنیاں ہوں گی جو گابھن ہوں۔ اے گروہِ قریش! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور آباو اجداد پر فخر و غرور زائل کردیا۔ تمام انسان آدم سے پیدا ہوئے اور آدم مٹی سے۔‘‘ (اس کے بعد جو آیت تلاوت فرمائی اس کا ترجمہ یہ ہے)۔
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سب سے زیادہ شریف اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ خبر رکھنے والا اور علم رکھنے والا ہے‘‘۔
اس کے بعد آپؐ ان مجرمین کی طرف متوجہ ہوئے جو مفتوح حالت میں ہاتھ باندھے، سر جھکائے آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ ان مجرمین میں ہند بنت ِ عتبہ بھی تھی جس نے جنگ ِ احد کے موقع پر اپنی ساتھیوں کے ساتھ شہدائے کرام کے اعضا کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، ان کے کان، ناک کاٹے، یہاں تک کہ ہند نے ان کے کٹے ہوئے ناک، بازو کا ہار بناکر پہنا اور خود اپنے کان کی بالیاں جبیر بن مطعم کے غلام وحشی کو انعام کے طور پر دے دیں، جس نے حضرت حمزہؓ کو بے دردی سے شہید کیا تھا، اور پھر ہند نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چیر کر نکالا اور چبا ڈالا تھا۔ اس کے بعد اس نے ایک بلند چوٹی پر چڑھ کر انتہائی بلند آواز میں وہ اشعار پڑھے جو اس نے اپنے لشکر کی فتح اور صحابہؓ کی شہادت کی خوشی میں کہے تھے۔
آپؐ نے ان مجرمین سے مخاطب ہوکر فرمایا:۔
’’اے گروہِ قریش، اے اہلِ مکہ میں تمہارے ساتھ جو کچھ کرنے والا ہوں اس کے بارے میں تم کیا رائے رکھتے ہو؟‘‘
سب نے یک زبان ہوکر کہا: ’’بہتر رائے رکھتے ہیں۔ آپؐ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’جائو، تم سب آزاد ہو۔‘‘
اب تمام لوگ اسلام لانے اور آپؐ سے بیعت کرنے جمع ہوگئے۔ پہلے مردوں سے بیعت لی گئی، اس کے بعد عورتوں نے بیعت کی۔ اس طرح آپؐ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کرکے حلقۂ اسلام میں شامل کرلیا۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔

یومِ فتح، یومِ وفا ہے

خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کا طواف فرمایا۔ طواف ختم کرنے کے بعد عثمان بن طلحہ کو بلایا اور ان سے کعبہ کی کنجی لے لی اور دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ دروازہ کھولا گیا تو آپؐ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور وہاں اپنے آباو اجداد کی تصویریں دیکھیں۔ آپؐ نے ان تصویروں کو مٹانے کا حکم دیا۔ پھر آپؐ نے دروازے کے سامنے دیوار کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔
خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرانے کے بعد آپؐ مسجد میں بیٹھ گئے اور حضرت علیؓ آپؐ کے پاس کھڑے ہوگئے۔ کنجی ان کے ہاتھ میں تھی۔ آپؐ نے دریافت کیا: عثمان بن طلحہ کہاں ہیں؟ انہیں بلایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے عثمان یہ لو اپنی کنجی۔ آج نیکی اور وفا کا دن ہے‘‘۔
حضرت عثمان بن طلحہؓ اس واقعہ کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں:
’’ہم زمانۂ جاہلیت میں پیر اور جمعرات کو کعبہ مشرفہ کو کھولتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ لوگوں کے ہمراہ کعبہ میں داخل ہونا چاہتے تھے، مگر میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا اور سختی سے پیش آیا، لیکن آپؐ نے حلم و بردباری اختیار کی اور فرمایا: اے عثمان شاید تُو دیکھے گا کہ ایک دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ میں نے کہا: تو اس دن قریش ہلاک ہوچکے ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ اس دن عزت مند اور آباد ہوں گے۔
پھر آپؐ کعبہ میں داخل ہوگئے اور میرے دل میں یہ بات اٹک کر رہ گئی۔ میں اس وقت سمجھ گیا کہ یہ کام اسی طرح ہوگا جیسے آپؐ نے فرمایا ہے۔
جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپؐ نے فرمایا: اے عثمان کنجی لائو۔ میں لے کر حاضر ہوا۔ آپؐ نے اسے میرے ہاتھ سے لے لیا اور پھر واپس کردی اور فرمایا: اسے لے لو، ہمیشہ کے لیے نسلاً بعد نسلاً۔ ظالم کے سوا کوئی تم سے یہ نہ چھینے گا، اے عثمان اللہ نے تمہیں اپنے گھر کا امین بنایا ہے اس لیے اس گھر سے جو آئے نیکی کے ساتھ کھائو۔
پھر مجھے مکہ میں ہجرت سے پہلے آپؐ کا قول یاد آگیا کہ شاید تُو دیکھے گا یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور جسے میں چاہوں گا دوں گا۔ میں نے عرض کیا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

قانون کی بالادستی

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے دوٹوک انداز میں قانون کی بالادستی کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ قانون کی نظر میں مساواتِ انسانیت کو بھی قائم فرمایا۔ اس موقع پر قبیلہ مخزومیہ کی فاطمہ نامی ایک خاتون نے کسی کا زیور چوری کیا تو سزا سے بچنے اور خاندانی شرافت کی ساکھ قائم رکھنے کی خاطر اس کے قبیلے کے لوگ آپؐ کے محبوب و مقرب ساتھی حضرت اسامہ بن زیدؓ کے پاس سفارش کے لیے پہنچے۔ جب حضرت اسامہؓ نے آپؐ سے اس کی سفارش کی تو غصے سے آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور حضرت اسامہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:۔
’’کیا تم اللہ کی مقرر کی ہوئی سزائوں میں سفارش کرتے ہو؟‘‘
اس کے بعد شام کے وقت آپؐ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:۔
’’امابعد، تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے تباہ ہوگئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کو فوراً سزا دیتے۔ قسم ہے اس ہستی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا‘‘۔
اس کے بعد آپؐ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ آپؐ کے اس عمل سے اسلام میں ہمیشہ کے لیے غیر قانونی سفارش ممنوع قرار پائی اور قانون بلاتفریقِ رنگ و نسل، مذہب و عقائد، اشرف، اطرف، امیر و غریب سب کے لیے مساوی قرار پایا۔

کعبۃ اللہ کی عظمت کی بحالی

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے مکہ کی اس عظمت کو قیامت تک کے لیے بحال فرمایا جو اپنا مقام کھوچکی تھی۔ اس موقع پر آپؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس سے تاقیامت انسانیت کو رہنمائی ملتی رہے گی۔ آپؐ نے فرمایا:۔
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جس دن زمین و آسمان پیدا کیے، اسی دن مکہ کو حرمت کی جگہ قرار دیا، پس وہ اُس وقت سے برابر حرمت کی جگہ چلا آرہا ہے اور قیامت تک اسی طرح محرم رہے گا، لہٰذا کسی بھی ایسے آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، یہ بات جائز نہیں کہ مکہ میں کسی کا خون بہائے یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ مجھ سے پہلے کسی بھی شخص کے لیے مکہ حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد آنے والے کسی شخص کے لیے حلال ہوگا، میرے لیے بھی حلال نہیں ہوا، ہاں صرف اس وقت کے لیے محض اس وجہ سے حلال کردیا گیا کہ اہلِ مکہ پر اللہ کو اظہارِ غضب مقصود تھا۔ سن لو! اس وقت کے بعد اس کی حرمت کل کی طرح پھر لوٹ آئی ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ جو بھی یہاں موجود ہے اور میری یہ بات سن رہا ہے، وہ اس حقیقت کو ہر اُس شخص تک پہنچادے جو یہاں موجود نہیں۔ پس تم سے جو یہ کہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ میں قتال کیا تھا، اُس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسولؐ کے لیے اسے حلال کیا تھا، تمہارے لیے حلال نہیں کیا۔ اے گروہِ خزاعہ اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھالو۔ قتل بہت ہوچکا، اس میں کوئی نفع نہیں۔ تم نے ایک آدمی کو قتل کیا ہے، میں اس کی دیت دوں گا۔ میرے اس قیام کے بعد جو قتل کیا جائے گا تو مقتول کے ورثا کو دو چیزوں میں اختیار ہوگا، اگر وہ چاہیں تو قصاص ورنہ خون بہا لے لیں‘‘۔
اس طرح پُرامن اور بغیر خون خرابہ کے مکہ مکرمہ فتح ہونے سے قریش کا جاہ و جلال، شان و شوکت خاک میں مل گئے اور مستقبل شناس اور حالات کے رخ پر نظر رکھنے والے جزیرۃ العرب کے دیگر قبائل جوق در جوق بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے لگے اور اسلام کے آگے ہتھیار ڈالتے گئے۔ انہی حالات کے متعلق قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوا:۔
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں‘‘۔ (سورۃ النصر آیت1۔2)۔