خوداحتسابی کی ضرورت

رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے، گویا ماہِ رمضان کے رخصتی ایام شروع ہوگئے ہیں۔ رحمت و مغفرت کا عشرہ گزر گیا، دوزخ سے نجات کے عشرے کی ساعتیں باقی بچی ہیں۔ اس برس ماہِ رمضان کی بابرکت ساعتیں ایک مختلف کیفیت اور مختلف ماحول میں گزر رہی ہیں۔ پوری دنیا پہلے شاید ہی کسی عالمی وبائی مرض کی تباہ کاری اور ہلاکت سے اس طرح متاثر ہوئی ہو جیسی اِس برس ہوئی ہے۔ سماجی و اقتصادی زندگی تو مفلوج ہے ہی، لیکن اہلِ ایمان کے دل بھی مغموم ہیں۔ مسجدیں بند ہیں، باجماعت نماز تراویح میں سماعتِ قرآن کی سعادت سے محروم ہیں، دعوتِ افطار کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ ماہِ رمضان میں روزے کی برکتوں سے اسلام کی پاکیزہ ثقافت کے نشاط انگیز مظاہر سامنے آتے ہیں جن کا نقطہ عروج عید کی تیاری ہے، ان دل ربا مناظر سے بھی ہماری آنکھیں محروم رہیں گی۔ آخری عشرے میں مساجد اعتکاف کرنے والے بندگانِِ خدا سے آباد رہتی تھیں، اب ہم ان مناظر سے بھی محروم رہیں گے۔ یہ ابتلا ہے، آزمائش ہے، رب کی پکڑ ہے، گرفت ہے، عذاب ہے… کیا ہے؟ مسجدوں اور عبادت گاہوں کی بے رونقی پر غم و افسوس اور محرومی کا احساس ایک فطری عمل ہے۔
ماہِ رمضان المبارک کا اصل پیغام خود احتسابی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اور ایمان اور احتساب کے ساتھ ہی آخری عشرے میں قیام بھی کیا، یعنی راتوں کو نماز میں قرآن کی تلاوت یا سماعت کی اُس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ یعنی خوداحتسابی مغفرت اور نجات کی بنیادی شرط ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہر شر میں خیر بھی چھپا ہوا ہوتا ہے۔ عالمی وبا نے ہمیں تنہائی کے اوقات میسر کردیے ہیں۔ آج ہمیں اپنے گھروں میں محدود کردیا گیا ہے تو ہمارے پاس تنہائی کے اوقات و لمحات اللہ کی نعمت بن سکتے ہیں کہ ہم خوداحتسابی کے ساتھ اللہ کو یاد کریں اور اس کی مغفرت طلب کریں۔
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ رمضان ماہِ قرآن ہے۔ نماز تراویح میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ ہدایت وہی انسان حاصل کرسکتے ہیں جو صاحبِ تقویٰ یعنی سیرت و کردار کے پختہ ہوں، اور سیرت و کردار کی پختگی کے لیے ماہِ رمضان میں روزے فرض کیے گئے ہیں جو نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور نفس کو بے لگام ہونے سے روکنے کا ذریعہ ہیں۔ روزہ آرام طلبی کے بجائے مشقت کی زندگی کا عادی بناتا ہے۔ روزے کی حکمت قلوب و نفوسِ انسانی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ اس لیے رمضان کے روزے، قرآن اور تقویٰ میں جو تعلق ہے اس پر غور و فکر کرکے اسلام کی اس اسکیم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کے خواص خاص طور پر اور عوام عام طور پر اس کیرکٹر سے محروم ہیں جو حق کی شہادت اور امامتِ عالم کے لیے لازمی تقاضا ہے۔ اب جبکہ عالمی وبا نے ہمیں ظاہری رسمی عبادتوں کی رونق سے محروم کردیا ہے، ہم اسے ایک موقع بھی بناسکتے ہیں، یہ محرومی اللہ کی نعمت بھی بن سکتی ہے۔ یعنی خوداحتسابی، اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کا جائزہ۔ اس کی روشنی میں انفرادی و اجتماعی خوداحتسابی کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھا جائے۔ نماز تراویح کی بڑی بڑی جماعتوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے، لیکن اس کو سمجھنے کی توفیق بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ امتِ مسلمہ طویل عرصے سے پُرآشوب حالات سے دوچار ہے۔ عہدِ جدید کے نمرود و فرعون ان کو ایمان کے ساتھ زندہ رہنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں کا سیاسی نظام منہدم ہوچکا ہے، ان کے تحفظ کے لیے کوئی عسکری قوت موجود نہیں ہے۔ قرآن کی تعلیم جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنا اجتماعی نظام قرآن کی بنیاد پر قائم کرے۔ اس پس منظر میں طویل عرصے سے ماہِ رمضان ایک سالانہ میلہ بن گیا ہے۔ رمضان ماہِ انقلاب ہے۔ یعنی انسانوںکو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کے بندے بنایا جائے۔ اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسانوں کو غلامی سے آزادی نہ دلائی جائے۔ کورونا کی عالمی وبا نے دنیا کے طاقتور ترین طبقات کی کمزوری اور بے بسی کو بھی عیاں کردیا ہے۔ عہدِ حاضر کے نام نہاد خدائوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم کی بنیاد پر حقیقی ربِّ کائنات کے اقتدار کو چیلنج کیا تھا، آج ان کی کمزوری اور بے بسی کا تماشا پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ موقع ہے کہ ’’لاک ڈائون‘‘ اور ’’آئسولیشن‘‘ کی تنہائی میں قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیا جائے۔ قرآن قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت کی روشنی ہے۔ اگر ہم یہ کام کرلیں تو کورونا کی وبا کی مصیبت ہمارے لیے نعمت بھی بن سکتی ہے۔ مسلمان مصیبتوں سے کبھی گھبرایا نہیں کرتا۔ مصیبتیں آزمائش کے لیے آتی ہیں۔ ماہِ رمضان رخصت ہوجائے گا، لیکن کورونا کی وبا کے خاتمے کے ابھی تک کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کے مشیر اور وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر فائوچی نے کہا ہے کہ ابھی تک اس مرض پر قابو پانے کا ذریعہ دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ ویسے بھی یہ وبائی مرض اس جدید ترین سائنسی ترقی کا ’’تحفہ‘‘ ہے جو خدا سے غافل بلکہ سرکش اور باغی انسانوںکے تسلط میں ہے۔ انسانوں کی اصل سعادت ایمان اور اسلام کے ساتھ موت یعنی اپنے رب سے ملاقات ہے۔ اگر وبائی مرض کی وجہ سے مراسمِ عبودیت محدود کردیے گئے ہیں تو کیا ہوا؟ تعلق مع اللہ ان رسوم کے پابند نہیں۔ حق کو مٹانے کے لیے انسانوں کی تمام کوششوں کی حیثیت پھونکوں سے زیادہ نہیں۔ قرآن یہ بات بیان کرچکا ہے:
’’ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، اللہ اپنے نور کو مکمل کرے گا، چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام باطل نظام ہائے زندگی (ادیان) پرغالب کردے، چاہے مشرکوں کو کتنا ہی ناپسند ہو۔‘‘ (القرآن۔سورہ الصف8۔9)۔