کسان سے زبردستی سرکاری قیمت پر گندم خریدنا زیادتی نہیں…؟
پوری دنیا کی طرح پاکستانی حکام اور عوام کی بھی تمام تر توجہ اس وقت کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحرانی کیفیت پر مرکوز ہے، جس کے متعلق تاحال کوئی بھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس سے مکمل نجات میں مزید کتنا وقت لگ سکتا ہے، تاہم مستقبل پر نظر رکھنے والے ماہرین آنے والے دنوں میں ایک نئے بحران کے خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں جسے ’’خوراک کا بحران‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی شدت کا احساس چند ماہ پہلے رونما ہونے والے چینی اور آٹے کے بحران نے مزید بڑھا دیا ہے، اور یہ بحران ایسے حالات میں مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا جب کہ ملک میں چینی کی کمی تھی اور نہ گندم یا آٹے کی۔ مگر ایف آئی اے کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق چینی اور گندم مافیا نے اس طرح کے حالات پیدا کردیئے کہ ایک طرف ان اشیاء کی برآمد کے نام پر حکومت سے اربوں روپے سبسڈی وصول کی گئی، اور دوسری جانب ملک میں اس کی آزادانہ فراہمی روک کر مصنوعی قلت کے ذریعے اندرون ملک قیمتوں میں اضافہ کرکے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی گئی۔ وزیراعظم نے اگرچہ آٹا اور چینی بحران کے ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی اور اپنوں اور پرایوں کا لحاظ کیے بغیر کسی بھی مجرم کو معاف نہ کرنے کا اعلان کیا، تاہم زمینی حقیقت یہی ہے کہ تادم تحریر تمام ذمہ داران کسی بھی طرح کی سزا سے محفوظ ہیں، کہ ایف آئی اے کی تیار کردہ رپورٹ کو حتمی سفارشات کے لیے ایک ٹریبونل کے سپرد کیا گیا تھا جس کو حتمی رپورٹ کے لیے دی گئی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے، مگر بروقت کام مکمل نہ کرسکنے کے باعث ٹریبونل کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے تین ہفتے کا مزید وقت دیا جا چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ تین ہفتے گزرنے کے بعد معاملے کو زیرالتوا رکھنے کا کوئی نیا جواز تراشا جاتا ہے یا واقعی وزیراعظم اپنے اعلان پر عملی پیش رفت دکھاتے ہیں جس کی مثال ماضی میں کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
چینی اور آٹے کے اس بحران کی بازگشت چونکہ ملک کی سیاسی فضا میں ابھی نمایاں سنائی دے رہی ہے، شاید اسی لیے حکومت اور اس کے کارپردازان مستقبل قریب میں ’’خوراک کے بحران‘‘ کے خدشے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اور وزیراعظم عمران خان نے زرعی امور پر اپنے انتہائی قابلِ اعتماد مشیر جناب جہانگیر ترین کا نام چینی آٹا بحران کے ذمہ دار مافیا میں سرفہرست ہونے کے سبب اُن کی حکومت سے وقتی یا مستقل دوری کے بعد عبدالعلیم خان کو دوبارہ اپنے قریب بلا لیا ہے اور انہیں پنجاب کابینہ میں سینئر وزیر کا مرتبہ دے کر فوری طور پر وزارتِ خوراک کا قلمدان سونپ دیا ہے، یوں عبدالعلیم خان کو یہ نہایت اہم مشن سپرد کیا گیا ہے کہ وہ خوراک کے متوقع بحران سے بچائو کے لیے مؤثر تدابیر کریں جن میں سے فوری کرنے کا کام سرکاری ذخائر کے لیے گندم کی خریداری کے اہداف کا حصول ہے، اور سامنے نظر آنے والا سچ یہی ہے کہ جناب عبدالعلیم خان جب سے دوبارہ صوبائی کابینہ کا حصہ بنے ہیں، وہ دیگر تمام سرگرمیاں خصوصاً سیاسی مصروفیات کو یکسر فراموش کیے ہوئے ہیں اور اپنی تمام تر توجہ گندم کی خریداری کا سرکاری ہدف پورا کرنے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، تاہم حالات کی جو تصویر سامنے دکھائی دے رہی ہے اس سے محسوس یوں ہوتا ہے کہ عبدالعلیم خان اور حکومتی مشینری کے ہر طرح کے اقدامات کے باوجود پنجاب حکومت کے لیے گندم کی خریداری کا ہدف حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان بڑی حد تک اپنی خوراک کی ضروریات میں خودکفیل ہے، بلکہ اپنے بعض ہمسایہ ممالک کی خوراک کا ایک بڑا حصہ بھی پاکستان ہی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں کم و بیش 87 لاکھ ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی جاتی ہے، جس میں سے دو تہائی سے زائد رقبہ یعنی تقریباً ساٹھ لاکھ ہیکٹر رقبہ پنجاب میں گندم کے زیرکاشت آتا ہے۔ ملک میں گندم کی مجموعی پیداوار دو کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن بتائی جاتی ہے، جس میں سے ایک کروڑ نوّے لاکھ ٹن گندم پنجاب میں پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ملک کی غالب آبادی کی خوراک کا اسّی فیصد حصہ گندم اور اس سے تیار شدہ مصنوعات پر مشتمل ہوتا ہے، یوں ہر پاکستانی کے لیے سالانہ اندازاً 125 کلو گرام گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اور ماضی کے تجربات کو نظر میں رکھتے ہوئے اِس سال گندم کی سرکاری خریداری کا ملک گیر مجموعی ہدف 82.5 لاکھ ٹن طے کیا گیا ہے جس کا نصف سے زائد یعنی 45 لاکھ ٹن پنجاب کو پورا کرنا ہے، جب کہ سندھ کے لیے 14 لاکھ ٹن اور خیبر پی کے میں یہ ہدف محض ایک لاکھ ٹن ہے۔ چند ماہ قبل رونما ہونے والے آٹے کے بحران کے پیش نظر پہلے پنجاب سے گندم کی خریداری کا ہدف 55 لاکھ ٹن تجویز کیا گیا تھا، پھر محکمہ خوراک نے 50 لاکھ ٹن کی سمری تیار کرکے ارسال کی، تاہم حتمی ہدف 45 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا، مگر اب جب کہ مئی کا نصف ماہ گزر چکا ہے اور خریداری کا مقررہ وقت 30 مئی تک کا ہے تو یہ ہدف حاصل کرنا بھی خاصا مشکل محسوس ہورہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت ابھی تک بمشکل 35 لاکھ ٹن گندم کی خریداری ممکن بنا سکتی ہے، بقیہ پندرہ دن میں دس لاکھ ٹن گندم کی خریداری کسی طرح بھی آسان نہ ہوگی کہ گندم کی کٹائی اور گہائی کا وقت اب تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ سرکاری حلقوں نے مطلوبہ ہدف کے حصول کے لیے 30 مئی کے بعد بھی خریداری بند نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔
حکومت نے مستقبل میں آٹے کے کسی بحران سے بچنے اور طے شدہ خریداری کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اب تک قانون اور انتظامیہ کے ذریعے زور، زبردستی، دھونس اور دھاندلی کے تمام حربے اختیار کیے ہیں۔ گندم کی ایک صوبے سے دوسرے صوبوں کو ہی نہیں، ایک ضلع سے دوسرے ضلع منتقلی پر بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس طرح غلہ منڈی کے آڑھتیوں اور فلور ملز مالکان کو بھی گندم خریدنے کی اجازت نہیں دی جارہی، حتیٰ کہ آئندہ سال گندم کی کاشت کے لیے بیج تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی اپنی ضرورت کے لیے گندم خریدنے سے روکا جارہا ہے، جس کے سبب یہ سب لوگ پریشانی اور آئندہ سال گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہونے کی پیش گوئیاں کررہے ہیں، مگر حکومت ان کی کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں اور ہر قیمت پر ہر طرح کے حربوں کے ذریعے گندم کی خریداری کا 45 لاکھ ٹن کا سرکاری ہدف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، مگر ہنوز کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ گندم کی پیداوار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کم ہوئی ہو، زرعی ماہرین کی رائے ہے کہ سازگار موسمی حالات کے سبب اِس سال پچھلے برسوں کی نسبت 6 فیصد زائد پیداوار فی ایکڑ متوقع ہے۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ اگر پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں زائد ہے تو حکومت کو اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی پابندیاں اور زور زبردستی کیوں کرنا پڑرہی ہے؟ جواب واضح ہے کہ چند ماہ قبل پیدا کیے گئے آٹے چینی کے بحران نے کاشت کاروں، فلور ملز مالکان اور خود حکومت کو اس کیفیت میں مبتلا کردیا ہے کہ ہر کوئی مستقبل میں گندم کی قلت کے خوف میں مبتلا ہے اور حکومت سمیت سب ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں گندم کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے، چنانچہ ماضی کے مقابلے میں 6 فیصد زائد پیداوار ہونے کے باوجود گندم آسانی سے دستیاب نہیں، حالانکہ ماضی میں اس سے کم پیداوار کے باوجود کسان اپنی گندم بیچنے کے لیے مارے مارے پھرتے تھے، حکومت گندم کی سرکاری قیمت مقرر کرنے کے باوجود ساری گندم اپنی مقررہ قیمت پر خریدنے کو تیار نہیں ہوتی تھی اور حکومتی اہلکار کسانوں کو طرح طرح سے پریشان کرتے اور بے جا نخرے دکھاتے تھے، کسانوں کو قیمت کی ادائیگی میں بھی تاخیری حربے اختیار کیے جاتے تھے اور چکر لگوائے جاتے تھے۔ ان حالات میں کسان اپنی پیداوار اونے پونے داموں آڑھتیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ آج جب گندم کی طلب موجود ہے اور کسان کو غلہ منڈی میں حکومت کی مقررہ قیمت سے زائد مل رہی ہے تو حکومت پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے ذریعے جبراً ان سے اپنی مقرر کردہ 14 سو روپے فی من کی سرکاری قیمت پر گندم خرید رہی ہے۔ کیا یہ کسان کے ساتھ زیادتی نہیں؟