انصاف کا شفاف نظام کیسےہوگا؟۔

پارلیمنٹ عدلیہ پر، اور عدلیہ پارلیمنٹ یا حکومت پر الزام لگا کر اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں

حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے ریمارکس دیےہیں کہ ’’ملک میں نظام عدل تقریباً ختم ہوچکا ہے‘‘۔ یہ ایک اہم نکتے کی طرف ہم سب کو متوجہ کرتا ہے کہ انصاف کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ عمومی طور پر ہم پاکستان میں انصاف کے نظام پر عوامی یا اہلِ دانش سمیت رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی رائے لیں تو سب انصاف کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں ہمیں ایسی خبریں جن میں ناانصافی کی دردناک یا ظلم سے بھری کہانیاں سننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں تو یقینی طور پر کوفت ہوتی ہے کہ لوگوں کو حصولِ انصاف کے لیے کن کن مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر دو طرح کا انصاف کا نظام جو طاقت ور اور کمزور کے لیے مختلف ہوتا ہے، خود بڑا تکلیف دہ امر ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سستا اور فوری انصاف محض ایک خواہش یا خواب بن کر رہ گیا ہے، یا یہ ریاست اور حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ عالمی جسٹس منصوبے کی حکمرانی اشاریہ 2017-18ء میں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے تناظر میں ہم گلوبل سطح پر 113ممالک میں 105ویں نمبر پر موجود ہیں، جبکہ علاقائی سطح پر ہم 6 ممالک میں سب سے آخری نمبر پر ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں چالیس ہزار، پانچوں ہائی کورٹس میں تین لاکھ اور لوئر عدالتوں میں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں جو انصاف کی تاخیر کا عملی سبب بنتے ہیں اور فوی انصاف ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ انصاف کا نظام اگر ختم ہوتا جارہا ہے تو اس کا ذمے دارکوئی ایک فریق نہیں، اور نہ ہی کسی ایک طبقے پر ذمہ داری ڈال کر ہم مسئلے کی اہمیت کو کم کرسکتے ہیں۔ یہ ایک مجموعی ناکامی ہے جو ہمارے سیاسی، انتظامی، معاشی، قانونی اور سماجی نظام سے جڑی ہوئی ہے، اور اس میں افراد اور ادارے دونوں کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔ اگر ہم کو اپنے مجموعی انصاف کے نظام کو سمجھ یا پرکھ کر بہتری کی طرف پیش قدمی کرنی ہے تو یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا۔ ہر فریق کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا، اور غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر کچھ غیر معمولی ہی اقدامات کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ یہ کام ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ جو بگاڑ ہے وہ معمولی نہیں، بلکہ ایک بڑے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہے، اوریہ درستی روایتی طریقوں سے ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے انصاف کے نظام سے جڑے تمام فریق جن میں سیاسی، انتظامی اورقانونی افراد یا ادارے شامل ہیں وہ کیوں غیر معمولی عدالتی اصلاحات کی طرف نہیں جاتے؟کیا ان میں صلاحیت کا فقدان ہے، یا ان کی ترجیحات وہ نہیں ہیں جو ہم دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں؟ ہم نے اپنے انصاف سے جڑے نظام میں بڑے پیمانے پر سیاسی بنیادوں پر مداخلتوں کا جو کھیل کھیلا ہے وہ بھی ایک بڑے بگاڑ کا سبب بنا ہے۔ خاص طور پر ہمارے نچلے عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر عام و کمزور طبقات کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ ہماری پولیس اور اس سے جڑا تفتیش کا نظام ہے۔ جب تفتیش کے نظام میں ہی بڑا بگاڑ موجود ہوگا اور اس کی بنیاد طبقاتی ہوگی تو اس تفتیشی نظام میں ہماری عدالتیں کیا انصاف کرسکیں گی! ہمارے انصاف کے نظام میں بہتری عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پولیس اورتفتیش کے نظام میں بڑی اصلاحات یا غیر معمولی تبدیلیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح کمزور عدالتی نظام کے باعث ہماری بری حکمرانی اور معیشت کا غیر شفاف نظام بھی سامنے آتا ہے جو مسائل میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات میں انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے میں کمزوری نظر آتی ہے، وہیں ہمارا عدالتی نظام بھی کسی غیر معمولی کام کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اگر ہمارا عدالتی نظام اپنے داخلی محاذ پر کچھ بہتری پیدا کرنا چاہے تو ان حالات میں بھی ہمیں کچھ بہتر تصویر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اصلاحات کے تناظر میں ہمیں چھے بنیادی باتوں پر توجہ دینی ہوگی:
(1) عدالتی نظام کو ہمیں فوری طورپر Digitalizeکرنا ہوگا اور خاص طور پر نچلی سطح کے عدالتی نظام کو۔
(2) ہمیں اوپر سے لے کر نیچے تک ججوں کی تقرری کے نظام کو اور زیادہ منصفانہ، شفاف بنانے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
(3) عدلیہ میں موجود ججوں اور اسی طرح وکلا کی جدیدیت کی بنیاد پر اور دنیا میں آنے والی تبدیلیوں، طریقہ کار پر تربیت کے نظام کو مؤثر بنانا ہوگا۔
(4) سیاسی مداخلتوں کے خاتمے کے لیے ایک داخلی جامع پلان اور اس میں شفافیت کے عمل کو پیدا کرنا۔
(5) بار ایسوسی ایشن میں اصلاحات اور اس تاثر کی نفی کرنا کہ وکلا تنظیمیں بھی عدالتی اصلاحات میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔
(6) ججوں کو ایسے پاپولر بیانات کی نفی کرنا ہوگی جو عدالتی نظام کی شفافیت کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور اپنے داخلی نظام میں خود احتسابی کا مربوط نظام وضع کرنا ہوگا۔
سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر وہ جماعتیں جو پارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں، ان کو بھی انصاف کے نظام کے تناظر میں اپنے مجموعی کردار کو کافی حد تک تبدیل کرنا ہوگا۔ روایتی سیاسی اور پارلیمانی نظام کے ذریعے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، اور جب تک اقتدار میں شامل سیاسی جماعتیں خود اپنے داخلی نظام کو سیاسی اورجمہوری بنیادوں پر مضبوط نہیں کریں گی، اول تو اصلاحات نہیں ہوں گی، اور اگر ہوئیں بھی تو ان پر عمل درآمد کا نظام مؤثر نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ عدلیہ پر، اور عدلیہ پارلیمنٹ یا حکومت پر الزام لگا کر اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پولیس اور تفتیش کے نظام میں بھی اصلاحات کا عمل سیاسی سمجھوتوں کا شکار نظر آتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، میڈیا، اہلِ دانش، بار ایسوسی ایشن، رائے عامہ بنانے والے افراد سمیت پالیسی سازوں میں انصاف کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے ایک سنجیدہ مکالمے کی عملی طور پر ضرورت ہے۔ ہمیں الزام تراشیوں کے بجائے اصلاح کے پہلوئوں کو تلاش کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں مسائل نئی قانون سازی، پہلے سے موجود قانون سازی میں مزید اصلاحات، یا عمل درآمد کے نظام میں موجود رکاوٹوں سے دور کیے جاسکتے ہیں، اس کے لیے ایک روڈمیپ تیار کرنا ہوگا۔
ہمیں دنیا میں انصاف کے نظام سے بھی سیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اورکون سی ایسی اصلاحات ہیں جن کی مدد سے ان کے نظام میں انصاف کے نظام کو تقویت ملی ہے۔ ہماری سول سوسائٹی کے معروف دوست اور صحافی ارشد رضوی اس وقت مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس نکتے کی طرف لانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت ’’انصاف کے نظام کو مؤثر اور شفاف‘‘ بنانے پر ایک علمی، فکری اور واچ گروپ کے طور پر کام کرنا ہوگا۔ ارشد رضوی کی بات میں وزن ہے، کیونکہ جب تک ہم اپنے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں علمی و فکری بنیادوں پر دبائو کی سیاست پیدا نہیں کریں گے، تب تک نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انصاف کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے مختلف فریقین کے درمیان مکالمہ کون کرے گا اور اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اس پر غور ہونا چاہیے۔ ہماری اپنی کوششیں بنیادی طور پر ماضی کے ماتم کے بجائے مستقبل کی طرف ہونی چاہئیں۔
جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی جنگ اگر ہمیں جمہوری دائرۂ کار میں لڑنی ہے تو ہماری توجہ کا مرکز سیاسی، قانونی اور انتظامی اصلاحات ہی ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ درکار ہے، اور یہی کمٹمنٹ ایک بڑے سیاسی اور قانونی ماحول کو پیدا کرے گا جو ایک مؤثر تبدیلی کے امکانات کو روشن کرسکتا ہے۔