کولمبس، اراواکس، اورانسانی ترقی

سفید فام یورپیوں کی امریکی مقامی باشندوں کی نسل کشی کی دستاویزی شہادت

ہاورڈزن/ترجمہ:ناصر فاروق
اراواکس (شمالی امریکہ کے دیسی لوگ)، نارنجی مائل بھورے سے رنگ کے، مرد اور عورتیں، نیم برہنہ، حیرت زدہ سے، دیہاتوں سے ابھرے اور ساحل پر جُھنڈ کی صورت جمع ہوئے۔ وہ ایک عجیب سی بڑی کشتی کو تک رہے تھے۔ کولمبس اور اُس کے ساتھی ساحل پر اترے، تلواریں تھامے، بے تکے پن سے گفتگوکرتے ہوئے۔ اراواکس، ہاتھوں میں خوراک، پانی اور تحفے لیے بے اختیار ہوکر استقبال کے لیے دوڑے۔ اُس نے اپنی یادداشت میں لکھا:
’’وہ… ہمارے لیے توتے، روئی کے پھائے، نیزے بھالے وغیرہ لائے تھے، انھوں نے بہت سی چیزوں کا شیشے کے منکوں اور گھنٹیوں سے لین دین کیا۔ وہ خوشی خوشی ہر چیز لے دے رہے تھے… کسرتی جسم کے مالک تھے، تیکھے نقوش والے تھے… اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھے، وہ جانتے ہی نہ تھے کہ ہتھیارکیا ہوتے ہیں! میں نے انھیں تلوار دکھائی، انھوں نے دھار سے تھام لی اورلاعلمی میں خود کو زخمی کربیٹھے۔ اُن کے پاس لوہے کی کوئی چیز نہ تھی۔ اُن کے بھالے بید سے بنے تھے۔ وہ بہت ہی اچھے غلام ثابت ہورہے تھے، ہم صرف پچاس آدمیوں کے ذریعے اُن سب پرغلبہ پاسکتے تھے، اور انھیں جو چاہتے، کرنے پر مجبور کرسکتے تھے۔‘‘
جزائر بہاما کے یہ باشندے بہت مہمان نواز تھے، اشیاء کے تبادلے، اور اپنی چیزیں بانٹنے میں بڑے فیاض تھے۔ ایسی روایتوں کے آثار رینیسانس(نشاۃ ثانیہ) والے یورپ میں نہ پائے جاتے تھے۔ وہاں پادریوں کا مذہب نافذ تھا، بادشاہوں کی حکومت قائم تھی، مغربی تہذیب اور اُس کے نمائندے کولمبس پر پیسہ اور مال ودولت کی ہوس وحشت وجنون کی حد تک چھائی ہوئی تھی۔
کولمبس لکھتا ہے: ’’جیسے ہی ہم انڈیز کے جزائر پہنچے، پہلے ہی جزیرے پر میں نے کچھ مقامی باشندوں کو زبردستی ساتھ لیا کہ شاید وہ کچھ سیکھیں اور مجھے کچھ بتائیں کہ آیا اس خطے کے دیگر حصوں میں کیا کچھ پایا جاتا ہے۔‘‘
دراصل کولمبس یہ جاننے کے لیے بے چین تھا کہ سونا کہاں ہے؟ اُس نے اسپین کے بادشاہ اور ملکہ کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ اگر وہ اس مہم پر سرمایہ کاری کریں تو وہ انھیں نئی زمینوں سے حاصل شدہ دولت لاکر دے گا، وہ سارا سونا، چاندی اور مسالے جو بحر اوقیانوس کی دوسری جانب جزائر انڈیز اور ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے دور کے دیگر باخبر لوگوں کی مانند خوب جانتا تھا کہ دنیا گول ہے، اور اگر وہ مغرب کی جانب سفر کرتا ہے، تو مشرق بعید پہنچ پائے گا۔
اسپین حال ہی میں متحد ہوا تھا۔ وہ اب فرانس، پرتگال، اور برطانیہ کی طرح ایک جدید قومی ریاست بن کر ابھر رہا تھا۔ اس کی بیشتر آبادی غریب کسانوں پر مشتمل تھی، یہ طبقۂ امراء کی زمینیں کاشت کرتے تھے۔ طبقۂ امراء آبادی کا دو فیصد تھا لیکن پچانوے فیصد اراضی کا مالک بنا بیٹھا تھا۔ اسپین کیتھولک چرچ کے ماتحت تھا، یہاں کے سب یہودیوں اور مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ جدید مغربی دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح اسپین بھی سونے کی تلاش میں تھا، کیونکہ سونا دولت اور طاقت کی علامت بن چکا تھا، یہ زمین سے زیادہ مفید تھا، اس کے ذریعے کہیں بھی کچھ بھی خریدا جاسکتا تھا۔
یہ عام خیال تھا کہ سونا ایشیا میں تھا، وہاں ریشم اور مسالے کی بہتات بھی تھی۔ صدیوں پہلے مارکوپولو اور دیگر مہم جو وہاں سے حیرت انگیز اشیاء لے کر لوٹے تھے۔ ایشیا کی دولت و ثروت کے بڑے قصے مشہور تھے۔ اب جب کہ ترک قسطنطنیہ اور بحر روم کے مشرقی حصوں کو فتح کرچکے تھے، اور ایشیا تک پہنچنے والے تمام رستوں پر قابض تھے، مغرب کے لیے ایک سمندری رستہ ضروری ہوچکا تھا۔ پرتگالی جہازراں جنوب میں افریقہ کی جانب سے راستے کی کھوج میں لگے تھے۔ اسپین بھی اب سمندر پار نامعلوم دنیا پر جوا کھیلنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ یہ جوا سونے، چاندی، اور مسالوں کی خاطر تھا۔ انھوں نے کولمبس کو منافع میں سے دس فیصد کمیشن دینے کا وعدہ کیا تھا، نئی زمینوں پر گورنری کی پیشکش کی تھی، اور ’’ایڈمرل آف دی اوشن سی‘‘ کے لقب سے نوازنے کا اشارہ دیا تھا۔ کولمبس اطالوی شہر جینوا کے ایک تاجر کا منشی تھا، جلاہا (وہ ایک جلاہے کا لڑکا تھا)، اور ماہر جہازراں تھا۔ وہ تین بڑی کشتیاں لے کرمہم پر نکلا تھا، ان میں سب سے بڑی کا نام سانتا ماریا تھا، شاید سو فٹ لمبی… عملہ کے ارکان کی تعداد انتالیس تھی۔ تاہم کولمبس کبھی بھی ایشیا نہ پہنچ سکا، جو اُس کے اعدادوشمار سے ہزاروں میل دور تھا۔ اُس نے دنیا کوخاصا مختصر متصور کیا تھا۔ وہ یقیناً سمندر کی وسعتوں میں نابود ہوجاتا، مگر خوش نصیب نکلا۔ ایک چوتھائی رستہ عبور کرتے ہی اُس کی کشتیاں ایک نامعلوم ساحل پر جا رُکیں۔ یہ خطۂ زمین یورپ، ایشیا، اور امریکاؤں کے مابین تھا۔ یہ اکتوبر 1492ء کے ابتدائی دن تھے، کولمبس کو سفر پر نکلے تینتیس روز ہی گزرے تھے، انھیں پانی میں ٹہنیاں اور تنکے تیرتے نظرآئے۔ پرندوں کی اڑان بتا رہی تھی کہ قریب ہی کوئی زمین اُن کی منتظر تھی۔ یہ 12 اکتوبر کا دن تھا۔ ایک جہازراں جس کا نام راڈریگو تھا، سحر کی چاندنی میں چمکتی سفید ریت دیکھ کر خوشی سے چلّایا تھا۔ یہ بہاماس کا ایک جزیرہ تھا۔ اردگرد جزائر غرب الہند کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ طے ہوا تھا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے ساحل کی خبر دے گا، اُسے تاحیات دس ہزار ماہانہ پینشن ملے گی۔ مگر راڈریگو کو کبھی کچھ نہ ملا۔ کولمبس نے دعویٰ کیا کہ اُس نے گزشتہ شام ہی ایک روشنی دیکھ لی تھی، اور یوں یہ پینشن والا انعام اُسے دیا گیا۔
وہ جب زمین پر پہنچے، اراواکس سے ملاقات ہوئی، جو ساحل پر جمع ہوگئے تھے، اور اُنھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ یہ لوگ دیہاتی زندگی بسر کرتے تھے۔ مکئی، کپاس، پٹ سن، اور کساوا کاشت کرتے تھے۔ وہ کپڑا بھی بُن سکتے تھے۔ مگر اُن کے پاس گھوڑے اور مویشی نہ تھے۔ اُن کے پاس لوہا نہیں تھا۔ وہ کانوں میں سونے کی بالیاں پہنتے تھے۔ مگر ان بالیوں کی بڑی بھاری قیمت انھیں ادا کرنی پڑی تھی، بڑے سنگین نتائج بھگتنے پڑے تھے۔
کولمبس اُن میں سے بہت سوں کوکشتی پر قیدی بنائے پھرتا رہا تھا کہ کسی طرح وہ اُسے سونے کی کان تک پہنچائیں۔ وہ پھر وہاں پہنچا جسے آج کیوبا کہتے ہیں۔ آگے بڑھا، اورہسپانیولا(وہ جزیرہ جوآج ہیٹی اورڈومینیکن ری پبلک کہلاتا ہے) پہنچا۔ یہاں کے دریاؤں میں اُسے سونے کے ٹکڑے ملے، ایک مقامی سردار نے کولمبس کو سونے کا ماسک بھی تحفہ کیا، یہاں سے وہ سونے کی کانوں تک پہنچے۔ ہسپانیولا میں کولمبس نے سانتا ماریا کی لکڑیوں سے ایک قلعہ نما تعمیر کیا، یہ مغربی نصف کرّے میں پہلا یورپی فوجی اڈہ تھا۔ اُس نے اسے ’’کرسمس‘‘ نام دیا، اور عملے کے انتالیس افراد کو وہاں ان ہدایات کے ساتھ چھوڑا کہ سونا تلاش کریں اور اس قلعہ میں ذخیرہ کرتے جائیں۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے سُرخ ہندی قیدیوں کو دو دیگر کشتیوں پر لے کر روانہ ہوا۔ اس جزیرے پر کولمبس اور اُس کے ساتھیوں کی اراواکس سے اس بات پر لڑائی بھی ہوئی کہ وہ مطلوبہ تیر اورکمان انھیں فراہم نہ کرسکے تھے۔ انھوں نے تلواروں سے دو اراواکس کی جان بھی لے لی تھی۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد نینا اور پنٹا (کشتیاں) اسپین کے لیے روانہ ہوئیں۔
جب موسم سرد ہوا، اراواک قیدی ایک ایک کرکے مرنے لگے تھے۔ میڈرڈ کے شاہی دربار میں کولمبس نے سفر کی روداد سناتے ہوئے بہت مبالغہ آرائی کی۔ اُس کا اصرار تھا کہ وہ ایشیا (کیوبا) اور چین کے قریب ایک جزیرے (ہسپانیولا) پہنچ گیا تھا۔ اُس کی داستان گوئی آدھی سچ اور باقی افسانہ تھی: ۔
۔ ’’ہسپانیولا ایک معجزاتی مقام ہے۔ پہاڑی سلسلے ہیں، بڑی بڑی چراگاہیں ہیں، زرخیز اورخوبصورت… یہاں کی بندرگاہیں ناقابلِ یقین حد تک اچھی ہیں، اور یہاں بڑے بڑے دریا بہتے ہیں، جن میں بہت سارا سونا پایا جاتا ہے… یہاں بہت سارے مسالے بھی ملتے ہیں… سونے کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بھی یہاں بہتات ہے۔‘‘ کولمبس نے کہا ’’امریکی ہندی، اس قدر سادہ اور احساسِ ’حقِ ملکیت‘ سے عاری ہیں کہ کوئی انھیں دیکھے تو یقین نہ کرے۔ اگر تم اُن سے کوئی چیز مانگو، وہ کبھی ’’ناں‘‘ نہیں کہیں گے، بلکہ اُلٹا وہ ہرچیز بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں‘‘۔ کولمبس نے اپنی کارگزاری یہ کہہ کر ختم کی کہ اُس کی مزید مدد کی جائے، تاکہ واپسی پر وہ خوب سارا سونا اُن کی خدمت میں پیش کرسکے، اور زیادہ سے زیادہ غلاموں کی کھیپ پہنچا سکے۔ اُس نے کہا: ’’خدائے بزرگ اُنھیں فتح عطا کرتا ہے جو ناممکنات کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔‘‘ اس مبالغہ آرائی پر دوسری مہم میں کولمبس کو سترہ جہاز اور بارہ سو سے زائد جہازراں مہیا کیے گئے۔ مقصد ایک ہی تھا: بہت سارے غلام اورخوب سارا سونا۔
وہ کیریبین میں ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے گئے، مقامی باشندوں کو قیدی بناتے رہے۔ ان کی آمد کا سن کرباقی دیہات ایک ایک کرکے خالی ہوگئے۔ ہیٹی پہنچے، معلوم ہوا کہ پیچھے لکڑی کے قلعہ ’’کرسچن‘‘ میں چھوڑے گئے سارے جہازراں اراواکس سے لڑائی میں مارے جاچکے تھے، اس کے بعد وہ ٹولیوں کی صورت میں پورے جزیرے پر دندناتے پھرے، سونا تلاش کرتے رہے، ہندی مردوں کوقتل، عورتوں اور بچوں کو غلام بناتے رہے۔
اب ہیٹی میں اپنے اڈے سے کولمبس نے اندرونی علاقوں کی طرف ایک کے بعد ایک مہم روانہ کی۔ انھیں سونے کی کانیں تو نہ ملیں، لیکن اسپین واپسی پر وہ خاصا سازوسامان ساتھ لے گئے۔ سال 1495ء میں انھوں نے غلاموں کی کھوج میں بڑی مہمات چلائیں، پندرہ سومرد، عورتیں اور بچے غلام بنائے، اور انھیں جانوروں کے باڑوں میں بند رکھا جن کی نگرانی ہسپانوی خدمت گار اور شکاری کتے کرتے تھے۔ بعد میں پانچ سو ہٹے کٹے غلاموں کو جہازوں میں بھرکر اسپین روانہ کیا گیا، ان میں سے دوسو غلام رستے ہی میں مرگئے۔ باقی تین سو اسپین پہنچے، جہاں بازاروں میں اُن کی نیلامی ہوئی۔ کولمبس نے بعد میں لکھا: ’’مقدس تثلیث کے نام پر… جتنے غلام بنائے اور بیچے جاسکتے ہیں، بیچے جائیں گے‘‘۔ مگر اکثر غلام دورانِ قید ہی مرجاتے تھے، اور یوں کولمبس کو مایوسی ہورہی تھی۔ اُسے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا، سونے سے بھرے جہاز اسپین بھیجنے تھے۔ ہیٹی کے صوبے ’سیکاؤ‘ جہاں اُسے اور اُس کے ساتھیوں کوسونے کے بڑے ذخیرے ملنے کی امید تھی، حکم دیا کہ وہ سب لوگ جن کی عمر چودہ سال یا اس سے کم ہے، ہر تین ماہ میں سونے کی خاص مقدار جمع کرنے کے پابند ہوں گے۔ جب وہ سونا لے آئے، اُن کے گلوں میں کاپر کے ٹوکن ڈال دیے گئے۔ اب جو ہندی کاپر ٹوکن کے بغیر نظر آجاتا، اُس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے، اُس کا خون بہتا رہتا، یہاں تک کہ وہ مرجاتا۔ ان غلاموں کو ایک ناممکن کام دیا گیا کہ پانی میں موجود ریت سے سونا چھان چھان کرجمع کریں، اور انھیں پہنچائیں۔ اب ہندی غلام فرار ہونے لگے، انھیں کتوں کے ذریعے شکار کیا جاتا، اور مار دیا جاتا۔ اراواکس نے مل کر مزاحمت کی کوشش کی، تو اُن کا سامنا مسلح ہسپانویوں سے ہوا۔ وہ گھوڑوں پر تلواریں لہراتے، بندوقوںسے گولیاں برساتے، اور آسانی سے ہندیوں کونشانہ بناتے تھے۔ ہسپانوی انھیں جب قیدی بناتے توپھانسی دے دیا کرتے یا زندہ جلادیا کرتے تھے۔ اب اراواکس بڑی تعداد میں کساوا زہر سے خودکشی کرنے لگے تھے۔ اپنے بچوں کو بھی ہسپانویوں کے مظالم سے بچانے کے لیے قتل کرنے لگے تھے۔ دوسال کے دوران جزیرہ ہیٹی کے ڈھائی لاکھ ہندیوں کی آدھی آبادی قتل اور خودکشی کی نذر ہوچکی تھی۔ جب ہسپانویوں کو یقین ہوگیا کہ اب یہاں سونے کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں بچا تو بچ جانے والے ہندی غلاموں کو بیگار کے لیے ساتھ لے کر دیگر زمینوں کی طرف نکل گئے۔ اُن سے انتہائی مشقت کے کام لیے گئے، اس دوران وہ ہزاروں کی تعداد میں مرگئے۔ سال 1515ء تک شاید وہاں پچاس ہزار ہندی غلام ہی زندہ بچے تھے۔ سن 1550ء تک یہ صرف پانچ سو باقی بچے تھے۔ سن 1650ء کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ اب کوئی اراواکس جزیرہ ہیٹی پر باقی نہیں بچا تھا۔
اہم ترین تاریخی حوالہ، اور بہت سے اہم معاملات میں واحد ذریعہ معلومات Bartolome de las Casas ہے، جو کولمبس کی آمد سے ان جزائر پرگزرنے والے تمام مظالم کا عینی شاہد تھا۔ وہ ایک جوان پادری تھا، اُس نے کیوبا کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ اُس کی فصلوں پر ہندی غلام کام کیا کرتے تھے، مگر پھر اُس نے یہ سب چھوڑ دیا اورہسپانوی مظالم کا شدید نقاد بن گیا۔ Las Casas نے کولمبس کے لیے لکھنے پڑھنے کا کام انجام دیا، اور پھر کئی جلدوں پر مبنی History of the Indies لکھی، جس میں دیسی امریکیوں کی تفصیلات ملتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہندی پھرتیلے اور چست تھے، بہترین پیراک تھے، وہ مکمل طور پر پُرسکون طبیعت کے لوگ نہ تھے۔ وقفے وقفے سے ان میں قبائلی لڑائیاں ہوتی تھیں، مگر جانی نقصان کم ہی ہوتا تھا، اور عموماً جھگڑے انفرادی نوعیت کے ہوتے تھے، کسی بادشاہ یا کپتان کے حکم پرنہیں۔
ان میں شادی کا کوئی تصور موجود نہ تھا: مرد اور عورت اپنی پسند کا جوڑ بناتے، اور تب تک ساتھ رہتے جب تک خوش رہتے، پھر الگ ہوجاتے۔ یہ سب بغیر کسی تشدد اور حسد انجام پاتا تھا۔ اُن کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی تھی، وہ بڑے بڑے قبائل کی صورت زندگی بسر کرتے تھے۔ کپڑے اور پتّوں سے شرم گاہیں ڈھانپتے تھے۔
لاس کساس کہتا ہے: ہندیوں کا کوئی مذہب نہ تھا، کوئی عبادت گاہ نہ تھی۔ وہ لکڑی سے بنی بڑی عمارتوں میں رہتے تھے، ایک عمارت میں تقریباً چھے سو لوگ ایک وقت میں بودوباش اختیار کرتے تھے۔ وہ پرندوں کے رنگ برنگے پر پہنتے تھے، مچھلی کی ہڈیوں کی مالائیں گلوں میں ڈالتے تھے، ہرے سفید پتھروں کی بالیاں کانوں اور ہونٹوں پر پہنتے تھے، لیکن زیادہ تر سونے کی بنی چیزیں پسند کرتے تھے۔ تجارت کی کوئی سوجھ بوجھ انھیں نہ تھی، وہ خرید و فروخت سے ناآشنا تھے، اور فطری ماحول میں ہی زندگی کی سازگاری قائم رکھتے تھے۔ وہ بڑے فیاض تھے۔ دوسروں کے مال پر بُری نظر نہ رکھتے تھے۔ ان کی زندگی بہت آزاد اور روادار تھی۔
ہسپانویوں کا ہندیوں سے کیسا سلوک تھا… کساس نے اس پر دوسرے والیوم میں تفصیل سے لکھا ہے: ۔
۔ ’’بے شمار شہادتیں ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مقامی ہندیوں کا مزاج امن پسند اور دوستانہ تھا… لیکن ہمارا (ہسپانیوں) کام انھیں رسوا کرنا، ذلیل وخوار کرنا، قتل کرنا، بے آبرو کرنا، اور تباہ کرنا تھا۔ تو پھر اس میں حیرت کیسی کہ وہ موقع پاتے ہی ہم میں سے ایک دو کو مار ڈالتے تھے… ایڈمرل ہسپانوی بادشاہ کو خوش کرنے کی خاطر وحشت پر اتر آیا تھا، اُس نے مقامی ہندیوں کے خلاف ناقابلِ تلافی جرائم کیے۔
ہسپانوی ہندیوں سے غلاموں سے بدتر سلوک کرتے تھے، ذرا ذرا سے فاصلے پربھی سفر کرتے تو ہندی بڑے بڑے پتّوں کا سایہ کرتے، پروں سے پنکھا جھلتے رہتے، ہروقت خدمت میں لگے رہتے تھے۔ مکمل جبر اور ظلم کی فضا تھی۔ حال یہ تھا کہ ہسپانوی خنجروں کی دھار جانچنے کے لیے کئی کئی ہندیوں کو جان سے مار ڈالتے تھے، تلوار کی دھار جانچنے کے لیے اُن کے ٹکڑے کر ڈالتے تھے۔ ایک واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ایک دن دو عیسائی (ہسپانوی) اور دو ہندی لڑکوں کی ملاقات ہوئی، دونوں ہندیوں نے توتے اٹھا رکھے تھے، ہسپانوی لڑکوں نے اُن سے توتے لیے اور یوں ہی دل لگی کے لیے اُن کی گردنیں اڑا دیں۔ ہندیوں نے مزاحمت کی کوشش کی، پہاڑیوں کی طرف دوڑے، مگر جا لیے گئے، قتل کردیے گئے۔ یہ لوگ کانوں میں مزدوری کرتے، اور بیگار کے دوران مایوسانہ خاموشی سے مرجاتے تھے، ان اموات کا کوئی شمار نہ تھا، کوئی امید نہ تھی کہ بھری دنیا سے کوئی انھیں بچانے آئے گا۔ وہ پہاڑوں پر چوٹی سے نیچے تک ہزاروں بار چڑھتے اترتے تھے، کھدائی کرتے تھے، چٹانیں توڑتے تھے، پتھر کوٹتے تھے، کیچڑ اور گندگی کمر پر لاد کر دریا تک لے جاتے تھے، انھیں دھوتے تھے کہ کسی طرح سونے کے ذرات چھان سکیں۔ جب دریا میں طغیانی آجاتی، اور پانی کانوں میں بھرنے لگتا، وہ چھوٹے چھوٹے برتنوں سے پانی نکالتے، اور کانوں کو خشک رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتے۔ اس دوران کتنے ہی بیمار ہوتے، اور کتنے ہی مرجاتے تھے۔ چھے آٹھ ماہ میں ایک کان کا سونا نکل آتا تھا، اس دوران غلاموں کی ایک تہائی تعداد مرجاتی تھی۔ اس دوران ان کی بیویوں سے کھیتوں میں کام لیا جاتا، اور جبراً کساوا کی کاشت کروائی جاتی، پہاڑوں پر دور تک کساوا کے پودے لگوائے جاتے تھے۔ یہ میاں بیوی چھے سے آٹھ ماہ میں ہی ایک دو بار مل پاتے تھے، اور اس موقع پر وہ اس قدر درماندہ ہوتے تھے کہ بہ مشکل ہی خوش ہوپاتے تھے۔ ان کی نسل تیزی سے گھٹ رہی تھی۔ مائیں لاغر ہورہی تھیں اور بچے خوراک کی کمی سے مررہے تھے۔ کیوبا میں راقم نے تین ماہ کے دوران سات ہزار بچوںکو مرتے دیکھا تھا۔ بہت سی مائیں مایوسی کے عالم میں اپنے بچوں کو دریا برد کردیتی تھیں۔ دوسری جانب شوہر کانوں میں بیگار کے دوران مرجاتے تھے۔ بہت جلد انسانوں سے زرخیز یہ زمین بنجر پڑگئی تھی… میری آنکھوں نے وہ مناظر دیکھے جو انسانی فطرت سے کوسوں دور تھے، بعض اوقات میں لکھتے ہوئے کانپ اٹھتا ہوں!‘‘
جب وہ 1508ء میں ہسپانیولا پہنچا، لاس کساس کہتا ہے کہ ’’اس جزیرے پر ساٹھ ہزار لوگ بستے تھے، ان میں ہندی بھی شامل تھے۔1494 ء سے1508ء تک جنگ، غلامی، اور بیگار نے تیس لاکھ سے زائد لوگوں کی زندگی چھین لی تھی۔ مستقبل کی نسلوں میں کون ان باتوں پر یقین کرے گا؟ جب کہ میں خود جو اس ساری صورت حال کا عینی گواہ ہوں، مشکل سے ہی یقین کرپاتا ہوں کہ اتنا ظلم بھی کہیں کبھی ہوسکتا ہے!‘‘
یہ ہے وہ تاریخ، جو پانچ سو سال پہلے یورپ سے نکلی اور امریکاؤں میں عام قتل وغارت سے آگے بڑھی۔ یہ وہ ابتدا تھی کہ جب لاس کساس کو پڑھا جائے، مظالم کے اعداد و شمار مبالغہ آرائی محسوس ہوتے ہیں (وہ کہتا ہے کہ تیس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے، کچھ مؤرخین دس لاکھ سے کم بتاتے ہیں، جبکہ دیگر بہت سے اسّی لاکھ اموات پر یقین رکھتے ہیں)، بہرحال یہ قبضہ، غلامی اور موت تھی(1)۔
جب ہم تاریخ کی وہ کتابیں دیکھتے ہیں، جو امریکہ میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں، یہ سب کولمبس کی جرأت مندانہ مہم سے شروع ہوتی ہیں، اور ہرطرح کے خون خرابے سے پاک ہیں، اور ’’کولمبس کا دن‘‘ ایک جشن کا موقع بتایا جاتا ہے۔ ابتدائی اورہائی اسکول کی تعلیم میں مشکل ہی سے اس کے سوا کوئی تاریخ ملتی ہے(2)۔
سیموئل ایلیٹ موریسن، ہارورڈ کا مؤرخ، کولمبس پر منفرد ماہر سمجھا جاتا ہے، اس نے کئی والیوم پر مبنی ’’کولمبس سرگشت‘‘ لکھی، وہ خود بھی ایک جہازراں تھا، اور بحر اوقیانوس میں کولمبس کے سمندری رستے کا تجربہ کرچکا تھا۔ اپنی مقبول کتاب Christopher Columbus, Mariner، جو سن 1954ء میں لکھی گئی، وہ غلامی اور قتل و غارت کی بابت لکھتا ہے: ظلم و ستم کی جس پالیسی کی ابتدا کولمبس نے کی، اسے بعد والوں نے مکمل نسل کُشی کی صورت دی۔ اپنی کتاب کے آخر میں وہ کولمبس پر اپنی رائے اختصار سے پیش کرتا ہے: وہ، اُس کی غلطیاں اور نقائص، اور یہ معیارکے بہت بڑے اور نمایاں نقائص تھے۔ اُس کا ارادہ منہ زور تھا، خدا پر ایمان غیر متزلزل تھا، اور اپنے مشن کی حقانیت پرکامل یقین تھا۔ وہ خود کو نئی زمینوں میں یسوع مسیح کا نمائندہ باور کرتا رہا، اورغفلت، غربت، اور زیادتی کا مؤجب بنتا رہا۔ موریسن نے کولمبس کے بارے میں جھوٹ بولنے سے انکار کیا، اورہندیوں کے قتل عام کی پوری داستان لکھ ڈالی، اسے نسل کُشی قرار دیا۔
امریکی مؤرخین کے لیے کولمبس اور اُس کے ساتھیوں کے مظالم چھپانا اور ہیروازم ابھارنا کوئی تکنیکی مسئلہ نہ تھا، بلکہ یہ ایک نظریاتی انتخاب تھا، کیونکہ جو کچھ بعد میں ہوا یہ اُسے قابلِ جواز بناکر پیش کررہا تھا۔ میرا نکتہ یہ ہرگز نہیں کہ ہم بہرطور کولمبس کو غیر موجودگی میں بُرا بھلا کہیں اور اُس پر الزامات لگائیں۔ اس کام کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے، یہ ایک بے کار عالمانہ سعی ہوگی۔ تاہم مظالم کو آسانی سے یہ سمجھ کر قابلِ جواز قرار دینا کہ ’’ترقی کے لیے ناگزیر‘‘ (مغربی تہذیب کی حفاظت کے لیے ہیروشیما، اور ویت نام جنگ، اور ہم سب کو بچانے کے لیے نیوکلیئر افزودگی وغیرہ) ہیں۔ یہ ناقابل جواز ہے، مگر اب تک ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ’ظالمانہ پالیسی‘ اب تک ہمارے ساتھ اس لیے ہے کہ ہم نے اسے دیگر حقائق سمیت دفن کرنا سیکھ لیا ہے، جیسے ریڈیوایکٹو فضلے کوتلف کیا جاتا ہے۔ ہم سیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ان مظالم پر اساتذہ اور مصنفین جتنی معمولی توجہ دینی ہے، کہ جس طرح انتہائی قابلِ احترام تعلیمی اداروں اورنصاب میں کیا جاتا ہے۔ یوں بھی اس طرح کی تاریخی دروغ گوئی کو اساتذہ سے جو سند حاصل ہوسکتی ہے، وہ سیاست دانوں کی پریس کانفرنسوں سے ممکن نہیں۔ اس طرح یہ زیادہ ہلاکت خیز ہوجاتی ہے۔
’’تاریخ ریاستوں کی یادداشتوں کا نام ہے‘‘۔ ہنری کسنجر نے یہ بات اپنی پہلی کتاب A World Restored میں لکھی تھی، یوں وہ انیسویں صدی کے یورپ کی ترقی کا احوال حکمرانوں کے نکتہ نظر سے سامنے لارہا تھا، اور یوںکروڑوں انسانوں کو آسٹریا اور برطانیہ کی پالیسیوں سے پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصانات نظرانداز کررہا تھا۔ اس کے نکتہ نظر سے یورپ فرانسیسی انقلاب سے پہلے کا امن بحال کرچکا تھا۔ لیکن برطانیہ کی فیکٹری کے مزدوروں کے لیے، فرانس کے کسانوں کے لیے، ایشیا اور افریقہ کے لوگوں کے لیے، اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی ہرطبقے کی عورتوں اور بچوں کے لیے، یہ سب محض جنگ، قبضہ، بھوک، ظلم وستم تھا، اُن کے لیے یہ دنیا مزید ریزہ ریزہ ہوچکی تھی۔ بطور امریکی مؤرخ میرا نکتہ نظر مختلف ہے، ہم کسی صورت ریاستوں کی یادداشتوں کو اپنی یادداشتوں کے طور پر قبول نہیں کرسکتے۔ میں امریکہ کی تاریخ اراوکس (شمالی امریکہ کے دیسی لوگ) کے نکتہ نظر سے پیش کرنا چاہتا ہوں، جنھیں غلام بناکر رکھا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کولمبس نے بہاماس میں جو کچھ اراواکس کے ساتھ کیا، کورٹس نے وہی کچھ میکسیکو میں ازٹیکس کے ساتھ کیا، پیزارو نے پیرو میں یہی کچھ انکا کے ساتھ کیا، ورجینیا اور ماسیوچیوسٹس میں انگریزوں نے یہی سلوک پاوٹان اور پیکوٹس سے روا رکھا۔ یہ مایان تہذیب کے پروردہ تھے۔ ان سب علاقوں میں ہسپانوی حملہ آوروں کے ایک سے مقاصد اور ایک سی وجوہات تھیں، انھیں سونا اور غلاموں کی کھیپ چاہیے تھی۔ یورپ کی بادشاہتیں اور نوکر شاہی لوٹ مار کی ان مہمات پر بھاری سرمایہ کاری کررہی تھیں۔ یہ وہ سرمایہ داری تھی، جو جاگیردارانہ نظام کی کوکھ سے اٹھی تھی۔ یہ مغربی مظالم کی وہ شروعات تھی کہ جس نے ٹیکنالوجی، تجارت، کاروبار، سیاست، اور ثقافت کے لبادوں میں دنیا پر پانچ صدیوں حکمرانی کی۔
حواشی
1) اس تاریخی گواہی کی سچائی کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا کہ امریکہ کی پوری تاریخ ہی ’’قبضہ، غلامی، اور موت‘‘ کی تاریخ ہے۔ ویت نام سے افغانستان تک، اور دیگر مقبوضات میں امریکی ’’کولمبس پالیسی‘‘ پر ہی کاربند نظر آتے ہیں۔ امریکہ کے رگ وپے میں کولمبس کا قزاق خون دوڑتا نظرآتا ہے، یہ ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے جسے نام نہاد ’آزاد دنیا‘ کسی طور رد نہیں کرسکتی۔
2) امریکہ کی قوم پرستی کا تقاضا ہے کہ یہی گمراہ کن تاریخ پڑھائی جائے۔ اُس پر مستزاد یہ کہ امریکہ کی ’’غلام دنیا‘‘ میں بھی یہی’’گمراہ کن‘‘ تاریخ عام ہے، اور اس کے اثرات بیسویں صدی کی دنیا پرانتہائی نقصان دہ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں محمد بن قاسم اور دیگر مسلم فاتحین کی ’’مظالم گوئی‘‘ کے شائقین نے کبھی سقوطِ غرناطہ کی راکھ سے اٹھنے والی ’’مغربی استعماری‘‘ تاریخ پرنظر نہیں کی، جبکہ یہ پانچ سو سالہ تاریخ صرف ’’انسانی تہذیب‘‘ کے زوال کی تاریخ ہے۔ درحقیقت یورپی اور امریکی شان و شوکت، لٹیروں اور قزاقوں کی مرہونِ منت ہے۔ کولمبس امریکی تشخص کی ’’روح‘‘ہے۔ کولمبس کی تاریخ ہی دراصل امریکہ کی پوری تاریخ ہے: قبضہ، غلامی، اور موت۔