۔14مئی کو ایک ایسے صحافی کی پہلی برسی ہے جو پاکستانی صحافت کا ایک معتبر نام، صحافتی دنیا کا ایک اجلا کردار، نظریاتی صحافت کا بے خوف سپاہی، صحافتی ٹریڈ یونین کا بے لوث کارکن اور اردو اور انگریزی صحافت کا فخر تھا، جو مطبوعاتی اور ریڈیائی صحافت میں بے پناہ شہرت رکھنے کے باوجود مزاجاً درویش صفت اور نرم گو انسان تھا۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ادریس بختیار جنہیں جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن بے تکلفی سے ادریس، اور ایم کیو ایم کے قائد احترام سے ادریس بھائی کہہ کر پکارتے تھے گزشتہ سال ان کی موت پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا: دہائیوں سے شناسا میرا دوست ایک مہذب اور شائستہ انسان چلا گیا۔
ادریس بختیار پاکستانی صحافت کا ایک کردار اور باب تھے۔ ایک باوقار کردار اور ایک روشن اور قابلِ فخر باب… وہ مسلسل جدوجہد کا استعارہ اور مشکل حالات کے سامنے ڈٹے رہنے والے جرأت مند اور بے باک صحافی تھے۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی کریڈیبلٹی تھی، جس کے دوست، دشمن سب قائل تھے۔ انہوں نے مشکل حالات میں دشتِ صحافت میں قدم رکھا، اور مشکل ترین حالات میں یہ فریضہ انتہائی جرأت اور خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا۔ وہ پاکستان کے اُن چند صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے اردو اور انگریزی دونوں طرز کی صحافت میں نام کمایا اور پرنٹ کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی چھائے رہے۔ اخبار میں رپورٹنگ، نیوز ایڈیٹنگ سے کالم نگاری تک، اور ٹی وی پر تجزیہ نگاری سے ایڈیٹوریل کمیٹی اور سنسر بورڈ کے سربراہ تک… وہ اُن معدودے چند صحافیوں میں شامل ہیں جو ریڈیو جرنلزم پر بھی برسوں نمایاں رہے، جبکہ ٹریڈ یونین اُن کا اضافی وصف تھا۔
1945ء میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی نگری اجمیر میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے دادا نور محمد چشتی اجمیر میں مسلم لیگ کے نمایاں رہنماؤں میں شامل تھے، جبکہ والد ڈاکٹر ہارون الرشید بختیار (ایچ آر بختیار) مسلم لیگ کے گارڈ اور سالار تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان لاہور سے ہوتا ہوا حیدرآباد منتقل ہوگیا۔ یہیں سے گریجویشن کے بعد ادریس بختیار نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا، اور انڈس ٹائمز حیدرآباد سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ بعد میں کراچی آکر وہ نیوز ایجنسی پی پی آئی، روزنامہ جسارت اور انگریزی اخبار اسٹار کے چیف رپورٹر بھی رہے۔ وہ ڈان اور ہیرالڈ انٹرنیشنل کے ساتھ بی بی سی اردو سروس کے لیے بھی کام کرتے رہے، جبکہ کچھ عرصہ جدہ میں عرب نیوز کے ایڈیٹر انچارج کے طور پر بھی کام کیا۔ ڈان گروپ کے ساتھ ان کی وابستگی سب سے طویل رہی۔ یہیں سے وہ جیو نیوز میں آگئے۔ ان کا آخری صحافتی بسیرا جیو ہی تھا۔
ادریس بختیار اپنی ذاتی زندگی میں بھی قابلِ اعتبار آدمی تھے اور صحافت میں بھی انہیں ایک معتبر صحافی کا درجہ حاصل تھا۔ وہ پاکستانی صحافت میں اس کھیپ کے آخری فرد تھے جس کے نزدیک غلط خبر صحافی کی موت اور غلط زبان صحافت کی موت تھی۔ وہ زبان کے استعمال اور الفاظ کے چناؤ میں انتہائی محتاط تھے۔ وہ جتنی توجہ خبر یا کالم کے مواد پر دیتے، اُس سے زیادہ دھیان درست زبان کا رکھتے۔ روزنامہ ’نئی بات‘ کا آغاز ہوا تو وہ اس کی ابتدائی ادارتی ٹیم میں ایک ذمہ دار حیثیت میں شامل تھے۔ یہاں بھی درست اطلاع ان کی پہلی ترجیح اور درست زبان دوسری ترجیح تھی۔ ان کی ذاتی زندگی ہر طرح کی خرابیوں سے پاک تھی۔ وہ ایک مہذب، ملنسار اور خوش گفتار شخص تھے، لیکن خشک مزاج کبھی نہیں رہے۔ ان کی گفتگو اور تحریر دونوں میں بزلہ سنجی کا رنگ موجود تھا۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے ایسے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کرتے کہ سننے والے کو معلومات کے ساتھ مزاح کا لطف بھی آجاتا۔ وہ ملکی سیاسی اور صحافتی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ واقعات انہیں پوری جزئیات کے ساتھ یاد تھے، جن کا وہ اپنی گفتگو اور کالم میں ذکر کرتے رہتے۔
میری ادریس بختیار کے ساتھ ذاتی شناسائی 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہوئی، اور اس کا حوالہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور تھا۔ وفاقی انجمنِ صحافیان کے ہر تین ماہ بعد ملک کے کسی شہر میں جو اجلاس ہوتے اُن میں ادریس صاحب کے ساتھ ملاقاتیں رہتیں۔ وہ کراچی کے صحافی دوستوں کے ساتھ آتے اور پھر سب میں گھل مل جاتے۔ دل کی جس بیماری نے آخرکار ان کا کام تمام کیا اس کا آغاز بھی پی ایف یو جے کے ایک اجلاس میں ہوا تھا۔ وہ میرپور آزاد کشمیر میں وفاقی انجمن صحافیان کے دو سالہ مندوبین کے اجلاس میں شریک تھے، اور حسبِ عادت دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں اور اجلاس میں اپنی سنجیدہ اور حساس گفتگو کے دوران چائے پر چائے اور سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے کہ انہیں سینے میں تکلیف محسوس ہوئی۔ یہ دراصل دل کا پہلا دورہ تھا۔ انہیں وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم مرحوم نے اپنے سرکاری ہیلی کاپٹر پر فوری طور پر میرپور سے راولپنڈی منتقل کرایا، جہاں چند دن کے علاج کے بعد انہیں کراچی جانے کی اجازت مل گئی۔ ڈاکٹروں نے سگریٹ، چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی، جبکہ چائے اور کافی کی مقدار کم کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن انہوں نے یہ پابندی شاید ایک دن کے لیے بھی قبول نہیں کی۔ اس کے بعد سے ان کا ہسپتال آنا جانا شروع ہوگیا۔ کئی آپریشن ہوئے، کئی بار دل کے بند والوزکو کھولنے کے لیے اسٹنٹ ڈالے گئے، مگر وہ ہسپتال سے نکلتے ہی سگریٹ کا استعمال شروع کردیتے تھے۔ دراصل وہ گفتگو کے دوران اور کچھ لکھتے ہوئے سگریٹ کے کش لگانے اور اس کی راکھ ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ جھاڑنے کے ایسے عادی ہوگئے تھے کہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ ان کی نیند پہلے ہی کم تھی، دواؤں کے استعمال اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ سے مزید متاثر ہوتی رہی۔ ادریس بختیار کی صحافتی زندگی کا بڑا وقت ملکی اور غیر ملکی دوروں میں گزرا، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ وہ بی بی سی لندن کی اردو سروس میں 1997ء سے 2007ء تک انتہائی متحرک انداز میں کام کرتے رہے۔ اس دوران وہ ٹیلی گراف لندن اور ٹریبیون کلکتہ کے لیے بھی لکھتے تھے۔ ان کی خبروں، تجزیوں اور کالموں میں ٹھوس انفارمیشن کے ساتھ ساتھ توازن اور اعتدال موجود ہوتا۔ وہ کسی خوف کے بغیر تنقید کرتے، مگر کسی کی پگڑی اچھالنے سے انکاری رہتے۔ ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور اعتدال نے انہیں مخالفین میں بھی قابلِ قبول بنادیا تھا۔ وہ ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں اس پر نہ صرف تنقید کرتے رہے بلکہ اس کے بارے میں ہلا دینے والی خبریں بھی دیتے رہے، لیکن جب ایم کیو ایم پر ابتلاکا دور آیا تو اس کا نقطہ نظر اور کیس بھی دیانت داری کے ساتھ پیش کرتے رہے۔
ان کی سنجیدگی، صحافتی مہارت اور وسیع حلقۂ تعلقات سے لگتا تھا کہ انہوں نے بچپن اور جوانی دیکھی ہی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایک بردبار شخص رہے تھے۔ میں نے ذاتی طور پر انہیں کبھی سیاہ بالوں کے ساتھ نہیں دیکھا۔ نہ اصلی سیاہ بالوں کے ساتھ اور نہ رنگے ہوئے بالوں کے ساتھ۔ وہ مجھے پہلے دن ہی سے سفید ریشم جیسے بالوں اور سفید باوقار مونچھوں کے ساتھ نظر آئے۔ وہ روزانہ شیو کرنے کے اس قدر عادی تھے کہ شیو کیے بغیرکمرے سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ رات گئے پی ایف یو جے کے اجلاس ختم ہوتے تو وہ دوستوں کے ساتھ شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتے اور کسی ڈھابے پر بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے سگریٹ کے دھویں کے مرغولے اڑاتے تھے۔ لاہور آتے تو خاکسار اور دوسرے دوستوں سے ملاقات کا وقت ضرور نکالتے۔ عام طور پر وہ کسی دورے پر لاہور آتے مگر ہمیشہ اپنا سامان ہوٹل چھوڑ کر اپنے چچا اور ممتاز صحافی انوار قمر کے گھر منتقل ہوجاتے۔ ایک بار وہ لاہور آئے تو میں اُس وقت لاہور لیڈز یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کا سربراہ تھا۔ میں نے صحافت کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ان کا ایک خصوصی لیکچر رکھا۔ وہ وقت پر تشریف لے آئے۔ مجھ سمیت دیگر مقررین نے تعارفی گفتگو انگریزی میں کی مگر ادریس بختیار نے اپنی بات اردو میں کی، مگر بہت جلد سب لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ وہ اردو ہی نہیں انگریزی بھی دوسرے لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ لاہور پریس کلب میں ہونے والی ایک تقریب میں بھی ان کی گفتگو یادگار ثابت ہوئی۔ ادریس بختیار کو ملکی سیاسی و معاشی مسائل کے ساتھ صحافتی مسائل کا بھی پورا ادراک تھا۔ وہ صحافت اور صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ سرگرداں رہے۔ وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر رہنے کے علاوہ وفاقی انجمنِ صحافیان کے دوبار سیکرٹری جنرل اور صدر منتخب ہوئے۔ صدر منتخب ہونے اور حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہی اجلاس میں انہوں نے خاکسار کو پی ایف یو جے کی الیکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا، اور اس معاملے میں ہمیشہ میری مدد اور معاونت کی۔ صحافی اتحاد کے لیے وہ اس قدر پُرجوش تھے کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر فاروق فیصل اور بعض دوسرے دوستوں کی تحریک پر ہونے والے پہلے ہی اجلاس میں انھوں نے بطور صدر پی ایف یو جے دستور اپنا استعفیٰ رہبر کمیٹی کے حوالے کردیا، لیکن بدقسمتی سے یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سال 13مئی کی رات میں 24 ویں تراویح پڑھ کر گھر لوٹا اور بقیہ نماز ادا کرکے جناب ادریس بختیار کی صحت یابی کے لیے دعا کرکے اٹھا ہی تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بج گئی۔ فون پر سینئر صحافی اور برادر بزرگ انوار قمر کا نام آرہا تھا۔ فوراً ہی دماغ میں سینکڑوں خدشات نے سر اٹھایا، لیکن میری امید نے ابھی دم نہیں توڑا تھا۔ فون اٹھایا تو خدشات حقیقت میں بدل چکے تھے۔ انوار قمر رندھی ہوئی آواز میں کہہ رہے تھے: میرا بھائی، میرا دوست، میرا بھتیجا ادریس بختیار اللہ کو پیارا ہوگیا۔ غم سے نڈھال سید انوار قمر نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ شام ساڑھے چھے بجے کی فلائٹ سے لاہور سے کراچی آئے تھے۔ انہوں نے ایئرپورٹ پر آئے عزیزوں سے اصرار کیا کہ انہیں ہسپتال لے جایا جائے، لیکن وہ انہیں گھر لے گئے، جہاں کا ماحول، اہلِ خانہ کے بجھے ہوئے چہرے اور آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو اصل صورتِ حال واضح کررہے تھے۔ میں نے انوار قمر بھائی کو تسلی دینے کی کوشش کی، مگر خود میری حالت بھی اُن جیسی ہی تھی… یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے کیسے ہوگیا! دوپہر کے وقت مرحوم ادریس بختیار کی کزن اور ہماری بھتیجی پروفیسر منزہ انوار سے فون نمبر لے کر میں نے ادریس بھائی کے ہونہار اور سعادت مند بیٹے ارسلان کو فون کیا تھا۔ انہوں نے دعا کی درخواست کی تھی، ڈاکٹروں کی رائے بھی بتائی تھی، لیکن ان کی گفتگو سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ 74 سال حالات کے تھپیڑوں سے نبرد آزما رہنے والا اور مشکلات کے سامنے حوصلے سے ڈٹا رہنے والا شخص چند گھنٹوں میں ہی دل کی بیماری کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔ پانچ دن پہلے تو میری ان سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، وہ پوری طرح چاق چوبند اور ذہنی طور پر مستعد محسوس ہورہے تھے، بلکہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کسی نئے کام کی تیاری کررہے ہیں، کیونکہ چند ہفتے قبل انہوں نے جیو ٹی وی چھوڑدیا تھا جہاں وہ ڈائریکٹر سنسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ میر شکیل الرحمٰن سے رابطے میں ہیں۔ رمضان اور تراویح کے باعث میں نے فون جلد بند کردیا، تاہم یہ فون بھی دس بارہ منٹ دورانیہ کا ضرور تھا۔ ورنہ ان سے فون پر آدھ پون گھنٹہ بات کرنا میرا کئی سال سے معمول تھا۔ انوار قمر صاحب نے بتایا کہ کراچی پریس کلب میں بیٹھے ہوئے ادریس بختیار کو دل کی تکلیف ہوئی۔ دوستوں اور اُن سے محبت و عقیدت رکھنے والے صحافی بھائیوں نے انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا۔ ڈاکٹروں نے اسی وقت انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کرکے انہیں سی سی یو میں منتقل کردیا۔ بھائی نصیر سلیمی کے مطابق اس دوران اُن کو دل کے دو دورے پڑے، جس کا گردوں پر بھی اثر ہوا۔ انہوں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزکے سی سی یو میں تین دن گزارے۔ اس دوران ان کے عزیزوں اور اہلِ خانہ کے علاوہ ملک بھر میں صحافی دوست ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتے رہے، لیکن شاید قدرت نے انہیں اگلی اور ابدی منزل پر رمضان کے متبرک دنوں اور نارِ جہنم سے نجات کے عشرے میں پہنچانے کا فیصلہ کرلیا تھا، چنانچہ جس خدشے کو میں تین دن سے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کررہا تھا وہ حقیقت بن کر سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ بے شک قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ایک ایسا بھرپور شخص جس کی ذاتی زندگی خرابیوں سے پاک تھی، پیشہ ورانہ زندگی دیانت، جرأت اور مہارت کا استعارہ رہی، جو حلقۂ یاراں میں ہمیشہ محترم، اور مخالفین کے حلقے میں ہمیشہ معتبر جانا گیا، اس کی موت ایک مہذب، شائستہ انسان، معتبر اور قابلِ تقلید صحافی ہی کی موت نہیں… صحافت کے ایک متحرک کردار کا خاتمہ اور اس پیشے کے ایک درخشندہ باب کے بند ہونے کا عنوان بھی ہے۔