تراجم قرآن اور اردو زبان

زیر نظر کتاب نہایت ہی خوب صورت، شگفتہ، شائستہ، عمدہ اسلوب میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ حافظ سراج الدین المؤقر کا ایم فل کا مقالہ ہے جو ڈاکٹر خالد ندیم صاحب کی زیر نگرانی تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کو لکھنے والا ایک بلند اخلاق اور دینی حدود کی پابندی کرنے والا ذی شان ہے۔ حافظ سراج الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
’’یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان کی نشوونما میں ہمارے بزرگ صوفیہ و علما کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ جب ہندوستان میں فارسی علمی، تہذیبی اور سرکاری زبان تھی تو اُس وقت علما نے برصغیر کی عام فہم ہندی زبان کو اپنایا اور اس کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھا۔ صوفیہ کے تذکروں میں ہمیں یہ بات صراحت سے ملتی ہے کہ انہوں نے عام بول چال کی ہندی زبان کو سیکھا اور یہی زبان بعد کو اردو کہلائی۔
قرآن کریم کے اردو تراجم خالص اردو زبان میں تو نہیں ملتے، مگر عربی و فارسی کے ملاپ سے چند سورتوں کے ترجمے دستیاب ہوئے ہیں۔ اردو زبان کا پہلا ترجمہ 883ھ میں راجا الور کی فرمائش پر لکھا گیا۔ اسی طرح 1087ھ میں قدیم اردو دکنی میں عبدالصمد کا ترجمہ و تفسیر ’’تفسیر وہابی‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا۔ 1719ء میں قاضی محمد سنبھلی نے عربی و فارسی زبان کے میل جول سے اردو زبان میں ترجمہ قرآن تصنیف کیا۔ شمالی ہند میں پہلا باقاعدہ اردو ترجمہ مع تفسیر کا نام ’’تفسیر مرادیہ‘‘ ہے، جسے شاہ مراد اللہ نے قرآن کے آخری پارے کا ترجمہ و تفسیر 1771ء میں مکمل کیا۔ تفسیر مرادیہ میں باغ و بہار کے اسلوب کا حسن، جملوں اور فقروں کی ہم آہنگی کا حسین امتزاج ہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں اردو زبان نہ صرف ادبی زبان بن کر سامنے آئی بلکہ ان تراجم کے باعث ایک عام فہم زبان کی صورت اختیار کرگئی۔ اس سے پہلے فقہی کتابوں کے تراجم تو ہورہے تھے، مگر قرآن کریم کے مکمل تراجم کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ شاید اس کی وجہ ذخیرۂ الفاظ کی کمی تھی۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ خاندان کے چشم و چراغ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے اردو ترجمہ قرآن کی روایت کا باقاعدہ آغاز کیا۔
اردو زبان کا پہلا لفظی ترجمہ شاہ رفیع الدین نے 1785ء میں کیا۔ یہ پہلا مکمل ترجمہ ذخیرۂ الفاظ کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لفظی ترجمہ ہونے کے باعث اس کی عبارت مربوط نہیں ہے۔ شاہ رفیع الدین کے بعد ان کے بھائی شاہ عبدالقادر نے 1790ء میں قرآن پاک کا ’’موضع قرآن‘‘ کے نام سے پہلا باقاعدہ ترجمہ کیا۔ سادہ، عام فہم اور مناسب و برمحل الفاظ کے چنائو نے ترجمے کو مقبول بنادیا ہے۔ جملے کی ساخت پر اردو زبان کا مزاج حاوی ہے۔ مترجم نے آسان اور سادہ الفاظ استعمال کیے ہیں، عبارت میں تسلسل اور ہم آہنگی ہے۔ مترجم نے عربی لفظ کے لیے موزوں اردو لفظ کا التزام کیا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی اردو تراجم کے لیے اہم ثابت ہوئی۔ اس عہد کا پہلا ترجمہ 1803ء میں فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر گل کرائسٹ کے حکم پر علما کی ایک کمیٹی نے کیا، لیکن یہ ترجمہ ابھی تک شائع نہ ہوسکا۔ اس صدی میں چند تراجم ہوئے، مگر کوئی خاص منظرعام پر نہ آسکا۔ غیر مطبوعہ تراجم کی تعداد تقریباً پچیس ملتی ہے۔ البتہ اس صدی کے آخر میں ڈپٹی نذیر احمد (1896ء) اور فتح محمد جالندھری (1900ء) کے تراجم منظرعام پر آئے۔ زبان و بیان کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس بامحاورہ ترجمے کی زبان شائستہ اور شگفتہ ہے۔ اردو نثر کا یہ پہلا بامحاورہ اور سلیس ترجمہ ہے۔ عیب صرف یہ ہے کہ محاوروں کا بے جا استعمال، جو ان کے ناولوں اور قصوں میں تو سما جاتا ہے، مگر قرآن پاک جیسی مقدس کتاب میں بری طرح کھٹکتا ہے۔ 1900ء میں مولانا فتح محمد جالندھری نے ’’فتح الحمید‘‘ کے نام سے امرتسر میں شائع کروایا۔ مولانا کا اسلوب نہایت سلیس، سادہ اور عام فہم ہے۔ عالمانہ اسلوب اور مشکل پسندی کے بجائے ہر بات کو سیدھے، بلاواسطہ اور بغیر ہیر پھیر کے بیان کیا ہے۔ ان کے ترجمۂ قرآن میں زبان کا حسن و روانی اور ادب کی چاشنی موجود ہے، کہیں پیچیدگی اور ابہام نہیں ہے۔
بیسویں صدی عیسوی اردو تراجم کے حوالے سے دورِ انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس صدی کے ابتدائی تراجم میں میرزا حیرت دہلوی (1901ء)، مولانا وحید الزمان (1905ء)، مولانا اشرف علی تھانوی (1906ء) اور امام احمد رضا خان (1911ء) کے معروف تراجم شامل ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ قرآن، بیسویں صدی عیسوی کا آسان اور بامحاورہ ترجمہ ہے۔ مترجم نے الفاظ کے لفظی اور لغوی معنی کا مفہوم واضح کیا ہے۔ زبان کی سطح پر ان کے ہاں رکھ رکھائو، سلیقے اور نفاست کا احساس ہے۔ مترجم نے ہندی الفاظ کا استعمال بہت کم کیا ہے۔ عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔ ان کے بعد احمد رضا خان بریلوی نے 1911ء میں ’’کنزالایمان‘‘ کے نام سے ترجمہ شائع کیا۔ کنزالایمان کی زبان صاف اور دھلی منجھی ہوئی ہے۔ لفظوں میں فصاحت و بلاغت ہے۔ روزمرہ کے الفاظ بازاری اور دیہاتی بولیوں سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ اردو کے خالص الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اردو جملہ، فارسی اور عربی جملے کی ساخت سے کافی حد تک آزاد ہے۔ مترجم نے آسان ہندی اور خطہ روہیل کھنڈ کی زبان استعمال کی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بہت سے تراجم منظرعام پر آئے، مگر جو مقبولیت ’’تفہیم القرآن‘ کو حاصل ہوئی، وہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا مودودی نے یہ ترجمہ 1972ء میں مکمل کیا۔ مولانا نے سادہ زبان استعمال کرکے عبارت کو ایجاز و اختصار کی خوبی سے نوازا ہے۔ مولانا مودودی پہلے مترجم ہیں، جنہوں نے لفظی ترجمے کے بجائے آزاد ترجمانی کا آغاز کیا۔ اس دور کے نمائندہ مترجمین میں پیر محمد کرم شاہ الازہری نے ’’جمال القرآن‘‘ کے نام سے اردو ترجمہ قرآن متعارف کروایا۔ الفاظ کے برمحل استعمال نے ترجمۂ قرآن کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ترجمے کو بامحاورہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے جتنے بھی تراجم ہوئے ہیں، وہ یا تو لفظی تھے یا بامحاورہ۔ لیکن پیر محمد کرم شاہ نے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کرکے قرآنی تراجم کی نئی روایت قائم کی۔ جمال القرآن کے بعد بہت سے تراجم منظرعام پر آئے، مگر اکیسویں صدی عیسوی میں ’’عرفان القرآن‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ’’عرفان القرآن‘‘ کو 2010ء میں شائع کروایا۔ طاہر القادری نے سیاسی و تہذیبی حالات و واقعات کے تغیر و تبدل سے اردو زبان میں ہونے والی تبدیلی اور ارتقا کے پیش نظر ایسا اسلوب اپنایا ہے جو سائنسی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور لسانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے، جسے ہم اردو کا سائنسی اسلوب کہہ سکتے ہیں۔ اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی سائنسی اصطلاحات ہیں۔
شاہ برادران کے تراجم سے لے کر عرفان القرآن تک جتنے بھی معروف اور نمائندہ تراجم منظرعام پر آئے، زبان و بیان کے حوالے سے انہیں اردو زبان و ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ الفاظ کا ارتقائی سفر ان تراجم میں واضح نظر آتا ہے۔ راقم نے ان تمام تراجم کے مترجمین کے حالاتِ زندگی اور تراجم کا اسلوبیاتی و لسانی جائزہ پیش کیا ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ اردو زبان کے فروغ میں ان مترجمین کا کیا کردار رہا ہے۔
اس نیک کاوش کی تکمیل اور مواد کی فراہمی میں استاد محترم ڈاکٹر خالد ندیم (صدر شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سرگودھا) کی عدیم المثال رہنمائی حاصل رہی۔ نیکی کے اس کام میں میرا کوئی کمال نہیں ہے، بلکہ اس مقالے کی ہر خوبی کا باعث صرف انہی کی ذات ہے۔ ان کے بے مثال تعاون پر اظہارِ تشکر کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔ آمین!‘‘
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول: اردو زبان کا ارتقا (ابتدا سے 1857ء تک اردو تراجم قرآن)۔
فصل اول: ’’اردو ترجمہ قرآن‘‘ ازشاہ رفیع الدینؒ، فصل دوم: ’’موضح القرآن‘‘ ازشاہ عبدالقادرؒ
باب دوم: ’’اردو زبان کا ارتقا (1857ء سے 1947ء تک اردو تراجم قرآن)‘‘۔
فصل اول: ’’ترجمۂ قرآن‘‘ ازڈپٹی نذیر احمد دہلویؒ، فصل دوم: ’’فتح الحمید‘‘ از مولانا فتح محمد جالندھریؒ، فصل سوم: ’’بیان القرآن‘‘ از مولانا اشرف علی تھانویؒ، فصل چہارم: ’’کنزالایمان‘‘ ازمولانا احمدرضا خان بریلویؒ
باب سوم: اردو زبان کا ارتقا (1947ء سے تاحال اردو تراجم قرآن)۔
فصل اول: ’’ترجمۂ قرآن‘‘ ازسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، فصل دوم: ’’جمال القرآن‘‘از پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ، فصل سوم: ’’عرفان القرآن‘‘ از ڈاکٹر محمد طاہر القادری حفظہ اللہ
باب چہارم: ’’اردو زبان کا ارتقا: تراجم کے حوالے سے‘‘
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے، سادہ مگر حسین رنگین سرورق سے مزین ہے۔ اردو کی لائبریری میں وقیع اضافہ ہے۔