سچی بات تو یہ ہے کہ میں یہاں جو کہنا چاہتا تھا وہ سرور جاوید نے کہہ دیا، لکھتے ہیں: ’’ضیاء شہزاد ایک شریف آدمی کی طرح عروسِ سخن کو سنوارنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور لکھے چلے جارہے ہیں، ان کی شاعری حصولِ شہرت کے لیے محض کتھارسس کا ذریعہ ہے، اور غور کریں تو کتھارسس کا عمل ہی اچھی شاعری کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔ سو، ضیاء شہزاد کاروانِ شعر کے اہم رکن ہیں اور کراچی کے قابلِ ذکر شاعروں میں شامل ہیں۔ وہ میرؔ نہیں، غالبؔ نہیں، فیضؔ نہیں ہیں، نہ وہ ناصر کاظمی ہیں، مگر وہ اپنے قد و قامت کے ساتھ ضیاء شہزاد ہیں‘‘۔
بقول استاذی پروفیسر خیال آفاقی: ’’ضیاء شہزاد کا انداز آبرومندانہ ہے، ان کے ہاں محبوب کی ذات و شخصیت کا تصور روایتی ہے، اور وہ اس کے سراپا کی پیشکش میں بھی روایت سے ہٹتے نظر نہیں آتے۔ ان کے لب و لہجے میں ایک مہذبانہ اور شریفانہ تاثر انہیں واضح طور پر اپنے پیش روئوں سے قدرے جدا اور ممتاز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ضیاء شہزاد نے اپنی غزل گوئی کو جہاں لب و رخسار کے مصنوعی ماحول سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے، وہیں زندگی اور زمینی حقائق کا گہرا ادراک بھی ان کی غزلوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں جو افراتفری اور واضح طور پر رشتوں کے درمیان ٹوٹ پھوٹ پائی جاتی ہے شہزاد اس المیے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں۔
ایک پل میں لوگ سارے منتشر ہونے لگے
یہ ہوا کیسی چلی کہ شہر سُونا ہو گیا
محمود شام کی گواہی بھی بہت معتبر ہے: ’’ضیاء شہزاد بہت سینئر صحافی ہیں، مدیر ہیں، ایک عرصے سے انہیں اخبار، رسالے کامیابی سے نکالتے اور چلاتے دیکھ رہا ہوں۔ بڑے صحافیوں کی طرح وہ کسی اسکینڈل میں ملوث ہوئے، نہ کسی مخصوص لابی سے وابستہ ہوئے۔ خاص پیشہ ورانہ انداز میں اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ اب جو میں ان کے اشعار پڑھنے لگا تو گویا حیرتوں کے در کھلتے گئے۔ وہ یقیناً اُن شاعروں میں سے ہیں جو دل کی آواز پر لکھتے ہیں، مشاعروں کے لیے قلم نہیں اٹھاتے، نہ کسی گروپ کا حصہ بنتے ہیں۔ تحریریں زندہ رکھتی ہیں اور وہ بھی خالصتاً ادبی تحریریں۔ شاعری، کہانیاں، ادبی تنقید، صحافتی تحریریں وقت کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے محو ہوتی رہتی ہیں، ان کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ دیکھیں کیا زندہ شعر کہا ہے:۔
شام ہوتے ہی کسی کرب میں پھرتے رہنا
لطف آتا ہے بڑا دیر سے گھر جانے میں
۔’’ہجر کا تماشا‘‘ جہاں قلبی شعری کیفیات کا اظہار ہے، وہاں گزرے حالات کا روزنامچہ بھی ہے۔ بقلم خود رقم طراز ہیں: ’’بہرحال میں اپنے بہت ہی کرم فرما اور محترم نکہت بریلوی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کسی منافقت سے کام لیے بغیر کم و بیش اپنے آستانے کے دس چکر لگوانے کے بعد مجھ پر انکشاف کیا کہ میری شاعری ’’کچے مصرعوں‘‘ پر مشتمل ہے، جب تک ان سے اصلاح نہ لوں وہ کسی تبصرے سے معذرت خواہ ہیں، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ مجھ جیسے شعری رموز و اسرار سے نابلد پر کوئی تبصرہ کرکے اپنے نام اور شعری و ادبی ساکھ کو متاثر و آلودہ کریں۔ ان کی اس صاف گوئی کے بعد میری نظروں میں ان کی عزت و توقیر اور بھی بڑھ گئی، اور اس کے ساتھ ہی میرے مرحوم دوست مسعود عظیم کی یاد تازہ ہوگئی جو اپنے کلام سے نکہت بریلوی کو زندہ جاوید کرگئے:۔
سوچا ہے اب کنارا کروں زندگی سے میں
باز آئوں دوستی سے تری، دشمنی سے میں
کیا دور آگیا ہے، فضا میں رچا ہے خوف!۔
ہوں آدمی کہ ڈرتا ہوں اب آدمی سے میں‘‘
ضیاء شہزاد ایک شریف اور نفیس انسان ہیں، آپ سے مل کر یہ احساس پختہ ہوجاتا ہے کہ ابھی
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
وہ شگفتہ لہجے میں احوالِ دل کے ساتھ غمِ دوراں بھی بیان کردیتے ہیں:۔
زندگی کا ہر ورق سادہ تھا، اب
گردشِ حالات کی تحریر ہے
۔192 صفحات پر محیط ’’ہجر کا تماشا‘‘ آفسٹ پیپر پر عمدہ طباعت کی حامل ہے۔ سرورق فیروز ناطق خسرو کے آرٹ کا اظہار ہے۔ قیمت مناسب ہے۔ اندازِ سخن کے لیے ایک غزل دیکھیے: