ایک معصوم بچے کی گواہی

ابوسعدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ایک کافر عورت بچہ اٹھائے بغرضِ آزمائش اور امتحان حاضر ہوئی۔ اللہ کی شان دیکھیں اس دو ماہ کے دودھ پیتے بچے نے کہا:
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السلام علیکم! ہم آپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہیں‘‘۔
ماں کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا اور غصے سے کہنے لگی ’’خبردار خاموش! یہ گواہی تیرے کان میں کس نے سکھادی؟‘‘
بچے نے کہا ’’اے میری ماں! تُو اپنے سر کے اوپر تو دیکھ، تیرے سر کے اوپر جبرائیلؑ کھڑے ہوئے ہیں۔ مثل کامل بدر کے وہ مجھے نظر آرہے ہیں، وہ فرشتہ مجھے وصف ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکھا رہا ہے اور کفر و شرک کے ناپاک علوم سے خلاصی و رہائی دلارہا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے دودھ پیتے بچے یہ بتاکہ تیرا نام کیا ہے؟‘‘بچے نے کہا ’’میرا نام حق تعالیٰ کے نزدیک عبدالعزیز ہے، مگر ان مشرکوں نے میرا نام عبدالعزیٰ رکھا ہے۔ اس پاک ذات کے صدقے جس نے آپؐ کو پیغمبری بخشی میں اس عزیٰ بت سے پاک اور بیزار اور بری ہوں‘‘۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کے صدقے جنت سے اُسی وقت ایسی خوشبو آئی جس نے بچے اور اس کی ماں کے دماغ کو معطر کردیا۔

آں کسے را خود خدا حافظ بود
مرغ و ماہی مرو را حارس شود

’’جس شخص کا خدا خود نگہبان ہو اس کا تحفظ مرغ و ماہی بھی کرتے ہیں‘‘۔
بچے کے ساتھ ماں بھی ایمان و اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئی۔ اس نے اسی وقت کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگئی۔
درسِ حیات: نیک لوگوں کی قربت سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔
۔(” حکایاتِ رومیؒ“۔۔۔ مولانا جلال الدین رومیؒ)۔

میر عثمان علی خان نظام دکن

نواب میر عثمان علی خان نظام دکن بھی کہلاتے ہیں، ہندوستان کی سب سے بڑی اسلامی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں اور آخری حکمران تھے۔ وہ اپریل 1886ء میں پیدا ہوئے اور 1911ء میں تخت نشینی ہوئی۔ وہ اس ریاست کو بغداد اور قرطبہ کا ہم پلہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کے عہد میں اردو یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ وجود میں آئی۔ علامہ اقبال کو بھی نظام دکن اور اُن کی ریاست سے گہری دلچسپی تھی۔ خطباتِ مدراس کے زمانے میں حیدرآباد آئے تو نظام کے مہمان ہوئے۔ نظام دکن نے اپنی زندگی کے آخری ایام ایک عام شہری کی حیثیت سے بسر کیے اور طویل علالت کے بعد 21 جنوری 1967ء کو انتقال کیا۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

ساٹھ گاؤں بکری چر گئی

کوئی ناممکن بات یا حیرت انگیز واقعے کا رونما ہونا۔ اس کہاوت کا استعمال اُس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی ناقابلِ یقین بات کو منوانے کی کوشش کرے۔ اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ایک حکایت ہے جو اس طرح بیان کی جاتی ہے:
کسی جنگل میں ایک غریب چرواہا رہتا تھا۔ اس ملک کا بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ جنگل کی سیر کو نکلا۔ گھومتے گھومتے رات ہوگئی تو وہ اسی چرواہے کی کٹیا میں ٹھیر گیا۔ چرواہے نے بادشاہ اور اس کے وزیر کی بہت خدمت کی۔ حسب ِ حیثیت خاطرداری اور تواضع کی۔ چلتے وقت بادشاہ نے خوش ہوکر ایک پتّے پر فرمان لکھ کر اسے ساٹھ گائوں کی سرداری عطا کردی اور اس سے کہہ دیا کہ اسے لے کر کل دربار میں آجانا۔ بادشاہ کے جانے کے بعد اس غریب چرواہے نے پتّے کو کہیں رکھ دیا جسے اس کی بکری کھا گئی۔ بے چارہ بہت فکرمند ہوا۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ افسوس، ساٹھ گائوں بکری چرگئی۔ وہ پھر بھی بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور اپنے دکھ بھرے قصے کو رو رو کر سنایا۔
بادشاہ نے ہنس کر کہا: ’’جب ساٹھ گائوں بکری چرگئی تو اب کیا کیا جائے! جو تمہارے مقدر میں تھا وہ ہوا۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں!‘‘
بعض لوگوں کے مطابق بادشاہ نے اس غریب چرواہے سے کہا: ’’اس میں فکرمند ہونے کی کیا بات ہے، میں دوسرا فرمان لکھوا کر تم کو عطا کردوں گا، جائو عیش کرو عیش۔“
۔(ماہنامہ چشم ِ بیدار۔ نومبر 2019ء)۔