قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
آپؐ نے فرمایا ’’تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور جو اس رات کی بڑائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا‘‘۔ (مسند احمد و نسائی)۔
قرآن کریم نے سورہ القدر میں ایک ایسی رات کا ذکر کیا ہے جو انتہائی قدرت اور قوت والی ہے اور جسے لیلتہ القدر کا خطاب دیا گیا ہے۔
یہ وہی ہے جس کے بارے میں قرآن پاک میں سورہ القدر میں یہ فرمایا گیا:۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾۔
پہلی بات یہ فرمائی گئی إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ یہاں پرأَنزَلْنَاهُ کی ضمیر کا قرآن پاک کی طرف اشارہ ہے کہ اسے قدرت والی رات میں نازل کیا گیا۔ ہم جب اس آیت کو پڑھتے ہیں تو ذہن یہ سوال کرتا ہے کہ آخر یہ رات کیوں اتنی قوت والی ہے، کیوں اتنی عظیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کا نزول اس رات میں ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے جس نے اقوام عالم کی تقدیر بدل دی۔ تاریخ کے رخ کو تبدیل کردیا۔ ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ایک روایتِ علم کو، ایک ثقافتِ علم کو، ایک ایسے تصورِ حیات کو جو انسان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذریعہ نجات ہے، متعارف کرایا۔ یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس کو ایک انتہائی قوت والی رات ہی برداشت کرسکتی تھی۔
اسی آیتِ مبارکہ میں یہ بات بھی بیان کردی گئی کہ قرآن کریم اس لیلتہ القدر میں نازل ہوا جو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات تھی۔ اگر تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دیگر مذاہب کی کتبِ مقدسہ کے بارے میں ان مذاہب کے ماہرین یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کتب واقعتاً کب نازل ہوئیں، صرف قرآن کریم خود شہادت دیتا ہے کہ یہ لیلتہ القدر میں یعنی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک میں نازل ہوا، اور یہ قرآن کی عظمت اور منفرد ہونے کا ایک اہم پہلو ہے۔
اگلی آیت میں یہ بات فرمائی گئی کہ یہ وہ رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ اگر ان ہزار مہینوں کو حساب کتاب لگا کر دیکھا جائے تو یہ چند سال اور چند ماہ میں تبدیل ہوسکتے ہیں، لیکن کیا اس سے مراد فی الواقع صرف یہ مدت ہے، یا اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس ایک رات میں عبادت کرے تو یہ 80 سال عبادت کرنے کے برابر ہے۔ اس لیے وہ اب 80 سال تک عبادت ہی نہ کرے؟ یا اس سے مراد اس رات کی اہمیت کو سمجھانا ہے، اس کی عظمت اور اس کی وسعت کی طرف اشارہ کرنا ہے اور اس کی اثر انگیزی کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن پاک نے اس ایک رات کی عبادت کو ایسے قرار دیا ہے جیسے کہ ایک ہزار راتوں تک مسلسل عبادت کی گئی ہو۔ یہاں پر سال اور مہینے کے لحاظ سے حساب کتاب لگاکر ناپنا اور تولنا آیت کا مدعا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اہمیت کو واضح کیا جائے، اور یہ بات سمجھائی جائے کہ اگر ہم ہزار سال عبادت کریں، جب بھی اس ایک رات کی عبادت کے برابر اجر حاصل نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس رات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ملائک اترتے ہیں، اور یہی وہ رات ہے کہ جس میں حضرت جبرئیلؑ کا نزول بھی ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس رات میں ملائک کو حکم دیتے ہیں کہ جائو اور دیکھو میرے کون سے بندے ایسے ہیں جو مجھے یاد کررہے ہیں، گریہ و زاری کررہے ہیں، سجدے میں پڑے ہوئے ہیں، رکوع میں ہیں، قیام میں ہیں، جن کے پہلو بستروں سے الگ ہیں، جو اپنے رب کو تنہائی میں گریہ و زاری کے ساتھ یاد کررہے ہیں۔ ان پر رقتِ قلب طاری ہے، اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کررہے ہیں، درخواست کررہے ہیں کہ ان کا رب ان کو صحیح راہ دکھا دے، ہدایت پر رکھے۔ جب فرشتے ان کے بارے میں آکر اطلاع دیتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کو اپنے رحم و کرم سے معاف فرما دیتے ہیں۔
اس رات کی عظمت کا ایک سبب یہ ہے کہ اس رات اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفاتِ رحم، کرم، عفو و درگزر اور مغفرت جوش میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ان سب بندوں کو جو اس رات میں اس کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں اپنی بے پناہ محبت و رحمت سے معاف فرما دیتا ہے۔
اگلی آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے یعنی تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ اس کے بارے میں مفسرین نے دو پہلوئوں کی طرف متوجہ کیا ہے، ایک تو یہ کہ یہ وہ موقع ہے کہ اس میں جبرئیلؑ امین آتے ہیں، دوسری رائے یہ پائی جاتی ہے کہ روح سے خود مراد قرآن پاک کا نزولِ ہے۔ اسی نوعیت کا مضمون سورہ النحل میں آتا ہے۔ مفسرین کی رائے ہے کہ سورہ النحل میں بالروح سے مراد حضرت جبرئیلؑ نہیں ہیں بلکہ قرآن ہے، اس لیے القدر میں بھی ’’والروح‘‘ کے دونوں مفہوم لیے جاسکتے ہیں۔ ان دونوں مقامات اور آراء میں کوئی تضاد نہیں۔ يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ(النحل2:16) ’’وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے‘‘، جو بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ وہ رات ہے جس میں حضرت جبرئیلؑ قرآن پاک لے کر آئے اور جس میں یہ قرآن خود نازل ہوا۔
یہاں یہ لیلتہ القدر کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تعین نہیں فرما دیا، یعنی کیا وجہ ہے کہ یہ بات نہیں کہی گئی کہ یہ اکیسویں رات ہے، تیئسویں ہے، پچیسویں یا ستائیسویں رات ہے، یا انتیسویں رات ہے۔ اسے غیر متعین کیوں چھوڑ دیا گیا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ عقل یہ کہتی ہے کہ اگر قرآن پاک کے نزول کو حدیث شریف میں کسی ایک رات کے حوالے سے متعین کردیا جاتا تو شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوتا جو اس رات کو عبادت نہ کرتا۔ اور بقیہ طاق راتوں کو غیر اہم سمجھتے ہوئے عبادت کا مستحق نہ سمجھتا۔ لیکن اگر وہ رات اکیس سے انتیس رات میں سے کوئی بھی طاق رات ہوسکتی ہو تو ایک شخص چاہے گا کہ ہر طاق رات میں عبادت کرے، اور اس طرح محض ایک طاق رات کی جگہ اسے پانچ راتوں میں عبادت کرنے کی توفیق ہوجائے گی۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کا تعین نہ ہونا امتِ مسلمہ کے فائدے کے لیے ہے تاکہ ارحم الراحمین محض ایک رات میں نہیں بلکہ پانچ راتوں میں اپنے بندوں کی دعائوں کو سنے اور ان کی مغفرت کرسکے۔
ایک حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلتہ القدر کے بارے میں مطلع فرمانے کے بعد آپ کی یاد سے محو کردیا۔ غالباً اسی بنا پر اسے بھلادیا گیا کہ ہر طاق رات میں عبادت کی تحریک ہوسکے۔
قرآن کریم کی عظمت اور اس مناسبت سے اس رات کو قوت اور قدرت والی رات کہنے کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام سے پہلے جو شریعتیں آئیں وہ ان اقوام تک محدود رہیں جن پر وہ نازل کی گئی تھیں۔ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے نازل کیا گیا، چاہے وہ گورے ہوں یا کالے، امیر ہوں یا غریب، مرد ہوں یا عورتیں، بچے ہوں یا جوان۔۔۔ ہر ہر فرد کے لیےقرآن کریم پیغام ہدایت اور راہِ نجات بن کر آیا۔ یہ خود ایک اتنا عظیم واقعہ ہے جو قرآن کریم کی عظمت کو، اس پیغام کی وسعت اور پاکیزگی کو بتانے کے لیے اپنی مثال آپ ہے، اور اس بنا پر جس رات اس کا نزول ہوا اسے لیلتہ القدر ہونا ہی چاہیے تھا۔
یہ وہ رات ہے جس میں گھر کے سب افراد شامل ہوکر عبادت کرتے ہیں۔ مساجد میں قیام اللیل کیا جاتا ہے، نوافل اور قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔ خواتین اور بچے عموماً گھر میں نوافل کا اہتمام کرتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں کہ کس نے زیادہ نفل پڑھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھے کاموں میں مقابلہ بہت پسندیدہ عمل ہے، لیکن اس رات عبادت میں اہم چیز تعداد نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو اللہ کے حضور کھڑے ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ خشیت ہے جس کا ذکر سورۃ المومنون میں کیا گیا ہے کہ فلاح پانے والے مومنین وہ ہیں کہ جن کی نمازیں خشیت سے بھری ہوتی ہیں (المومنون1۔2)۔ اس لیے اس چیز سے بے پروا ہوکر کہ کسی نے تعداد کے لحاظ سے پچاس رکعتیں پڑھی ہیں یا سو، اصل فکر یہ کرنی چاہیے کہ جو نماز ہو اس میں اللہ کا خوف اور محبت ہو، اس کے سامنے گریہ و زاری ہو، التجا ہو، مغفرت کی دعا ہو تاکہ وہ اپنی رحمت سے ماضی کے سب گناہ معاف فرمادے۔
اس عظیم رات کے بارے میں قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ غروبِ آفتاب سے اگلے دن مطلع فجر تک یہ رات اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بھری ہوتی ہے، یہ تلاش کرنے والے کی طلب پر ہے کہ وہ کیا کچھ طلب کرتا ہے، جبکہ دینے والا ہر ہر خواہش اور درخواست کو قبولیت بخشنے پر تیار ہو، ہر دعا کو سننے اور قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ جس نے اس رات کا ایک حصہ بھی پالیا اس نے بہت کچھ پالیا، اور جو تمام رات رب کے حضور گریہ وزاری کرتا رہا اس کی ہر دعا کی قبولیت کا وعدہ کرلیا گیا ہے۔
۔(روزہ اور ہماری زندگی)۔