حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبے و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:
٭ ایک طرف باطل کے اصلی علَم بردار ہوتے ہیں، جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔
٭ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا [بھی] ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے، جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلے میں اقامت ِ حق کی سعی کو غیر واجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کررہا ہے، کسی نہ کسی طرح درست ثابت کردے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسرِ باطل ثابت کرکے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے، جو اُن کی دعوتِ اقامتِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔
٭ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں، جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخرکار اُسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے، جس کا پلّہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔
اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:
٭ پہلا گروہ کہتا ہے کہ: حق ہمارے ساتھ تھا، نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے۔
٭ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ: دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔
٭ تیسرا گروہ فیصلہ کردیتا ہے کہ: حق وہی ہے جو غالب رہا۔
اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہائے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔
پس یہ بڑی معنی خیز دُعا تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ:
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔
یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب ِخیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن)
بیادِ مجلس اقبال
جہاں دانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
یہ شعر اس پس منظر میں لکھا گیا ہے کہ گزشتہ صدی میں مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جس کا مرکز ترکی تھا تو علامہ مسلمانوں کو اپنی ترقی کے نئے دور کے لیے تیار کرتے ہوئے رہنمائی دیتے ہیں کہ عالمی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور غور کرو کہ دشمن نے کیسی کیسی چالیں اختیار کرکے مسلمانوں کو خلافت سے محروم کردیا۔ وہ کہتے ہیںکہ انسان اپنے دور کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھیں اور پوری جفا کشی اور محنت سے اپنا مستقبل تخلیق کریں کہ جب جدوجہد میں خونِ جگر صرف ہو تب آنکھوں میں بصارت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اور انسان اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔