خدا، کائنات، انسان اور اسلام کا تصور توحید

اسلام اور مشرق بعید کے فکری تعلق پر ،تائو آف اسلام، کی مصنفہ جاپانی نژاد غیر مسلم اسکالر کا تحقیقی مضمون

پروفیسر سچیکو مراتا۔ترجمہ:ناصر فاروق

پروفیسرسچیکو مراتا جاپانی نژاد ہیں، مذہب اور ایشیائی مطالعات ان کی مہارت ہے۔ وہ پہلی غیر مسلم محقق خاتون ہیں، جنھوں نے اسلامی فقہ پرایران سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامی اور مشرق بعید کے فکری تعلق پر اُن کی تحقیق بے مثل ہے۔ زیرنظرمضمون اُن کی کتاب Tao of Islamکالب لباب ہے۔ یہ تحقیقی مضمون کتاب کی اشاعت سے پہلے لکھا گیا، اس کا مرکزی خیال اسلامی علم کونیات میں دو قطبی نظام کی تشریح ہے، جسے چینی علم کونیات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اسلام میں مرد اور عورت کے تعلق کی وضاحت مابعدالطبیعاتی نظریۂ ثنویت پر کی ہے۔ گو کہ اس کا ذکر اس مضمون میں نہیں کیا گیا ہے، یہاں اس کا ذکر اس افادیت کے پیش نظرکیا جارہا ہے کہ جوقارئین کتاب کا مطالعہ نہ کرسکیں، وہ اس تحقیقی مضمون سے ہی زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں، اور آفرینش سے لمحۂ موجود تک اسلامی تصورِ ثنویت کے تناظر میں مسلمان مرد اور مسلمان عورت کے تعلق کی ’حقیقت‘ تک رسائی پاسکیں، جو ایک ہی جنس کا جوڑا ہے، اورمنفرد صفات و خصوصیات کا حامل ہے، یوں مختلف ذمے داریوں اور حقوق سے متمتع کیا گیا ہے، اور اپنی اپنی جسمانی وروحانی جہت میں منفرد اور مختلف بھی ہے، اورہم آہنگ بھی ہے، دونوں بتدریج موضوعی اور معروضی کردار یکساں طور پر ادا کرتے ہیں۔(مترجم)۔

چینی علم کونیات(Cosmology) yinاور yang کی اصطلاحوں میں کائنات کی وضاحت کرتا ہے، اسے وجود یا ہستی کے تخلیقی اور خلق شدہ یا مذکر مؤنث کے اصولوں پر سمجھا جاسکتا ہے، کسی کے لیے تعلق کی اس نوعیت سے فرار ممکن نہیں۔ تائی چی (Tai Chi)کی مشہور علامت The Great Ultimate یا Tao، ین اور یانگ کو مسلسل خلق مُدام (ہمہ وقت تخلیق) کی صورت میں ظاہرکرتا ہے۔ ین اپنے اندر یانگ کی بھرپور قوت رکھتا ہے، اور یانگ ین کی بھرپور طاقت کا حامل ہے۔ یہ جدا صفات کے باجود ہم آہنگ ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ جب یہ دونوں حرکت کرتے ہیں، اپنی قدیم اور خالص حالت میں آجاتے ہیں اور بھرپور قوت ظاہرکرتے ہیں۔ یانگ ین بن جاتا ہے اور ین یانگ کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ خلق مُدام یا ’’i‘‘ ایک ایسا عمل ہے جس میں کائنات اور زمین، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ہر لمحہ تخلیقِ نو سے گزرتا ہے۔ جب سورج نکلتا ہے اور چاند ڈھلتا ہے۔ جب بہار آتی ہے اور جاڑا جاتا ہے۔ ین اور یانگ اس مسلسل تبدیلی کے اصول اور تخلیق کی علامتیں ہیں۔ کنفیوشس کے الفاظ میں: ’’بہتے دریا کی مانند، دن رات یہ کائنات مسلسل تخلیقی بہاؤ میں ہے‘‘۔ ’’وجود ‘‘ کا مطلب، Taoکی بنیاد پر قائم، اک متواتر ہم آہنگ تغیر ہے۔ اگر ین اور یانگ کی یہ ہم آہنگی باقی نہ رہے تو کائنات میں تخلیق کا بہاؤ رُک جائے، اورہر شے کا وجود مٹ جائے۔ مذہب کے اکثر طالب علم چینی علم کونیات کے ان بنیادی تصورات سے واقف ہیں۔ I Ching(چینیوں کی الہامی کتاب) کی مقبولیت ، اور ین یانگ کی ہر جگہ موجودگی کی علامت، اور چینی فکرمیں ان کی کامل ہم آہنگی بطور اصول ِ’’وجود ‘‘ بنیادی تعلیم ہے۔
جبکہ اسلامی علم کونیات (Cosmology) مغرب میں عملاً نامعلوم ہے۔ اس مضمون میں یہ کوشش کروں گی کہ اسلامی علم کائنات، علم سماویات، یا علم العالم کی وہ تصویر پیش کروں، جسے مسلم علماء اور ماہرین نے متصور کیا ہے، اور جس پراپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ اس کے لیے میں علم کونیات پرچند عظیم نظریہ سازوں سے مدد حاصل کروں گی۔ تیرہویں صدی کے ابن عربی، ابوبکر عبداللہ نجم الدین رازی، اور عزیزالدین نسفی اہم نام ہیں۔ ان حضرات کا نظریہ علم کائنات قرآن اور احادیث کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس تحقیق میں شاید سب سے عجیب بات یہ ہے کہ میں اسلامی نظریہ کائنات کا جائزہ چینی فکر کے نکتہ نظر سے لے رہی ہوں، جیسا کہ ابتدائی طورپر I Ching(چینیوں کی الہامی کتاب) میں پایا جاتا ہے۔
اسلامی علم کونیات کی بنیاد حقیقت کے دو قطبی تصور پر مبنی ہے۔ اگر ہم ان دونوں قطبین کو yin اورyang پکاریں، تو یہ نامناسب نہ ہوگا، جیسا کہ میں آگے محقق کروں گی۔ تاہم اسلامی علم کونیات، دیگر اسلامی تعلیمات کی طرح خاص تصور ’’خدا‘‘ پر استوار ہے۔ اس طرح اسلامی علم کائنات کی بنیادوں پر فکر و نظر کے لیے الٰہیاتی تصورات کا جائزہ لینا ہوگا۔ جس طرح yin اورyang تصور تائی چی کے اندر ہم آہنگ پائے جاتے ہیں، جس طرح کہ اسلامی علم کونیات میں دو قطبین الٰہیاتی ’’حقیقت‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ اسے خالق اور کائنات میں تعلق کی صورت میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی اصطلاحوں میں العالم (cosmos)سے مراد ’’ماسوائے خدا ہر شے‘‘ ہے، یوں یہ اصطلاح زمان ومکاں سے ماوراء ہے۔ خدا کے ماسوائے خدا ، ہر شے سے تعلق پردو بنیادی نکتہ نظر بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک نکتہ نظرکہتا ہے کہ خدا عالم سے لامتناہی طورپر ماوراء ہے۔ اس کے لیے یہاں الٰہیاتی اصطلاح ’’تنذیہہ‘‘ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ’’یہ اعلان کرنا کہ خدا لاثانی‘‘ہے، ہر شے سے ماوراء ہے۔ یعنی خدا مکمل طور پر مخلوق کی رسائی سے باہر ہے، انسانی فہم کے دائرے سے باہر ہے۔ یہ نکتہ نظر مکتبہ ’’علم کلام‘‘ کا قدیم مؤقف ہے۔ اس نکتہ نظرکی وضاحت میں قرآن کی کئی آیات پیش کی جاتی ہیں، جیسے’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنارہے ہیں‘‘(37: 180) یا، زیادہ آسان الفاظ میں’’کائنات کی کوئی چیز اُس کے مشابہ نہیں‘‘(42:11)۔ اس طرح خدا ایک ایسی حقیقت کے طور پر سامنے آتا ہے، جو انسانی فکر اور دلچسپی کے دائرے سے باہر ہے، لا تعلق ہے، غیر متعلق ہے۔ یہ ایک امتناعی الٰہیات کا ’’خدا‘‘ ہے۔ علم کلام کے مبلغین کا اپنے مؤقف پر بھرپور اصرار ہے، تاہم وہ مسلمان اکثریت پر بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکے ہیں۔
اب دوسرے نکتہ نظرکا جائزہ لیتے ہیں، جس کی تائید قرآن کی بہت سی آیات کرتی ہیں۔ یہ مقبول اسلام اور روحانی روایت پرستوں کا مؤقف ہے۔ شیخ الاکبرابن عربی کہتے ہیں کہ قرآن، نبی، اور روحانی ہستیوں کا خدا ہی اسلام کا وہ ’’خدا‘‘ ہے، جو مخلوق کوسب سے بڑھ کر محبوب ہوتا ہے، اور جو مخلوق کو سب سے بڑھ کرمحبوب رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے ’’جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا‘‘(مائدہ، 54)۔ خدا کی تخلیق کے عمل سے محبت ہی مخلوق میں خدا کی محبت جاگزیں کرتی ہے۔ یہ رحمان، رحیم اورمحبت کرنے والا رب ایک ایسا تعارف ہے، جسے محسوس کیا جاسکتا ہے، سمجھا جاسکتا ہے۔ دینیاتی اصطلاح میں اسے ’’تشبیہ‘‘ یعنی مخلوق سے پراسرار طور پر مماثل قرار دیا جانا چاہیے۔ ہم یقیناً انسانی صفات میں ایسے خالق کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نکتہ نظرکہتا ہے کہ خدا ہر جگہ ہرشے میں موجود ہے، اس کی خدائی ہرشے پر چھائی ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے ’’مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رُخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رُخ ہے‘‘(بقرہ، 115)، اور ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘(سورہ ق، 16)۔ اس طرح یہ خدا بہت قریب اور ذاتی نوعیت کا ہے۔
یہ وہ دو بنیادی اسلامی الٰہیاتی تناظرہیں، جو دو ایسے قطبین واضح کرتے ہیں کہ جن کے بین اسلامی فکر تشکیل پاتی ہے۔ معتبر مسلم مفکرین نے ان دو قطبین کے درمیان انتہائی نزاکت سے توازن قائم کرنے کی سعی کی ہے۔ علم الٰہیات کی یہ دونوں صورتیں ہی الوہی حقیقت کی تفہیم میں معاون ہیں۔ ان اسلامی تناظر کا بھرپور موازنہ چینی روایت میں بھی ملتا ہے کہ جہاں کنفیوشنسٹ yang کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، جبکہ تاؤسٹ yin کی خاصیت پراصرارکرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے، کہ اگر پوچھا جائے کہ Taoدرحقیقت ین ہے یا یانگ؟ تو کنفیوشنسٹ غالباً یہی کہے گاکہ تاؤ دراصل یانگ ہے، جبکہ تاؤسٹ ممکنہ طور پر یہی یقین ین کے لیے ظاہر کرے گا۔ اسی طرح اسلامی فقہ اور کلام کے ماہر علماء جو شرعی قوانین اور تعلیمات پر زور دیتے ہیں، خدا کی ماورائیت پر اصرارکرتے ہیں، وہ مسلسل خدا کے قہر سے لوگوں کو ڈراتے ہیں، دوزخ اور سزا وجزا کی وعید سناتے ہیں۔ یہ مسلمان کنفیوشنسٹ ہیں، جویانگ پر اصرار کرتے ہیں۔ جبکہ وہ جو اسلام کی روحانی اہمیت پر زوردیتے ہیں اور خدا کی رحمت سے امید دلاتے ہیں، اور یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ ’’خدا کی رحمت اُس کے غضب پر غالب ہے‘‘، یہ اسلام کے تاؤسٹ ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا بنیادی طورپر ــ’’ین‘‘ ہے۔
اسلامی دینیاتی فکر اللہ کے اُن ننانوے صفاتی ناموں کے گرد گھومتی ہے، جن کا ذکرقرآن حکیم میں آیا ہے۔ دونوں دینیاتی تناظر خدا کی ماورائیت کے قائل اور خدا کی قربت پرمائل، صفاتی ناموں کی اہمیت اور معنویت پر زور دیتے ہیں۔ جب خدا کو اک ماوراء حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے، تو’العزیز، الجبار، القہار، الملک، المتکبر، اور القابض جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس مضمون کے سیاق وسباق میں، میں ان ناموں کو yang namesکہوں گی، یہ خدا کی عظمت اور قوت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب خدا کو قربت اور محبت کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے، تو وہ رحمٰن، رحیم، غفور، حلیم، لطیف، ودود جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، یہ yin names ہیں۔ یہ نام اور ان جیسے بہت سے صفاتی نام قرآن مجید میں آئے ہیں۔ مسلم علمائے کونیات کے نزدیک، دونوں طرزکے صفاتی نام ہم آہنگ ہیں، اور اس ہم آہنگی ہی سے کائنات کا وجود قائم ہے۔ جیسا کہ مولانا روم کہتے ہیں کہ حلم اور جبر یوں مل گئے کہ خیروشر کی ایک دنیا پیدا ہوگئی۔
بہت سے علماء اللہ کے صفاتی ناموں میں دوطرح کے حوالے پاتے ہیں، ’جیسے خدا کے دو ہاتھ‘۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے چینی علم کونیات میں ین اور یانگ کی علامتی ہم آہنگی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ساری مخلوقات میں صرف انسان ہے، جسے خدا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خلق کیا۔ اس قرآنی اشارے کو اس حقیقت کے طور پر لیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’بے شک اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا‘‘۔ لہٰذا، انسان میں خدا کی صفات کا اظہار ہونا چاہیے، خواہ وہ قوت اور قہر کی صورت میں ہوں یا رحم و حلم کی شکل میں۔ جبکہ فرشتے اُس نے دائیں اور شیاطین بائیں ہاتھ سے خلق کیے۔ انسان کے سوا ہر مخلوق الوہی حقیقت کا ناقص اور نامکمل تاثرہے، یہ دائیں یا پھر بائیں بازو سے خلق شدہ ہے۔ صرف انسان دونوں ہاتھوں سے متوازن صفات کی خوبیوں کے ساتھ خلق کیے گئے۔
قرآن متواتر اعادہ کرتا ہے کہ ساری اشیاء خدائے واحد کی نشانیاں ہیں۔ یعنی ہر شے خدا کی فطرت اور حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم علماء اور مفکرین کائنات کی ہر شے میں اسمائے الٰہی کا عکس دیکھتے ہیں۔ ایک مشہور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے واضح کیا کہ اللہ نے کائنات کیوں تخلیق کی: اللہ فرماتا ہے’’میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ مجھے جانا جائے، اس لیے میں نے مخلوقات کو خلق کیا کہ شاید مجھے جان سکے‘‘۔ یوں کائنات خدا شناسی کی درس گاہ ہے۔ جو غوروفکر کرے گا، خدا کی نشانیوں تک رسائی پاسکے گا۔ کائنات مخلوقات پر مشتمل ہے، یعنی پوشیدہ خزانے کا راز جاننا ہے تو مخلوقات پرغور وفکر ہی مؤثر ذریعہ ہے۔ علماء خدا اور کائنات میں تعلق کی وضاحت ’’ظہور‘‘ (manifestation) اور’’تجلی‘‘ (self-disclosure)کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ خدا کائنات کے ذریعے مخلوقات پر خود کو ظاہر کرتا ہے، اور مخلوقات خود بھی خدا کا اظہار ہیں۔
سچ یہ ہے کہ خدا کی ’حقیقت‘ کائنات میں مختلف ہم آہنگ صفات وخصوصیات میں بیان کی جاتی ہے، مسلم نکتہ نظر میں یہی وجہ ہے کہ کائنات ’’ہم آہنگ اضداد‘‘ کا عظیم اجتماع قراردی جاتی ہے۔ خدا کے دونوں ہاتھ ساری موجودات کی ہمہ وقت صورت گری میں مصروف ہیں۔ اس طرح رحم اور قہر، نرمی و سختی جیسی متفاوت صفات ’’وجود‘‘ میں سرگرم نظرآتی ہیں۔ اضداد پر مشتمل یہ سارے جوڑے جس طور اپنا کام کرتے ہیں، yin اور yangسے مماثل ہیں۔ ایک طریقہ جس پر ہم ان صفات اور نشانیوں کو مسلسل حرکت، ٹوٹ پھوٹ اوربننے کے عمل میں دیکھتے ہیں، جیسا کہ Chuang Tzuکہتا ہے: ’’اشیاء کا وجود سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی مانند ہے کہ جس کا ہر ہر عضو مسلسل ہیئت بدلتا ہے، ہر جنبش اور حرکت نئی صورت میں ڈھلتی ہے‘‘۔ مسلم اشعری علماء کہتے ہیں کہ تخلیق کا کوئی ایک لمحہ دوسرے لمحے پر دوبارہ نہیں گزرتا، تخلیقِ نو مسلسل ہے، ہر شے ہر لمحے الوہی توانائی کی ازسرنو محتاج ہوتی ہے، کوئی وجود ازخود لمحہ بھر بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اشیاء کا وجود صرف اس لیے قائم ہے کہ خدا نے انہیں قائم رکھا ہوا ہے۔ اگر خدا لمحہ بھر بھی کائنات کی تخلیقِ نو سے غافل ہوجائے، توکائنات کا شیرازہ بکھرجائے۔
کائنات کی خلق مُدام (مسلسل تخلیقِ نو) کا تصور اسلامی علم کونیات کا فکری قلب ہے۔ بہت سے علماء نے تخلیق کے تسلسل کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ اسمائے الٰہی میں باہم تعامل کی کائناتی صورت گری ہے۔ اس طرح ہر لمحہ خدا کی رحمت اور غضب ہر شے تخلیق اور تلف کررہی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جائے توخدا ہر لمحہ کائنات میں اپنی موجودگی ظاہرکرتا ہے، تاہم وہ بے مثل اور ناقابلِ رسائی بھی ہے۔ اُس کی مطلق موجودگی کسی بھی دوسرے وجود کوکسی بھی لمحے قائم نہیں رہنے دیتی۔ ہر لمحہ وجود اور نابود سے عبارت ہے۔ ہر نیا لمحہ نئی کائنات وا کررہا ہے، جوگزشتہ لمحے کی کائنات سے مشابہ تو ہے مگر مختلف ہے۔ خدا اپنی صفات میں ہر لمحہ ظاہر و باطن، اول و آخرہے، اور خدا کی تجلی کبھی خود کو دہراتی نہیں، ہر لمحہ وہ نئی شان نئی آن ہے، یوں لامتناہی ہے۔
کائنات کا سارا وجودی نظام محرابی صورت میں تشکیل پارہا ہے۔ ہر سطح پرالٰہی صفات کا دوقطبی نظام حرکت میں ہے، ہر شے کے جوڑے باہم تعامل میں ہیں۔ ہرجگہ ’ین‘ اور ’یانگ‘ ہر شے کی تبدیلی ہیئت، اورتخلیق نو میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے ’’اور ہم نے ہر شے جوڑے کی صورت پرخلق کی‘‘ (51:40)، اور پھر کہا ’’خدا نے خود جوڑے پیدا کیے، مرد اور عورت‘‘ (53:49)۔ کائنات کی ساری اشیاء جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ کچھ جوڑوں کو قرآن میں ’’بنیادی تخلیقی اصول‘‘کی وضاحت میں پیش کیا گیا ہے، جیسے قلم اور لوح کی مثال دی گئی ہے، جو واضح طور پر اسلامی علامتیں ہیں، زمین اور آسمان، جو چینی اور دیگر روایتوں میں متوازی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
لوح اور قلم کا تذکرہ قرآن اور حدیث میں کئی جگہ ملتا ہے: ’’یہ قرآن بلند پایہ ہے، اُس لوح میں (نقش ہے) جو محفوظ ہے‘‘(85:22)۔ شارحین اس لوح کو ایک پوشیدہ روحانی حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں،کہ جس پرقرآن لکھا گیا ہے، ابدی لفظی سچائی رقم کی گئی ہے۔ قرآن کی ابتدائی آیات میں ہی قلم کا ذکر کیا گیا ہے: ’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘(96:1۔5)۔ ایک اور آیت میں اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے: ’’ن۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں‘‘ ( 68:1)۔ یہ مختصر آیات غورو فکر کا بڑا مواد مہیا کرتی ہیں، خاص طور پراُس وقت کہ جب خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کی علم افروز تشریح پیش کرتے ہوں، فرماتے ہیں: ’’اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا، پھر لوح تخلیق کی۔ اُس نے قلم سے کہا ’’لکھ!‘‘۔ قلم نے پوچھا ’’کیا لکھوں؟‘‘ خدا نے کہا ’’لکھو، جوکچھ میں لکھواتا ہوں‘‘۔ یوں قلم نے لوح پر وہ سب کچھ ثبت کیا، جس کا اللہ نے حکم دیا، اور یہ اُس کا وہ ’علم تخلیق‘ تھا، جو روزِ حشرتک لکھا جاتا رہے گا۔‘‘
یہاں رسولِ خدا ہمیں بتاتے ہیں کہ خدا نے سب سے پہلے جو شے خلق کی، وہ قلم تھا۔ یہاں وہ ہمیں یہ بھی بتارہے ہیں کہ جو شے سب سے پہلے وجود میں لائی گئی وہ علم، قوتِ استدلال، فکر کی قوت، عقل، یا خردمندی تھی۔ یوں ہر خلق شدہ شے میں منطق اور منصوبہ بندی پوشیدہ ہے، بالکل اُسی طرح جیسے سیاہی قلم میں موجود ہے۔ اس طرح ساری کائنات کی تخلیق علمی اورالٰہیاتی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
یہاں یہ واضح ہونا چاہیے کہ قلم یانگ کی طرف اشارہ ہے۔ جبکہ خردمندی اسی ایک حقیقت کا دوسرا رخ ہے، جسے ہم ین کہتے ہیں۔ مسلم علمائے کونیات چینی ماہرینِ فلکیات کی مانند، نہ ین کو نمایاں ترین حیثیت میں دیکھتے ہیں اور نہ ہی یانگ کو سب سے بڑھ کرامتیازی خیال کرتے ہیں۔ ہرشے میں ین اور یانگ کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انھیں اشیاء کے تعلقات اور تعاملات میں سمجھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ’عقل‘ یا ’ذہانت‘ (Intellect)کی بات کی جائے جو اپنی جزوی نوعیت میں مؤنث ہے، معروضی، اور وصول کرنے والی ہے۔ یہ اپنا رخ خدا کی جانب کرتی ہے، اور اُس کے نور سے توانائی حاصل کرتی ہے۔ جبکہ یہی حقیقت ’’قلم‘‘ کی صورت میں موضوعی ہے، ابتدا کرنے والی ہے، اور مذکرہے۔ یہ اپنا رخ کائنات کی طرف کرتا ہے، اور لوح پرہرشے کی تخلیق رقم ہوتی چلی جاتی ہے۔
لوح کے بغیر جوڑوں کا روحانی نظام وجود میں نہیں آسکتا، اور نہ اس ثنویت کے بغیر طبیعاتی کائنات ہی کا کوئی وجود ممکن ہے، جوکہ کثرت کے اصول پر قائم ہے۔ یوں خدا سے تعلق میں علم، عقل یا ذہانت پہلی معروضی حقیقت تھی، جو ’ین‘ کہلائی۔ جبکہ لوح محفوظ سے تعلق میں یہی حقیقت موضوعی صورت اختیار کرگئی، اور ’یانگ‘ پکاری گئی۔ یہ اصول علم نفسیات میں گہرے اثرات سامنے لاتا ہے۔ جہاں انسانی روح عقل اور کائناتی روح یعنی لوح محفوظ سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
ابن عربی نے کائنات کی ساری حقیقتوں کو اسمائے ربانی کا اظہار قرار دیا ہے۔ اُس نے قلم اورلوح کی ایک محرابی صورت قرآن سے مثال کے طور پر پیش کی: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو‘‘(سورہ رعد)۔ اللہ جوتدبیر کررہا ہے، وہ ’’قلم‘‘ کی کارگزاری کی طرف اشارہ ہے، اور وہ نشانیاں جو کھول کھول کر بیان کرتا ہے، لوح کا استعارہ ہے۔ وجود کی نچلی سطح پر آجائیں، تو روح قلم اور جسم لوح کی صورت میں نظرآتے ہیں۔ روح جو زندگی اور آگاہی کا بنیادی اصول ہے، جسم پر حکمرانی کرتی ہے، اسے احکامات جاری کرتی ہے، بالکل اُس قلم کی مانند جو لوح پرتقدیر رقم کرتا ہے۔
لوح کے بغیر قلم کچھ نہیں لکھ سکتا۔ لوح بلا تفریق وہ سب کچھ پوری تفصیل سے ظاہرکرتا جاتا ہے، جو قلم ضبطِ تحریر میں لاتا ہے۔ یہ باہم تمام اشیاء میں خدا کے الفاظ کی روحانی صورت گری کرتے ہیں۔ اسلامی علم کونیات میں الوہی تخلیقی الفاظ کی علامتیت مرکزی اہمیت کی حامل ہے، بلاشبہ قرآن کی بہت ساری آیات اس جانب اشارہ کرتی ہیں۔ جس آیت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا جاتا ہے، وہ کہتی ہے:’’ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں’’ہو جا‘‘ اور بس وہ ہوجاتی ہے‘‘(16،40)۔ علماء کہتے ہیں کہ ہر مخلوق کلام خدا ’’کُن‘‘کا منفرد مظہر ہے۔ جب قلم کلامِ خدا لوح پرتحریر کرتا ہے، اشیاء میں روحانی جوہر کا ظہور ہوتا ہے۔ کائنات کی ہر شے لوح کے کسی نہ کسی لفظ سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ قلم اور لوح، ین اور یانگ دونوں تخلیقی اور خلق شدہ، تمام اشیاء کی روحانی حقیقتوں کے امر واقع کے لیے ضروری ہیں۔
اس قلم کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ خدا کی جانب ہے، دوسرا رخ لوح اور اُس پر خلق ہونے والی ہر شے پرہے۔ اسی طرح لوح کے دو رخ ہیں، ایک رخ قلم کی طرف ہے اور دوسرا مخلوقات کی جانب ہے۔ قلم سے تعلق میں، لوح معروضی ہے، یوں فرق ظاہر کرتی ہے۔ مگر کائنات سے تعلق میں یہی لوح موضوعی حیثیت اختیار کرجاتی ہے، اور اشیاء کو منظم کرتی ہے۔ یوں یہ ایک یانگ حقیقت بن جاتی ہے۔ ابن عربی کہتا ہے کہ یہ بہ یک وقت موضوعی اور معروضی دونوں کا کردار نبھاتی ہے۔ یوں یہاں سے یہ لوح بطور ’’کائناتی روح‘‘ زیربحث آتی ہے، اس کی دو جہتیں ہیں، ایک علمی اور دوسری عملی۔ الٰہیاتی علم کا حصول اور پھر اس کی کائناتی اشیاء میں عملاً منتقلی ہے۔ یہ کائناتی روح ہر وجود کی تفصیل کا علم رکھتی ہے، ساری اشیاء اس روح کے دائرے میں باہم مختلف بھی ہیں اور ہم آہنگ بھی۔ ہر شے کا مقدر اسی کائناتی روح میں قید ہے، ہر شے اس کے علم میں سما جاتی ہے، کسی شے کا اس روح سے فرار ممکن نہیں۔
لوح وقلم، ین اور یانگ کی صورت روحانی دنیا میں اپنی کارگزاری ظاہر کرتے ہیں۔ وجود کی نچلی سطح پر یہ روحانی دنیا مادی دنیا سے تعامل کرتی ہے۔ اسے متواتر ’زمین اور آسمان‘ کی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے، قرآن میں اس اصطلاحی جوڑے کا بیان مسلسل ملتا ہے۔ نسفی لکھتا ہے کہ ’آسمان‘ سے مراد ہر وہ شے جوکسی دوسری شے سے بالاتر سطح پر ہو، جبکہ ’زمین‘ سے مراد ہر وہ شے ہے جو کسی دوسری شے سے نچلی سطح پر ہو۔ یعنی یہ اصطلاحیں متعلقہ ہیں، اور ہمارے نکتہ نظر پر انحصار کرتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جو شے کسی کے نکتہ نظرمیں ’فرش‘ ہو، وہ کسی دوسرے کے لیے ’عرش‘ ہو۔ بالکل اسی طرح کسی کے لیے ایک ہی حقیقت ’یانگ‘ ہوسکتی ہے، اور دوسرے کے لیے ’ین‘ بن سکتی ہے۔
عرش کا وجود نورِ خدا سے ہے، اور فرش پر اس نور کی کرنیں پڑتی ہیں۔ یہاں عرش موضوعی اور فرش معروضی ہے۔ یوں مقصدیت کی رو سے فرش کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتاکہ کوئی ایک دوسرے سے پہلے وجود میں آیا، کیونکہ یہ دونوں ابتدائے خلق سے موجود ہیں، یہ تمام اشیاء میں بالائی اور نچلی سطح پر ہمیشہ سے تعامل میں ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عرش کو ہمیشہ فرش پر مہربان ہونا ہے، بخششیں دینا ہے، معروضیت سے متمتع کرنا ہے۔ فرش کے بغیرعرش بے معنی ہے۔ بالائی اور نچلے درجے ایک دوسرے کے بغیر کسی حیثیت کے حامل نہیں۔ اگر فرش نورِخدا سے مستفید نہ ہو، تو عرش کا وجود بے مقصد ہے۔ یہ بالکل اُس زمین کی مانند ہے جو بارش کے قطرے پڑنے پر پھبک اٹھتی ہے، اور زرخیز ہوجاتی ہے، اور فصل دینے لگتی ہے۔ آسمانوں میں پوشیدہ صفات کا اظہار زمین کے وجود سے مشروط ہے، کہ اگر یہ زمین پر ظاہر نہ ہو، تو سب بنجر و بیاباں ہے۔ آسمانی حقیقتیں روحانی اور بے شکل وصورت ہیں، اور زمینی حقیقتیں انھیں مادی اجسام عطا کرتی ہیں۔ جب تک اُسے کسی جسم پر عمل داری حاصل نہ ہو، ایک روح کچھ بھی نہیں۔ یہ جسم ہی اُس کی منشا پوری کرسکتا ہے، اُس کے کمالات کا مظہر بن سکتا ہے۔ خدا نے کائنات اس لیے تخلیق کی کہ اُس کی صفاتِ حسنہ کے کمالات آشکار ہوں۔ جیسا کہ مولانا روم کہتے ہیں:
روح جسم کے بغیر کچھ نہیں
روح کے بغیر جسم سرد اور ویران ہے
جسم ظاہر ہے، روح باطن ہے
ان سے ہی ہے اس کائنات میں نظم
نسفی نے تمام اشیاء کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے: نور خدا، نور جسے بخشا جائے، اور ان کاتعلق وتعامل۔ عرش سے فرش پر نور کی بخشش ہوتی ہے، یہ جسمانی یا روحانی حقیقت کے طور پر پھرظاہر ہوتی ہے۔ اس کا تعلق روحانی یا جسمانی کسی بھی دنیا سے ہوسکتا ہے۔ ساری مخلوقات ان دو کے تعلق اور تعامل سے قائم ہیں۔ جیسا کہ مولانا روم کہتے ہیں:
نگاہِ درک میں، آسمان مرد ہے
اور زمین عورت ہے
جو کچھ آسماں سے بخشا جاتا ہے
زمیں پر پرورش پاتا ہے
اس سیاق و سباق میں، کنفیوشس ایک اور مسلم عالم کونیات بن کر ابھرتا ہے، ’’عالم بالا برگزیدہ ہے، عالم زیریں ماتحت ہے، تخلیقی ہدایت پر عظیم آفرینش برپا ہوتی ہے، اور مخلوقات اسے تکمیل تک پہنچاتی ہیں۔‘‘(Ta Chuan1)
مسلم فکر کے تصورِ ثنویت میں مثالیں مسلسل ضرب دی جاسکتی ہیں۔ نجم الدین رازی اس صورت حال کی عام سی منظرکشی کرتا ہے: ’’ستّر ہزار عالم ہیں، جن کے دو دائرۂ کار ہیں۔ یہ نور وظلمت پکارے جاسکتے ہیں، ظاہر و پوشیدہ کہے جاسکتے ہیں، روحانی و جسمانی سمجھے جاسکتے ہیں، دنیا اور آخرت، اور عالم عارضی اور عالم ابدی کے طور پر سمجھائے جاسکتے ہیں۔ یہ سارے جوڑے ایک ہی حقیقت کے کئی پہلو ہیں۔ صرف ناموں کا فرق ہے۔‘‘
آگے مزید مثالوں کی جانب بڑھنے کے بجائے، میں کوشش کروں گی کہ اسلامی ’تصور‘ انسان کی وضاحت کرسکوں۔ اسلام میں کائناتی فکرکی منزل ’’وجود‘‘ کی حقیقت سے آگاہی اور اس کی وضاحت ہے، یہ وہ نکتہ، وہ مقام ہے جہاں ہرشے سمٹ آتی ہے۔ صرف انسان وہ ذریعہ ہے، جو کائنات اور خدا میں موجود ہم آہنگی کی تکمیل کرسکتا ہے، اور یہ صرف تب ہوسکتا ہے کہ جب وہ ’’توحید‘‘ یعنی تاؤ سے مطابقت قائم کرلے، زمین پر اپنی زندگی اُس کے مطابق کرلے۔ چوانگ زو اسلامی علم کونیات کا مقصد اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے: ’’زمین وآسماں اور میں، ہم ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، تمام اشیاء اور میں، ہم سب ایک ہیں۔‘‘ (Chuang Tzu 2.6)
جو کچھ کہا گیا ہے اُس کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ خدا کو دو نکتہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، ماورائی یا رگِ جاں سے بھی قریب۔ خدا کی ماورائیت اور حاکمیت کا تقاضا ہے کہ سارے انسان اُس کے تابع فرمان بن کر رہیں، اور اُس کی محبوبیت کہتی ہے کہ انسانوں کا کوئی اہم کردار ہے جسے انھیں بہرحال ادا کرنا ہے۔ انھیں ساری مخلوقات میں سے چنا گیا ہے تاکہ نیابتِ الٰہی کا فریضہ ادا کریں۔ زمین پر خدا کے نمائندے بن کر دکھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تخلیق خدا کی صورت پر ہوئی۔ اُسے خدا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ اُس میں الوہی صفات کی جھلکیاں ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی نمائندگی کرسکتا ہے۔
خدا کے صحیح علم کے لیے، اُس کی ماورائیت اور داخلیت کا عظیم ترین امتزاج سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات میں انسانِ کامل اُسے سمجھا جاتا ہے جس میں خدا کی فرماں برداری اور خلافت مکمل ہم آہنگی سے ظاہر ہوں۔
ہم کس طرح خدا اور خود کو سمجھتے ہیں، اس کا انحصار ہمارے نکتہ نظر پر ہے۔ خدا واحد ہے، مگر انسان آئینے کی مانند ہے، جس کے ایک رخ پر وہ بندۂ خدا ہے، اور دوسرے رخ پر خلیفہ خالقِ کائنات ہے۔ بطور بندہ وہ مخلوقات کی صفات اور جبلتیں ظاہر کرتا ہے، اور بطور خلیفہ اعلیٰ قیادت اور اشرف المخلوقات نظرآتا ہے۔ تاہم انسان جب خدا کا مظہر بنتا ہے، ساری کائنات کی تابعداری بھی ظاہرکرتا ہے۔ یہاں اُسے سب سے بڑھ کر بندگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے، کیونکہ دیگر مخلوقات متصف صلاحیتوںکے دائرے میں ہی اظہارِ اطاعت کی اہل ہوتی ہیں۔ بطور نمائندہ، انسان عظیم ترین ’’یانگ‘‘ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ جبکہ غلام کے کردار میں وہ ایک ’’ین‘‘ حقیقت ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابن عربی کہتا ہے ’’ایک انسان کی دو عبارتیں ہیں: ایک ظاہری عبارت ہے، دوسری باطنی عبارت ہے۔ خارجی عبارت کائنات کبیر پر مشتمل ہے، جبکہ داخلی عبارت خدا سے متصل ہے۔ یہ دو جہتیں خدا کے دونوں ہاتھوں کی تشبیہات واضح کرتی ہیں، کہ جن سے انسان کی تخلیق ہوئی۔‘‘
اشیاء پر اسلامی نکتہ نظرکے مطابق، تمام تخلیق اسمائے ربانی میں ہم آہنگی کے عمل سے جاری ہے۔ یہی وہ خلقی ثنویت ہے جو انسان میں روح اور جسم کی ہم آہنگی سے عبارت ہے۔ یہی الوہی فطرت کا بہترین اظہار ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو انسان کی اصل فطرت الوہی فطرت کی نقل ہے۔
یہ سارا مضمون مقدس چینی کتاب I Ching کے ان الفاظ پر سمیٹتے ہیں کہ ’’ایک ین اور ایک یانگ کی ہم آہنگی، یہی تاؤ ہے۔ تاؤ کی میراث سب سے بہتر ہے۔ تاؤ کی اس حقیقت کو سمجھنا چاہو، تو قدیمی انسان کی فطرت کو سمجھو‘‘۔ (Ta Chuan 5)