آئے روز کی مثبت اور منفی رپورٹ کے اس کھیل نے صحت کے نظام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے
کورونا بحران میں آزادکشمیر کی صورتِ حال ملک کے دوسرے علاقوں سے اب تک اس لحاظ سے بہتر رہی ہے کہ یہاں نہ تو کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد درجنوں سے اوپر ہوئی، اور نہ ابھی تک کوئی موت واقع ہوئی۔ اس کی بہت سی وجوہات میں ابتدائی دنوں میں ہی کیا جانے والا سخت لاک ڈائون بھی شامل ہے، جس کے تحت آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے تمام راستوں کی سخت ناکہ بندی کرکے آمد ورفت کو ناممکن بنایا گیا۔ کورونا کا چیلنج ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا، اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتِ آزادکشمیر کی حالت قریب قریب بے سروسامانی کی ہے۔ ان حالات میں حکومتِ آزاد کشمیر نے شاید یہ سمجھ لیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے، اور اس احساس کے ساتھ ہی حکومت نے نئی گاڑیوں کے ایک بیڑے کی خریداری کا فیصلہ کیا، جس کے مطابق آزادکشمیر حکومت نے آٹھ کروڑ مالیت کی 6 نئی گاڑیوں کی خریداری کی تیاریاں مکمل کرلیں۔ ان میں سب سے مہنگی گاڑی جس کی مالیت پانچ کروڑ سے زیادہ ہے، صدرِ آزادکشمیر کے لیے خریدی جا ئے گی، جبکہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مالیت کی دوگاڑیاں صدارتی مشیروں کے لیے،نوّے لاکھ مالیت کی دوگاڑیاں وزیراعظم سیکرٹریٹ کے لیے خریدی جائیں گی۔ رپورٹ کے مطابق صدارتی اسکواڈ کے لیے پچاس لاکھ مالیت کی گاڑی کی خریداری کے لیے رقم پہلے ہی ٹرانسپورٹ پول میں جمع کرائی جا چکی ہے۔ یہ خبر اس لحاظ سے قطعی چونکا دینے کا باعث نہ ہوتی اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے، کیونکہ آزاد کشمیر کو ایک مدتِ دراز سے پجارو لینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ تو کئی دہائیاں پرانا نام ہے، اور اب گاڑیوں کے نئے نام اور نئے ماڈل سامنے آرہے ہیں۔ اب یہ خطہ اس نسبت سے ایک نئے نام کا متقاضی ہے۔
اس وقت حالات قطعی غیر معمولی ہیں۔کورونا نے دنیا کا نظام تلپٹ کردیا ہے، اور آزادکشمیر کا یہ چھوٹا سا علاقہ بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں۔ لاک ڈائون کے باعث سترہ لاکھ لوگ بہت مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے جو ضروری تقاضے ہیں آزادکشمیر کا علاقہ ان پر پورا اترنے سے قاصر ہے۔ طبی عملہ سہولیات سے محروم ہے، اور ٹیسٹنگ کی سہولت کا عالم یہ ہے کہ جو ٹیسٹ مظفرآباد میں مثبت آتا ہے وہی اسلام آباد کی لیبارٹری میں منفی ہوجاتا ہے۔کوہالہ اور آزادپتن عبور کرکے ٹیسٹوں کی رپورٹس میں 180 ڈگری کا یہ فرق حقیقت میں آزادکشمیر کی ریاست اور حکومت کی کم مائیگی اور وسائل سے محرومی کا عکاس ہے۔ گویا کہ آزادکشمیر کے ہسپتالوں میں وہ جدید مشینیں نہیں جو مرض کی درست تشخیص کرسکیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ چند دن قبل اخبارنویسوں کے کورونا سے متاثر ہونے کی رپورٹس آئیں۔ مظفرآباد کی مشینوں نے کورونا ٹیسٹ کو مثبت قرار دیا، اور جب یہی ٹیسٹ اسلام آباد بھجوایا گیا تو اس کی رپورٹ منفی آئی، اور یوں صحافیوں کو اذیت ناک حالات سے نجات مل گئی۔ یہ صرف دو اخبار نویسوں کا ہی معاملہ ہے، ابھی تک درجنوں افراد کے ساتھ یہی واقعہ پیش آچکا ہے۔ آئے روز کی مثبت اور منفی رپورٹ کے اس کھیل نے صحت کے نظام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
اسی لاک ڈائون کے باعث مزدور طبقہ شدید مشکل کا شکار ہے۔ ٹھیلے اور چھابڑی والے، رکشہ اور ٹیکسی والے، پیش امام اور مدارس سے وابستہ استاد، درزی اور اشیائے خورونوش سے ہٹ کر باقی تمام کاروباری سرگرمیوں سے وابستہ لوگ معاشی عذاب کا سامنا کررہے ہیں۔کورونا کا خطرہ چونکہ غیر معینہ مدت تک ہے اس لیے ان طبقات کی مشکل کے دن ختم ہونے کے آثار بھی پوری طرح دکھائی نہیں دے رہے۔ گویا کہ انہیں اپنے مقدر کی لکیروں کے ساتھ یونہی الجھتے رہنا ہے۔ چمن میں چہار سو بکھری یہ داستاں حکومتِ وقت کے لیے سنگین چیلنج ہے۔ اسے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان سب چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ ابھی تک حکومت ان مسائل سے نمٹنے کا کوئی فارمولا وضع نہ کرسکی۔ مستحقین کی امداد کا کوئی بندوبست ہوسکا، نہ ہسپتالوں کو آنے والے خطرے کے مقابلے کے لیے کیل کانٹے سے لیس کیا گیا ہے۔ یوں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ اس مرحلے میں جب کہ ملک و معاشرہ ہنگامی صورتِ حال کا سامنا کررہے ہیں، چمچماتی اور زیرو میٹر گاڑیوں کے ایک نئے بیڑے کو میدانِ جنگ میں اُتارنا کیوں ضروری ہوگیا ہے؟ اس بیڑے سے کورونا کے خلاف جنگ لڑی جانا مقصود ہے تو پرانی گاڑیوں میں اچانک کیا خرابی پیدا ہوگئی تھی؟ آخر ایسا کون سا سفر اور کون سا معرکہ درپیش ہے جسے جدید اور مہنگی گاڑیوں پر سوار ہوکر ہی لڑا جاسکتا ہے؟ عین ممکن ہے ان گاڑیوں پر سوار ہوکر کنٹرول لائن عبور کرنا ہو۔ ممکن ہے کورونا کو گاڑیوں کی چمک اور نئے انجنوں کی دھمک سے ختم کرنے کا کوئی جادوئی نسخہ حکومت کے ہاتھ آگیا ہو۔ صدرِ آزادکشمیر نے چار سال جن گاڑیوں کے کارواں کے ساتھ گزار لیے تھے، سال بھر مزید اسی پر اکتفا کرنے میں کیا مضائقہ تھا؟
آزادکشمیر میں گاڑیاں خریدنا شوق سے زیادہ ایک نفع بخش کاروبار رہا ہے۔ یہاں اکثر سرکاری گاڑیاں ضرورت اور مجبوری کے تحت نہیں بلکہ کمیشن کی ہوس اور پیسے کے جنون میں خریدی جاتی ہیں۔گاڑیوں کی خرید میں کمیشن خوروں کی ایک زنجیر ہوتی ہے اور ایک سسٹم کے تحت یہ کمیشن نیچے سے اوپر تک پہنچتا ہے۔ گاڑیوں کے اس نئے ساتویں بحری بیڑے کی خرید میں بھی ضرورت سے زیادہ خواہش اور ہوس ہی جھلک رہی ہے۔ سال بھر کی مہمان حکومت کو اس مرحلے پر نئی گاڑیوں کی ضرورت کی اس کے سوا کوئی منطق نہیں، اور جب حالات بھی اس قدر مخدوش ہوں تو اس عیاشی کی ضرورت ہی کیا ہے! یہ سراسر غیر ضروری اور اضافی قدم ہے۔ نئی گاڑیوں کے بغیر بھی صدرِ آزادکشمیر کا قافلہ رواں دواں رہے گا اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کی رونقیں قائم ودائم رہیں گی، مگر حفاظتی سہولیات سے محرومی کی وجہ سے کوئی ڈاکٹر جان سے گزرگیا، یا وینٹی لیٹر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مریض تڑپ تڑپ کر مرگیا، یا پھر لاک ڈائون کی وجہ سے کوئی دہاڑی دار بھیک مانگنے پر مجبور ہوا تو یہ ظلمِ عظیم ہوگا۔ حکمرانوں کو حالات کے آئینے میں اپنے اس کردار و عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ اِس وقت کی ترجیح اور تقاضا کیا ہے؟یہ ترجیح اور تقاضا کورونا کا مقابلہ کرنا اور اس مرض کے خلاف اداروں کو وسائل سے لیس کرنا ہے۔