کورونا کی عالمی وبا چھٹے ماہ میں داخل ہونے جارہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام ممالک کی اقتصادی اور سماجی زندگی ابھی تک مفلوج اور معطل ہے۔ ابھی تک اس وبائی مرض کے حقیقی سبب اور علاج کے بارے میں کوئی یقینی بات قائدینِ عالم کی جانب سے ابھی تک نہیں آئی ہے۔ اب تک وبا کے پھیلائو سے بچنے کی تدابیر پر ہی سارا زور ہے۔ تدبیر یہ ہے کہ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور اور قید ہوجائیں۔ اقتصادی اور سماجی زندگی تو مفلوج ہے ہی، اس مصیبت میں رجوع الی اللہ کے مراکز یعنی مساجد اور عبادت گاہیں بھی بند ہیں۔ اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ اس برس حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی جاسکے گی یا نہیں۔ بیت اللہ الحرام اور مسجد نبوی کو بھی ابھی تک محدود پیمانے پر کھولا گیا ہے۔ سماجی و اقتصادی بندش کو طویل عرصے تک برقرار رکھنابھی ممکن نہیں ہے، ڈاکٹر اور ماہرین اس بات پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈائون کے بغیر عالمی مہلک وبا پر قابو نہیں پایا جا سکتا،اس لیے اس میں توسیع کی جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سماجی و اقتصادی بندش کی تباہ کاری وبائی مرض اور اموات کی ہلاکت خیزی سے زیادہ سخت ہے ، اسی لیے حکومتوں پر یہ دبائو بڑھتا جارہا ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی کی جائے اور اقتصادی سر گرمیوں کو بحال کیا جائے۔ یورپ اور امریکہ کے وہ خطے جو مکمل طور پر سماجی اور اقتصادی بندش کا شکار ہیں وہاں پر بھی یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ لاک ڈائون کو نرم کیا جائے اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کیا جائے۔ یہ سوال شدت سے لوگوں کے ذہنوں اور زبانوں پر ہے کہ کورونا وائرس کی بیماری اور ہلاکت زیادہ شدید ہے یا بھوک کی مصیبت ، یہ دبائو ہمارے حکمرانوں پر بھی ہے۔ اس لیے ان سطور کی اشاعت تک حکومت پاکستان بھی کوئی فیصلہ کر چکی ہوگی۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ لاک ڈائون نرم کر دیا جائے۔ کورونا کی وبا کے ساتھ ہی ایک اور مصیبت بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور وہ ہے ٹڈی دل کا حملہ جس نے ایران، سندھ اور پنجاب کے بعض حصوں کو متاثر کیا ہے۔ اس بارے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو خط بھی تحریر کیا ہے ۔ ٹڈی دل کے حملے کے بارے میں پاکستان میں متعین ایران کے سفیرنے بھی خبردار کیا ہے کہ ہزاروں، ہیکڑ زرعی زمینوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی وجہ سے خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان مشکلات اور مصائب کے ساتھ پاکستانی قوم اور عالم اسلام رمضان کے بابرکت ایام گزار رہی ہے اس مہینے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی ہمدردی اور فیاضی کا مہینہ بھی قرار دیا ہے، عالم اسلام کی تاریخ میں کئی اہم واقعات اس ماہ میں پیش آئے لیکن تین واقعات اہم ترین ہیں۔ رمضان کی اولین اہمیت یہ ہے کہ اس ماہ میں نزول قرآن مجید کا آغاز ہوا، اس لیے اس ماہ کو ماہ قرآن بھی کہا جاتا ہے، قرآن مجید انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجی گئی آخری کتاب ہے۔ اس کتاب میں انسانیت کو در پیش ہر مسئلے کا حل ہے۔ یہ کتاب حق و باطل کی کش مکش کا فیصلہ کن عنوان ہے۔ انسانوں کی انفرادی و اجتماعی فلاح و سعادت اسی کتاب ہدایت کی پیروی میں ہے۔ نزول قرآنِ مجید کے آغاز کے ساتھ ہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اپنا آخری نبی بنانے کا اعلان کیا۔ نزول قرآن اور بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی معرکہ حق و باطل کا سلسلہ بھی قائم ہوگیا۔ اسی حوالے سے امام المجاہدین خاتم الانبیاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں معرکہ ٔ بدر اور فتح مکہ کے دو عظیم واقعات اسی ماہ رمضان المبارک میں پیش آئے۔ آج جبکہ پوری دنیا ظلم اور فساد سے بھر گئی ہے جدید علمی و سائنسی ترقی نے انسانوں کو زمین پر انسانی خدا بننے کے علاوہ کوئی سبق نہیں دیا ہے۔ پہلے فرعون و نمرود مصر و عراق کے محدود علاقے میں تسلط کی بنا پر ربوبیت اور خدائی کادعویٰ کرتے تھے، عہد جدید میں تو فرعونیت اور نمرودیت کا عالمی غلبہ اور تسلط ہے اس فرعونیت اور نمرودیت کے مقابلے پر ایک اللہ کی الوہیت اور ربوبیت کا اعلان کرنے اور اللہ کی کبریائی قائم کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بشیر و نذیر اور سراج منیر بنا کر بھیجا تھا۔ ختم نبوت کے تصور کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ فرائض امت مسلم ادا کرے گی۔ اس ماہ رمضان میں اللہ نے پوری دنیا کو ایک ایسی آفت میں مبتلا کر دیا ہے جس نے اس کی بے بسی کو عیاں کر دیا ہے یہ موقع ہے کہ ماہِ رمضان میں اس نقطۂ نظر سے اللہ کے آخری کلام پر غور کیا جائے کہ وہ ان حالات میں ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے ۔آفات اور مصائب اس لیے نازل کیے جاتے ہیں کہ لوگ اللہ کا خوف اختیار کریں اور اپنے جرائم سے توبہ کریں۔ اللہ سب کا حساب لینے والا ہے۔ اگر صرف اس بات پر غور کیا جائے کہ ’’وارآن ٹیرر‘‘ کے نام پر عالمی اور مقامی سطح پر کتنا جھوٹ بولا گیا ہے کتنا ظلم کیا گیا ہے تو چنگیز و ہلاکو خان کی وحشت ودرندگی کو بھی شرم آجائے۔ عالمی سودی نظام کس طرح محروموں کا استحصال کرتا ہے اور لاکھوں اور کروڑوں بندگانِ خدا کو فاقہ کشی کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سرمایہ کا ارتکاز اور غربت و افلاس کا پھیلائو کتنے اخلاقی عیوب پیدا کرتا ہے۔ لیکن کردار کی پستی طاقتور طبقات کو توبہ اور خدا خوفی پر مائل کرنے سے روک رہی ہے اور غیر ضروری بحثوں میں لوگ اُلجھے ہوئے ہیں۔