اٹھارہویں ترمیم کا پنڈورا باکس

حزب اختلاف کا سخت ردعمل

پچھلے چند دنوں سے جب ایک جانب کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، دوسری طرف حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور نالائقی کا ملبہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر ڈالتے ہوئے ان نازک حالات میں جب پوری قوم کو یکجہتی اور اتفاقِ رائے کی ضرورت تھی، گوادر سے خیبر تک ایک نئی لایعنی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ بحث وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اور اسد عمر کے ایک ٹی وی شو میں دیے گئے بیان کے بعد شروع ہوئی ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کچھ خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی اپنے ایک بیان میں اٹھارہویں ترمیم سے بعض شعبوں میں مسائل پیدا ہونے کا سبب اٹھارہویں ترمیم کو قرار دینے کی کوشش کی تھی، جس پر تب سے مسلسل بحث جاری ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کو بدلنے کے حوالے سے ملک میں چھڑی بحث کے متعلق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اٹھارہویں ترمیم کو بندوق کی نوک پر تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک کی سالمیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آئینی ترمیم جو چاروںصوبوں کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کی کوششوں سے معرضِ وجود میں آئی ہے، اس کے مکمل خاتمے کے لیے حکمرانوں کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے جس کا دور دور تک کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا، لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی چیز بھی انہونی نہیں ہے، اس لیے اٹھارہویں ترمیم کی حمایتی قوتوں کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ اگر مقتدر قوتیں اس آئینی ترمیم کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہوگئیں تو پھر ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ اس طرح کے مظاہر ہم ماضیِ بعید کے ساتھ ساتھ حال ہی میں جہاں سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف ناکام ہونے والی عدم اعتماد کی تحریکوں کی شکل میں دیکھ چکے ہیں، وہیں آرمی چیف کو ملنے والی توسیع بھی اس امر کی واضح نشانی ہے۔ سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم سے ملکی یکجہتی میں اضافہ ہوا۔ مثلاً اس ترمیم سے قوم پرست جماعتوں کے پنجاب مخالف رویّے اور سیاست میں آنے والی تبدیلی کو ہر کوئی دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے، جس کا واضح ثبوت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی نامور قوم پرست جماعتوں کا ملک گیر جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب جھکائو ہے۔ ماہرین کے خیال میں کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں ملک کے مقتدر حلقوں میں وفاق کے صوبوں پر کنٹرول نہ ہونے کے احساس کو جنم دیا ہے۔ جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے باعث وفاقی حکومت کی آمدن میں کمی سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھی اس اہم آئینی ترمیم پر نظرثانی کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں جاری بحث کے تناظر میں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے عنوان سے 1973ء کے متفقہ سمجھے جانے والے آئین میں کی گئی تبدیلیوں کی رو سے صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار واپس لینے کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کا نام دینا، سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق کا نام آئین سے نکالنا، تیسری مرتبہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کی پابندی ختم کرنا، ایک درجن سے زیادہ وفاقی وزارتوں کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا، وفاقی کابینہ میں وزرا کی تعداد گیارہ کرنا، وزیراعظم کو مشترکہ مفادات کونسل کا سربراہ مقرر کرنا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقے متعارف کرانا، آئین کی معطلی کو سنگین غداری قرار دینا، اور مشترکہ فہرست (کنکرنٹ لسٹ) کا خاتمہ وہ تاریخی اقدامات تھے جن پر پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے بغیر کسی بیرونی دبائو کے ازخود اتفاق کیا تھا۔ یاد رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو حاصل ہونے والے کُل محاصل کا بڑا حصہ (58 فیصد) صوبوں کو منتقل ہوجاتا ہے، جبکہ باقی ماندہ 42 فیصد کے استعمال کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے، جن میں دفاع، قرضوں کی واپسی اور دیگر انتظامی اخراجات اسی مد سے کیے جاتے ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ تیار کرنے والی ٹیم میں شامل سابق سینیٹر اور اے این پی کے سابق صوبائی صدر افراسیاب خٹک کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت پارلیمان میں فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی سمیت 14 مختلف گروہ تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی ترمیم کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر جمہوری نظام کو ایک کشتی تصور کرلیا جائے تو اٹھارہویں ترمیم کو اس کا لنگر کہا جا سکتا ہے، جو کشتی کو سمندر کی ظالم لہروں میں استقامت بخشتا ہے۔ صوبوں میں صلاحیت کی کمی سے متعلق اعتراض پر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ جب تک اکائیوں کا معاملات سے واسطہ نہیں پڑے گا وہ نہیں سیکھ سکیں گی۔ اٹھارہویں ترمیم پر شروع ہونے والی بحث کے بارے میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ شیراز پراچہ کاکہنا ہے کہ مضبوط مرکز اور کمزور اکائیوں کی سوچ کے باعث ہی 1971ء کا سانحہ پیش آیا تھا۔ ان کے خیال میں اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے پاکستان میں قوم پرست قوتیں کمزور ہوئیں جس کا فائدہ ایک مضبوط وفاق کی صورت میں سامنے آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم پرست ہمیشہ سے صوبوں کے حقوق کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان کے ووٹ بینک میں کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ ان کے بیانیے کا خاتمہ ہے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہم ہے کہ جیسے ہی حکومتی وزرا اور رہنماؤں کے اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی سے متعلق بیانات سامنے آئے، حزبِ اختلاف کی جانب سے بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جو کسی ایسے ہی موقع کی تاک میں تھی۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی خودمختاری اور صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی ایسی کسی حکومتی تجویز کی مخالفت کا واضح عندیہ دیا ہے۔ پی ایم ایل این کے مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی تبدیلی ان کی جماعت کے لیے ناقابلِ قبول ہوگی۔ یہ قومی اتفاقِ رائے سے لائی گئی ترمیم ہے، جس نے پاکستان کا صوبائی خودمختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کیا۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایسی بحرانی صورتِ حال میں وفاقی حکومت کا اٹھارہویں ترمیم کا مسئلہ اٹھانا نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مزید تجربہ گاہ نہ بنایا جائے۔ ایسے مسائل کو چھیڑنے سے قومی یکجہتی سبوتاژ ہوگی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، محمود خان اچکزئی، میاں افتخار، آفتاب شیرپائو ودیگر لیڈروں سے بھی تازہ صورت حال پر ٹیلی فونک رابطے کیے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے تحفظ پر اتفاق کیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بھی کورونا وبا کے وطنِ عزیز پر گاڑے ہوئے پنجوں اور قوم کو ان نازک گھڑیوں میں سہارا دینے کے بجائے اٹھارہویں ترمیم کے پارلیمنٹ کے تحت طے شدہ معاملات کو زیربحث لانے کو اس بحرانی دور میں نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس وقت تمام توجہ کورونا سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے پر مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑنا پاکستان کی بقا اور سالمیت کے ساتھ بھیانک سازش ہوگی۔ سلیکٹڈ حکمران چھوٹے صوبوں کے اختیارات ختم کرنے اور این ایف سی ایوارڈ کو ہڑپ کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، عوامی نیشنل پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں سلیکٹڈ حکمرانوں کو چھوٹے صوبوں کے حقوق پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کا فیصلہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے، کیونکہ اے این پی اٹھارہویں آئینی ترمیم کو آئینِ پاکستان کی روح سمجھتی ہے۔
حیرت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جو پچھلے سات سال سے خیبرپختون خوا میں برسراقتدار ہے، اسے ان سات برسوں میں تو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اس ترمیم سے وفاق مالی طور پر کمزور ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اب بھی جب تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، ان میں سے کسی بھی حکومت نے رضاکارانہ طور پر اپنی خودمختاری یا محاصل کی وصولی میں کمی کی خواہش کا اظہار نہیں کیا توآخر اِس وقت اس قومی بحران کے دوران ایسی کیا افتاد آپڑی ہے کہ وفاقی حکومت اس وبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے یہ بے وقت کی راگنی چھیڑکر قوم کو بے وقوف بنا رہی ہے! یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تبدیلی یا اس کا خاتمہ کبھی بھی پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ نہیں رہا ہے۔ اس یکایک توجہ کی شاید بہت ساری دیگر وجوہات ہوں گی، لیکن بظاہر اس کی فوری وجہ وفاقی حکومت کی کورونا وبا سے مقابلہ کرنے کی کمزور اور ناقص پالیسی سے عوام کی توجہ ہٹانا ہی نظر آتی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پہلے دن سے ہی اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کے درپے تھی اور اسے فیڈریشن اور صوبوں کے درمیان عدم توازن کی وجہ گردانتی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ مخلوط حکومت جس کے پاس سادہ اکثریت بھی مانگے تانگے کی ہے، خفیہ طاقتوں کا کاندھا استعمال کیے بغیر آخرکس طرح دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے اٹھارہویں ترمیم کو ختم یا تبدیل کرسکے گی؟اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت کورونا وبا پر غیرتسلی بخش کارکردگی اور گومگو کی پالیسی پر تنقید سے توجہ ہٹا نے کے لیے اٹھارہویں ترمیم کاگڑا مُردہ اکھاڑنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ اگر یہ ترمیم واقعتاً وفاقی حکومت کی کورونا وبا سے نمٹنے کی راہ میں مالی یا دیگر امور کے حوالے سے رکاوٹ بن رہی ہے تو حکومت کو اس کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے، لیکن چونکہ بظاہر پی ٹی آئی حکومت اس وقت کسی خاص مالی مشکل کا شکار نظر نہیں آرہی ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے کورونا سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد کے علاوہ ایک سال تک قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کے ساتھ ساتھ اکثر قرضوں پر چڑھا سود معاف کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے، تو ایسے میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ اٹھارہویں ترمیم پرگرانا کسی بھی لحاظ سے سودمند نہیں ہوگا۔

ماہر افغان امور سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان ڈاکٹر مراد علی شاہ انتقال کر گئے

اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سابق ناظم اعلیٰ، ماہر افغان امور بزرگ دانشور سابق سینیٹر ڈاکٹر مراد علی شاہ انتقال کر گئے، ہفتے کے روز اپنے آبائی گائوں اسماعیلہ ضلع صوابی میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ انہیں افغان امور کا ماہر سمجھا جاتا تھا اسی لیے وہ قاضی حسین احمد کے دور امارت میں ان کے افغان امور کے مشیر بھی رہے۔پاکستان کی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے کابل یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ سے روس کی نظریاتی یلغار کو روکنے کے لیے رابطے کیے اور الحادی یلغار کے سامنے بند باندھنے کے لیے اسلامی فکری تحریک کو منظم کیا۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ جماعت اسلامی کے اہم رہنما تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے گھر جا کر لواحقین سے تعزیت کی۔وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اہم دانشوروں میں شمار ہوتاتھا۔نماز جنازہ میں سابق ایم این اے شبیر احمد خان ،سابق وزیر حافظ حشمت خان ،جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری عبدالواسع ،پشاور کے امیر عتیق الرحمن ،ملاکنڈ کے امیر، جماعت اسلامی صوابی کے امیر میاں افتخار باچا ،نائب امرا کے علاوہ سیاسی و سماجی رہنمائوں اور عمائدین نے شرکت کی۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم ، نائب امیر لیاقت بلوچ ، پروفیسر محمد ابراہیم ، ڈپٹی سیکرٹری محمد اصغراور دیگر رہنمائوں نے اظہار تعزیت کیا ہے۔