بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی مخالفت
وفاقی حکومت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے، اور اس ضمن میں غور کرنا شروع کردیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم میں کچھ خامیاں نظر آتی ہیں۔ یہ ترمیم صحیح سمت کی طرف قدم تھا لیکن ابھی بھی نامکمل ہے۔ ان کے مطابق صوبائی حکومتوں کو اختیارات پہنچ گئے تاہم مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں ملے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اتحادی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیے ہیں۔ (27اپریل2020ء) حکومت آئینی ترمیم میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے یہ وقت بتائے گا۔ تاہم سرِدست حزبِ اختلاف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی نے وفاق کی جانب سے نظرثانی کے ارادے کی مخالفت کی ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی اسے ناقابلِ برداشت عمل کہا ہے، حالانکہ بی این پی وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی بھی ہے۔29 اپریل کو بی این پی نے مؤقف دیا کہ ’’اٹھارہویں ترمیم سے متعلق پہلے ہی حکومت پر واضح کرچکے ہیں کہ اس عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بی این پی ایک جمہوری پارٹی ہونے کے ناتے تمام صوبوں کے اختیارات مزید بڑھانے کی حامی رہی ہے تاکہ صوبے اور تمام اقوام بااختیار ہوکر اپنے اپنے صوبوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات کرتے رہیں۔ بااختیار صوبے ہی اپنے عوام کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک ہونے نہیں دیا جائے گا‘‘۔
بی این پی نے کہا کہ ان کی جدوجہد رہی ہے کہ محکوم مظلوم اقوام کی مشکلات و مسائل حل کیے جائیں اور صوبوں کو مزید اختیارات دیے جائیں تاکہ ان کے احساسِ محرومی و محکومی کا خاتمہ ہوسکے۔ (29اپریل2020ء)۔
یعنی اتحادی جماعت نے بھی مخالفت کردی ہے، جس کے سہارے پر تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔ چناں چہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے بھی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ فارمولا تبدیل کرنے کی کوششوں کی مذمت کی۔ اس کے مطابق محکوم اقوام، قومی تحریکوں اور اکابرین کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں 2010ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں پارلیمنٹ کے ذریعے ملک کی تمام جمہوری جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اتفاقِ رائے سے 1973ء کے آئین سے مارشل لا ادوار میں کی گئی غیر جمہوری ترامیم کو خارج کیا گیا، اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کو پاس کیا گیا، اور ایک وفاقی پارلیمانی نظام کی نئے سرے سے بنیاد رکھی گئی، ایک نئی فیڈریشن کی تشکیل کی جس سے کافی حد تک صوبائی حکومت کی خودمختاری کا مسئلہ حل ہوا۔
پشتون خوا میپ کہتی ہے کہ اس کے باوجود قومی وحدتوں (وفاقی یونٹس) پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی پانچ قومی وحدتوں (صوبوں) پر مشتمل قوموں کے درمیان حقیقی فیڈریشن کی تشکیل اور قومی برابری اٹھارہویں آئینی ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے تھی جس کا بہترین ادارہ فیڈریشن کی علامت سینیٹ آف پاکستان ہے جس کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونے چاہیے تھے جو نہیں ہونے دیے گئے۔ اس طرح پشتون وحدت، پشتون ملّی تشخص، پشتون قومی سیاسی واک و اختیار کا نکتہ ادھورا رہ گیا جس پر پشتون خوا میپ کا اختلافی نوٹ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ پشتون خوا میپ کہتی ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں اور پچاس فیصد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ دس سال گزرنے کے باوجود بھی پارلیمنٹ کے بعد سب سے اہم ادارے سی سی آئی کا کوئی دفتر و سیکریٹریٹ نہیں بنایا گیا۔ وفاق سے جو وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں اُن کے اثاثہ جات اب تک صوبوں کو نہیں دیے گئے، اور دی جانے والی وزارتوں کے متبادل وفاق نے دوسرے ناموں سے وزارتیں بنائیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد نہ ہونے کے ساتھ آئینی مدت کے مطابق این ایف سی ایوارڈ بھی نہیں لایا جارہا، اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ وفاق کا حصہ زیادہ اور صوبوں کا کم کیا جائے۔ حالاں کہ آئین کہتا ہے کہ آنے والے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کسی صورت کم نہ کیے جائیں۔ وفاق کا حصہ کم اور صوبوں کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو جسے ملک کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کیا ہے، رول بیک کرنے اور این ایف سی ایوارڈ میں ردو بدل کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک کی محکوم اقوام و عوام اور تمام جمہوری سیاسی پارٹیاں شدید مزاحمت کریں گی جس سے بڑا آئینی بحران پیدا ہوگا، موجودہ حالات میں پاکستان اس بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پشتون خوا میپ کہتی ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔ آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کا جلد اعلان کیا جائے۔ سینیٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر کیے جائیں۔ سیاسی امور، خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ خودمختار ہونی چاہیے۔ ملک کے تمام اداروں کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنی چاہیے۔ آئین و قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، یہی پاکستان کی بقاء کا راستہ ہے۔ (30اپریل2020ء)۔
اسی طرح نیشنل پارٹی نے بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کی مخالفت کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ نیشنل پارٹی ملک گیر اٹھارہویں آئینی ترمیم مہم چلائے گی اور تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔ یہ اعلان نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سینیٹر میر حاصل خان بزنجو اور مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کیا۔نیشنل پارٹی نے اس باب میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ایک ایسے تاریخ ساز قانون میں تبدیلی کی بات کررہی ہے جو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس لیے منظور کیا تھا کہ اس قانون سے چھوٹے صوبوں کا احساسِ محرومی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس آئینی ترمیم کے لیے تمام جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ نے دن رات محنت کرکے اسے حتمی شکل دی۔ ترمیم سے چھوٹے صوبوں سمیت بڑے صوبے پنجاب کو بھی فائدہ پہنچا تھا۔ کچھ عناصرکو اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری پسند نہیں آئی تھی جس کے بعد انہوں نے اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیااور روڑے اٹکارہے ہیں۔ اب یہ عناصر سلیکٹڈ حکومت کو استعمال کرکے فیڈریشن کو مضبوط، اور صوبوں کو اپنے معاملات میں احساسِ حاکمیت و شراکت داری دینے والے تاریخی قانون کو رول بیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نیشنل پارٹی نے بھی اس موقع پر کہا کہ ملک سنگین دور سے گزر رہا ہے، ایسے وقت میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف سازشوں کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ جو لوگ صوبوں کے حق میں کی گئی قانون سازی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ملک کے بد ترین دشمن کہلائیں گے، اور سلیکٹڈ حکومت مرکز اور صوبوں کے درمیان بہت بڑا خلا اور تنازع پیدا کرنا چاہتی ہے۔
۔ (29اپریل2020ء)۔