تحریک انصاف جب تک اقتدار میں نہیں آئی تھی، نہ جانے کیا کیا دعوے کررہی تھی، مخالفین پر کیا کیا الزامات عائد کیے جارہے تھے، اُس وقت کے حکمرانوں کو کس کس طرح رگیدا جارہا تھا، یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں۔ عوام ابھی یہ سب کچھ بھولے نہیں۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے وعدے… دو نہیں ایک پاکستان بنانے کے دعوے… وزیراعظم اور گورنر ہائوسز کو قوم پر بوجھ قرار دے کر تحریک انصاف کی قیادت کے انہیں اپنے زیراستعمال نہ لانے کے اعلانات… عیش و اسراف کے ان مراکز کو علم و حکمت کے مراکز، تعلیمی اداروں، جامعات میں تبدیل کرنے، عوام کے لیے کھول دینے کے وعدے… عالمی استعمار کے ایجنٹ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض کی لعنت سے قوم کو نجات دلانے، اپنے پائوں پر کھڑا ہونے، خودکفالت کی منزل تک ملک کو لے جانے، کسی بدعنوان، ڈاکو، چور اور قومی خزانہ لوٹنے والے کو نہ چھوڑنے کے دعوے، اور عوام کو دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے، بجلی، گیس، تیل اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء سستے داموں فراہم کرنے، ناانصافی پر مبنی ٹیکس ختم کرنے، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ افراد کو روزگار کی فراہمی جیسے کون کون سے سبز باغ تھے، جو اس ملک کے سادہ لوح لوگوں کو نہیں دکھائے گئے! مگر پھر ہوا کیا؟ اقتدار سنبھالتے ہی ایک کے بعد ایک یوٹرن… حالات کی مجبوری… وقت کی ضرورت کے بہانے لوگوں کو بہلانے کے لیے پیش کیے جانے لگے… نتیجہ یہ نکلا کہ غریب، بے بس اور بے کس عوام کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔
پھر یہ ہوا کہ کورونا وائرس کا بہانہ ہاتھ آگیا، اس کے ساتھ ہی بھوک، بیماری، بے روزگاری اور بے زاری لوگوں پر بیک وقت حملہ آور ہوگئیں… طرح طرح کی پابندیاں ملک و قوم کا مقدر بنیں… لوگوں نے اس پر صبر کا مظاہرہ کیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ایسی آسمانی بلا اور عالمگیر وبا کے موقع پر توقع تھی کہ حکمرانوں کا طرزِعمل بدلے گا، کہ ایسی مصیبت کے وقت میں تو جنگل کے جانور بھی اپنا رویہ بدل دیتے، اپنی عادات ترک کردیتے ہیں۔ مگر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عملی تصویر کیا ہے، ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کے دعویدار حکمرانوں کے دورِ اقتدار میں ہو کیا رہا ہے، اس کی ایک جھلک ذیل کی سطور میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔
سوات کا خالد خان اپنے چچازاد بھائی کے ہمراہ فکرِ روزگار میں دبئی میں مقیم تھا، کچھ روز قبل اسے اطلاع ملی کہ اس کے والد اس کے آبائی علاقے میں فوت ہوگئے ہیں، اس نے واپسی کے لیے ہاتھ پائوں مارے مگر بے کار گئے کہ ہوائی جہازوں کی پروازیں بند تھیں اور واپسی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اسی اثنا میں تین دن گزر گئے اور اسے اطلاع ملی کہ اس کی والدہ بھی اپنے شریکِ حیات کی رحلت کا دکھ برداشت نہ کرسکی اور اگلے جہاں سدھار گئی۔ اس دہرے صدمے سے دوچار بے بسی اور بے کسی کے تصویر بنا خالد خان وطن سے دور تڑپتا رہا۔ آخر چند دن قبل اسے اطلاع ملی کہ ایک خصوصی پرواز دبئی میں رکے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لے جانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس نے کوشش کی، متعلقہ حکام کی منت سماجت کی، انہیں اپنی والدہ اور والد کی وفات کا بتایا تو اسے اور اس کے چچا زاد بھائی کو پاکستان آنے والی اس خصوصی پرواز میں جگہ مل گئی اور وہ دونوں ملتان کے ہوائی اڈے پر اتر گئے۔ مگر یہاں اسے ایک نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ تمام مسافروں کو ’کورونا ٹیسٹ‘ سے گزرنا پڑے گا، جن مسافروں میں کورونا وائرس کے کچھ شواہد پائے گئے ان کو مزید کم از کم چودہ دن قرنطینہ میں گزارنا پڑیں گے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ ان کا ٹیسٹ 48 گھنٹے بعد شروع ہوگا اور اس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی صحیح صورتِ حال سامنے آسکے گی۔ مگر خالد خان پر تو ایک ایک لمحہ بھاری تھا، اس نے ہر طرف ہاتھ پائوں مارنا شروع کیے کہ جلد از جلد گائوں پہنچ سکے۔ چنانچہ کچھ بااثر افراد سے سفارش کروائی، ذرائع ابلاغ کے بھی بعض رسائی رکھنے والے لوگوں نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ سوات کے ڈپٹی کمشنر نے متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے تحریری ضمانت کی پیشکش کی کہ خالد خان اور اس کے چچازاد بھائی کو اگر ان کی نازک کیفیت کے پیش نظر سوات آنے دیا جائے تو وہ یہاں پر ان کی کورونا وائرس سے متعلق نگرانی اور ضروری احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرلیں گے۔ مگر متعلقہ حکام کی طرف سے سب کو ایک ہی جواب دیا گیا کہ کورونا وائرس کے قواعد و ضوابط سب کے لیے یکساں ہیں، جن سے کسی کو رعایت یا استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔
قواعد و قوانین کی سختی اور سب کے لیے یکساں ہونے کے اس جواز پر آخر سب لوگ خاموش ہوگئے، اور خالد خان بھی اپنے کزن کے ہمراہ خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مہینوں پر بھاری ہورہا تھا، مگر وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور تھا، لیکن اسی دوران خالد خان اور اس کے ہمراہ خصوصی پرواز سے ملتان پہنچنے والے دیگر مسافروں نے ہوائی اڈے پر ایک دوسرا منظر دیکھا۔ سر کے بال بڑھائے، عجیب ہیئت بنائے ایک شخص وہاں نمودار ہوا اور ہوائی اڈے سے باہر جانے لگا۔ متعلقہ حکام نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کردیا قرنطینہ میں جانے سے… کوئی بھی ٹیسٹ کروانے سے۔ متعلقہ افسران نے منت سماجت بھی کی کہ ٹیسٹ کروائے بغیر ہوائی اڈے سے باہر نہ جائیں، ہم آپ کے لیے تمام سہولتوں سے آراستہ ہوٹل میں قیام و طعام کا بندوبست کردیتے ہیں، جہاں آپ آرام سے اپنا وقت گزار سکیں گے۔ مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ہوٹل میں ’’بور‘‘ ہوجائے گا، اس لیے پُرآسائش ہوٹل میں قیام کی پیشکش بھی اس نے ٹھکرا دی اور تمام قواعد و ضوابط، تمام احتیاطی تدابیر اور قانون کی تمام سختیوں کو روندتا ہوا اقتدار کے نشے میں دھت یہ طاقت ور قبائلی سردار تمام بااختیار افسران اور اسی خصوصی پرواز سے ملتان پہنچنے والے دوسرے ساتھی مسافروں کا منہ چڑاتا ہوا اپنے دو کنزنز کو ساتھ لے کر زبردستی ہوائی اڈے کی حدود سے باہر نکلا، گاڑی میں بیٹھا اور کروفر دکھاتا لاہور پہنچ گیا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں، پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری ہے۔ صوبے کے قانون ساز ایوان کو قواعد و ضوابط کے مطابق چلانا جس کی ذمہ داری ہے۔ جس کی سرداری کورونا کے خطرات پر بھی بھاری ہے، مگر وہ خود ہر قسم کے احساسِ ذمہ داری سے عاری ہے۔