استشراقیت مُسلمان اور مغرب

 ایڈورڈ سعید کی مشہور زمانہ تصنیف کا تنقیدی جائزہ Orietalism

غزل فاروقی/ ترجمہ: ڈاکٹر حفصہ صدیقی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایڈروڈ سعید کی کتاب Orientalism بیسویں صدی میں لکھی جانے والی کتب میں اہم ترین کتاب ہے۔ یہ کتاب 1977ء میں تحریر کی گئی اور اس کو قارئین اور ناقدین کی طرف سے بے تحاشا پذیرائی کے ساتھ تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ابھی تک سیاست اور ادب کے دانشورانہ حلقوں میں اس کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں سعید نے بتایا ہے کہ مختلف طاقتوں مثلاً فرانس، برطانیہ اور موجودہ امریکا نے اپنے بیانیہ جس کو سعید نے ’’استشراقیت‘‘ کا نام دیا ہے کو کس طرح مستقبل میں دوسری ثقافتوں پر حاوی ہونے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایڈورڈ سعید کی یہ کتاب آج بھی اسی قدر اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ اس میں اس بات کے مکمل شواہد موجود ہیں کہ کس طرح مغرب نے منظم انداز میں مشرق کے خلاف ساز باز کرکے اسلام، عربوں اور مشرق وسطیٰ کے خلاف ایک نفرت پیدا کی۔ اس کتاب میں مذہبی، تاریخی، سماجی، سائنسی، عقلی، فلسفیانہ اور سیاسی مواد کا مطالعہ کیا گیا ہے جس کے ذریعے حقیقت کے بارے میں انسان کے فہم کو اپنے حق میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہالی ووڈ فلموں اور خبری میڈیا کا بھی گہرائی سے جائزہ لیاجائے تو وہ بھی استشراقیت (Orientalism) کا پرچار کرتے نظر آئیں گے۔
سعید کے دلائل کو سمجھنے کے لیے پہلے ہم ان اصطلاحات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جن کا استعمال استشراقی مطالعہ جات میں کیا گیا ہے جس میں مشرق (Orient) مشرقی (Oriental)، مستغرب (Occident) مستغربی (Occidental)، مستشرق اور استشراق شامل ہیں۔ مشرقی (Oriental) کا لفظ ان ممالک اور براعظموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں مشرقی خطے کے لوگ آباد ہیں۔ مثلاً ایشیا اوریہاںکی آبادیOrient کے طور پر پرجانی جاتی ہے۔ لفظ مشرق یا Oriental کا استعمال مشرق میں پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے کیا جاتا ہے تاہم بعض جگہوں پر Orient اور Oriental دونوں الفاظ کو مشرق سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ مستغرب یا Occident ان ممالک/ براعظموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں مغرب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جن کی اقدار اورطرز زندگیمغربی تہذیب سے آراستہ ہیں۔ مستشرق وہ مغربی شخص ہے جو مشرق کا مطالعہ کرتا ہے تا کہ مشرقی (Oriental) تہذیب کا مطالعہ اس مقصد کے لیے کرسکے کہ مشرق کو کس طرح کنٹرول کیا جائے اور اپنا تسلط قائم کیا جائے۔ چنانچہ مستشرقیت وہ بیانیہ ہے جس کو مستشرقین نے قائم کیا ہے تا کہ مشرق (Orient) کو غلط طور پر پیشکر کے اور اس کے اوپر اپنا تسلط اور کنٹرول قائم رکھا جائے۔
ہمارے پاس آج تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ مسلمانوں کے کسی گروہ کی کارروائی تھا لیکن پوری دنیا سے 780 مسلمانوں کو بغیر کسی الزام اور مقدمے کے گوانتاناموبے میں قید کیا گیا۔ ان 780 قیدیوں میں سے 40 ابھی تک کیوبا میں امریکی قید میں ہیں۔ امریکا نے جن 740 قیدیوں کو 2002ء سے اب تک رہا کیا ہے ان کو ناقابل تصور اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو یہ کہہ کر آزاد کردیا گیا کہ ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ مزید 40 افراد جو ان جیلوں میں قید ہیں ان پر بھی ابھی تک کوئی فرد جرم عائد ہی نہیں کی گئی ہے۔
اس میں مزید قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کے بعد اسلام سے خوف یا اسلاموفوبیا کا بیانیہ قائم ہوا۔ اسلامو فوب ہونا پوری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کی تکذیب کے لیے ایک اہم وجہ ٹھہرا۔ مغربی دنیا جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کررہی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اسلام کی بیخ کنی یا تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔
اس ماحول میں ایڈورڈ سعید کی کتاب ’’Orientalism کا مطالعہ مسلمانوں کے لیے اس صورت حال کو سمجھنے میں معاون ہوگا۔ مسلمان رہنما بری طرح سے مغربیت کا شکار ہیں وہ اپنی آزادانہ فکر رکھنے کے متحمل ہی نہیں ہوسکتے کیوں کہ ہماری معیشتیں مغربی اقوام کی زیر نگین ہیں۔ اس کتاب میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مغرب نے کس طرح مشرق کو اپنا زیر دست بنایا اور مغرب مشرق کو اپنے برابر کیوں نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کو مشرق سے غلام چاہیے تھے دوست نہیں۔
مستشرق مطالعہ جات میں لوگوں اور جغرافیائی تقسیم کو دو متضاد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مشرق (Orient) اور مغرب (Occident) ایڈورڈ سعید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بنیادی طور پر بائبل کے علماء نے Modern Orientalism کی تعریف و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق (Orient) کو Ilyad کے وقت سے کم تر سمجھا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر مشہور قدیم یونانی المیہ نگار (ایسائلس (Aeschylus) نے اپنی مشہور ٹریجڈی The Persian میں مشرق کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
Now all Asia’s Land Moans in emptiness
(اب تمام ایشیائی زمینیں خالی پن پر گریہ زاری کررہی ہیں)
یہ یونانی فوج کے ہاتھوں فارس کی فوجوں کی شکست کے حوالے سے کہا گیا تھا لیکن اس میں یہ پیغام موجود ہے کہ اچانک ہی پورا ایشیا ایک بنجر زمین میں تبدیل ہوگیا۔ یعنی ایک عسکری جنگ میں شکست یعنی مغرب کے ہاتھوں ایک عسکری شکست کے نتیجے میں کسی قوم کی تمام اقدار کی شکست ہوگئی اور ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا۔ اس سے زیادہ اہم یہ حقیقت ہے کہ مغرب میں وسطی دور کے دوران جب مسیحیوں کا اسلامی دنیا سے ٹکرائو ہوا تھا تو عیسائیوں نے اسلام اور پیغمبرؐ کے ساتھ بہت ہی جارحانہ اور نفرت انگیز رویہ روا رکھا تھا۔ سعید کا کہنا ہے کہ کیوں عیسائیت کا ماخذ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات ہے۔ لہٰـذا ان کا خیال تھا کہ اسلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کو محمڈن اور اسلام کو ’’محمڈن ازم‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں اور ان کا مقصد اسلام کی نمائندگی نہیں ہے بلکہ وہ وسطی دور کے یورپ کی خاص اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وسطی دور تک اسلام کی غلط تشریح کی گئی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نعوذباللہ ایک دوغلا انسان Imposter قرار دیا گیا اور ان کی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرقی (Oriental) قرار دیاگیا۔ جب ہم کسی شخص کو Imposter یا دوغلا قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر مختلف قسم کی خصوصیات ہیں ایک وہ جن سے ہم مانوس ہیں اور دوسری وہ جن سے ہم ناواقف ہیں جو ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ چنانچہ مستشرق عیسائی بیانیہ کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے شخص ہیں جو Jesus Christ کی طرح نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ وہ خصوصیات ہیں جن سے وہ مانوس ہیں تاہم وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دراصل وہ ہیں جو وہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں (نعوذباللہ)۔ چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قرون وسطیٰ کے دور میں ایک اجنبی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی الوہیتکے منکروں کی صف میں شامل کوئی فرد ہیں۔ بیسویں صدی کے ایک انگریز تاریخ دان R.W Southery نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بارہویں صدی عیسویں کے ایک ملحد مذہبی گروہ Face Spirit کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور اس تکذیب کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ان کی تعلیمات سے بہت ہی رکیک گناہوں کو منسوب کیا (نعوذباللہ)۔ اسی طرز فکر نے اسلامو فوبیا کو مغرب میں راستہ دیا۔ اس قسم کے توہین آمیز الزامات نے مستشرقین کے اندر فیصلہ سازی کا ایک اخلاقی اور علمی معیار تخلیق کردیا جس کے ذریعے وہ اسلام کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو جانچنے لگے۔ جانچنے کے اس طریقہ کار کو سعید نے Western Consumer of Orientalism قرار دیا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی مستشرق کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی اختلاف رائے کے ایک ایک ٹکڑے پر گہری نظر رکھے۔ اس کے ساتھ ان تمام ذاتی تجربات کو بھی دیکھے جن میں ان مستشرقین نے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ کیوں کہ مستشرق اپنے مغربی صارف کو مشرقیت کے بارے میں بتاتا ہے لہٰذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مشرق Orient کی اصل شناخت کو تبدیل کردے اور وہ رائے دیتا ہے کہ مشرق کو بقا کے لیے اس کی مدد کی ضرورت ہے۔
Evelyn Baring جو کہ انیسویں صدی میں برطانوی نو آبادیاتی سلطنت کا منتظم تھا اور پہلا ارل آف کرومر تھا، نے مصریوں کو غلام نسل سے مخاطب کیا ہے۔ ایڈنبراریویو میں 1908 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وہ لکھتا ہے کہ کوئی بھی بادشاہت صرف اسی وقت قائم رکھی جا سکتی ہے جب ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ غلام نسل کی عسکری، تجارتی، انانیت اور آزاد اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے ان کے اندرونی معاملات پر سختی سے کنٹرول قائم ہے اور ان کا خون اور خزانہ مغربی طاقت کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کے باوجود وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ان کے کام مقبوضہ نسل کے مفاد میں ہیں۔ آرتھر بال فور جو کہ ایک برطانوی سیاستدان تھا اور بال فور اعلامیہ کا اہم کارپرداز تھا، نے غیر ذمہ دارانہ اور متکبر انداز سے کہا تھا کہ ’’مصر میں ہماری موجودگی صرف مصریوں کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ یورپ کے وسیع تر مفاد میں ہے‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مصریوں کو ہماری ضرورت ہے لیکن ان کی ضرورت مغرب کے لیے بہت ہی معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد ہمارے اپنے مقاصد ہیں۔
ایک اور جگہ پر لارڈ کرومر نے کہا ’’مشرقی انسان (Oriental) جھوٹا ہے، وہ زہریلا ہے، وہ کسی سڑک فٹ پاتھ پر چلنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ لوگ عقل استعمال نہیں کرسکتے، جب کہ یورپی بغیر سیکھے بھی منطق اور عقل کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب توانائی اور فیصلہکرنے کی صلاحیت سے محروم، چاپلوس، سازشی، مکار، جانوروں کے لیے بے رحم، مشکوک ہیں اور جب کہ ان کے مقابلے میں اینگلوسیکسن واضح فکرکے حامل، راست باز اور عالی ظرف ہیں۔ ایک اور جگہ پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دوسری قوموں پر تسلط کا مقصد مغرب کا اپنے ہی مفاد میں تھا لارڈ سیلس بری جو کہ پہلے برطانوی سیاستدان تھا بعد میں وہ برطانیہ کا وزیراعظم بنا اس نے مشرق کے قریب عرب کے خطے میں فرانس کے حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تمہارے پاس ایک وفادار اتحادی ہو جو ایسے ملک میں مدخول ہو جس میں آپ کا بھی مفاد ہے تو پھر آپ کے پاس تین راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو آپ دستبردار ہوجائیں، یا اجارہ داری قائم کریں یا شراکت پر آمادہ ہوں۔
دستبرداری فرانسیوں کو انڈیا میں ہمارے راستے میں لاکھڑا کرے گی، اجارہ داری جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔ چنانچہ ہمارا فیصلہ اشتراک یا حصہ داری کاہے۔ اسی طرح ہیرالڈ ڈبلیو گلڈن جو کہ لائبریری آف کانگریس کے شعبہ اسلامی کا سربراہ تھا 1972ء میں عربوں کے بارے میں لکھتا ہے کہ عرب انتقام کو ایک نیکی سمجھتے ہیں اور ان کا یہ گمراہ رویہ ان کے لیے عام سی بات ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو سرپرست اور اس کے حاشیہ نشین کے تعلق پر قائم کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو اپنے معاشرے کے نظام مراتب سے جوڑے رکھتے ہیں ان کے خیال میںمعروضیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کو صرف اس وقت اہمیت دیتے ہیں جب انہیں امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ عرب فتح کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ مقصد راستے کا تعین کرنا ہے، دیکھا جائے تو یہ الزامات دنیا کے ہر حصے میں پائے جانے والے لوگوں پر منطبق ہوتے ہیں لیکن مستشرقین اس کو عربوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔ مستشرقین کے مطابق عربوں کی معیشت امریکا، برطانیہ اور فرانس کی مرہون منت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام، مسلمان اور عربوں سے مغربی فاتحین اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں؟ اور پھر اسلام مسلمانوں اور عربوں کے بارے میں ان کی یہ غلط بیانی اب تک کیوں قائم ہے؟ مثال کے طورمیں اس پر سعید کی مصر کے بارے میں رائے کو تفصیل سے بیان کروں گی۔ مصر مغربی اقوام کی توجہ کا مرکز اس کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے رہا ہے۔ مصر پر قبضہ کا مطلب دوسری مغربی اقوام پر اپنی برتری ثابت کرنا ہے۔ تاہم نپولین نے وولنی جو کہ ایک فرانسیسی مستشرق تھا کو لکھا تھا کہ فرانسیسی نوآباد کاروں کے لیے سب سے مشکل کام مسلمانوں کے خلاف جانا تھا تو پھر نپولین مصری مسلمانوں کے خلاف کیسے جاسکتا تھا؟ اس نے مکاری سے ان کا اعتماد حاصل کیا اور ساتھ مسلمان علماء کو ملاقات کے لیے بلوایا اور اسلام اور پیغمبر اسلام محمد صلی للہ علیہ وسلم کی خوب تعریفیں کیں۔ اس کے پیچھے اس کا مقصد مصر پر قبضہ کرنا تھا تا کہ مغربی اقوام پر فرانس کی برتری کو ثابت کیا جاسکے۔
سعید نے اس بات کی بہترین وضاحت کی ہے کہ کس طرح مستشرق مطالعہ جات میں ’’بیانیہ حقیقت‘‘ Descriptive Realism کا استعمال کیا گیا تا کہ مشرق کی نمائندگی کو زیادہ سے زیادہ معتبر بنایا جاسکے۔ اس طرح کا بیان حقیقت سے بہت قریب محسوس ہوتا۔ خواہ وہ حقیقت سے کس قدر دور ہی کیوں نہ ہو۔ تاکہ مشرق کو مغرب سے قریب لایا جاسکے اور مغرب سے اجنبیت کو دور کیا جاسکے۔ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے نکال کر مسلمانوں کی فطرت میں شہوت پرستی اور نفس پرستی کو ثابت کیا گیا یعنی شہوت پسندی انسان کے لیے ایک فطری عمل نہیں ہے، بلکہ یہ صرف مسلمانوں کی زندگی کا حصہ ہے۔ مغرب اسلام کے معاملے میں ہمیشہ بہت جابر رہا ہے کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہی اس کی تہذیب کا نہ صرف بہترین متبادل ہے اس کے ساتھ ہی مغرب کے لیے خطرہ بھی ہے۔ اس نے فلسطین پر حملے اور اسرائیلی نوآبادی کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے پیچھے اسلام کی واپسی کا خوف رہا ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مغرب کی تاریخ نو آبادیاتی نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کے حوالے سے ہر عجیب و غریب ردعمل سے عبارت ہے یہ تحریک اگر مشرقی دنیا میں برپا ہوئی ہے تو اس کو ہمیشہ مغربی جمہوریت کی تضحیک قرار دیا گیا۔ سعید کا کہنا ہے کہ مستشرقیت اور مستشرقین اپنے ان اقدامات کے اصل محرک کو ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کام وہ ’’عظیم الشان‘‘ سائنسیت اور عقلیت پسندی‘‘ کے رعب کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام نہاد مشرقیت کی تذلیل کا کام جعلی سائنس اور جعلی عقلیت کے ذریعے آج بھی جاری و ساری ہے۔ وائلڈس پیڈگری نے اپنی کتاب Scientific Method and Racial Anthopology میں امریکیوں کو سرخ صفراوی (عضیلا) بے باک قرار دیا ہے جب کہ ایشیائی اقوام کو ’’پیلا‘‘ پژمردہ اور سخت قرار دیا جب کہ افریقی اس کی نظر میں سیاہ بلغمی مزاج اور ڈھیلے ڈھالے لوگ ہیں۔ اٹھارہویں صدی تک مشرق کے لوگوں کے لیے مصنوعی عیسائی Psuedo Christian کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی تھی جو بعدازاں لبرل اصطلاحات سے بدل دی گئی۔
اس حوالے سے ایک اور بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ ان مستشرقین نے مسلمانوں کے لیے بھی ایک مخصوص طرز فکر اختیار کیا ہے اور مسلمانوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مثلاً Silvestre d Sacy ایک فرانسیسی مستشرق گزرا ہے جس نے عربی شاعری میں دلچسپی کا اظہار کیا اس کے ساتھ اس نے ہر شخص پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کا ذوق یورپ اور یورپی باشندوں کے پلے کا نہیں ہے۔ سیسی نے انتہائی تکبر کے ساتھ اپنی تحریروں میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ عربی شاعری کا ایک معمولی سا حصہ ہی قابل توجہ ہے اس کے ساتھ یہ حصہ بھی بہت زیادہتشریح زدہ ہے، جس کی وجہ سے اصل متن کے معنی تشریح زدہ ہوجاتے ہیں۔
مستشرقیت میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی شان و شوکت کو گھٹانے کی واضح کوشش کی گئی ہے جس کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کو بھی کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا اور تاریخ میں مسلمانوں نے جس طرح کی معاشرت قائم کی اس کے باوجود مستشرقین نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام محض ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد اپنا تسلط اور برتری قائم کرنا ہے اور اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بیان میں جس قدر بھی دروغ گوئی موجود ہو حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف واضح ایجنڈا رہا ہے۔ مارکسزم کے بانی کارل مارکس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’انگلستان کو انڈیا میں دہرے مقاصد پورے کرنے ہوں گے ایک تخریبی اور دوسر اتجدیدی۔ یعنی ایشیائی معاشرے کا خاتمہ اور ایشیاء میں مغربی معاشرے کی بنیاد ڈالنا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مغرب نے نئی اصطلاحات وضع کیں۔ ایک اور مستشرق ایڈورڈ ولیم لین نے بے شرمی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے کسی طرح مصریوں کو بے وقوف بنایا۔ انیسویں صدی کے ایک فرانسیسی مصنف، سیاستدان اور سفارتکار فرنکوئس چیٹ برانڈ نے کہا کہ صلیبی جنگیں (کروسیڈز) جارحانہ اقدام نہیں تھا بلکہ یہ یورپ میں (حضرت) عمرؓ کی آمد کا جواب تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے ظالمانہ سلوک کو یہ کہہ کر جواز فراہم کررہا تھا کہ یہ حضرت عمرؓ کے یورپ کی فتح کا جواب تھا۔ اس سے قبل اٹھارہویں صدی کے ایک مستشرق نے اپنی کتاب Rise and Fall میں لکھا کہ (حضرت) عمر کے دور حکومت میں عرب بدوئوں نے اپنی فرماں روائی چھتیس ہزار شہروں پر قائم کرلی تھی اور مذہب محمدی پر عمل کرنے کے لیے چودہ ہزار مساجد (Moschs) قائم کی گئیں ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ یورپی اس بات کو کبھی بھلا نہیں سکتے کہ رومی سلطنت کا خاتمہ اسلام کے ہاتھوں ہوا۔
Chateaubriand کی نفرت کا اندازہ اس عبارت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس میں اس نے مسلمانوں کو اس طرح مخاطب کیا ’’آزادی کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے، حق ملکیت ان کے پاس کوئی ہے نہیں، طاقت ان کا خدا ہے۔ کسی فاتح کو دیکھے ہوئے اور ایک انصاف کرنے والے فاتح کو دیکھے ہوئے ہوئے انہیں عرصہ بیت جاتا ہے ان کے پاس بغیر قیادت کے فوجی ہیں، بغیر قانون سازوں کے شہری ہیں اور بغیر باپ کے خاندان ہیں۔ یہ چیز ہر قوم پر صادق آتی ہے، ہر قوم کبھی نہ کبھی غفلت کے دور سے گزرتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایک طویل عرصے تک ہم کو بے وقوف کس طرح بنایا؟ اس سوال کا جواب مستشرقین نے خود دیا ہے۔ ٹی ای لارنس جو کہ بیسویں صدی سے تعلق رکھنے والا برطانوی مصنف ہے اس نے اس حقیقت پر گفتگو کی ہے۔ ’’یہ تمام چیزیں دراصل کچھ اجنبی لوگوں کو ورغلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہماری ذہانت کے ساتھ تعلق رکھنے کا مزہ ہے تاہم اس ذائقہ نے ان کو اپنی قومی منزل کے شعور سے محروم کردیا‘‘۔
ایک اور مستشرق فرانسیسی مصنف Sylvain Levi نے 1925میں ہم پر تسلط قائم کرنے اور اسلامی اقدار کو ختم کرنے کے حوالے سے لکھا ’’یہ لوگ تاریخ، آرٹ اور مذہب کی ایک طویل روایت کے حامل ہیں اور اس کا احساس ان سے مکمل طور پر گم نہیں ہوا ہے اور ان کے اندر ان اقدار و روایات کو بڑھانے کا احساس اور شعور بھی موجود ہے۔ ان روایات کو پروان چڑھانے میں مداخلت کو ہم نے ان کی مرضی کے بغیر اپنی ذمہ داری سمجھا ہے۔ بعض اوقات ان کی طرف سے درخواست کے جواب میں غلط یا صحیح ہم ایک اعلیٰ اور برتر تہذیب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ حق ہمیں اسی برتری کی وجہ سے حاصل ہوا ہے جس کی تصدیق ہم اکثر کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل ایک اور فرانسیسی مصنف نے انیسویں صدی میں کہا تھا کہ ’’یہ امر ہمارے لیے اچھا ہے کسی نئی چیز کی دریافت کی امید مشرق سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ ’’شک‘‘ یورپ کے لیے ایک اہم ہتھیار ہے۔ اگر برطانوی اور فرانسیسی استعماروں نے اس طرح کا رویہ روا رکھا تھا تو پھر امریکا کس طرح اس تصویر میں داخل ہوا؟ 1842ء میں امریکی اورینٹل سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا اور 1843 میں اس سوسائٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سوسائٹی کے صدر نے اس بات کو واضح کیا کہ ’’امریکا نے مشرق کے مطالعہ کا فیصلہ استعماری یورپی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کیا ہے۔ اس نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ اس نقش قدم پر چلتے ہوئے مشرق تک رسائی کس حد تک آسانی ہے۔ ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ ’’قاہرہ‘‘ تہران اور شمالی افریقہ جنگوں کے حوالے سے اہم ہیں اور برطانیہ اور فرانس کی طرح ان خطوں کا نیل، اور انسانی وسائل کے حوالے سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور امریکا اب اپنے نئے بعداز جنگ استعماری کردار کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ سعید کا مزید کہنا ہے کہ اس بڑے منصوبے کے ساتھ ایک ’’ثقافتی تعلقات‘‘ کی پالیسی بھی عمل میں آئی جس میں 1900 تک مشرق قریب کی ہر زبان میں شائع ہونے والے مواد کا مطالعہ کیا گیا اور اس کو کانگریس میں قومی سلامتی کی حکمت عملی کا اہم حصہ قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد امریکا سے مقابلہ کرنے والی طاقتوں کے بارے میں بہتر معلومات کا حصول تھا ان طاقتوں میں اہم ترین بلاشبہ اسلام اور کمیونزم کی طاقتیں تھیں۔ جہاں تک گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے رویے کا تعلق ہے یہ ہر ایک کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔ مغرب جس طرح اسلام کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اس نے جس طرح ہمارے داخلی معاملات میں ہمارے سیاستدانوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کیا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، امریکا کن خطوط پر کام کررہا ہے اور دوسری مغربی اور یورپی اقوام اس کے پیچھے ہیں۔ سعید کا مزید کہنا ہے کہ جمہوریت، جدیدیت اور روشن خیالی ایسے تصورات ہیں جن پر ہر ایک کا اتفاق ہو۔ مسلمان معاشروں کو ان کی بنیادوں پر پرکھا جاتا ہے۔ سعید کے مطابق وائٹ ہائوس اور پینٹاگان اسی رٹ کو استعمال کرتا ہے اور طاقت اور تشدد کی وہی توجیہ پیش کرتا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایڈورڈ سعید کی یہ کتاب ایک اچھا مطالعہ ہے۔ اس سے مسلمانوں اور مشرق کے متعلق قائم صدیوں سے جاری مغربی طرز فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس عداوت اور دشمنی کا رویہ مغرب نے ہمارے ساتھ روا رکھا ہے اس کے محرک کو سمجھنے میں یہ کتاب معاون ثابت ہوگی۔
مستشرقین کے طرز فکر کو سمجھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس مواد کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔ کیا اس کو ضائع کردینا چاہیے کہ یہ مشرق اور اسلام کے خلاف ایک سازشی نکتہ نظر سے تحریر کیا گیا مواد ہے۔ اس حوالے سے سعید کی رائے یہ ہے کہ ہمیں اس ادب کو محفوظ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مشرق کے اوپر یورپی اور مغربی طاقتوں کی سوچ کے حوالے سے اچھی مثالیں ہیں۔
ہم سعید کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’’مشرق‘‘ لفظ اور ’’مغرب‘‘ کے تصور دونوں کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے لیکن سعید نے اس کا کوئی متبادل بھی پیش نہیں کیا ہے۔ وہ یہ بات بھی تسلیم کرتا ہے کہ وہ ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریہ کے خلاف ہے کیوں کہ یہ تصور ایک خود ساختہ Construct ہے۔
تاہم نکتہ نظر کا اختلاف ہمیشہ دلائل کی طرف لے کر جاتا ہے لہٰذا اختلاف رائے کوئی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے مغرب اور اسلامی تہذیب کے درمیان مکالمہ کے تمام دروازے بند کردیے ہیں جس کی وجہ سے قوم میں ایک غلامانہ ذہنیت پیدا ہورہی ہے اور بعض معاملات میں یہ ذہنیت گمراہ کن عسکریت پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ جبکہ اس نے اپنی کتاب کے تعارف میں یہ لکھا ہے کہ اسے امید ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ عرب اپنے معاملات خود طے کریں گے بلکہ اس نے یہ تک کہاکہ ’’امریکہ‘‘، ’’مغرب‘‘ اور یہاں تک کہ ’’اسلام‘‘ جیسی اصطلاحات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور ان کا خاتمہ کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو متحد کیا جاسکے اور ان اصطلاحات کے اثر انگیزی کو کم سے کم کیا جاسکے۔ سعید نے حقیقت کی وضاحت کے لیے کوئی اخلاقی معیار فراہم نہیں کیا ہے نہ ہی مستقبل میں سیاسی اور سماجی استحکام کے حوالے سے کوئی متبادل اصطلاحات تجویز کی ہیں۔ اس کے بیانیہ میں کوئی ظالم کوئی مظلوم نہیں ہے۔ چنانچہ انسانیت کا پرچار کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب مستشرقین کے بیانیہ کو سمجھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ محفوظ رکھیں؟ شائع کردیں کیوں کہ یہ اسلام اور مشرق کے خلاف ایک سازش ہے؟ اس حوالے سے سعید کی رائے یہ ہے کہ ہمیں اس علمی مواد کو محفوظ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مشرق کے خلاف اور یورپی طاقتوں کی اہم مثالیں ہیں۔ ایک دفعہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایڈورڈ سعید نے یہ کتاب 1977ء میں تحریر کی تھی اور اس وقت سے لے کر اب تک ڈارون ازم، Historicism ، فرائڈ ازم، مارکسزم، Spenglerism وغیرہ کے خلاف تعلیمی اور علمی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا ہے جوکہ مغرب کے سیاسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار کررہے ہیں تو کیا ہمیں مستشرقیت کو اپنی زندگی کے معاملات چلانے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے؟ مغرب کی توسیع پسندی سے نجات پانے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کتاب میں موجود حقائق کو پھیلایا جائے اس کام میں ہمیں عام لوگوں کے ساتھ سیاسی اشرافیہ کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ا س کام کے لیے میڈیا، سماجی میڈیا اور تعلیمی سطح پر تمام پلیٹ فارم کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں میں نصاب کے اندر مستشرقیت کے مضمون کو شامل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کا مقصد دوسری قوموں کے اوپر اپنی برتری قائم کرنا ہے، بظاہر اس کا مقصد علم کا حصول اور علم کی ترویج ہے لیکن درون خانہ اس کا مقصد دوسروں کے معاملات میں مداخلت ہے تاکہ ان کو نیچا کیا جاسکے اور مغربی اقوام کے مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ ہمیں اپنے ساتھ مزید ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مستشرقیت کو سمجھنا ہمارے کے لیے ضروری ہے اور ہر سطح پر اس کی تنقید بھی ضروری ہے ایڈورڈ سعید کی ’’Orientalism ‘‘ان کتابوں میں سے ایک کتاب ہے جوکہ اس سفر میں ہم لوگوں کی مدد کرسکتی ہے۔