ممتاز عالم دین، شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا عبدالرؤف کی رحلت

ممتاز عالم دین، شیخ القرآن و الحدیث، عالم باعمل، استاد العلما، مرجع خلائق، تحریکِ اسلامی کے دعوتی محاذ کے عظیم مبلغ اور عاشقِ قرآن حضرت مولانا عبدالرؤف رحمۃ اللہ علیہ بھی ہم سے رخصت ہوگئے۔
یکم مئی، 7رمضان المبارک، بروزجمعۃ المبارک، نماز عشاء سے قبل یہ اطلاع سماجی میڈیا کے ذریعے موصول ہوئی۔کچھ ہی دیر میں فیس بک اور واٹس ایپ پر پیغامات، دُعاؤں اور تعزیت کا سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے دن نمازِ جنازہ کے بعد تک جاری رہا۔ نمازِ جنازہ اُن کے بڑے بیٹے عطاء اللہ کی امامت میں ادا کی گئی۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگ شہر کے کونے کونے سے شریک ہوئے۔
یہ بات ہے 1986ء کی، جب کراچی بدترین لسانی فسادات کی خونیں بھینٹ چڑھا۔ لانڈھی 36-Bکا علاقہ تھا، رات کا کوئی پہر تھا۔محلے کے مکین پریشانی کی حالت میں جمع ہوکر ایک دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ افواہ یہ اُڑ چکی تھی کہ دیگر علاقوں کا بدلہ لینے کے لیے پشتون بھائی اب مہاجر علاقوں پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ لانڈھی کا یہ محلہ اردو بولنے والوں کی اکثریت پر مشتمل تھا، مگر وہ جس کے دروازے پر دستک دے رہے تھے وہ تو خود ایک پشتون خاندان سے تھا۔ سازشیوں کی تمام تر کوششوں اور نفرتیں پھیلانے کے باوجود اہلِ محلہ کو اس پوری صورت حال میں یقین تھا کہ یہی وہ دروازہ ہے جو ہمیں امن دلائے گا۔ پھر ایسا منظر لوگوں نے دیکھا کہ آج تک نہیں بھلایا جا سکتا۔ ایک 50 سالہ شخص اپنے کندھے پر بندوق تان کر گلی میں نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ لوگ مطمئن ہوکر گھروں میں آرام کریں، میں دیکھتا ہوں کس کی جرأت ہے جو اس محلے میں کسی ایک گھر پر آنکھ بھی اُٹھا سکے۔ جب تک میں زندہ ہوں کوئی یہاں فساد کی نیت سے قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ وہ رات تو اُس اکیلے انسان کے دیئے گئے اعتماد اور پہرے میں گزر گئی، لیکن کراچی کی جو تاریخ اُن فسادات کے بعد نوّے کی دہائی نے بدلی اُس پورے دور میں بھی کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کبھی اُس گھر کے سامنے کوئی ایسی حرکت کرتا جو پورے شہر میں پوری قوت کے ساتھ جاری تھی۔یہ قوت بندوق کی نہیں تھی، یہ قوت اخلاق کی تھی جس کا کوئی توڑ نہیں۔ یہ ہے مولانا عبد الرؤف ؒکا وہ تعارف جو شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں۔
مولانا عبدالرؤف ؒکی پیدائش 1931ء ضلع بٹ گرام کی تھی۔ چھے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ دینی گھرانے کی وجہ سے دینی تعلیم کو اولیت دی گئی، مڈل کی تعلیم کے بعد مولانا نصیر الدین غورغشتی ؒکے مدرسہ اٹک کا رُخ کیا۔ دینی تعلیم سے شغف بڑھا تو دورہ حدیث، فقہ و عقائد کی تعلیم کے لیے گوجرانوالہ میں مکتبہ دیوبند کے بڑے عالم دین شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒکے پاس رہے جو اُن کے انتہائی شفیق مربی تھے۔ دورہ قرآن و تفسیرکے لیے پنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ کے شاگردِ خاص رہے۔ جمعیت اشاعت توحید السنۃ کے بانی اراکین میں شامل ہوئے اور بدعات و منکرات کے خاتمے کے مشن کو اپنایا۔ 1953ء میں تعلیم مکمل کی اور1954ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
1955میں بڑے دعوتی محاذو معاشی تگ و دوکی خاطرکراچی آئے۔لانڈھی کی ایک جامع مسجد نور میں امامت سے اس نئے سفر کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے کام بھی شروع کیے۔ کراچی میں الگ رہائش کا انتظام ہونے کے بعد اہلیہ و بڑے بیٹے کو بھی گاؤں سے کراچی لے آئے۔بڑے صاحبزادے مولانا عطاء اللہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا کنبہ بھی بڑھ رہا تھا،معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے والد محترم مسجد کے قلیل مشاہرے پر اکتفا کیے بغیرکبھی سبزی، کبھی ہوٹل، کبھی کپڑے،کبھی راشن سٹور و دیگر کام بھی مشارکت و مضاربت کے ساتھ کرتے رہے۔‘
مولانا دعوت دین کی اجتماعی جدو جہد کے لیے مناسب پلیٹ فارم کی تلاش میں تھے، کچھ عرصہ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ رہے۔مجلس احرار اسلام کے ساتھ بھی کام کیا،لیکن دل کو اطمینان نہیںہوا۔
مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کی تحاریر پردینی طبقات کی تنقید روز اول سے ہی جاری تھی، پھر قیام جماعت اسلامی بھی سب کو کھٹکتی تھی۔اسلیے ہم نے دیکھاکہ عمل و رد عمل کے نتیجے میںدینی مدارس میں ایک خاص قسم کا تعصب پھیلا جس نے بڑی دوریاں پیدا کیں۔اسی تناظر میںمولانا خود کہتے تھے کہ ’مجھے جماعت اسلامی میں آنے کی دعوت براہ راست اللہ نے دی۔‘1955کی بات ہے، لانڈھی میں جماعت اسلامی کا ایک تین روزہ تربیتی اجتماع جاری تھا، اُن کی نظر اُس اجتماع پر پڑی تو اُس کو جاننے و شرکت کا تجسس پیدا ہوا،جو اُنہیںاجتماع میں شریک کرانے میںکامیاب ہوگیا۔اجتماع میں ہونے والی تقاریر و گفتگو اور ماحول نے اُن کی طبیعت کو متاثر کیا۔ پھر وہ اگلے دن بھی شریک ہوئے اور پھر آخری دن بھی۔اس کے بعد انہوں نے اُن سے جماعت اسلامی کو سمجھنے کے لیے جماعت اسلامی کا دستور طلب کیا۔ مولانا عبدالحئی اور حکیم اکرم جو جماعت کے مقامی افراد تھے اُنہوںنے ایک ’نوجوان ‘کی دلچسپی کو خیر جانا اور دستور مطالعہ کے لیے دے دیا۔ جماعت اسلامی کادستور وہ پہلا لٹریچر تھا جو مولانا عبد الرؤف ؒنے شعوری طور پر جماعت اسلامی میںشمولیت یا اُسے سمجھنے کی خاطر پڑھا۔ اس دستور کو سمجھنے کے بعد اُن کی بے چینی بڑھ گئی، کیونکہ دین کی خدمت کی جوخواہش اُن کے دل میں پنہاںتھی،جماعت اسلامی عین اُس کی روح کے مطابق تھی۔ انہوں نے گجرانوالہ میں مقیم اپنے اُستاد مولاناسرفراز خان صفدر ؒ کو خط لکھ کر اپنی دلی کیفیت کا اظہار جماعت اسلامی میں شمولیت کی اجازت کے ساتھ طلب کیا۔شاگرد خوب تو اُستادبھی اعلیٰ کے مصداق مولانا نے اُنہیں دین کا کام کرنے کے لیے جماعت اسلامی میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ لوگ جماعت اسلامی میں آتے لیکن اُن کی کوئی ساڑھے 6 دِہائیوں کی جدو جہد گواہ ہے کہ جماعت اسلامی اُن کے اندر سمائی ہوئی تھی۔اُن کے الفاظ تھے کہ ’’جماعت اسلامی ہی میرا خاندان ہے ‘ اور یہ کہ ’ میرا تودوسرا نکاح ہی جماعت اسلامی سے ہوا ہے۔‘
کراچی کی آبادی بڑھناشروع ہو رہی تھی، مساجد کی تعداد بڑھ رہی تھی جس کے لیے آئمہ کرام کی تعداد بھی درکار تھی۔ مولانا کچھ عرصہ گذری کے علاقے میںایک اسکول میںاسلامیات کی تدریس اور قریبی مسجد میں امامت وخطیب کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے نظام میں بہترین مہم چلا کر اپنے اُمیدوار کو کامیاب کرایا۔اُس کے بعد لانڈھی انڈسٹریل ایریا قائم ہوا، مزدوروں کی بڑ ی تعداد بسنا شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی نے مولانا عبد الرؤف ؒؒسے کہا کہ اُس علاقے میں کام کے لیے آپ کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے دعوت دین کے اس محاذ پر لبیک کہا اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا منتقل ہو گئے۔مولانا عطاء اللہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں سے اُنہوں نے جماعت اسلامی کے کام کی بنیاد رکھی اور تبلیغ دین و اشاعت دین کے لیے دن رات وقف کر دیئے۔ اُس زمانے میں کراچی کے اُس کھنڈر زدہ علاقے میںسائیکل ہی واحد سواری تھی جس پر وہ پیچھے کی سیٹ پربیٹھا کرتے کیونکہ اُس زمانے میں اُنہیںآنتوں کے ایک انفیکشن کی وجہ سے بڑے آپریشن سے گزرنا پڑاجس کی وجہ سے سائیکل چلانا اُن کے لیے ممکن نہیںتھا۔اس سائیکل پر اپنے ساتھی کے ساتھ لانڈھی سے کورنگی، ریڑھی گوٹھ اور اُس پورے علاقے میں درس و تدریس کا ایک جال قائم کیا۔ پھرچیئرمین کے انتخاب کیلیے بی ڈی ممبران کو حکومتی ایجنسیاںاغواء کرکے اپنے من پسند فرد کو چیئرمین منتخب کراتی تھیں۔ مولانا عبد الرؤف ؒؒنے جب ایسی صورتحال دیکھی تو اپنے ممبران کے حق کے دفاع کے لیے ایک اور انقلابی قدم اٹھایا اور تمام ممبران کو اغوا ہونے سے قبل کامیابی سے اپنے گاؤں لے گئے پھر عین انتخاب والے دن مخالف گروپ کی ہی جیسی گاڑی کا بندو بست کر کے جماعت کے ارکان کوواپس لائے اور تمام ایجنسیوں اور حکومت کی دشمنی اپنے سر لے کر اُن کا حق رائے دہی بغیر کسی دباؤ کے ادا کروایا۔
دعوتی کام کی گہرائی بتاتے ہوئے اُن کے بیٹے مولانا ثناء اللہ بتاتے ہیں کہ قاضی حسین احمد ؒ جب صوبہ سرحد کے امیر تھے تو اُن کوکراچی کے دعوتی دورے پر بلایا گیا، والد صاحب کو ایک دن ملا جس میں اُنہیں دعوتی پروگراما ت کروانے تھے۔والدصاحب نے لانڈھی بھر میں قائم پشتون آبادی کے مختلف ڈیروںمیں رابطہ کرکے سب کو منظم کیا اور ایسی ترتیب بنائی کہ نماز فجر کے بعدسے شروع ہونے والا قاضی حسین ؒ کا تبلیغی دورہ جب نماز مغرب پر پہنچا تو قاضی صاحب کا کہنا تھاکہ 22پروگرامات ہو چکے ہیںکیا مزید اور بھی باقی ہیں، تو والد صاحب نے کہاکہ بس یہ آخری ہے۔اسی طرح اُس زمانے میں جمعیت علماء اسلام کے مقامی امیر مولانا عبدالحق ؒ کو اپنی دعوت سے قریب کیا اور اُن کو جماعت اسلامی میں لائے،نہ صرف لائے بلکہ رکن بھی بنایابعد ازاں مولانا عبدالحقؒ
جماعت اسلامی ہزارہ ڈویژن کے امیر بھی رہے۔دوری کے باوجود یہ تعلق ذاتی و خاندانی تعلق بن گیا۔اِسکے علاوہ مولانا خلیل الرحمٰن ؒ جو بعد ازاں جمعیت اتحاد العلماء کراچی کے ناظم اعلیٰ بھی رہے انہیں بھی جماعت اسلامی سے متعارف کرایا۔
مولانا عبد الرؤف ؒؒکے بارے میں جس طرح مرجع خلائق لکھا ہے تو وہ واقعات کی ایسی ناقابل تردید حقیقت پر مبنی بات ہے جس سے آج کی تحریک اسلامی مستفید ہو رہی ہے۔مولانا کے صاحبزادے بتاتے ہیںکہ ’مفتی اعظم مفتی محمد شفیع ؒ سے ایسا تعلق ہو گیا تھا کہ اُنہیںکئی بار دار العلوم کراچی میں تدریس کی پیشکش کی جو کہ معمولی مقام نہیں تھا۔مولانا عبد الرؤف ؒ نے جماعت اسلامی کے متحرک کام کی وجہ سے معذرت کی اور اِسی تعلق کو قلبی تعلق تک بڑھاتے چلے گئے ‘۔ مولانا عبد الرؤف ؒکا یہ کام ایک ایسے روشن چراغ کی مثال کی مانند ہے جس کی کوئی مثال نہیں، کہ انسان اپنے اندر کی ’میں‘ اور ’انا‘ کا گلا گھونٹ کرفنا فی اللہ ہوکر دلوں میں جگہ بنائے۔منظر یہ ہو کہ آپ کو ’مودودی فتنہ‘کا لیبل لگایا جاتا ہو، اچھوت بنا کر پیش کیا جاتا ہواور یہ کام بڑے بڑے ناموں اور سیاسی مخالفین کی جانب سے ہوا ہو اور آپ خندہ پیشانی کے ساتھ اُس سب کے باوجود اُن کے دلوں کو ایسا مسخر کریں کہ پاکستان کا کونسا بڑا عالم دین ایسا ہو جو اُنہیں گلے نہ لگاتا ہو۔ مفتی اعظم پاکستان ہوں یا اُن کی اولادیں، علامہ شاہ احمد نورانی ؒ، مولانا شفیع اوکاڑوی ؒہوں،یوسف بنوری ؒ،احتشام الحق تھانوی ؒ ہوںمفتی منیب، مولانا عبد الرحمٰن سلفیؒ ہوں،شہید مفتی شامزئی ؒیاؒ، مولانا زر ولی خان،مولانا اسفند یار خان ؒہوں یا مفتی نعیم اور تمام مکاتب فکر کے کئی بڑے بڑے نام مولانا عبد الرؤف ؒ کو اپنا بڑا بھائی، دوست قرار دیتے۔یہ لکھنے میں تو دو سطروں میںآگیا لیکن یہ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں آج کے دور کی ایک زندہ عملی مثال ہے۔
میئر عبد الستار افغانی ؒ کے دور میں بطور اوقاف کمیٹی چیئرمین بلدیہ کراچی، چیئرمین لانڈھی کورنگی کونسلر گروپ عوامی خدمت کی ذمہ د اری پر فائض ہوئے۔ اُس دور میں لانڈھی کھنڈر کی مانند تھا لیکن تاریخی حقائق و پرانے تمام لوگ جانتے ہیں کہ لانڈھی میں تمام تر ترقیاتی کام بشمول بجلی، پانی، گیس، سڑکوںکا جال، پارک، کمیونٹی سینٹر، سیوریج لائنیں بچھوانے میں ایک بڑا نام مولانا عبد الرؤف ؒ کا ہی لیا جاتا ہے۔روہنگیا مسلمان مہاجرین کیلیے برمی کالونی کی لیز کروانے کا اہم معاملہ طویل جدو جہد کے بعد بالآخر حل کرایایہ کراچی کی پہلی لیز ہونے والی کچی آبادی تھی۔ یہی نہیں بلکہ عالم یہ تھا کہ لوگوں کے نجی اختلافی معاملات، لین دین کے معاملات یا دیگر ہر قسم کے سماجی مسائل لیکر لوگ مولانا عبد الرؤف ؒؒکی بیٹھک پر آتے اور کبھی نہیں ہوا کہ وہا ں کسی معاملے پر پولیس آنے کی نوبت آئی ہو۔ اُن کے صاحبزادے بتاتے ہیںکہ’نوے کی دہائی میں جماعت اسلامی نے جب چرم قربانی مہم شروع کی توہمارا گھر شروع سے ہی قربانی کا مرکز رہا۔ والد کے احترام میںاس گلی میںکبھی کوئی زبردستی فطرہ، چندہ لینے نہیں داخل ہو سکا۔اجتماعی قربانی جس زمانے میں کرنا ممکن نہ رہا تو ہماری گلی میں لوگ جانور لا کر ذبح کرتے۔‘جماعت اسلامی کراچی کے امراء چوہدری غلام محمدہوں یامرکزی اُمراء سید مودودی ؒ، میاں طفیل ؒہوں یا قاضی حسین احمد ؒسب کے ساتھ بہت مضبوط تعلق رہا۔اِسی طرح ہم عصر علماء میںمولانا گلزار احمد مظاہریؒ، علامہ عنایت اللہ گجراتیؒ، مولانا گوہر رحمٰنؒ، مولانا عنایت الرحمٰن ؒ، مولانا عبد الرحیم چترالیؒ،مولانا جان محمد عباسی،ؒحافظ محمد ادریس، مولانا عبدالمالک کے ساتھ بھی خصوصی و ذاتی تعلق استوار تھا۔اُس وقت امیر جماعت مولانا سید مودودی ؒتھے اور وہ جب کراچی آتے تو ہر ہر موقع پر مولانا عبد الرؤف ؒؒاُن کے پاس ہوتے۔سید منور حسن سے تو اُنکاایسا دِلی تعلق تھا کہ اُن کے انتقال کی خبر پر منور حسن کے بیٹے طلحہ نے کال کرکے تعزیت کے ساتھ یہ کہا کہ ’ابو کی طبیعت ایسی نہیں کہ مولانا کے ساتھ تعلق کی وجہ سے یہ خبر اُن کو براہ راست دے سکوں، اس لیے آہستہ آہستہ بتا کر اُن کو تعزیت و دعا کے لیے لاؤں گا۔دینی تعلیم اور اس کی ترویج کے لیے مولانا عبد الرؤف ؒنے کراچی میں خود بنیاد رکھی۔ میں نے پوچھا کہ عام طور پر اکثر مولانا اپنا الگ مدرسہ بناتے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ مولانا مرحوم کی تمام زندگی کا سرمایہ حیات بس اُن کے صحن میں یادگار کے طور پر کھڑی ایک ’ویسپا ‘ہی ہے۔جامعہ حنفیہ سے لیکر جامعۃ الفلاح وجامعہ الاخوان سمیت مدارس کا جال اپنی نگرانی میںبچھایااور ہر میدان میںاُن کی سرپرستی کی کیونکہ مولانا اُن سب کو اپنا ہی سمجھتے تھے۔اُنہوں نے بدلتے موسموں، بدلتے ذمہ داران و حالات میں کبھی کسی لمحے اپنے آپ کو مسجد کا ملازم نہیںسمجھا بلکہ وہ دین کا کام سمجھ کر یہ سب کام کرتے رہے۔طویل عرصہ لانڈھی کورنگی کے نائب ناظم اعلیٰ پھر ضلع وسطی کے نائب امیر بھی رہے۔ کراچی و صوبہ کی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ جمعیت اتحاد العلماء کے بانی اراکین میں رہے اور کراچی و سندھ کے صدر بھی رہے۔ غرض کہ مولانا عبد الرؤف ؒ کی زندگی اس حدیث پاک کی عملی تصویر بننے کی کوشش تھی کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
مولانا کا کنبہ 7بیٹوں اور 4 بیٹیوں پر مشتمل ہے اور کمال بات یہ ہے کہ اُن کے بچے اور بچوں کے بچے اور پھر نواسوں اور پوتوں کے بچے سمیت سارا کنبہ جماعت اسلامی ہی سے منسلک ہے۔یہ ایک نسل نہیں تین نسلوں تک کا سفر ہے جو مولانا نے اپنے قول و فعل سے منتقل کیا۔مولانا کے صاحبزادے بتاتے ہیں کہ لوگ کتاب پڑھ کر جماعت میں آتے ہیں لیکن ہم والد کو دیکھ کر آئے۔اُن کی تیسری نسل تک علماء دین بننے کا سفر جاری ہے۔ اس پورے سفر میں مولانا عبد الرؤف ؒ ہمیشہ اپنی مرحوم اہلیہ کے کردار کو سب سے اہم قرار دیتے تھے جو تنگی و فراخی کی تمام حالتوں میں مضبوط سپورٹ کے ساتھ اُن کے بچو ں کی پرورش کرتی رہیں جو 2012میں انتقال کر گئیں۔ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں جب جماعت اسلامی سندھ کے دفتر اور متعلقہ مسجد قبا پر قبضہ کا ماحو ل بننا شروع ہوا تو مرحوم مولانا جان محمد عباسی ؒ نے کسی مضبوط شخصیت کو لانے کی خاطر مولانا عبد الرؤف ؒ سے گذارش کی کہ وہ لانڈھی سے نقل مکانی کر کے یہاں کی مسجد کی امامت و خطابت سنبھالیں۔ جماعت اسلامی کی محبت اور امیر کا حکم،مخصوص حالات نے اُنہیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگنے دی۔1988ء میں فیڈرل بی ایریا کی مسجد قبا منتقل ہوگئے اور اپنے علمی مرتبے ودعوتی اسلوب سے اُس علاقے کو جو اُس زمانے میں لسانی تنظیم کا گڑھ کہا جاتا تھا وہاں کے عوام اپنا گرویدہ بنایا اور جماعت اسلامی کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی کا طویل عرصہ ایک جگہ لگا کر وہاں اپنی، جماعت کی، دین کی ساکھ قائم کرے پھر ایک حکم پر سب چھوڑ کر ایک مخالف علاقے میں جا بسے۔ پھر وہاں صفر سے کام کا آغاز کرے اور جماعت اسلامی کے لیے راہیں کھولے۔
جمعیت کے نوجوانوں سے بے پناہ شفقت و سرپرستی کرتے چاہے وہ عربیہ کے ہوں یا جمعیت طلبہ کے۔نرم دلی اور خوش مزاجی و خوش خلقی اتنی تھی کہ ہم خود زمانہ طالب علمی کے دور میں کئی سال اُن سے گہرے تعلق سے جڑے رہے۔میں تو اکثر علمی مباحث، فقہی مسائل کو لے کر اُن کی خدمت میں موجود ہوتا، ایک ایک سوال پر تفصیلی حوالوں کے ساتھ جواب دیتے۔ قرآن سے اُنہیں ہر صورت میں بے پناہ محبت ولگاؤ تھا۔ ہم کئی با ر بات سمجھنے کے لیے کاؤنٹر سوال بھی کرتے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ماتھے پرلکیر آئی ہو بلکہ سپورٹ کے لیے کبھی اپنے کسی بیٹے کو بلا لیتے یا کتاب نکال کر لے آتے۔شاید اُن کو اللہ تعالی نے خوابوں کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا تھاکہ ایک بڑی اکثریت کو اُن کے پاس یہ سوالات لے کر آتادیکھا۔انتقال سے تین ماہ قبل فالج کاحملہ ہوا، بفضل ِالہی،سعادت مند و خدمت گزار اولادوں کی بہترین نگہداشت کی وجہ سے تیزی سے روبہ صحت تھے کہ انتقال سے چار دن قبل گھر میںگرنے سے کولہے کی ہڈی ٹوٹی اور اُس کا بھی کامیاب آپریشن ہوا،آپریشن کے اگلے روز طبیعت بگڑی اور دِل کا دورہ اُنہیں خالق حقیقی کی جانب لے جانے کا سبب بنا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو خلاء مولانا عبد الرؤف کے جانے کے بعد پیدا ہوا ہے اُس کو کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی قولی، فعلی جدو جہد سے کراچی میں جماعت اسلامی نے اس شہر کے مختلف طبقات خصوصا ً دینی حلقوں میں جگہ بنائی۔