تاریخ ابنِ کرم

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

برصغیر کی معاشرتی، تہذیبی اور علمی زندگی پر مختلف سلاسل ِ تصوف سے وابستہ صوفی بزرگوں نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان سلاسلِ تصوف میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے منسوب سلسلہ ٔ قادریہ سب سے قدیم اور اہم سلسلۂ روحانیت سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے کی مختلف شاخیں دنیا بھر میں موجود ہیں اور لاکھوں افراد اس سے وابستہ ہیں۔ برصغیر میں سلسلہ ٔ قادریہ کی آمد سید غوث گیلانی (793۔894ھ) سے ہوئی، جن کا مزار اوچ شریف (پنجاب) میں ہے۔ آپ کی صلبی اولاد ’’ساداتِ گیلانیہ‘‘ کہلاتی ہے۔
سلسلہ قادریہ کی اوچ شریف سے منسلک متعدد شاخیں برصغیر پاک و ہند میں شہر ت کی حامل ہیں۔ اس کی ایک شاخ ’’غوثیہ قطبیہ‘‘ کہلاتی ہے جو سید قطب علی شاہ محلوی (م1346ھ) سے منسوب ہے۔ اس عظیم خانوادۂ طریقت میں اٹھارہ نفوسِ قدسیہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے خلفِ اکبر و جانشین ِ صادق سیدنا سیف الدین عبدالوہابؒ کی اولادِ امجاد سے ہیں۔ اسی خاندان کے احوال و مناقب اور دینی و ملّی خدمات پر مشتمل پہلا مبسوط تذکرہ بعنوان ’’تاریخ ابن کرم‘‘ ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ موضوع صدیوں سے تشنہ تکمیل تھا جس کی تکمیل کی سعادت اسی خانوادے کے چشم و چراغ ابوالحسن پیر محمد طاہر حسین قادری کو حاصل ہوئی۔
پیر محمد طاہر حسین قادری صاحبِ علم و فضل، محقق، مؤرخ، شاعر ، تیس سے زائد کتابوں کے مصنف و مؤلف اور عملی طور پر خانقاہی نظام سے وابستہ ہیں۔ خوش فکر شاعر بھی ہیں، کئی زبانوں میں شعر کہتے ہیں، چار شعری مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ’’تاریخ ابن ِ کرم‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اللہ الکریم سے پیر محمد کرم حسینؒ تک 43 واسطوں کی تاریخ و تذکرہ ہے۔ پہلی جلد عالمانہ مقدمے اور 23 بزرگانِ دین کے تذکرے پر محیط ہے۔ جب کہ دوسری جلد میں 20 بزرگوںکے احوال و آثار قلم بند کیے گئے ہیں۔ فاضل مصنف و مؤلف نے ایسے بزرگوں کے حالات، جن کا ذکر دیگر تذکروں میں تشنہ و نامکمل تھا، یا بالکل نہیں تھا ، جامعیت و استناد کے ساتھ اس میں درج کیا ہے اور بنیادی مآخذ اور ممکنہ طور پر عصری مآخذ تک رسائی حاصل کرکے اپنے مطالعے اور اس سے حاصل کردہ نتائج کو استناد و اعتبار بخشا ہے۔
پیر محمد طاہر حسین قادری نے ایک طویل عرصے کی جدوجہد، کمال محنت اور عرق ریزی سے نادر الوجود مخطوطات تلاش کرکے ان سے استفادہ کیا ہے۔ متعدد مآخذ ایسے ہیں جو اس سے پہلے کہیں حوالہ نہیں بنے۔ اس لحاظ سے ان مآخذ کو متعارف کرانے میں اس کتاب کو اوّلیت حاصل ہے۔ فاضل مصنف و مؤلف نے ہزاروں صفحات کے مطالعے کے بعد ’خذ ما صفا ودع ماکدر‘ پر عمل کرتے ہوئے یہ مواد جمع کیا ہے اور اس بات کو بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حقیقی تصوف وہی ہے جس کا عملی نمونہ ہمیں سلف صالحین کے احوال میں ملتا ہے، نہ کہ وہ جو آج کل ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکا ہے۔
بزرگوں کی کرامات کے حوالے سے بھی فاضل مصنف کی صراحت قابلِ ذکر ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ صوفیہ کے بارے میں اکثر روایات ان کے محبین کے ذریعے مختلف کتابوں کی زینت بنی ہیں۔ محبین میں صاحبانِ علم و فضل کے علاوہ کچھ سادہ لوح اور معمولی استعداد رکھنے والے مریدین بھی ہوتے ہیں، جنھیں سمجھنے میں یا بیان کرنے میں مغالطہ ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی حقیقت کے ساتھ ملاوٹ بھی۔ برادرانِ طریقت پر یہ واضح ہو، ایسی کوئی روایت یا حکایت جو تعلیماتِ قرآن و سنت سے مطابقت نہ رکھے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ مشائخ کی محبت میں ایسے واقعات کی نہ اتباع جائز ہے اور نہ ان کی وجہ سے اہل اللہ کے ساتھ بدگمانی جائز ہے۔‘‘
کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ تحریکِ پاکستان میں صوفی بزرگوں کے کردار اور خدمات کے حوالے سے اس تذکرے میں خاصا مواد موجود ہے۔ فاضل مولف اس سے قبل خاص اس موضوع پر ایک کتاب ’’تحریک ِ پاکستان اور خانوادۂ قطبیہ‘‘ بھی تحریر کرچکے ہیں۔
’’تاریخ ابن ِ کرم‘‘ کے بارے میں ممتاز محقق پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اظہار ِ خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’یہ بہت خوش آیند ہے کہ جنوبی ایشیا میں تصوف کے معروف و مقبول سلسلوں کی تاریخ و رجال پر بیش بہا مطالعات یہاں اور عالمی سطح پر ہوتے رہے ہیں اور وقیع و بے حد معلوماتی اور مفید کتابیں اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھی جاتی رہی ہیں، جن سے موضوعات کا حق بھی بجا طور پر ادا ہوتا رہا ہے، لیکن ان میں فردِ واحد کے ضخیم مطالعے اور اپنے موضوع کا کُل احاطہ بہت کم نظر آتا ہے۔ پھر یہ کہ ایسے مطالعات میں کتنے مطالعات اور کوششیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنھیں معیاری اور قابلِ اعتماد سمجھا جائے اور ان کی سند دی جاسکے! ایسی صورتِ حال میں پیر طاہر حسین صاحب کی یہ ضخیم اور مبسوط تصنیف ایسی ایک مثال ہے جو برسوں اور دہائیوں میں کہیں منظر عام پر آتی ہیں، سو یہ ان میں سے ایک ہے۔ اس فاضلانہ و محققانہ تصنیف کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ سلسلۂ قادریہ قطبیہ کا ایک لحاظ سے اوّلین مبسوط تذکرہ بلکہ ایک مفصل تاریخ ہے۔‘‘
علمی و تحقیقی حوالے سے اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس ضخیم کتاب کے لیے مختلف اشاریوں (اشخاص، مقامات، کتب و رسائل) کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ آخر میں شیوخِ سلسلہ کے مزارات، متعدد حضرات کی تحریروں کے عکس اور قلمی شبیہات کی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں۔ دستاویزی اہمیت کی حامل یہ کتاب سفید کاغذ پر نہایت عمدہ طبع ہوئی ہے۔